عبد القیوم ہزاروی

بریلوی مکتب فکر کے عالم دین

محمد عبد القیوم ہزاروی ایک عظیم مفتیِ اسلام تھے۔ وہ جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور کے مہتمم ،جامعہ نظامیہ رضویہ شیخوپورہ کے مہتمم و بانی اورتنظیم المدارس اہلسنت کے ناظم اعلیٰ تھے۔

محمد عبد القیوم قادری ہزاروی
معلومات شخصیت
پیدائش 28 دسمبر، 1933ء
میراہ اپر تناول مانسہرا ہزارہ ڈویژن پاکستان
وفات 26 اگست، 2003ء
لاہور
شہریت پاکستانی
مذہب اسلام
مکتب فکر اہلسنت والجماعت (بریلویحنفی)
رکن رویت ہلال کمیٹی   ویکی ڈیٹا پر (P463) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
مادر علمی جامعہ حزب الاحناف لاہور
استاذ محمد سردار احمد قادری ،  غلام رسول رضوی   ویکی ڈیٹا پر (P1066) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تلمیذ خاص محمد عبدالحکیم شرف قادری ،  محمد ارشد القادری ،  محمد خان قادری   ویکی ڈیٹا پر (P802) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ عالم ،  مفتی   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ملازمت جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور ،  جامعہ نظامیہ رضویہ شیخوپورہ ،  تنظیم المدارس اہل سنت پاکستان   ویکی ڈیٹا پر (P108) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
متاثر محمد ارشد القادری، محمد خان قادری، محمد عبدالحکیم شرف قادری

خاندانی پس منظر

ترمیم

[1]

مفتیٔ اعظم پاکستان علامہ محمد عبد القیوم ہزاروی ہزارہ ڈویژن کے ایک روحانی و علمی خاندان کے چشم و چراغ تھے۔ آپ کے جدِّ امجد مولانا گل احمد اوران کے بھائی مولانا رحمت اللہ پرہیز گارعلمائے دین تھے۔مولانا رحمت اللہ کے صاحب زادے مولانا محبوب الرحمٰن (جو حضرت مفتی صاحب کے استاذ ہیں) بھی مستند عالم تھے۔ نیز مفتی صاحب کے والد مولانا حمید اللہ اور تایا جان مولانا عبد الغفور صاحب اوران کے صاحب زادگان: مولانا حافظ محمد ایوب اور مولانا محمد جمیل جیّد علما تھے۔مولانا محمد جمیل کے صاحب زادے مولانا محمد اعظم مفتی صاحب کے شاگرد اور جید عالم ہیں۔  [1]

مفتیٔ اعظم پاکستان کے چچا مولانا عزیز الرحمٰن اور ان کے دو صاحب زادے: مولانا عبد الرحمٰن اور مولانا احمد الرحمٰن بھی عالم دین ہیں۔یوں ہی آپ کے دادا، والد، تایا ، چچا اوران کی اولاد سب علمائے دین ہیں۔

آپ نے نہ صرف یہ کہ علمی وروحانی خانوادہ میں آنکھ کھولی اور خود علمِ دین حاصل کیا، بلکہ آپ کی تحریک اور سرپرستی میں آپ کے خاندان کے بے شمار افراد علومِ دینیہ سے بہرہ ور ہوئے۔

ولادت

ترمیم

مفتی عبد القیوم ہزاروی 29 شعبان 1352بمطابق 1933ء کو موضع میراہ علاقہ اپر تناول، ضلع مانسہرا میں میں پیدا ہوئے۔ ان کا بچپن جڑانوالہ ضلع فیصل آباد میں ان کے والد مولانا حمید اللہ ہزاروی کے زیر سایہ گذرا۔ انہی سے قرآن پڑھنا سیکھا۔ اور چچا مولانا محبوب الرحمن سے ابتدائی کتب پڑھیں۔

نام و نسب

ترمیم

آپ کا نام عبد القیوم بن حمید اللہ بن گل احمد خان اور کنیت ابو سعید، جب کہ لقب مفتیٔ اعظم پاکستان ہے۔ آپ قادری مشرب سے تعلق رکھتے تھے اور مسلکاً حنفی تھے، لیکن اپنے علاقہ ہزارہ کی نسبت سے ہزاروی مشہور ہوئے [1]

حلیہ مبارک

ترمیم

مفتیٔ اعظم پاکستان کا رنگ گورا تھا، اعضا میں تناسب اور قد درمیانہ تھا۔ چونکہ کھانے پینے میں حد درجہ محتاط تھے؛ اس لیے آپ کا جسم متوازن تھا، نہ تو بالکل دبلے پتلے تھے اور نہ موٹاپے کا شکار تھے [1]

لباس

ترمیم

مفتی صاحب ﷬ سفید لباس کا اہتمام کرتے تھے، سفیدکرتہ، شلوار اور پاؤں میں بغیر تسمے کے بوٹ استعمال کرتے تھے، سر پر ٹوپی پہنتے، لیکن جب درسِ حدیث دیتے یا جامعہ سے باہرتشریف لے جاتے تو سفید دستار زیبِ سر فرماتے تھے۔ [1]

