معراج
معراج کمالِ معجزاتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔ یہ وہ عظیم خارقِ عادت واقعہ ہے جس نے تسخیرِ کائنات کے مقفّل دروازوں کو کھولنے کی اِبتداء کی۔ اِنسان نے آگے چل کر تحقیق و جستجو کے بند کواڑوں پر دستک دی اور خلاء میں پیچیدہ راستوں کی تلاش کا فریضہ سر انجام دیا۔ رات کے مختصر سے وقفے میں جب اللہ ربّ العزّت حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مسجدِ حرام سے نہ صرف مسجد اقصیٰ تک بلکہ جملہ سماوِی کائنات کی بے اَنت وُسعتوں کے اُس پار ’’قَابَ قَوْسَيْنِ‘‘ اور ’’أَوْ أَدْنَى‘‘ کے مقاماتِ بلند تک لے گیا اور آپ مدّتوں وہاں قیام کے بعد اُسی قلیل مدّتی زمینی ساعت میں اِس زمین پر دوبارہ جلوہ اَفروز بھی ہو گئے۔
قرآن کریم میں سورہ بنی اسرائیل کی پہلی آیت میں ارشادِ خداوندی ہے کہ
وہ (ذات) پاک ہے جو ایک رات اپنے بندے کو مسجد الحرام یعنی (خانہ کعبہ) سے مسجد اقصیٰ (یعنی بیت المقدس) تک جس کے اردگرد ہم نے برکتیں رکھی ہیں لے گیا تاکہ ہم اسے اپنی (قدرت کی) نشانیاں دکھائیں۔ بے شک وہ سننے والا (اور) دیکھنے والا ہے۔[1]
رجب کی 27 ویں شب کو اللہ کے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو معراج کا شرف عطا کیا گیا۔اگرچہ اس واقعہ کے زمان کے بارے میں کئی روایات موجود ہیں لیکن محققین کی تحقیق کے مطابق یہ واقعہ ہجرت سے تین سال قبل پیش آیا،یعنی دسویں سالِ بعثت کو۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ شیعہ سنی علما کا اتفاق ہے کہ نماز جناب ابو طالبؑ کی وفات کے بعد یعنی بعثت کے دسویں سال کو واجب ہوگئ تو پانچ وقت کی نماز اسی معراج کی رات امت پہ واجب ہو گئی تھی۔
منقول ہے کہ اس دن کفار نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو بہت ستایا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنی چچازاد بہن ام ہانی کے گھر تشریف لے گئے اور وہاں آرام فرمانے لگے۔ ادھر اللہ کے حکم سے حضرت جبرئیل پچاس ہزار فرشتوں کی برات اور براق لے کر نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا:
اے اللہ کے رسول! آپ کا رب آپ سے ملاقات چاہتا ہے۔
چنانچہ سوئے عرش سفر کی تیاریاں ہونے لگیں۔ سفر معراج کا سلسلہ شروع ہونے والا تھا نبی رحمت کی بارگاہ میں براق حاضر کیا گیا جس پر حضور کو سوار ہونا تھا، مگر اللہ کے پیارے محبوب نے کچھ توقف فرمایا۔
جبرئیل امین نے اس پس و پیش کی وجہ دریافت کی تو آپ نے ارشاد فرمایا:
مجھ پر تو اللہ رب العزت کی اس قدر نوازشات ہیں، مگر روز قیامت میری امت کا کیا ہو گا؟ میری امت پل صراط سے کیسے گذرے گی؟ اسی وقت اللہ تعالٰی کی طرف سے بشارت دی گئی :اے محبوب! آپ امت کی فکر نہ کیجیے، ہم آپ کی امت کو پل صراط سے اس طرح گزار دیں گے کہ اسے خبر بھی نہیں ہو گی۔
اس واضح بشارت کے بعد سر کار دو عالم براق پر سوار ہو گئے۔ جبرئیل امین نے رکاب تھامی، میکائیل نے لگام پکڑی، اسرافیل نے زین سنبھالی جس کے ساتھ ہی پچاس ہزار فرشتوں کے سلام کی صدا سے آسمان گونج اٹھے۔
حدیث میں آیا ہے۔
