منیر احمد یوسفی
علامہ منیر احمد یوسفی ممتاز مذہبی سکالر، مصنف، مبلغ اور فلاح انسانیت کا جذبہ رکھنے والی عظیم شخصیت تھے۔
منیر احمد یوسفی | |
---|---|
علامہ منیر احمد یوسفی
| |
معلومات شخصیت | |
پیدائش | یکم اکتوبر 1945ء مصری شاہ لاہور |
وفات | 18 جولائی 2019 چائنہ سکیم، لاہور |
شہریت | پاکستانی |
لقب | منیر اسلام، پکے ٹھکے صوفی |
مذہب | اسلام |
فرقہ | اہل سنت و جماعت بریلوی |
فقہی مسلک | حنفی |
اولاد | 1۔صاحبزادہ بدر منیر یوسفی صاحب
2۔ صاحبزادہ پیر بشیر احمد یوسفی صاحب(جانشین منیر اسلام) 3۔ صاحبزادہ خلیل احمد یوسفی صاحب 4۔ صاحبزادی کنیز فاطمہ صاحبہ 5۔ صاحبزادہ محمد عبد اللہ یوسفی صاحب 6۔ صاحبزادہ ابو بکر صدیق یوسفی زمزمی صاحب |
والد | حاجی محمد رفیق |
والدہ | محترمہ زینب بی بی صاحبہ |
ویب سائٹ | |
ویب سائٹ | http://www.seedharastah.com/index.php |
درستی - ترمیم |
ولادتِ با سعادت
ترمیمآپ قیامِ پاکستان سے دو سال قبل یکم اکتوبر 1945ء بمطابق 24 شوا ل المکرم 1364ھ کو لاہور کے ایک معروف علاقہ مصری شاہ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد میاں محمد رفیق صاحب اور والدہ بی بی زینب کی شرافت کی شہادت مصری شاہ کے در و دیوار سے آج بھی سنائی دے رہی ہے۔ دونوں شخصیتیں بڑی خوش نصیب تھیں جنھوں نے قوم کو ایک قابلِ فخر اور لائق فرزند عطا کیا۔
تعلیم و تربیت
ترمیمپیر طریقت رہبر شریعت، صوفی با صفا، عالم با عمل، قطب جلی، نیر اوج شرافت، زبدۃ العارفین، پیکر ایثار وفا، یادگار اسلاف، پروانہ توحید و رسالت، فنا فی الرسول، فنا فی الشیخ، منظور نظر حضرت داتا گنج بخش، پکے ٹھکے صوفی، منیر اسلام حضرت قبلہ علامہ مولانا الحاج منیر احمد یوسفی نے مصری شاہ جیسے میٹھے اسم با مسمیٌٰ علاقے مصری شاہ کے ایک پرائمریاسکول جہانگیر آباد، چوک ناخدا میں داخلہ لیا اور 1952ء سے 1957ء تک پرائمری تعلیم میں مصروف رہے۔ اسلامیہ ہائیاسکول مصری شاہ میں داخل ہوئے اور 1962ء میں میٹرک کی سند حاصل کی۔ 1964ء میں دیال سنگھ کالج لاہور سے ایف-اے اور 1967ء میں اسلامیہ کالج سول لائن لاہور سے بی-اے کی ڈگری حاصل فرمائی، پھر آپ نے ایم - اے پولیٹکل سائنس کی سند پنجاب یونیورسٹی لاہور سے 1969ء میں حاصل فرمائی۔
تحصیل علومِ دینیہ
ترمیمآپ جدید علوم کے ساتھ ساتھ علومِ دینیہ کی طرف بھی تسلسل سے منہمک رہے۔ قسمت نے یاوری کی۔ مقدر کا ستارہ چمکا تو باقاعدگی سے علوم و فنون اسلامیہ کی تحصیل کا عشق دل و دماغ پر قابض ہو گیا۔ ماں باپ کی دعائیں رنگ لائیں اور آپ جامعہ نگینہ ادارہ توضیح العلوم والعرفان پیلے گوجراں شریف، تحصیل سمندری شریف میں پیر طریقت، رہبر طریقت امین علم لدنی حاجی محمد یوسف علی نگینہ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ پھر ان سے شریعت و طریقت، حقیقت و مععفت کے جام پینے لگے۔ ایک عرصہ تک آپ نے ان سے علم کے نگینے سمیٹے، بعد ازین درج ذیل قابل قدر علمی شخصیات سے علوم و فنون دینیہ اور مسائل شرعیہ کی دولت سے دامنِ مراد کو پر کیا۔
اساتذہ کرام
ترمیم1۔ مولانا محمد علی نقشبندی ( جامعہ رسولیہ شیرازیہ لاہور) دورہ حدیث شریف بھی یہیں سے کیا۔
2۔ علامہ مفتی محمد عبد القیوم ہزاروی ( ناظم اعلیٰ جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور)