[2] ==== سلسلہ تعلیم

ترمیم

مفتی صاحب علیہ الرحمہ کو تین چار سال کی عمر میں آپ کے والد صاحب نے جڑانوالہ کے ایک پرائمری اسکول میں داخل کرایا۔پہلی اور دوسری جماعت پا س کرنے پر جڑانوالہ کے گاؤں مہارانوالہ کے پرائمری اسکول میں داخل ہو ئے؛کیونکہ وہاں آپ کے گاؤں کے ماسٹر ولی محمدصاحب پڑھاتے تھے اور والد صا حب کے عقیدت مند تھے، ان کے کہنے پرآپ کو یہاں داخل کرادیا گیا۔نیز بڑے بھائی محمد عبداﷲ بھی یہا ں داخل تھے؛ اس لیے اکٹھی آمدورفت کے خیال سے بھی والد صا حب نے یہاں گاؤں کے اسکول کو ترجیح دی[3]

دینی تعلیم کی ابتدا جیندھڑ شریف گجرات سے کی اور پھرانہوں نے دارالعلوم حزب الاحناف لاہور ،دار العلوم منظر الاسلام ہارون آباد ،مدرسہ احیائے علوم بوریوالہ جامعہ رضویہ مظہر الاسلام فیصل آباد سے مولانا محمد سردار احمد قادری سے تعلیم حاصل کی۔ 1955ء میں حزب الاحناف سے دستار فضیلت حاصل کی۔ مولانا محمد سردار احمد قادری ہی سے علم حدیث کا دورہ کیا۔

معلمین

ترمیم

آپ کے معلمین میں مولانا محمد سردار احمد قادری، سید انور شاہ، مفتی عبد اللہ اشرفی برکاتی اور مفتی غلام رسول رضوی کے نام سر فہرست ہیں۔

دستیاب معلومات کے مطابق آپ کا دینی سفر پانچ مدارس پر مشتمل ہے۔ ذیل میں مدارس کے ساتھ آپ کے اساتذہ کے اسما ذکر کیے جاتے ہیں : [4]

دار العلوم اویسیہ (مدرسہ سائیں گوہر علی)

٭ مولانا محبوب الرحمٰن (چچا محترم )  

٭ استاذ الاساتذہ مولانا محبّ النبی کیمبل پوری   

دار العلوم حزب الاحناف

٭ مفتی ٔاعظم پاکستان علامہ ابوالبرکات سید احمد اشرفی قادری

٭ شارحِ بخاری شیخ الحدیث علامہ سید محمود احمد رضوی

٭ یادگارِ اسلاف شیخ الحدیث مولانا مہر الدین جماعتی

٭ استاذ العلما علامہ حافظ محمد عالم محدثِ سیالکوٹی

٭ استاذ الاساتذہ شارحِ بخاری علامہ غلام رسول رضوی

٭ استاذ الاساتذہ علامہ سید محمد انور شاہ

دار العلوم جامعہ رضویہ منظرِ اسلام

٭ استاذ الاساتذہ شارحِ بخاری علامہ غلام رسول رضوی

مدرسہ احیاء العلوم

٭ استاذ الاساتذہ شارح بخاری علامہ غلام رسول رضوی

جامعہ رضویہ مظہر الاسلام

٭ محدثِ اعظم پاکستان مولانا ابو الفضل محمد سردار احمد قادری[4] رحمہم اللہ تعالی

[4] ==== بیعت

ترمیم

مولانامحمد سردار احمد قادری ہی آپ کے پیر و مُرشِد ہیں۔ آپ سلسلہ عالیہ قادریہ میں ان سے بیعت ہوئے۔

عملی زندگی

ترمیم

مفتی صاحب ﷬ نے اپنی عملی زندگی کا آغاز تدریس سے فرمایا۔ بعد ازاں امامت و خطابت، تنظیم المدارس کی نظامت وصدارت، جمعیت علماءِ پاکستان لاہور کی صدارت ، جمعیت علماءِ پاکستان کے شعبۂ نشر و اشاعت کی نظامت، پنجاب زکوٰۃ کونسل اور مرکزی زکوٰۃ کونسل کی رکنیت وغیرہ کی ذمہ داریاں نبھائیں۔

تدریسی زندگی

ترمیم
مفتی صاحب  نے سنہ 1955ء میں چھ ماہ کے لیے جامعہ حنفیہ، قصور میں تدریس کے فرائض سر انجام دیے۔ پھر مدرسہ غوثیہ رضویہ، پیر محل مدرس متعین ہوئے لیکن تدریس نہ فرماسکے اور جامعہ نظامیہ رضویہ ،لاہور تشریف لے آئے۔ اس کے بعد تادم ِواپسی جامعہ نظامیہ رضویہ، لاہور میں ہی تدریسی فرائض سر انجام دیتے رہے،  حتّٰی کہ حیاتِ ظاہری کے آخری دن میں آخری سبق شرح معانی الآثار (طحاوی شریف)  بھی جامعہ نظامیہ رضویہ میں پڑھایا۔

آپ نے1956ء سے 1974ء تک جملہ علوم و فنون کے اسباق پڑھائے، پھر 1975ء سے 2003ء تک تمام علوم وفنون کے ساتھ ساتھ دورۂ حدیث شریف کے طلبہ کو حدیث شریف خصوصًاجامع ترمذی شریف کا درس دیا۔ اس طرح آپ کی کل تدریسی زندگی انچاس سال (49) تقریباً نصف صدی پر محیط ہے، جن میں سے 29 سال آپ نے دورۂ حدیث شریف کے طلبہ کودرسِ حدیث شریف دیا.