براق کی تیز رفتاری کا یہ عالم تھا کہ جہاں تک نظر کی حد تھی، وہاں وہ قدم رکھتا تھا۔براق کا سفر اس قدر تیزی کے ساتھ ہوا جس تک انسان کی عقل پہنچ ہی نہیں سکتی۔ ایسا لگتا تھا ہر طرف موسم بہار آگیا ہے۔ چاروں طرف نور ہی نور پھیلتا چلا گیا۔
اس سفر کے دوران آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مکہ سے مسجد اقصیٰ گئے اور وہاں تمام انبیائے کرام کی نماز کی امامت فرمائی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم آسمانوں میں اللہ تعالٰی سے ملاقات کرنے تشریف لے گئے۔ وہاں اللہ تعالٰی نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو جنت اور دوزخ دکھایا۔ وہاں آپ کی ملاقات مختلف انبیائے کرام سے بھی ہوئی۔ اسی سفر میں نماز بھی فرض ہوئی۔۔[2] معراج جسمانی اور روحانی ایک اختلافی مسئلہ رہا ہے مگر احادیثِ صحیحہ اور تفاسیر ِ معتبرہ اس بات کی نشان دہی کرتی ہیں کہ معراج جسمانی تھی اور خدا کے رسول نے فرش سے عرش تک بلکہ قاب قوسین او ادنیٰ تک کی منزل اپنے اسی جسم نازنین خاکی کے ساتھ طے کی تھیں مادہ اور مجرد میں ارتباط کیسے ہوا؟ یہ ایک فلسفی بحث ہے جس کو فلسفہ میں حل ہونا چاہیے۔
سفرِ معراج کا پہلا مرحلہترميم
سفرِمعراج کے پہلے مرحلے پر سفر جاری تھا کہ حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا گذر حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قبرِ انور کے قریب سے ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دیکھا کہ وہ اپنی قبرِ انور میں کھڑے نماز ادا کر رہے تھے۔
انبیا صف بہ صف آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے استقبال کے لیے کھڑے تھے۔
جب یہ مقدس قافلہ بیت المقدس پہنچا تو بابِ محمد، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے استقبال کے لیے کھلا تھا۔ جبرئیل امین علیہ السلام نے اپنی انگلی سے دروازے کے قریب موجود ایک پتھر میں سوراخ کیا اور براق کو اس سے باندھ دیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیت المقدس میں داخل ہوئے تو تمام انبیائے کرام علیہم السلام آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم، اِکرام اور اِحترام میں منتظر تھے۔ انہیں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امامت میں نماز پڑھنے کا شرف حاصل ہوا۔
سفرِ معراج کا دوسرا مرحلہترميم
انبیا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اقتداء میں نماز ادا کر کے ادب و احترامِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مشرف ہو چکے تو آسمانی سفر کا آغاز ہوا، اس لیے کہ ہر زمینی عظمت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدموں کا بوسہ لے چکی تھی۔ پہلے آسمان پر پہنچ کر آسمان کے دروازے پر دستک دی گئی۔ بوّاب پہلے سے منتظر تھا۔ آواز آئی : کون ہے؟۔۔۔ جبرئیل امین نے جواب دیا : میں جبرئیل ہوں۔۔ ۔۔ آواز آئی : آپ کے ساتھ کون ہے؟۔۔۔ جواب دیا : یہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔ آج کی رات انہیں آسمانوں پر پزیرائی بخشی جائے گی۔ آسمان کا دروازہ کھل گیا اور پوچھنے والے نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہِ بیکس پناہ میں سلام عرض کرنے کی سعادت حاصل کی۔ مرحبا یا سیدی یا مرشدی مرحبا!