3۔ علامہ حسن الدین ہاشمی (اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور)
شادی خا نہ آبادی
ترمیمانسانی عظمت کا نشان ظاہری و باطنی طہارت و پاکیزگی اور طہارت س وابستہ ہے، جسے نکاح سے وابستہ کر دیا گیا ہے۔ کھانے پینے کی طرح نکاح کرنا بھی نہایت ضروری ہے۔ جس طرح زندگی اور بقا و بنا کھانے پینے کے بغیر محال ہے، اسی طرح انسان کو جنس اور نسل کی بقا کی حاجت بھی ہے اور یہ نکاح کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ چنانچہ اس اہم ترین اسلامی فریضہ سے آپ 14 جولائی 1978ء بمطابق 8 شعبان المعظم 1398ھ بروز جمعۃ المبارک میں عہدہ بر آ ہوئے۔ آپ کا رشتہ بھی مرشد کا مل حاجی محمد یوسف علیہ نگینہ نے طے کروایا اور نکاح بھی بابا جی نگینہ سرکار نے پڑھایا۔
اولادِ امجاد
ترمیماللہ تبارک و تعالیٰ جل شانہ نے 5 بیٹے اور ایک بیٹی کی نعمت سے نوازا، جن میں سے دو بیتے کم عمری میں ہی وصال کر گئے۔ ان سب کے اسمائے گرامی درج ذیل ہیں:
1۔صاحبزادہ بدر منیر یوسفی صاحب
2۔ صاحبزادہ پیر بشیر احمد یوسفی صاحب(جانشین منیر اسلام)
3۔ صاحبزادہ خلیل احمد یوسفی صاحب
4۔ صاحبزادی کنیز فاطمہ صاحبہ
5۔ صاحبزادہ محمد عبد اللہ یوسفی صاحب
6۔ صاحبزادہ ابو بکر صدیق یوسفی زمزمی صاحب
صاحبزادہ بدر منیر یوسفی صاحب اور صاحبزادہ محمد عبد اللہ یوسفی صاحب کم عمری میں ہی انتقال فرما ئے تھے۔
کسبِ معاش
ترمیمتعلیم مکمل کرنے اور کمیشن کا امتحان پاس کرنے کے بعد آپ نے گورنمنٹ ملازمت کی بجائے کاروبار اور دین کو ترجیح دی۔ آ پ کے شیخ فرمایا کرتے تھے:"اگر کامیابی حاصل کرنی ہے تو مسجد اپنی، مدرسہ اپنا، گھر اپنا۔ سواری اپنی، کاروبار اپنا۔"اس تربیت نے آپ کو ذاتی کاروبار کی طرف مائل کیا۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود سائیکل سپئیر پارٹس کی دکان کھول لی اور اس کے ساتھ سائیکلوں کی مرمت کا کام بھی شروع کیا۔ اور ساڑھے چار سال تک جاری رکھا اور اس کام میں کوئی قباحت نہ جانی۔ کیونکہ ہاتھ سے کام کرنا انبیا کرام کی سنت ہے۔ تعلیمی دور سے ہی آپ کا زیادہ تر وقت لائبریریوں میں گذرا کرتا تھا اس لیے کتابوں سے محبت تو قلب و ذہن میں موجود تھی لیکن شیخ کی صحبت نے آپ کو مزید کتابوں کی محبت میں گرفتار کر دیا لہذا آپ نے اپنے شوق کوملحوظ خاطر رکھتے ہوئے وسن پورہ لاہور میں دینی کتب کی خریدوفروخت اور اشاعت کا ادار ہ نگینہ کتب خانہ قائم کیا اور اسی مرکز میں دیگر نصابی کتب اور سٹیشنری کا سامان بھی فروحت کرنے لگے۔ کتابوں کا مرکز بنا کر آپ نے اپنی علم کی تشنگی دور کرنے کا ایک سامان مہیا کیا۔ اپنا کاروبار کرنے کے پیچھے ایک راز یہ بھی تھا کہ جب بھی دیدار شیخ کی تڑپ محسوس ہوتی تو آپ سب کام چھوڑ کر شیخ کے در پر حاضر ہو جاتے اور جب بھی آپ کے مرشد کامل لاہور تشریف لاتے تو آپ سارا وقت انہی کی صحبت میں گزارنے کا شرف حاصل فرماتے تھے۔
بیعت
ترمیمآپ 13 ربیع الاول 1969ء کی رات پیر طریقت حضرت علامہ حاجی محمد یوسف علی نگینہ کے دست حق پرست پر بیعت ہوئے۔ بیعت ہونے کے بعد آ پ کی زند گی نے ایک نیا رخ اختیار کر لیا۔
بیعت کے بعد صحبتِ شیخ میں گزارا ہوا وقت