مفتی اعظم پاکستان کا انداز تدریس

ترمیم

مفتی صاحب علیہ الرحمہ کا انداز ِ تدریس بے شمارخوبیوں کا حامل تھا، ذیل میں چند کا تذکرہ کیا جاتا ہے: 1. خود ہر سبق کا مطالعہ کرنا اورطلبہ کو تکرار اور مطالعہ کی باربارتاکید فرمانا ۔ 2. عبارت سننا ، صیغہ،ترکیب اور وجوہِ اعراب کے بارے سوال کرنا۔ 3. نہایت آسان اور سادہ انداز میں عبارت کا مفہوم بیان کرنا۔ 4. طلبہ سے سبق بیان کروانا۔ 5. ہر طالب علم کو سوال کرنے کی اجازت بھی دینا اور خود سوالات کرنے پر اُکسانا۔ 6. ہر فن کی ابتدائی کتاب کا متن زبانی یاد کروانا۔ 7. طلبہ کے درمیان ہونے والی علمی اَبحاث اور تکرار میں حصہ لینا۔ دوستانہ ماحول میں گفتگو فرمانا۔

خطابت کے فرائض

ترمیم

حضرت مفتی صاحب تدریس کے ساتھ ساتھ خطابت بھی فرماتے رہے۔ آپ نے پانچ مساجد میں تقریبًا 13سال خطابت کے فرائض سر انجام دیے۔ تفصیل درج ذیل ہے: ⇐ سمندری کی جامع مسجد میں خطابت:1955ء ( ایک ہفتہ، تقریبًا) ⇐ مسجد پیر گیلانیاں، اندرون موچی دروازہ، لاہور :1956ء تا1957ء یہاں رہائش رکھی ، پھر1957 تا 1958ء خطابت ⇐ جامع مسجد حنفیہ ، آخری بس سٹاپ ،کرشن نگر ،لاہور :ستمبر1958 تا 1962ء ⇐ جامع مسجد خراسیاں ، اندرون لوہاری دروازہ، لاہور :1962 تا 1969ء جامع مسجد دربارِ عالی حضرت پیر مکی صاحب :1969ء

بیعت و خلافت

ترمیم

حضرت مفتی صاحب 1953ء میں محدثِ اعظم پاکستان ابوا لفضل مولانا محمد سردار احمد چشتی قادری کے دستِ اقدس پر بیعت ہوئے۔مفتیٔ اعظم ہند مولانا شاہ مصطفیٰ رضا خان ﷬ سے آپ کو سندِ خلافت بھی حاصل تھی۔

عادات و خصائل

ترمیم

شیخ الحدیث مفتی محمد صدیق ہزاروی تحریر فرماتے ہیں: ’’حضرت مفتی صاحب رحمہ اللہ کی حیاتِ طیبہ اپنے دامن میں اس قدر موتی و جواہرات لیے ہوئے ہے کہ ان کا چننا کارے دارد! آپ نماز کے پابند، مفتی عالمِ دین تھے، دولت کی محبت سے کوسوں دُور،کرّوفرّ اور حاشیہ نشینوں کی فوج ظفر موج سے اجتناب کی راہ اختیار کرتے، عیش و عشرت اور آرام و سکون کو قریب نہ پھٹکنے دیا، خدمات انجام دینے والوں کے قدر دان تھے، اپنے تلامذہ پر نہایت مہربان، شفیق اور مربّی تھے، اکابر کی عزت و احترام کو لازمی سمجھتے تھے، ملتِ اسلامیہ کے انتشار و افتراق پر پریشان اوراتحاد کے لیے کوشاں رہتے تھے، اپنی ذات کی خدمت کی بجائے دین کی خدمت کا درس دیتے تھے، سادہ لباس، سادہ غذا اور زندگی برائے بندگی کے قائل تھے اور اس پر عمل پیرا بھی۔‘‘ قاضی مصطفیٰ کامل تحریر فرماتے ہیں: ’’مفتی محمد عبد القیوم ہزاروی نہایت متین اور سنجیدہ مزاج کے حامل تھے، نوجوان ہونے کے باوجود ان کے چہرے سے ایک علمی وقار ٹپکتا تھا، شروع سے آخر تک ان کا مزاج سادہ رہا، وہ کم بولتے اور سوچ سمجھ کر بولتے۔ ان کی گفتگو میں وزن ہوتا لیکن ان کی سادگی اور بڑائی کی یہ شان تھی کہ وہ مجلس میں اپنی بات کو زبردستی ٹھونستے نہیں تھے، بلکہ زور دے کر کہہ دیتے کہ یہ صرف میری رائے ہے باقی احباب کی رائے بھی سامنے آ نی چاہیے۔مفتی صاحب نے کبھی خود کونمایاں کرنے کی کوشش نہیں کی، انھوں نے جلسوں میں تقریریں کرنے اور اسٹیج پر کرّوفرّ سے بیٹھنے سے بھی پرہیز کیا، وہ جلسوں میں جانے کی بہت کم ہامی بھرتے۔ انھوں نے اخبارات میں اپنے بیان شائع کرانے کا شوق بھی نہیں پالا تھا، دینی علوم کی تدریس ان کی پسندیدہ فیلڈ تھی وہ زیادہ سے زیادہ وقت مدرسے کو دیتے۔‘‘