فانطلق بی، حتی أتی السماء الدنيا فاستفتح، قيل : من هذا؟ قال : جبرئيل، و من معک؟ قال : محمد، قيل : قد أرسل إليه؟ قال : نعم، قيل : مرحبا به فنعم المجيئ جاء۔
(تفسير البغوی، 3 : 93)
پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آسمانوں کی طرف بڑھے اور جب آسمانِ دنیا پر آئے تو دروازہ کھٹکھٹایا۔ آواز آئی : کون؟ جبرئیل امین نے کہا : جبرئیل۔ پھر کہا گیا : آپ کے ساتھ کون ہے؟ انہوں نے کہا : محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔ پھر پوچھا گیا : کیا انہیں بلایا گیا ہے؟ جبرئیل نے کہا : ہاں۔ آواز آئی : خوش آمدید، کتنا اچھا آنے والا آیا ہے۔
رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ملاقات حضرت آدم علیہ السلام سے ہوئی۔ انہیں بتایا گیا کہ یہ آپ کے جلیل القدر فرزند ہیں۔ ختم المرسلین ہیں۔ یہی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔ آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دادا جان کہہ کر آدم علیہ السلام کی بارگاہ میں سلام ارشاد فرمایا۔ حضرت آدم علیہ السلام نے سلام کا جواب بھی عرض کیا اور اپنے عظیم فرزند کو دعاؤں سے بھی نوازا۔ اس کے بعد مہمانِ عرش حضور پُرنور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دوسرے آسمان کی طرف اٹھایا گیا۔ پہلے آسمان کی طرح بوّاب نے دوسرے آسمان کا بھی دروازہ کھولا۔ یہاں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیدنا عیسیٰ علیہ السلام اور یحییٰ علیہ السلام سے ملاقات ہوئی۔ اس یادگار ملاقات اور آسمان کے ملکوتی مشاہدات کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تیسرے آسمان کی طرف اٹھایا گیا۔ تیسرے آسمان پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ملاقات سیدنا یوسف علیہ السلام سے کرائی گئی۔ تیسرے آسمان کے مشاہداتِ نورانی کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو چوتھے آسمان پر پہنچایا گیا۔ چوتھے آسمان پر تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ملاقات حضرت ادریس علیہ السلام سے کرائی گئی۔ اسی طرح حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سفرِ معراج طے کرتے ہوئے پانچویں آسمان پر پہنچے تو وہاں حضرت ہارون علیہ السلام سے ملاقات ہوئی، چھٹے آسمان پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ملاقات سیدنا موسیٰ علیہ السلام سے ملاقات ہوئی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی چشمانِ مقدس اشکبار ہو گئیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت و رفعت کو دیکھ کر رشک کے آنسو چھلک پڑے۔ آپ کی زبانِ اقدس سے بے اختیار نکلا کہ خدائے بزرگ و برتر کے یہ وہ برگزیدہ رسول ہیں جن کی امت کو میری امت پر شرف عطا کیا گیا۔ میری امت پر جسے بزرگی عطا ہوئی یہ وہی رسولِ برحق ہیں جن کی امت کو میری امت کے مقابلے میں کثرت کے ساتھ جنت میں داخل کیا گیا۔ مہمانِ ذی حشم حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ملاقات ساتویں آسمان پر حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ہوئی۔ اس کے بعد، حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم، جو تخلیق میں واحد ہستی ہیں، جبریل امین کے ساتھ سدرۃ المنتہیٰ تک سفر کیا۔ اس مقام پر اللّٰہ تعالیٰ نے انسانوں کو پانچ نمازوں کا تحفہ عنایت کیا۔
کفار کا رد عمل اور رسول اللہ کا جوابترميم