ترمیمبیعت کے بعد آپ کا اپنے مرشد کا مل کے ساتھ گزارا ہوا وقت 20 سال پر محیط ہے۔ ان 20 سالوں میں سے تقریباً سات سال شب و روز آپ اپنے مرشد کامل کی شفقت میں رہے۔ بقیہ سالوں میں شیخ کامل کی صحبت میں رہ کر روحانی و تربیتی مراحل سے گذر کر گوہر نایاب بنے۔ آپ نے اپنے شیخ کامل کے ساتھ پنجاب کے بڑے بڑے شہروں اور ضلعوں میں سفر کے۔ آپ نے پانچ سال مسلسل جمعۃ المبارک فیصل اباد، جامع مسجد دستگیری، غلام محمد آباد میں اپنے شیخ کامل کی امامت میں ادا کیا۔یہاں تک کہ بھارت سے جنگ کے دوران میں 1971ء میں بھی شرف زیارت سے محروم نہ رہے۔
آپ نے فرمایا: جب بھارت نے ہمارے ملک مملکت خداداد اسلامی جمہوریہ پاکستان پر حملہ کر دیا۔ تو گھر والوں نے کہا کہ جنگ ہورہی ہے اس جمعۃ المبارک کو فیصل آباد نہ جاؤ۔ بھارتی ہوائی جہاز حملے کر رہے ہیں خدانخواستہ راستے میں کوئی حادثہ نہ پیش آ جائے۔لیکن آپ اپنے وظیفہ میں ناغہ نہیں کرنا چاہتے تھے۔ چنانچہ اللہ تبارک وتعالی واجب الوجود ومطلق و بسیط و بے حد کا نام لے کر صبح 9 بجے جمعۃ المبارک کے دن روانہ ہوئے۔ جب بس بھی دریائے راوی کے پل سے گزررہی تھی کہ بھارتی ہوائی جہاز حملہ آور ہوئے۔ ڈرائیور نے ہوائی جہازوں کا شور سن کر بس ایک طرف لگا دی ہوائی ہوائی حملہ ختم ہوا۔ بس پھر روانہ ہوئی اور بخیر و عافیت فیصل آباد پہنچی اور آپ حضرت قبلہ بابا جی سرکار نگینہ کی زیارت سے فیض یاب ہوئے اور نماز جمعۃ المبارک ادا کی۔ آج بابا جی سرکار نگینہ کا انداز کچھ مختلف تھا۔ پہلے جب آپ جمعۃ المبارک کی نماز پڑھنے جاتے تھے تو کبھی نہیں فرماتے تھے کہ پتر منیر گھر واپس پہنچو۔ لیکن آج فرمانے لگے پتر منیر فورا گھر پہنچو گھر والے فکر کر رہے ہیں۔ چنانچہ آپ کو خود لاہور کی بس میں سوار کیا اور دعائیں دیتے ہوئے روانہ فرمایا۔
سند خلافت
ترمیمامام احمد رضا خان بریلوی کے پڑ پوتے حضرت قبلہ اختر رضا خان صاحب نے سند خلافت عطافرمائی۔ علاوہ از یں :
- سید پیرعلی اصغر علی شاہ صاحب
- پیر سید فاروق الاسلام صاحب
- مولانا محمد اسلم شاہ صاحب
- پیر سید طیب شاہ صاحب علی پور شریف والے
- میاں غلام محمد صاحب
- میاں جمیل احمد صاحب شرقپور شریف
- پیر غلام جیلانی شاہ صاحب
- حضرت پیرسید کبیر علی شاہ چورہ شریف
کی طرف سے بیعت کی اجازت اور روحانی تعلق اور شرف زیارت رہا ہے۔
درس و تدریس کی لگن
ترمیمآپ جب اپنے شیخ کامل کے ساتھ ہوتے تو شیخ کامل کی کتابوں کا بیگ خود اٹھاتے۔ جب شیخ کامل حاجی محمد یوسف علی نگینہ درس و بیان فرماتے تو آپ ساتھ ساتھ اسے قلم بند کر تے رہتے۔ تحریری طور پر محفوظ کی ہوئی یہ گفتگو آج بھی بابا جی سرکار کی ذاتی لائبریری میں موجود ہے۔ آپ کو شوق تھا جس طرح داتا گنج بخش، غوث اعظم اور دیگر صوفیائے عظام ﷺ نے کتب تحریر فرمائیں ہیں ایسے میرے شیخ کی بھی تصانیف ہوں۔ حاجی یوسف علی نگینہ نے سب سے پہلے اوراد فتحیہ شریف کا ترجمہ اردو اور فارسی میں لکھوایا پھر درو ومستغاث، دعائے مغنی اور دعائے سیفی کے علاوہ دیگر وظائف کے تراجم لکھوائے۔ تراجم لکھتے ہوئے حاجی یوسف علی نگینہ بعض حروف کی غلطیوں پر باباجی کی اصلاح فرماتے اور فقرہ درست کر کے لکھنے کو کہتے۔ باوجود کہ وہ فقرہ غلط ہوتا بابا جی سرکار احتراماً اس کے اوپر کراس نہ لگاتے بلکہ دائرہ لگا کر دائرہ کہ اوپر کراس کرتے کے یہ عبارت بھی میرے شیخ نے لکھوائی ہے۔ پھر بابا جی گرائمر کے قواعد وضوابط کو مدنظر رکھتے ہوئے ترجمے میں ر بط وتسلسل قائم کر کے اپنے شیخ کو دکھاتے تو وہ فرماتے اللہ تبارک و تعالی جل شانہ تجھے ادیب بنادے۔
