معرکہ امروہہ
معرکہ امروہہ 20 دسمبر 1305ء کو وسط ایشیائی منگولوں کے خانیت چغتائی اور سلطنت دہلی کے افواج کے درمیان میں پیش آیا۔ دہلی کی فوجوں نے ملک نایک کی سربراہی میں علی بیگ اور ترتق کی زیر کمان منگول افواج کو شکست فاش دی۔ یہ معرکہ موجودہ بھارتی صوبہ اترپردیش کے شہر امروہہ کے قریب پیش آیا تھا۔
معرکہ امروہہ | |||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|
سلسلہ منگولوں کے ہندوستان پر حملے | |||||||
| |||||||
مُحارِب | |||||||
خانیت چغتائی | سلطنت دہلی | ||||||
کمان دار اور رہنما | |||||||
علی بیگ (جنگی قیدی) ترتق (جنگی قیدی) |
| ||||||
طاقت | |||||||
30,000 – 50,000 | 30,000 | ||||||
ہلاکتیں اور نقصانات | |||||||
20,000 قتل 9,000 (جنگی قیدی) (بعد میں قتل کر دیے گئے) | نامعلوم | ||||||
پس منظر
ترمیممنگول خانیت چغتائی نے تیرہویں صدی عیسوی میں سلطنت دہلی کی قلمرو پر متعدد دفعہ حملہ کیا۔ تخت دہلی پر علاء الدین خلجی کے متمکن ہونے کے بعد منگولوں کی جانب سے 1297ء، 1298ء، 1299ء اور 1303ء میں چار حملے ہوئے۔ سنہ 1303ء کے حملے میں منگول سلطنت دہلی کے پایہ تخت دہلی پر قابض ہونا چاہتے تھے۔ جس کی وجہ سے سلطان علاء الدین نے آئندہ منگولوں کے حملوں سے تحفظ کی خاطر کچھ ناگزیر اقدامات کیے۔ سلطان خود نو تعمیر شدہ قلعہ سیری میں اٹھ آئے، سرحدی چوکیوں اور قلعوں کی مرمت کروائی اور کچھ نئے قلعے بھی تعمیر کروائے اور ساتھ ہی ان سرحدی علاقوں میں کچھ طاقت ور کمانداروں کو تعینات کیا۔[1]
ہندوستان پر حملہ
ترمیمعلاء الدین خلجی کے ان مذکورہ اقدامات کے باوجود سنہ 1305ء میں علی بیگ کی سرکردگی میں منگولوں کا ایک لشکر ہندوستان پر حملہ آور ہوا۔[2] وقائع نگار ضیاء الدین برنی نے علی بیگ کو چنگیز خان کی اولاد بتایا ہے لیکن در حقیقت اس کا تعلق منگولوں کے قبیلہ قنقرات سے تھا اور اس نے ایک چنگیزی شاہزادی سے شادی کی تھی جو اوغدائی خان کے سلسلہ سے چنگیز خان کی اولاد تھی۔[3] علی بیگ کو دوسرے بڑے منگول سردار ترتق اور تاراگھائی کی حمایت اور تعاون حاصل تھا۔ تاراگھائی تیسری مرتبہ ہندوستان پر حملہ آور ہوا تھا۔ پہلی دفعہ، قتلغ خواجہ کی فوج میں شامل ہو کر اور دوسری مرتبہ سنہ 1303ء میں خود منگول افواج کی قیادت کرتے ہوئے آیا۔ تاہم اس دفعہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ منگول افواج کے دریائے جہلم عبور کرنے کے بعد وہ واپس چلا گیا۔ علائی مورخ امیر خسرو نے "داول رانی" میں لکھا ہے کہ اسے بعد میں خود منگولوں نے مار دیا تھا۔[2]
حوالہ جات
ترمیم- ↑ Banarsi Prasad Saksena 1992, p. 372.
- ^ ا ب Banarsi Prasad Saksena 1992, p. 392.
- ↑ Peter Jackson 2003, p. 227.
کتابیات
ترمیم- Banarsi Prasad Saksena (1992) [1970]۔ "The Khaljis: Alauddin Khalji"۔ $1 میں Mohammad Habib and Khaliq Ahmad Nizami۔ A Comprehensive History of India: The Delhi Sultanat (A.D. 1206–1526)۔ 5 (Second ایڈیشن)۔ The Indian History Congress / People's Publishing House۔ OCLC 31870180
- Kishori Saran Lal (1950)۔ History of the Khaljis (1290–1320)۔ Allahabad: The Indian Press۔ OCLC 685167335
- Peter Jackson (2003)۔ The Delhi Sultanate: A Political and Military History۔ Cambridge University Press۔ ISBN 978-0-521-54329-3۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 31 مئی 2018
- René Grousset (1970)۔ The Empire of the Steppes: A History of Central Asia۔ Rutgers University Press۔ ISBN 978-0-8135-1304-1
- Satish Chandra (2004)۔ Medieval India: From Sultanat to the Mughals-Delhi Sultanat (1206–1526)۔ I۔ Har-Anand Publications۔ ISBN 978-81-241-1064-5۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 31 مئی 2018