حضرت مفتیٔ اعظم پاکستان کے مختلف مناصب

ترمیم

مفتیٔ اعظم پاکستان علامہ محمد عبد القیوم ہزاروی علیہ الرحمہ جامعہ نظامیہ رضویہ کے مہتمم ہونے کے علاوہ درج ذیل مناصب پر فائز رہے: 1۔ ناظمِ اعلیٰ تنظیم المدارس اہلِ سنت پاکستان 2۔ صدر تنظیم المدارس اہلِ سنت پاکستان() 3۔ صدر جمعیتِ علما ءِپاکستان، لاہور 4۔ مرکزی ناظمِ نشر و اشاعت جمعیت علماء ءِ پاکستان، ضلع لاہور 5۔ مرکزی خازن جمعیت علماء ءِ پاکستان 6۔ چیئرمین سپریم کونسل آف جماعتِ اہلِ سنت 7۔ ممبر صوبائی زکوٰۃ کمیٹی برائے دینی مدارس 8۔ ممبر مرکزی زکوٰۃ کونسل 9۔ ممبر صوبائی زکوٰۃ کونسل 10۔ ممبر مرکزی رؤیتِ ہلال کمیٹی 11۔ ممبر مرکزی سیرت کمیٹی 12۔ ممبر ایڈوائزری کونسل آف وزارتِ داخلہ

حج و عمرہ اور تبلیغی دورے

ترمیم

مفتی صاحب علیہ الرحمہ نے ایک حج اور ایک عمرہ کرنے کی سعادت حاصل کی۔ آپ 1988ء میں برطانیہ تشریف لے گئے ،وہاں سے حج کے لیے روانہ ہوئے اور حج کی سعادت حاصل کی۔ 1996ء میں آپ پھر برطانیہ تشریف لے گئے اور وہاں سے آگے عمرہ کی سعادت حاصل کر کے واپس پاکستان تشریف لائے۔ علاوہ ازیں 1998ء میں لیبیا کے صدر کرنل معمر قذافی کی دعوت پر محفلِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم میں شرکت کے لیے تشریف لے گئے اور وہ بھی چند روزہ دورہ تھا، جو طلبہ کے اسباق میں رکاوٹ نہ بنا ۔


تصانیف

ترمیم

مفتی صاحب علیہ الرحمہ نے تدریسی و تنظیمی مصروفیات کی وجہ سے خود تو کثیر تعداد میں کتب تصنیف نہ فرمائیں،البتہ آپ نے سینکڑوں مصنفین ضرور پیدا کیے۔ جب آپ سے ملک محبوب الرسول قادری صاحب نے انٹرویو لیتے ہوئے سوال کیا:تصنیف و تالیف کے حوالے سے آپ کی خدمات؟ تو مفتی صاحب نے جواب دیا: ’’کیا خدمات ہیں میری؟ اللہ تعالیٰ اِسی تدریس اور جامعہ کے کام میں برکت دے اور میرے لیے یہ کافی ہے۔ مَیں تو بس شب وروز اسی میں مصروف رہتا ہوں ۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ کام جو کر رہا ہوں یہ کس نے کیا؟ جامعہ نظامیہ ہے ،تنظیم المدارس ہے اور پھر فتاوٰی رضویہ کا کام ہے۔ میری زندگی کے لیے تو فتاوٰی رضویہ کا کام ہی کافی ہے۔ تصنیف و تالیف کے سلسلہ میں میرا شوق ہے کہ اپنے ساتھیوں کوآگے لاؤں،میری کئی کتب میرے ساتھیوں کے نام پر چھپی ہیں۔‘‘

     مفتی صاحب علیہ الرحمہ نے درج ذیل کتب تصنیف فرمائی ہیں:

1۔ التوسل (عربی) 2۔ تاریخ ِ نجد و حجاز 3۔ مقالاتِ مفتیٔ اعظم 4۔ امام اعظم کے اجتہادی قواعد و اصول 5۔ العقائد والمسائل (عربی)