آپ کے شیخ کامل حاجی محمد یوسف علی نگینہ نے آپ کوحقوق والدین، مقدس دعائیں اور نماز محمدی کتب لکھوائیں۔ اس تحریری عمل نے آپ کے شوق کو جلا بخشی۔ اپنے شیخ کامل کے فیضان اور تربیت کے باعث آپ نے ان کی تحریر کی ہوئی کتابوں میں اضافہ کے ساتھ ساتھ سینکڑوں سے زائد کتابوں کی تالیف فرما کر شائع کیں اور مزید کئی مخطوطے موجود ہیں جو طباعت کے لیے تیار ہیں۔
حلیہ
ترمیمآپ کو دیکھ کر سب سے پہلے جو تصور ذہن میں ابھر تا ہے: خياركم الذي إذا رأوا ذكر اللہ (سنن ابن ماجہ: 4258)تم میں سے بہترین وہ لوگ ہیں جنہیں دیکھ کر خدا یاد آ جائے۔ آپ ہ درمیانی قد و قامت ( پانچ فٹ دس انچ )اور جاذب نظر خدوخال کے مالک تھے۔سفید لباس، سرخ وسفید مسکراتا چہرہ، کشادہ پیشانی، چمکتی آنکھیں، آنکھوں پر چشمہ، موتیوں جیسے چمکتے ہوئے دانت سامنے کے دندان مبارک میں خلا، چوڑاشان سینہ کشادہ ہاتھ مبارک نرم و گداز۔
لباس
ترمیمآپ کا حلیہ حضور سید نا خاتم النببین ﷺ کی سنت مبارک کے عین مطابق ہوتا۔ لباس ہمیشہ صاف ستھرا اور سفید رہتا۔ آپ نے جس دن مرشد کے ہاتھ پر بیعت کی اسی دن گھر آ کر اپنی تمام دنیاوی یاداشتیں جلا کر راکھ کر دیں کپڑے ضرورت مندوں کو عنایت کر دیے۔ بیعت والے دن سے لے کر وصال مبارک تک تقریباً نصف صدی آپ کالباس سفید کرتا، ویس کوٹ، سفید تہبن، د سفید پگڑی اور ایک اضافی رومال سفید کپڑے پرمشتمل ہوتا۔ یہ اضافی کپڑ اوضو کے پانی کو صاف کرنے اور دیگر امور میں زیر استعمال رہتا ہے۔ آپ پاؤں میں ہمیشہ ہاتھ کا بنا ہوا کھسہ پہنتے۔
آپ شروع ہی سے سادہ کھانا پسند فرماتے۔ آپ کے سامنے جیسا کھانا بھی رکھ دیا جاتا آپ سنت نبوی پرعمل پیرا ہوتے ہوئے بغیر کوئی نقص نکالے تناول فرمالیتے۔
انداز بیان
ترمیمآپ کا انداز بیان انتہائی دلکش اور شیریں ہے۔ آپ اپنے انداز بیاں میں بھی سنت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرتے ہیں۔ سرکار کائنات حضور سیدنا رسول اللہ ﷺ جب لوگوں سے گفتگو فرماتے تو اس طرح کہ آواز پورے مجمع تک پہنچ جائے اور پہلے دائیں پھر سامنے اور پھر بائیں طرف دیکھتے۔ آپ بھی بیان کرتے وقت اسی انداز کوملحوظ خاطر رکھتے۔ آپ نے کبھی شعلہ بیانی اور بھڑکیلا انداز بیاں اختیارنہیں کیا۔ بہت میٹھے اور دھیمے انداز میں آہستہ آہستہ خطاب کرتے۔ آپ کو بھی کسی نے بدکلامی کرتے نہیں سنا۔ آپ نے بھی کسی کو گالی نہیں دی۔ دیگر مسالک کے لوگ بھی آپ کے بیانات سے استفادہ کرتے کیونکہ آپ طنزیہ نہیں ناصحانہ گفتگو کرتے لیکن مسئلہ حق کو بیان کرتے ہوئے کبھی نہیں گھبرائے۔ آپ فرماتے :" ڈرنا کسی سے نہیں اور لڑنا کسی سے نہیں"۔ آپ ڈٹ کر عقیدہ اسلام کی بات کرتے تھے۔
صبر و شکر
ترمیمآپ کی حیات مبارکہ کا مشاہدہ کریں تو ان اللہ مع الصابرین کی عملی تصویر نظر آتی ہے۔ بیماری میں، پریشانی میں، مالی مصائب میں کبھی صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا، کبھی ایسا طریقہ اختیار نہیں کیا جوصبر وشکر کے منافی ہو۔ کبھی آپ کے منہ سے شکوہ نہیں سنا گیا۔ صاحبزادہ محمد ابوبکر صدیق بچپن بیمار ہیں اور اب ان کی عمر 29 سال ہے۔ان کی کیفیت دیکھ کر آپ کی آنکھوں میں اکثر آنسو آ جاتے۔ 29 سال کے طویل عرصے میں ان کی تکلیف کو دیکھتے ہوئے بھی کبھی آپ کواللہ تبارک وتعالیٰ جل شانہ سے شکوہ کرتے ہوئے نہیں سنا اور نہ کبھی ان کی ذمہ داری پر صبر کا دامن ہاتھ سے چھوڑا۔ آپ زندگی کی تمام پریشانیوں میں بھی اسی طرح صبر و شکر کا مظاہرہ کرتے ہوئے دکھائی دیتے۔