معراج کا واقعہ جس رات پیش آیا اس رات رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنے چچازاد بہن ام ہانی کے گھر مقیم تھے۔ آپ نے یہ بات لوگوں کو بتائی تو سب نے اسے ہلکا لیا اور مشرکین طعنہ دینے لگے کہ رسول اللہ راتوں رات آسمان گئے ہیں۔ سب نے تردید کی پر جب لوگوں نے حضرت ابوبکر کو اس واقعے کے متعلق آگاہ کیا تو ابوبکر نے فورا تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ کیا یہ بات رسول اللہ نے بتائی ہے۔ لوگوں نے کہا ہاں بالکل۔ ابوبکر نے کہا رسول اللہ نے بتائی ہے پھر تو سچ ہے۔ حضرت ابوبکر کے اس بات نے رسول اللہ کو بہت متاثر کیا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت ابوبکر کو صدیق کا لقب دیا۔
مکہ کا ایک شخص جو شام اور فلسطین زیادہ سفر کیا کرتا تھا آیا اور بولا اگر آپ واقعی راتوں رات مسجد اقصیٰ اور پھر آسمانوں میں گئے ہیں تو مجھے مسجد اقصیٰ کا پتہ ہے میں آپ سے سوالات پوچھتا ہوں آپ جواب دیں۔ پھر اس شخص نے رسول اللہ سے مسجد اقصیٰ اور اس کے خد و خال کے متعلق بے شمار سوالات کیے اور رسول اللہ نے سب کے ٹھیک ٹھیک جوابات دئے۔ اس شخص نے رسول اللہ کے تمام جوابات کو درست قرار دیا۔
وکی پیڈیا: الحمداللہ ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی ہیں
الاسراء والمعراجترميم
عیسیٰ علیہ السلام کا جسمانی رفع ثابت کرنے کے لیے یہ دلیل دی جاتی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی جسمانی طور پر معراج پر تشریف لے گئے تھے۔ چنانچہ کسی انسان کا جسم سمیت آسمان پر جانا ممکن ہے۔مستند روایات اور احادیث پاک اور قرآن سے معراج کا جسمانی ہونا ثابت ہوتا ہے... اسی پر امت کے علماء کا اجماع ہے.(1)حضور علیہ الصَّلٰوۃ و السَّلام کو بیداری کی حالت میں جسمانی معراج نصیب ہوئی، اس پہ قرآنی آیت و صحیح احادیث دال ہیں، نیز جمہور صحابۂ کرام، تابعین، تبعِ تابعین، فقہاء، محدثین اور متکلمین کا مذہب اور اہلِ سنّت و جماعت کا یہی عقیدہ ہے۔
اللہ تبارک و تعالیٰ قرآنِ کریم میں ارشاد فرماتا ہے: ( سُبْحٰنَ الَّذِیْۤ اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ لَیْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَى الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِیْ بٰرَكْنَا حَوْلَهٗ لِنُرِیَهٗ مِنْ اٰیٰتِنَاؕ-اِنَّهٗ هُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ(۱)) ترجمۂ کنز العرفان:پاک ہے وہ ذات جس نے اپنے خاص بندے کو رات کے کچھ حصے میں مسجدِ حرام سے مسجدِ اقصیٰ تک سیر کروائی جس کے اِرد گِرد ہم نے برکتیں رکھی ہیں تاکہ ہم اسے اپنی نشانیاں دکھائیں، بیشک وہی سننے والا، دیکھنے والا ہے۔(پ15، بنی اسرآءیل :1)(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
اس آیتِ کریمہ کے تحت تفسیرِ خازن، جلالین اور حاشیہ صاوی میں ہے:”والحق الذی علیہ اکثر الناس ومعظم السلف و عامۃ الخلف من المتأخرین من الفقھاء والمحدثین والمتکلمین انہ اسری بروحہ وجسدہ صلی اللہ علیہ وسلم، ویدل علیہ قولہ سبحانہ وتعالیٰ( سُبْحٰنَ الَّذِیْۤ اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ لَیْلًا )(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) و لفظ العبد عبارۃ عن مجموع الروح والجسد، والحدیث الصحیحۃ التی تقدمت تدل علی صحۃ ھذا القول‘‘
ترجمہ: حق وہی ہے جس پر کثیر لوگ، اکابر علماء اور متأخرین میں سے عام فقہاء، محدثین اور متکلمین ہیں کہ حضور علیہ السَّلام نے جسم اور روح مبارک کے ساتھ سیر فرمائی، اور اس پر اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان دلالت کرتا ہے: پاکی ہے اسے جو راتوں رات اپنے بندے کو لے گیا، کیونکہ لفظ عبد روح اور جسم دونوں کے مجموعے کا نام ہے، یونہی ( ماقبل) ذکر کردہ حدیث صحیح بھی اس قول کی صحت پر دلالت کرتی ہے۔(تفسیرخازن،پ15،تحت الآیۃ:1 ،ج3،ص158)
