مغنی تبسم

مغنی تبسم جن کا حقیقی نام محمد عبدالمغنی، حیدرآباد، دکن سے تعلق رکھنے والے اردو کے پروفیسر، نقاد، شاعر، مصنف، مدیر، ادارہ ادبیات اردو کے ڈائ

مغنی تبسم جن کا حقیقی نام محمد عبد المغنی، حیدرآباد، دکن سے تعلق رکھنے والے اردو کے پروفیسر، نقاد، شاعر، مصنف، مدیر، ادارہ ادبیات اردو کے ڈائریکٹر، سب رس (ماہنامہ) کے مدیر اور شعروحکمت (ششماہی) کے لیے شہریار کے ساتھی مدیر تھے۔

مغنی تبسم
معلومات شخصیت
پیدائش 1930ء
حیدرآباد، دکن
وفات 15 فروری، 2012ء
حیدرآباد، دکن
قومیت بھارتی
عملی زندگی
پیشہ اردو پروفیسر، اردو شاعری، ادارتی کام
کارہائے نمایاں ادارہ ادبیات اردو کے ڈائریکٹر، شعروحکمت کی ادارت

فکری تبدیلیاں

ترمیم

مغنی اپنے کالج کے دنوں میں کمیونزم سے متاثر ہوئے۔ پھر وہ بعد میں ترقی پسند تحریک سے وابستہ ہوئے۔ پھر وہ جدید ادب کی طرف مائل ہوئے۔ مگر پھر سے وہ ترقی پسند تحریک سے جڑ گئے۔ ان کی شاعری میں نظم اور غزل دونوں کا امتزاج پایا جاتا ہے۔[1]

تدریسی خدمات

ترمیم

مغنی تبسم 1958ء میں اردو کے لیکچرر کے طور جامعہ عثمانیہ میں مقرر ہوئے۔ وہ 1990ء میں اسی شعبے سے پروفیسر کے طور پر وظیفہ حسن کے خدمت پر سبکدوش ہوئے۔[1]

مجموعات کلام

ترمیم
  • نوائے تلخ، 1946ء
  • پہلی کرن کا بوجھ، 1980ء
  • مٹی مٹی میرا دل، 1991ء
  • درد کے خیمے کے آس پاس، 2002ء[1]

ادبی تنقید

ترمیم

تحقیقی کام

ترمیم

سوانح

ترمیم

تالیفات

ترمیم
  1. نذر فانی بدایونی 1968ء
  2. فانی کی نادر تحریریں 1970ء
  3. فکر اقبال 1977ء
  4. کہانیاں 1983ء
  5. انگریزی میں معاصر ہندوستانی کہانیاں 1996ء
  6. عصری ہندوستانی کہانیاں
  7. دکنی لغت و تذکرہ دکنی مخطوطات از آغا حسن حیدر 2002ء
  8. ہندوستانی مسلمان سیاسی منزل کی تلاش 2003ء[1]

تراجم

ترمیم
  1. کہانی اور اس کا فن 1957ء
  2. شادی کی آخری سالگرہ 1975ء[1]

ادارت

ترمیم
  1. سب رس (ماہنامہ)
  2. شعروحکمت (ششماہی)[1]

متفرق کتابیں

ترمیم
  1. تیلگو ادب کی تاریخ پر ایک نظر 1956ء
  2. نکاتِ اردو 1956ء[1]

توسیعی خطابات

ترمیم

مغنی تبسم کئی جگہوں پر توسیعی خطابات دے چکے تھے، جن میں حسب ذیل مقامات شامل تھے:

  1. علی گڑھ مسلم یونیورسٹی
  2. جامعہ اردو، علی گڑھ
  3. یونیورسٹی آف حیدرآباد
  4. یونیورسٹی آف میسور
  5. ڈاکٹر بی آر امبیڈکر اوپن یونیورسٹی
  6. بمبئی یونیورسٹی
  7. ہندی اکیڈمی، آندھرا پردیش[1]

بیرونی خطابات

ترمیم

مغنی تبسم کئی بیرونی خطابات دے چکے تھے، جن میں حسب ذیل مقامات شامل تھے:

  1. اردو مرکز، لندن
  2. اردو شعری سخن، علمی مجلس، لندن
  3. اردو کی بحیثیت مادری زبان تعلیم، امیر خسرو سوسائٹی، شکاگو، امریکا
  4. دکنی غزل، یونیورسٹی آف کیلیفورنیا، برکلے، امریکا[1]

اعزازات

ترمیم

مغنی تبسم کو متعدد اعزازات سے نوازا گیا۔ یہ اعزازات انھیں تو اردو اکیڈیمیوں کی جانب سے ملے۔ ان میں اترپردیش ،بہار ،مغربی بنگال ،آندھرا پردیش کی اردو اکیڈیمیاں شامل ہیں۔ اس کے علاوہ آندھرا پردیش کے میڈاناٹرسٹ ،بابول ریڈی فاﺅنڈیشن (حیدرآباد)، پوٹی سری رامولو تیلگویونیورسٹی (حیدرآباد) کے اور ساہتیہ اکیڈمی کی جانب سے بھی ایوارڈ ملے۔ ان کی شاعری اور ادبی خدمات کے اعتراف میں انھیں غالب ایوارڈ بھی ملا۔۔ سال 2007ء میں انھیں عالمی فروغ اردو ایوارڈ قطر سے ملا۔ دوحہ قطر سے ملنے والے اس گراں قدرایوارڈ کی مالیت ایک لاکھ پچاس ہزار روپے نقد اور طلائی تمغا تھا ۔[2]

انتقال

ترمیم

مغنی تبسم کا انتقال 15 فروری، 2012ء کو لمبی علالت کے بعد حیدرآباد کے ایک کارپوریٹ اسپتال میں ہوا۔ ان کے پسماندگان میں بیوی، دو بچے اور تین لڑکیاں تھیں۔ انھیں حیدرآباد خیریت آباد علاقہ کے قلی قطب شاہی قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا تھا۔[3]

نمونہ کلام

ترمیم
[4]
رستہ ہے سخن کا بند تجھ سے اب اپنے خدا سے گفتگو ہے
میں سوچ رہاہوں‘ تو نہیں ہےمیں دیکھ رہا ہوں اور تو ہے
ئینہ خیال بن گیا ہے اک چہرہ یقیں کا روبرو ہے
دُنیا کے سوال سارے مجھ پر چپ ہوں کہ مرا جواب تو ہے

حوالہ جات

ترمیم
  1. ^ ا ب پ ت ٹ ث ج چ ح خ د ڈ http://sahitya-akademi.gov.in/sahitya-akademi/library/meettheauthor/mughni_tabassum.pdf[مردہ ربط]
  2. Famous Personalities Articles : Hamariweb.com - مغنی تبسم:تم کیا گئے کہ روٹھ گئے دن بہار کے
  3. Noted Urdu Scholar Mughni Tabassum Dead
  4. "مغنی تبسم : میں عجب شہرہوں معمورہوں ویرانوں سے۔ ۔۔ علامہ اعجازفرخ"۔ 25 فروری 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 31 مئی 2016