نشان صبر اور استقلال ہے اقبال والوں کا
کہ ساتھی ہے خدا صبر اور استقلال والوں کا
خشیت الہی
ترمیماللہ تبارک وتعالی جل شانہ کے بندے اپنی ذات میں خشیت الہی کا خاص اہتمام کرتے ہیں۔ بابا جان سرکار شفیع المذنبین حضور سید نا رسول اللہ ﷺ کے فیضان سے اس وصف کا حسین مرقع تھے۔خلوت وجلوت میں یکساں خشیت الہی میں رہتے تھے۔خوشی ہو یا غمی کسی بھی لمحے اللہ تبارک وتعالی رحیم وکریم کی یاد سے غافل نہیں ہوتے تھے۔ آپ نظر کی درستی، قلب کی صفائی اور باطن کی روشنی کے لیے خوف الٰہی کو ضروری قرار دیتے تھے۔
آپ امام الانبیاء حضور سیدنا رسول اللہ ﷺ کے فیضان سے اس وصف میں بھی باکمال تھے۔ آپ علیہ اپنے برادران طریقت اور مریدین کو اپنے ہر لیکچر میں خوف خدا کی تلقین فرماتے تھے۔ آپ کوکبھی یہ کہہ دیا جا تا کہ باجماعت نماز کی بجائے گھر میں نماز ادا کر لیں کیونکہ آج آپ بہت تھک چکے ہیں تو فرماتے ہیں کہ مجھے خدا کا خوف آتا ہے کہیں ایسا کرنے سے میں کافر ہی نہ ہو جاؤں۔ رجوع الی اللہ آپ کے فلسفہ تصوف کی روح تھی۔
قوت حافظہ
ترمیمآپ ہ قوت حافظہ میں بھی اپنی مثال آپ تھے۔ اولیاء کرام ایسی عظیم المرتبت ہستیاں ہوتی ہیں کہ ان کے قلب و ذہن دنیاوی آلائشوں اور توہمات سے پاک ہوتے ہیں۔ان کا دل و دماغ صرف اللہ تبارک وتعالی جل شانہ اور اس کے پیارے محبوب رسولﷺ کی خوشنودی کے لیے گامزن رہتا۔ آپ کے قوت حافظہ کا یہ عالم تھا کہ حافظ نہ ہونے کے باوجود قرآن پاک کا کثیر حصہ اور احادیث مبارکہ کا عظیم ذخیرہ آپ کو زبانی یاد تھا۔ آپ ر اپنے علم کوعمل کے سانچے میں ڈھال کر اخلاص وتقوی کے ساتھ حفاظت دین اور خدمت اسلام کے فرائض سر انجام دیتے رہے۔
اللہ تبارک وتعالی جل سلطانہ نے آپ کو حافظے کی عظیم نعمت سے نوازا تھا۔ تعلیم و تعلم کے لیے حافظہ سب سے اہم چیز ہے۔ جب آپ کسی جگہ پروگرام کے لیے جاتے تو آپ کے گردوپیش میں علم وعمل کے پروانوں کا ہجوم لگ جاتا۔ قوت حافظہ کی ایک بہت بڑی مثال یہ ہے کہ آپ سے وابستہ جو بھی شخص آپ سے ملاقات کرتا آپ اس کا نام دریافت فرماتے وہ شخص مدتوں ادھر ادھر رہتا لیکن جب ملاقات کے لیے آتا تو قبلہ بابا جی سرکار اس کے نام سے اس کو یاد فرماتے۔ اسی طرح قرآن مجید اور سنت مبارکہ میں قوت حافظہ کمال درجے کا رہا جب کسی سے کسی مسئلہ پر بات ہوتی تو اس مسئلہ پر دلائل کے طور پر متعدد آیات قرآنی اور بیسیوں احادیث مبارکہ کے حوالوں کا انبار لگا دیا جا تا۔
حسن اخلاق کے پیکر
ترمیمآپ کو یہ نمایاں وصف اللہ تبارک وتعالی جل شانہ کی طرف سے عطا تھا جب کوئی ملتا تو ایسے لگتا جیسے پہلے بھی ملا ہو آپ اتنی محبت فرماتے اور یہ بات جامع مسجد سبیل والی شاہ عالم مارکیٹ کے خطیب مولانا حفیظ اللہ نقشبندی صاحب نے بھی بتائی۔ آپ علیہ جب کسی کو مخاطب فرماتے تو پیارے بھائی پیارے دوست اور پیارے بزرگ کہہ کر مخاطب فرماتے اور چہرے پرمسکراہٹ ہوتی۔ آپ نے سفر وحضر تبلیغ میں گزارے۔
علمائے کرام سے محبت
ترمیمآپ علمائے کرام سے بڑی محبت فرماتے اور ان کا ادب فرماتے اور طلبہ کرام سے بھی بڑی محبت فرمائے جب کوئی عالم دین تشریف لاتے تو آپ اٹھ کر ملتے اور اپنی جگہ پر بٹھاتے اور کھانا بھی کھلا یا کرتے۔ علما کرام کو کتابوں کے تحائف بھی عنایت فرماتے۔