نسیم الریاض میں ہے: ’’(انہ اسراء بالجسد والروح فی القصۃ کلھا) ای فی قصۃ الاسراء الی المسجد الاقصی والسموات، (وعلیہ تدل الآیۃ) الدالۃ علی شطرھا صریحاً (وصحیح الاخبار) المشھورۃ المستفیضۃ الدالۃ علی عروجہ صلی اللہ علیہ وسلم الی السماء، والاحادیث الاحاد الدالۃ علی دخولہ الجنۃ ووصولہ الی العرش او طرف العالم کما سیاتی وکل ذلک بجسدہ یقظۃ‘‘
ترجمہ: نبیِ کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے پورے واقعۂ معراج میں یعنی مسجدِ اقصی سے آسمانوں تک جسم و روح مبارک کے ساتھ سیر فرمائی، جس کے ایک حصے پہ آیتِ کریمہ واضح طور پہ دلالت کرتی ہے اور آسمانوں تک کی سیر پر حدیثِ مشہور مستفیض دلالت کرتی ہے، نیز جنّت میں داخل ہونے، عرش پہ جانے یا عالَم کے اس کنارے جانے پہ خبرِ واحد دلالت کرتی ہے، جیسے کہ آگے آئے گا، اور یہ سب بیداری میں جسمِ مبارک کے ساتھ تھا۔(نسیم الریاض،ج3،ص103)
مکتوباتِ امام ربّانی و فتاویٰ رضویہ میں ہے: ’’معراج شریف یقیناً قطعاً اسی جسمِ مبارک کے ساتھ ہوئی نہ کہ فقط روحانی، جو ان کی عطا سے ان کے غلاموں کو بھی ہوتی ہے، اللہ عَزَّوَجَلَّ فرماتاہے: ( سُبْحٰنَ الَّذِیْۤ اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ لَیْلًا) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) (یعنی ) پاکی ہے اسے جو رات میں لے گیا اپنے بندہ کو، یہ نہ فرمایا کہ لے گیا اپنے بندہ کی روح کو‘‘۔ ( فتاویٰ رضویہ،ج 15،ص 74 )
مقالاتِ کاظمی میں ہے: ’’جمہور علماء، صحابہ، تابعین و تبعِ تابعین اور ان کے بعدمحدثین و فقہاء اور متکلمین سب کا مذہب یہ ہے کہ اسراء اور معراج دونوں بحالتِ بیداری اور جسمانی ہیں اور یہی حق ہے‘‘۔ (مقالاتِ کاظمی،ج1،ص114)
(2) معراج شریف کا مطلقاً انکار کفر ہے، کیونکہ مسجدِ حرام سے مسجدِ اقصیٰ تک کی معراج قطعی اور کتابُ اللہ سے ثابت ہے، البتہ جو معراج کو تسلیم کرے لیکن فقط روحانی کا قائل ہو تو وہ خطا پر ہے، اور فی زمانہ اس کا انکار نہیں کرتے مگر بد مذہب و گمراہ لوگ۔
معراج کا مطلقاً انکار کفر ہے، چنانچہ شرح عقائدِ نسفیہ پھر نِبْراس میں ہے: ’’فالاسراء ھو من المسجد الحرام الی البیت المقدس قطعی ای یقینی ثبت بالکتاب ای القرآن و یکفر منکرہ۔۔ الخ‘‘ ترجمہ: مسجدِ حرام سے بیت المقدس تک کی سیر قطعی یقینی اور کتاب اللہ سے ثابت ہے اور اس کا منکر کافر ہے‘‘۔(النبراس، ص295)
نسیم الریاض میں ہے: ’’(ذھب معظم السلف و المسلمین) عطف للعام علی الخاص، وفیہ اشارۃ الی ان خلافہ لا ینبغی لمسلم اعتقادہ (الی انہ اسراء بالجسد) مع الروح (وفی الیقظۃ)‘‘ ترجمہ: (اکابر علماء و مسلمین اس طرف گئے ہیں) یہ عام کا خاص پر عطف ہے اور اکابر علماء و مسلمین کہنے میں اس طرف اشارہ ہے کہ اس کے خلاف کا اعتقاد رکھنا کسی مسلمان کو زیب نہیں دیتا، ( کہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حالتِ بیداری میں جسم اور روح مبارک کے ساتھ سیر فرمائی )۔ (نسیم الریاض،ج3،ص99)
فتاویٰ رضویہ میں ہے: ’’ان عظیم وقائع نے معراج مبارک کا جسمانی ہونا بھی آفتاب سے زیادہ واضح کردیا، اگر وہ کوئی روحانی سیر یا خواب تھا تو اس پر تعجب کیا؟ زید و عمرو خواب میں حرمین شریفین تک ہو آتے ہیں، اور پھر صبح اپنے بستر پر ہیں۔ رؤیا کے لفظ سے استدلال کرنا اور (اِلَّا فِتْنَةً لِّلنَّاسِ ) نہ دیکھنا صریح خطا ہے۔ رؤیا بمعنی رویت آتا ہے۔ اور فتنہ و آزمائش بیداری ہی میں ہے نہ کہ خواب میں، ولہٰذا ارشاد ہوا: ( سُبْحٰنَ الَّذِیْۤ اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ لَیْلًا ) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) ( یعنی) پاکی ہے اسے جو اپنے بندے کو لے گیا ‘‘۔ (فتاویٰ رضویہ،ج 29،ص635)
بیرونی روابطترميم
- النبیآرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ al-mawrid.org (Error: unknown archive URL)
- معراج پر اللہ کی خاص عنایت[مردہ ربط]