ملا محمود جونپوری
ملا محمود جونپوری (پیدائش:1585ء— وفات: 19 فروری 1652ء) سترہویں صدی عیسوی میں ہندوستان کے مشہور فلسفی اور ماہر فلکیات تھے۔
ملا محمود جونپوری | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | سنہ 1585ء جونپور ضلع |
وفات | 19 فروری 1652ء (66–67 سال) جونپور ضلع |
عملی زندگی | |
پیشہ | ماہر فلکیات ، فلسفی |
درستی - ترمیم |
سوانح
ترمیمابتدائی حالات
ترمیمملا محمود 993ھ مطابق 1585ء میں بعہدِ اکبری میں پیدا ہوئے۔ ملا محمود کے والد شیخ محمد بن شاہ محمد فاروقی تھے۔ ملا محمود نے ابتدائی تعلیم اپنے دادا شاہ محمد فاروقی سے حاصل کی۔ بعد ازاں مولانا محمد افضل جونپوری (متوفی 1652ء) کے سامنے زانوئے تلمذ اِختیار کیا۔ سترہ سال کی عمر میں علومِ مروجہ کی تحصیل سے فراغت پائی۔ تعلیم سے فراغت ہونے کے بعد اکبرآباد چلے گئے۔ مغل شہنشاہ شہاب الدین محمد شاہ جہاں نے عزت و تکریم کی اور اپنے پہلو میں بٹھایا۔ نظامی بدایونی نے لکھا ہے کہ شاہ جہاں بادشا نے اُن کی شہرت سن کر دربار میں جگہ دِی مگر یہ دربار سے چلے آئے۔ اِس کی تفصیل یوں ہے کہ:
’’ملا محمود اور ملا عبد الحکیم سیالکوٹی بادشاہ کے ہمراہ لاہور حضرت شاہ میر میاں میر لاہوری (متوفی 1635ء) کے پاس گئے۔ فقیر متوجہ نہ ہوئے۔ بادشاہ کو بہت رنج ہوا۔ دونوں علما نے فرمایا کہ علما کی طرف توجہ نہ کرنا کیا معنی رکھتا ہے؟ فقیر اُٹھے اور اپنا کمبل بچھا کر خود بہ اَدب بیٹھ گئے اور دونوں علما کو بٹھا دِیا کہا کہ میں جاہل ہوں۔ مجھ کو اِس کا مطلب سمجھا دیجئے اور یہ شعر پڑھا:
مبادا دِل آں فرومایہ شاد | کہ اَز بہر دنیا وہد دِیں بباد |
ملا عبد الحکیم سیالکوٹی اِس شعر کو سن کر لوٹنے لگے اور اپنا گریباں چاک کر دیا اور ملا محمود شاہی ملازمت ترک کرکے جونپور واپس لے گئے۔[1] جونپور میں ایک مدرسہ قائم کیا اور وہیں تدریس میں منہمک ہو گئے۔
علم و فضل
ترمیمجملہ تذکرہ نگاروں نے ملا محمود جونپوری کے علم و فضل کی تعریف کی ہے۔ مولوی رحمٰن علی نے لکھا ہے کہ:’’ در علوم حکمیہ و اَدبیہ پایہ بلند داشت اگر بوجودش سرزمین جونپور بمرز بوم شیراز تفاخر می جست روا بودی‘‘۔[2] میر غلام علی آزاد بلگرامی (متوفی 15 ستمبر 1786ء) نے لکھا ہے کہ: ’’ہندوستان میں تو اُن کا کوئی نظیر نہیں تھا، بلکہ ہفت اقلیم میں بھی اُن کا سا علم رکھنے والا کوئی نہ تھا‘‘۔ ایک روایت کے مطابق مغل شہنشاہ شاہ جہاں کے عہد میں ایک نابینا عالم امکج نامی شاہِ ایران کا سفیر بن کر ہندوستان آیا۔ اُس نے دربار کے علما سے مناظرہ کیا اور انھیں اپنی قوت گویائی سے زِچ کر دیا۔ شاہ جہاں کو اِس صورت حال سے سخت افسوس ہوا۔ اُس نے اپنے وزیر نواب سعداللہ خان کے مشورہ سے ملا محمود جونپوری کو دربار میں طلب کیا۔ ملا محمود کو ناظم جونپور نے بصد منت و سماجت دربار شاہی میں بھیجا۔ دربار میں ایرانی عالم کے ساتھ اُن کی ملاقات ہوئی اور ہیولیٰ کے موضوع پر مناظرہ ہوا۔ ملا محمود نے اپنے تبحر کا ایسا ثبوت دیا کہ ایرانی عالم نے اپنی شکست تسلیم کرتے ہوئے اِن کی دست بوسی کی اور شاہ جہاں نے خوش ہوکر طشت بھر سونا اور چاندی فوری طور پر ملا محمود کے سر پر سے نچھاور کیا اور اپنے بیٹے شاہزادہ شجاع کو اِن کی شاگردی میں دے دِیا جونپور میں مدرسہ کے لیے زمین عطا کی۔ [3]
ملا محمود جونپوری نے ہندوستان کے خاص فن ناٹک بھید کا گہرا مطالعہ کیا تھا۔ علم ہیئت و فلکیات سے گہری دِلچسپی تھی مگر اِس فن میں انھوں نے کوئی تصنیف نہیں چھوڑی تاہم رصدگاہ کی تعمیر کے لیے بادشاہ سے مدد مانگی تھی جو جنگی مہمات کے پیش نظر مہیا نہ کی جاسکی اور رصدگاہ تعمیر نہ ہو سکی۔[4] ملا صاحب نے فلسفہ میں وہ عظیم کارنامہ انجام دیا جو بعد کے علما نہ کر سکے چنانچہ فن فلسفہ میں آپ کی شہرہ آفاق کتاب شمس بازیغہ صدیوں داخل درس رہی اور یوں کتابی شکل میں آپ طلبہ و علما کو مستفید کرتے رہے.
وفات
ترمیمملا محمود نے 9 ربیع الاول 1062ھ مطابق 19 فروری 1652ء کو 66 یا 67 سال شمسی کی عمر میں انتقال کیا۔ ملا محمود کے اُستاد مولانا محمد افضل کو اِس قدر صدمہ ہوا کہ وہ بھی چالیس روز کے بعد انتقال کرگئے۔
تصانیف
ترمیمالشمس البازعہ
ترمیمیہ کتاب فلسفہ کے موضوع پر تحریر کی گئی ہے جبکہ سنہ تکمیل 1042ھ ہے۔ ملا موصوف نے اِس کتاب میں الحکمت البالغہ کی شرح کی ہے۔ متاخرین علما نے اِس کے کئی حواشی لکھے ہیں۔
فرائد فی شرح الفوائد
ترمیمیہ تصنیف معانی و بلاغت کے موضوع پر ہے۔ سنہ تالیف 1042ھ ہے اور یہ معانی و بیان کی مشہور کتاب فوائد غیاثیہ کی شرح ہے۔
- اقسامِ زبان پر ایک چہار وَرقی رسالہ فارسی زبان میں ہے۔ [5]
- رسالہ حرزِ ایمان۔