طلباءکرام سے محبت
ترمیمطلبہ کرام سے آپ بڑی محبت فرماتے ہفتہ وار اجتماع میں ان سے وعظ کرواتے پھر بطور انعام خدمت بھی فرماتے۔ اور آپ فرماتے الحمد للہ طلبہ کرام عظیم مبلغ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ آپ کا فیضان آج بھی صاحبزادگان والا شان اور عظیم مبلغین کی کثیر جماعت کی صورت میں جاری ہے اور ان شاء اللہ قیامت تک جاری رہے گا۔
فلاح انسانیت کے لیے عملی کام
ترمیمموجودہ دور ٹیکنالوجی کا دور ہے۔اس دور میں کسی بھی قوم کی ترقی کا انحصار اس بات پر ہے کہ وہ قوم کس حد تک تعلیم یافتہ ہے۔ کسی بھی قوم میں جس قدر لوگ پڑھے لکھے مہذب اور باشعور ہوں گے وہ قوم اتنی ہی زیادہ ترقی کرے گی اور قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھی جائے گی۔ آج کے طلبہ و طالبات کل کے معماران ِامت ہیں۔ آج اگر ان کی ذہنی جسمانی، فکری اور روحانی تربیت کی جائے گی تو اچھا معاشرہ وجود میں آجائے گا۔ آپ نے پیاری بچیوں کو دینی تعلیم سے آراستہ و پیراستہ کرنے کی ضرورت کو شدت سے محسوس کیا کہ کس طرح مسلمان خواتین کی روحانی اور ملی تربیت کا تسلی بخش انتظام کیا جائے کیونکہ جب بچیاں اسلامی تعلیم و تربیت کے زیور سے مزین ہو جاتی ہیں تو علم کی روشنی سے پورے خاندان کومنو رکرنے میں اہم کردارادا کرتی ہیں۔ اس سلسلے میں نگینہ سوشل ویلفیئر سوسائٹی کے زیر انتظام جامعہ یوسفیہ کا قیام عمل میں لایا گیا اور اہل اسلام، اہل سنت و جماعت کے مدارس کے نمائندہ ادارے تنظیم المدارس اہلسنت پاکستان سے 23 اگست 2000ء کو جامعہ کا الحاق ہوا اور جامعہ کو درجہ وسطانی میں الحاق کا سرٹیفکیٹ ملا۔ بعد ازاں 2006ء میں جامعہ یوسفیہ کی درجہ فوقانی میں الحاق نمبر 1355 کے تحت رجسٹریشن ہوئی اور اب موجودہ سنہ 2022ء تک علیا میں رجسٹریشن ہو چکی ہے آب جامعہ یوسفیہ کے طلبہ و طالبات تمام درجات (عامۂ خاصہ عالیہ عالمیہ تخصص في الفقہ، تخصص في الحديث تخصص في التفسیر، تخصص في القرآت) کے کورسز جاری ہیں۔
نگینہ سوشل ویلفیئر سوسائٹی کا قیام
ترمیمخدمتِ خلق اور فلاح انسانیت کے جذبے سے سرشار محبان اسلام نے دین اسلام کی تبلیغ و اشاعت امام الانبیاء حضور سید نا نبی کریم ﷺ سے غیر مشروط محبت اور لامحدود وفاداری کے فیضان کو پھیلانے کے لیے علامہ مولانا منیر احمد یوسفی صاحب کی سر پرستی میں جون 1998 ء سوسائٹی کی بنیادرکھی اور سوسائٹی کا نام پیر طریقت، رہبر شریعت حضرت حاجی محمد یوسف علی نگینہ صاحب کے اسم مبارک سے منسوب فرماتے ہوئے نگینہ سوشل ویلفیئر سوسائٹی رکھا۔ جسے محکمہ سوشل ویلفیئر حکومت پنجاب سے رجسٹرڈ کروایا گیا۔ نگینہ سوشل ویلفیئر سوسائٹی (رجسٹرڈ) پنجاب پاکستان کے مدارس مساجداسکول، ہسپتال اور ایمبولینس سروسں کی فراہمی کے لیے دن رات کوشاں ہے۔ جون 1998 ء سے اب تک کئی مدارس، مساجد اوراسکول تعمیر کیے گئے جن کے ذریعے عوامی فلاح و بہبود اور تعلیم و تربیت کے سلسلے جاری وساری ہیں۔ نگینہ سوشل ویلفیئر سوسائٹی کے اغراض و مقاصد در ج ذیل ہیں:
- · خدائے وحدہ لاشریک کی بندگی اور حضور نبی آخر الزماں ﷺ کی اطاعت و پیروی کا شعور اجاگر کرنا۔
- · غریب طلبہ وطالبات کے لیے دینی ودنیاوی تعلیمی سہولیات کی فراہمی۔
- · شریعت اسلامیہ اور سلسلہ ہائے طریقت ( نقشبندیہ قادر ی سہروردی چشتیہ یوسفیہ ) کی اشاعت۔
- · تحفظ ختم نبوت ﷺ تحفظ ناموس رسالت ﷺ تحفظ ناموس صحابہ کرام واہل بیت عظام اور اولیاء کرام
- · غریب نادار مفلس اور مفلوک الحال لوگوں کو مفت طبی امداد کی فراہمی۔
- · اسلامی لٹریچر کے ذریعے دین مصطفٰی ﷺ کی ترویج واشاعت۔
- · الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا کے ذریعے ایمانی اور دینی عقائد کا تحفظ و اشاعت۔
- · عقائد کی پختگی اور اعمال کی درستی ہفتہ وار اور ماہانہ تعلیمی و تربیتی اجتماعات
- · پاکستان میں ہرقسم کی ناگہانی آفات اور سماجی سرگرمیوں میں بھر پور تعاون۔
- · قیام پاکستان کے مقصد کے حصول کے لیے ذہنی او قلمی طور پر شعور اجاگر کرنا۔
- · مملکت کی محبت وفاداری اور تحفظ کے لیے ذہنی تربیت۔
- قیام پاکستان کا نعرہ پاکستان کا مطلب کیا لا إلہ إلا اللہ محمدرسول اللہ کے نفاذ کی عملی تربیت۔
بحمدہ تعالی نگینہ سوشل ویلفیئر سوسائٹی اور انجمن اشاعت دین اسلام کے زیر انتظام لاہور حویلی لکھا اور ملتان شریف میں بیسیوں جامعات اور مساجد دین متین کی تبلیغ و اشاعت میں شب و روز مصروف عمل ہیں۔علاوہ از یں جدید تعلیم کے لیے اسلامی ماحول سے مزین نگینہ دار ارفعاسکول اور علاج معالجہ کے لیے نگینہ میڈیکل کمپلیکس بھی پوری لگن کے ساتھ خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔
تبلیغی خدمات
ترمیمدرس و تدریس کا میدان ہو یا دینی افکار کی تبلیغ اشاعت اسلام کے ہر میدان میں آپ مصروف عمل رہے۔ کہیں درس قرآن تو کہیں رسائل واخبارات کہیں منبر و محراب تو کہیں مساجد و مدارس آپ کی تبلیغی خدمات کی گواہی دے رہے ہیں۔ گویا تبلیغ کا ہر شعبہ آپ پر ناز کرتا ہے۔
روزنامہ نوائے وقت کے کالم نگار بھی تھے اور دینی موضوعات پر خاص طور پر کالم لکھتے رہتے تھے 92 نیوز ٹی وی چینل کے پروگرام صبح نور کے مستقل مہمان کے طور پر بھی آتے رہے، آپ سرپرست اعلیٰ انجمن اشاعت دین اسلام و نگینہ سوسائٹی اور مدیر اعلیٰ ماہنامہ "سیدھا راستہ" لاہور بھی رہے۔
سلسلہ درس قرآن و حدیث
ترمیمبنی نوع انسان کی ہدایت اور راہنمائی کے لیے اللہ تبارکوتعالی جل شانہ نے پیغمبروں پر کتابیں اور صحیفے نازل کیے۔ان میں سے آخری کتاب قرآن مجید فرقان حمید ہے جو احمد مختار حضور سیدنا رسول اللہ ﷺ پر نازل ہوئی۔ یہ کتاب قیامت تک تمام انسانوں کے لیے ہدایت کا سر چشمہ ہے۔۔ شافع یوم النشور حضور سیدنا رسول اللہ سلم کا ارشاد مبارک ہے: خیر کم من تعلم القرآن و علمہ " تم میں سے بہتر وہ ہے جس نے قرآن سیکھا اور سکھایا۔ چونکہ علما کرام انبیا کرام کے وارث ہیں اور انبیا کرام کے بعد یہ ذمہ داری علمائے کرام پر آ گئی۔لہذا آپ اس ذمہ داری کو جانفشانی کے ساتھ سر انجام دیتے ہوئے قرآن مجید کی ترویج و اشاعت کے لیے سلسلہ درس قرآن وحدیث میں مصروف رہے۔ ویسے تو آپ ہر خاص و عام موقع پر اسلامی تعلیمات کو عام کرتے رہے ہیں، لیکن کچھ مخصوص اوقات اور مقامات جن پر آپ نے درس قرآن وحدیث کا سلسلہ سالہا سال سے جاری رکھا۔ حضرت نظام الدین اولیاء فرماتے ہیں: اے درویش! قرآن شریف کی تلاوت کرنا تمام عبادتوں سے افضل اور بہتر ہے۔ دنیا اور آخرت جو کچھ ان کے درمیان میں سب سے بہتر قرآنی تلاوت ہے۔ اللہ تبارک وتعالی جل شانہ خاتم النبیین حضور سید نا رسول اللہ سلم کے وسیلہ جلیلہ سے آپ کی تربت پر لاکھوں کروڑوں رحمتوں کا نزول فرمائے۔آمین !
تصانیف
ترمیمآپ کے اندازِ تحریر کی خصوصیت یہ ہے کہ جدید طریقہ تحقیق کو اختیار کرنے کے باوجود دقیق ترین مسائل کو بھی عام فہم انداز میں پیش کر دیتے ہیں۔ آپ نے متعدد تصسنیف فرمائیں جن میں سے چند کے اسماء درج ذیل ہیں:
سورۃ الفاتحہ کی تفسیر
بخاری شریف بحوالہ تیسیر الباری
ایصال ثواب
مشاہدات معراج النبی ﷺ
آدب دعا اور اوقاتِ قبولیت
عظیم قرآنی دعائیں
مقدس دعائیں
بسم اللہ شریف کی برکات
سورہ اخلاص کی برکات
سیرت سید الوریٰ
آئیں اپنی نماز کا جائزہ لیں
آدابِ سلام
رمضان المبارک فضائل و مسائل
شعبان المعظم کی فضیلت
الحج و العمرۃ و الزیارۃ
حقوق فوت شدگان
آخری چہار شنبہ
دل کو نرم کرنے والی باتیں
حضرت سیدنا ابو بکر صدیق
حضرت امام احمد رضا خان
یوسف مصر محبت (2جلدیں)
ذکر شیخ عبد القادر جیلانی
تاریخ وضو و مسائل
حقوق زوجین
انوارِ درود و سلام
کھانے پینے کے آداب
قاتلانہ حملہ
ترمیمروزنامہ قدرت کے مطابق 14-اکتوبر-2017ء کو کراچی میں نامعلوم شخص نے فجر کے وقت معروف عالم دین منیر احمد یوسفی پر قاتلانہ حملہ کیا جس سے اللہ تبارک و تعالیٰ نے آپ کو محفوظ فرما لیا، آپ ناموس رسالت اور ختم نبوت کے لیے فعال کردار ادا کرتے رہے۔
موجد نعرہ" مجھے دین اسلام سے پیار ہے"
ترمیمقبر میں سب سے یہ سوال ہو گا من دینک؟ تو اس سوال کی دنیا میں تیاری کے لیے آپ نے یہ نعرہ عطا فر مایا: " مجھے دینِ اسلام سے پیار ہے۔" جو علما اور عوام کو میں بہت پسند کیا جاتا ہے۔
ملفوظات
ترمیمہمارے شیخ پیر طریقت رہبرِ شریعت زبدۃ العارفین، یادگارِ اسلاف حضرت علامہ منیر احمد یوسفی ہمیشہ اتباعِ شریعت پر بہت زور دیا کرتے تھے۔ اس تفصیلات پڑھنے کے لیے کتابِ مستطاب "منیر مصرِ محبت" کا مطالعہ فرمائیں۔ ذیل میں اس حوالے سے آپ کے چند ملفوظات پیش کیے جاتے ہیں جس سے آپ کی شریعت و سنت سے محبت کی بہت خوب صورت جھلک نظر آتی ہے:
- · ایمان کے چوروں سے بچنے کے لیے تعلیمات ِ نبوی ﷺ کی اشد ضرورت ہے، دین اسلام کا علم حاصل کیا کریں۔
- · انسان کا دشمن نفسِ امارہ ہے اور نماز پڑھنے سے یہ دشمن جلتا ہے۔
- · با وضو رہنا بڑا کمال ہے اور یہ بڑا ہمت کا کام ہے۔
- · مومن کے دین کی مثال کجھور کے درخت جیسی ہے اگر کجھورکے درخت کو اوپر سے کاٹ دیا جائے تو وہ آگے نہیں بڑھتا اور اگر مومن نماز کو ترک کر دے تو اس کا دین آگے نہیں بڑھتا۔
- · اپنے کام چھوڑ کر وقت پر اور جماعت کے ساتھ نماز پڑھیں، ایسا کرنے سے ہمارے کام بھی آسان ہو جائیں گے۔
- · قبر میں اخبار کام نہ آئے گا بلکہ قرآنِ حکیم کام آئے گا، اس کی روزانہ تلاوت کرنی چاہیے۔
- · اپنے پیارے کریم آقا ﷺ کی غلامی میں کسی قسم کی ہچکچاہٹ نہیں کرنی چاہیے۔
وفات
ترمیم18 جولائی 2019ء کو 73 سال کی عمر میں وفات داعی اجل کو لبیک کہا۔ آپ کا مزار متصل جامع مسجد چائنہ سکیم لاہور میں مرجع خلائق ہے۔ آپ کے وصال پر ملال پر اہل سنت کے مشائخ و علما نت گہرے غم اور صدمے کا اظہار کیا۔ آپ کے جنازہ میں کثیر تعداد میں لوگوں نے شرکت کی بلکہ آپ کے جنازے میں دوسرے مسالک کے لوگ بھی شریک ہوئے اور رو کر اپنے غم کا اظہار کر رہے تھے۔