فتاوی جات

ترمیم

مفتی صاحب کے فتاوٰی تحقیق پر مبنی ہوتے تھے ،نہ تو اسلاف کی راہ کو دقیانوسی قرار دے کر جدت کا شکار ہوتے اور نہ لکیر کے فقیر والی صورت اختیار کرتے۔ اسلاف کی سوچ اور فکر کے امین تھے اور حالات حاضرہ پر گہری نظر رکھتے تھے۔آپ کے فتاوٰی نے کئی مسائل میں عدالتوں کی رہنمائی کی اور اہلِ اسلام کو ان فتاوٰی سے اجتماعی فائدہ ہوا

تنظیم

ترمیم

تنظیم المدارس اہل سنت پاکستان (بورڈ)، رَضا فاؤنڈیشن، کے بانی تھے۔ اور جماعت اہل سنت کی سپریم کونسل، رویت ہلال کمیٹی اور زکوٰۃ کمیٹی کے ارکان رہے۔ تنظیم المدارس (اہل سنت) پاکستان کے بلامقابلہ ناظم منتخب ہوئے اور تاحیات اس عہدہ پر فائز رہے۔ فتاویٰ رضویہ کا اردو ترجمہ کروانا اور طبع کروانا آپ کا عظیم کارنامہ ہے۔

برادران ذی وقار

ترمیم

والدِمفتیٔ اعظم پاکستان کو پانچ بیٹے اور دو بیٹیاں عطا ہوئیں، صاحب زادگان کے اسماء بالترتیب یوں ہیں: جناب عبد اللہ خان ، مفتی محمد عبد القیوم، جناب عبد القدوس، جناب محمد امین علیہم الرحمہ اور محترم المقام حافظ محمد عبد الرحیم صاحب مدظلہٗ

ازدواجی زندگی

ترمیم

1953ءمیں جب کہ مفتی صاحب بورے والا میں تحصیلِ علم فرما رہے تھے ،اُس دوران آپ کی شادی خانہ آبادی ہوئی ۔ آپ نے تحریر فرمایا:’’عید الاضحیٰ کی تعطیلات پر جب میں گھر پہنچا تو والدِ گرامی نے فرمایا کہ تمھاری شادی ہے۔چنانچہ عید کے بعد والدہ صاحبہ کے ہمراہ مجھے وطن (ہزارہ )بھیج دیا گیا؛ تاکہ برادری کے پروگرام کے مطابق شادی کا دن مقرر کرکے نکاح کی تقریب انعقاد پزیر ہو، میری نسبت ماموں کی لڑکی سے تھی ،شادی کا دن مقرر ہو ا، برادری نے برات کا انتظام اور دیگر رسم ورواج کو پورا کیا،ہم دلہن لے کر واپس جڑانوالہ چک نمبر 122گ۔ب۔ پہنچے۔شادی کے تیسرے روز والدِ گرامی نے علیحدگی میں فرمایا کہ میں واپس بورے والا جاؤں اور اپنی تعلیم پر توجّہ دوں۔شادی تو ایک رسم تھی، سو پوری ہو گئی، یوں تین دن بعد میں واپس بورے والا پہنچ گیا ۔‘

نسبی و روحانی اولاد

ترمیم
مفتی صاحب علیہ الرحمہ کو اللہ تعالیٰ نے چار بیٹوں اور چار بیٹیوں سے نوازا۔ صاحب زادوں کے نام بالترتیب درج ذیل ہیں:

1۔ محترم صاحب زادہ محمد سعید احمد 2۔ جانشینِ مفتیٔ اعظم پاکستان مولانا عبد المصطفیٰ ہزاروی، ناظمِ اعلیٰ جامعہ نظامیہ رضویہ وتنظیم المدارس اہلِ سنت پاکستان 3۔ صاحب زادہ مولانا نصیر احمد ،ناظمِ اعلیٰ مدرسہ نورشاہدرہ ،لاہور 4۔ صاحب زادہ مولانا عبدالمرتضیٰ ہزاروی، ناظم تعلیمات جامعہ نظامیہ رضویہ، شیخوپورہ

مفتی صاحب کی روحانی و معنوی اولاد کی تعداد ہزاروں تک جا پہنچی ہے، تاہم یہاں چند ارشد تلامذہ کے اسمائے گرامی سنین ِفراغت/ سنینِ استفادہ کی ترتیب سے درج کیے جاتے ہیں جو اپنی دینی، علمی، تحقیقی،تصنیفی و تدریسی خدمات کے باعث بین الاقوامی شہرت کے حامل ہیں:

⇐ استاذ العلما علامہ محمد طفیل ﷬ ، بانی شمس العلوم جامعہ رضویہ، کراچی، سالِ استفادہ: 1955ء ⇐ شرفِ ملّت شیخ الحدیث مولانا عبد الحکیم شرف قادری رحمہ اللہ ،سابق شیخ الحدیث جامعہ نظامیہ رضویہ، لاہور، سالِ استفادہ: 1957ء ⇐ شیخ الحدیث علامہ مفتی محمد فضلِ سبحان قادری، شیخ الحدیث و بانی و سر پرست امّ المدارس جامعہ قادریہ، مردان، سالِ استفادہ: 1958ء ⇐ استاذ الاساتذہ شیخ الحدیث مفتی گل احمد خان عتیقی ،شیخ الحدیث جامعہ ہجویریہ داتا دربار،لاہور، سالِ استفادہ:1962ء ⇐ استاذ الاساتذہ مفتی محمد ہدایت اللہ پسروری رحمہ اللہ،سالِ استفادہ:1963ء ⇐ مفتیٔ اعظم پاکستان پروفیسر مفتی منیب الرحمٰن ، صدر تنظیم المدارس اہلِ سنت پاکستان و سابق چیئر مین رؤیت ہلال کمیٹی پاکستان، سالِ استفادہ: 1962ء ⇐ محبوب العلماءوالطلبا مولاناغلام فرید ہزاروی ،ناظمِ امور تعلقات عامہ جامعہ نظامیہ رضویہ، لاہور:1964 ⇐ مولانا سید خورشید شاہ بخاری،گوجرانوالہ، سالِ استفادہ: 1964ء ⇐ مناظرِ اسلام علامہ محمد عبد التواب صدیقی رحمہ اللہ،سابق شیخ الحدیث جامعہ نظامیہ رضویہ، لاہور: 1968ء ⇐ محققِ اہلِ سنت شیخ الحدیث مفتی محمد صدیق ہزاروی ،شیخ الحدیث جامعہ ہجویریہ داتا دربار،لاہور:1975ء ⇐ شیخ الحدیث حافظِ ملت حافظ محمد عبد الستار سعیدی، ناظمِ تعلیمات وشیخ الحدیث جامعہ نظامیہ رضویہ، لا ہور:1975ء ⇐ استاذ الاساتذہ علامہ سید غلام مصطفیٰ عقیل بخاری ﷬،مہتمم جامعہ مدینۃ العلم، لاہوروسابق مدرس جامعہ نظامیہ رضویہ، لاہور:1975ء ⇐ مولانا محمد احسان اللہ ہزاروی:1975ء ⇐ مولانا صاحب زادہ غلام فرید توگیروی علیہ الرحمہ ، چشتیاں شریف:1976ء ⇐ مولانا ابو المدثر محمد علی حیدری رحمہ اللہ،حافظ آباد: 1977ء ⇐ شیخ الحدیث علامہ مفتی ابو الحماد ظہور احمد جلالی ، مہتمم دار العلوم محمدیہ اہل سنت ، مانگا منڈی:1976ء ⇐ استاذ العلما علامہ مفتی یار محمد خان قادری، سالِ استفادہ:1978ء ⇐ محقق العصرابو عثمان مفتی محمد خان قادری، سا بق مہتمم جامعہ اسلامیہ، لاہور: 1979ء ⇐ مولاناقاضی محمد وہاج فیض النصیر،مہتمم جامعہ نوریہ فیض العلوم ، وہاڑی : 1980ء ⇐ مولانا قاضی محمد عبدالوحید،مانسہرہ: 1981ء ⇐ مولانامفتی رسول بخش سعیدی،برمنگھم، انگلینڈ: 1982ء ⇐ مولانا خالد حسین نوشاہی ، انگلینڈ: 1982ء ⇐ مولانا محمد اعظم نورانی علیہ الرحمہ ،لاہور: 1984ء ⇐ علامہ محمد بخش کرمی، ناظمِ اعلیٰ مدرسہ نعیمیہ نور القرآن ، مصری شاہ ، لاہور : 1984ء ⇐ استاذ الاساتذہ علامہ غلام نصیر الدین چشتی گولڑوی ،شیخ الحدیث دار العلوم جامعہ نعیمیہ گڑھی شاہو، لاہور: 1986ء ⇐ علامہ مولانا مفتی شیخ فرید ، سابق مفتی محکمہ افتا ،آزاد کشمیر: 1986ء ⇐ استاذ العلمامولانا محمد فاروق سعیدی علیہ الرحمہ ، مانسہرہ: 1986ء ⇐ مولانا پیر محمد اقبال خان ہمدمی علیہ الرحمہ، چھانگا مانگا:1986ء ⇐ شیخ الحدیث مولانا محمد عمر حلیمی سیفی ﷬، دار العلوم حنفیہ، اوستہ محمد، بلوچستان:1987ء ⇐ علامہ مفتی لیاقت علی معصومی،شیخ الحدیث جامعہ غوثیہ رضویہ ، لاہور: 1988ء ⇐ امیر المجاہدین شیخ الحدیث علامہ حافظ خادم حسین رضوی ﷬،سابق شیخ الحدیث جامعہ نظامیہ رضویہ ،لاہور 1988ء ⇐ استاذ الاساتذہ ڈاکٹر فضلِ حنان سعیدی،شیخ الحدیث جامعہ نظامیہ رضویہ، لاہور ومرکزی صدر مجلسِ علماِ نظامیہ پاکستان:1988ء ⇐ جانشینِ شرفِ ملّت مولانا ڈاکٹر ممتاز احمد سدیدی ، ڈین فیکلٹی آف لینگویجز سٹڈیز، دار المدینہ انٹرنیشنل یونیورسٹی،اسلام آباد:1988ء ⇐ فاضلِ جلیل حافظ وقاری مولانا محمد جمشید احمد سعیدی ، خطیب الفورڈاسلامک سنٹر، لندن و سرپرستِ اعلیٰ مجلسِ علماِ نظامیہ برطانیہ:1990ء ⇐ علامہ سردار احمد حسن سعیدی ،جامعہ رضویہ ضیاء العلوم، راولپنڈی: 1990ء ⇐ مولا نا ڈاکٹر محمد اشفاق جلالی، اسسٹنٹ پروفیسر گورنمنٹ ڈگری کالج، سرائے عالم گیر:1991 ⇐ مولاناڈاکٹر محمد اکرم وِرک، پروفیسر شعبہ اسلامیات گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج، گوجرانوالہ : 1991ء ⇐ مولانا محمد یٰسین شطاری، مہتمم مدرسہ اسلامیہ ، کامونکی: 1992ء ⇐ مولانا مفتی رب نواز سعیدی ، سابق مدرس جامعہ رضویہ ، لاہور :1992ء ⇐ مولانا مفتی محمد اشرف بندیالوی علیہ الرحمہ، جامعہ رسولیہ شیرازیہ ، لاہور: 1992ء ⇐ زینت القرا قاری ذو الفقار احمد برسالوی، سابق مدرس جامعہ نظامیہ، لاہور:1992ء ⇐ استاذ العلمامولانا محمد فاروق بندیالوی ، مدرسہ اسلامیہ سرائے عالم گیر :1992ء ⇐ مولانا سید محمد اسد اللہ اسد ، ناظمِ اعلیٰ جامعہ مدینۃ العلم ،رحیم یار خان: 1993ء ⇐ مولانا قاری ڈاکٹر فیاض الحسن جمیل الازھری،سابق مدرس جامعہ نظا میہ رضویہ ، شیخو پورہ:1993ء ⇐ استاذ العلما مولانا محبوب احمد چشتی ،شیخ الحدیث دار العلوم جامعہ نعیمیہ گڑھی شاہو، لاہور:1993ء ⇐ علامہ مولانا محفوظ علی ، ہالینڈ: 1993ء ⇐ استاذ العلمامولانا محمد نصراللہ جان ہزاروی، ناظمِ اعلیٰ مدرسہ اسلامیہ رحمانیہ، اوگی، مانسہرہ، وسابق مدرس جامعہ نظامیہ رضویہ، لاہور:1994ء ⇐ مولانا پیر رحیم اللہ اسعد القادری، دربار تکیہ شریف، مظفر آباد :1994ء ⇐ مولانا قاری اکبر علی علیہ الرحمہ ، سابق امام جامع مسجد یارسول اللہ ، لاہور: 1994ء ⇐ مولانا غلام مصطفیٰ نظامی، کوٹ رادھا کشن ،قصور:1994ء ⇐ استاذ العلما مولانا محمدظہیر بٹ فریدی ،شیخ الحدیث جامعہ نظامیہ رضویہ، لاہور:1995ء ⇐ شیخ حازم بن محمد بن احمدالمصری، سالِ استفادہ: 1995ء ⇐ پروفیسر عون محمد سعیدی،ناظمِ اعلیٰ جامعہ نظام مصطفیٰ ،بہاولپور: 1995ء ⇐ علامہ پروفیسر شبیر حسین نقوی ، مظفر آباد:1995ء ⇐ مولانا محمد اکرام اللہ بٹ، چیف لائبریرین جامعہ نظامیہ رضویہ، لاہور:1995 ء ⇐ مولانامفتی محمد تنویر القادری،انچار چ دارالافتا جامعہ نظامیہ رضویہ ،لاہور: 1996ء ⇐ مولانا قاضی عا بد الدائم دائم ،خانقاہ شریف عید گاہ ،ہری پور : 1996ء ⇐ استاذ العلما مولانا محمد سعید تونسوی،ناظمِ اعلیٰ جامعہ نظامیہ انوار مصطفیٰ، لاہور:1996ء ⇐ جانشینِ مفتیٔ اعظم پاکستان مولانا محمد عبدالمصطفیٰ ہزاروی، ناظمِ اعلیٰ جامعہ نظامیہ رضویہ وتنظیم المدارس اہلِ سنت پاکستان:1997ء ⇐ صاحب زادہ مولانا محمد انوار الرسول مرتضائی، سینئر نائب صدر مجلس علماِ نظامیہ پاکستان و ڈائریکٹر اقراء مدینۃ الاطفال الجدیدۃ الاسلامیہ:1997ء ⇐ ڈاکٹر مفتی محمد اسلم رضامیمن تحسینی، مفتیٔ احناف ابو ظہبی، یو۔ اے۔ ای: 1997ء ⇐ مولانا تاج محمد نقشبندی،خطیب جامع مسجد محمدیہ رضویہ گلشن راوی ، لاہور: 1997ء ⇐ استاذ العلما مولانا محمد ضیاء الحق ہزاروی،جامعہ اسلامیہ ،مانسہرہ:1997ء ⇐ مولانا سید تنویر الحسن شاہ،جامع مسجد سیدنا صدیق اکبر ،گلشن راوی لاہور:1997ء ⇐ استاذ العلما مولانا عارف نورانی،صوبائی صدر مجلس علماِ نظامیہ، بلوچستان:1997ء ⇐ شیخ الحدیث علامہ ابو الحسان محمد طاہر تبسم قادری ،سابق سینئر مدرس جامعہ نظامیہ رضویہ، لاہور و چیئرمین نیشنل علما کونسل پاکستان:1998ء ⇐ استاذ العلما مولانا خلیل احمد مرتضائی، سجادہ نشین آستانہ عالیہ مرتضائیہ قلعہ شریف و مہتمم جامعہ مرتضائیہ قلعہ شریف:1998ء ⇐ مولانا مفتی محمد شفیق الرحمٰن ،میاں چنوں ،خانیوال:1998ء ⇐ مولاناڈاکٹر محمد اکرم نظامی،ڈیفنس ہاؤسنگ سوسائٹی،لاہور:1998ء ⇐ استاذ العلما مفتی خلیل احمد قادری،شیخ الحدیث جامعہ ہجویریہ داتا دربار، لاہور:1999ء ⇐ مولانا سید تصدق حسین شاہ، مدرس جامعہ نظامیہ رضویہ، شیخوپورہ:1999ء ⇐ استاذ العلمامولانا غلام عباس فیضی ،مہتمم جامعہ فاروقیہ ،جوہر ٹاؤن، لاہور:1999ء ⇐ پیرِ طریقت مولانا میاں صغیر احمد نقشبندی،کوٹلہ شریف:1999ء ⇐ مولانامفتی فیاض احمد سعیدی،جامعہ سراج الحرمین ،اچھرہ ،لاہور:2000ء ⇐ ممتاز مذہبی سکالر علامہ لیاقت حسین ازہری، کراچی : ⇐ ممتاز مذہبی اسکالرعلامہ مفتی محمد اکمل قادری مدنی،کراچی:2000ء ⇐ علامہ مفتی محمد قاسم عطاری ، شیخ الحدیث والتفسیر و رئیس دارالافتاء اہلِ سنت، کراچی: 2000ء ⇐ استاذ العلما مولانا دل محمد چشتی ،شیخ الحدیث جامعہ نظامیہ رضویہ، لاہور:2001ء ⇐ استاذ العلما قاری احمد رضا سیالوی، نائب ناظمِ تعلیمات جامعہ نظامیہ رضویہ:2001ء ⇐ استاذ العلما مولانا محمد واحد بخش سعیدی، سینئر مدرس جامعہ نظامیہ رضویہ، لاہور:2001ء ⇐ استاذ العلمامفتی محمد جنید قادری، سینئر مدرس جامعہ نظامیہ رضویہ، شیخوپورہ:2001ء ⇐ شاعرِ نظامیہ مولانا محمد ثاقب افضل رضوی ، لاہور :2001ء ⇐ استاذ العلمامولانا محمد انور، مدرس جامعہ ہجویریہ داتا دربار، لاہور:2001ء ⇐ استاذ العلما سید غلام مصطفیٰ ریاض البخاری،مدرس جامعہ نظامیہ رضویہ، شیخوپورہ:2002ء ⇐ استاذ العلما مولاناسید عاصم شہزاد،مدرس جامعہ نظامیہ رضویہ، شیخوپورہ:2002ء ⇐ صاحب زادہ مولانا نصیر احمد ہزاروی ،ناظمِ اعلیٰ مدرسہ نورشاہدرہ ،لاہورو ڈائریکٹر رضافاؤنڈیشن پاکستان:2002ء ⇐ استاذ العلمامولانا مدد علی قادری، مدرس جامعہ نظامیہ رضویہ، لاہور:2002ء ⇐ استاذ العلمامولانامحمدریاض اویسی،سینئر مدرس جامعہ نظامیہ رضویہ، لاہور:2002 ⇐ استاذ العلمامفتی محمد عمران حنفی،دارالافتاء جامعہ نعیمیہ گڑھی شاہو، لاہور:2002ء ⇐ استاذ العلما مولانا محمد عمران الحسن فاروقی، مدرس جامعہ نظامیہ رضویہ، لاہور:2003ء ⇐ خطیب شہیرمولانامحمدنواز بشیر جلالی،لاہور:2003ء ⇐ مولانا مفتی محمد تصدق حسین نقشبندی ،المرکز الاسلامی ، لاہور:2003 ء ⇐ استاذ العلمامولانا غلام رسول نقشبندی، لاہور :2003ء ⇐ استاذالعلماصاحب زادہ مولانا غلام مرتضیٰ ہزاروی ، جامعہ نظامیہ رضویہ، شیخوپورہ:2004ء ⇐ مولانا مفتی محمد رمضان سیالوی ، خطیب جامع مسجد داتا دربار، لاہور:2004ء ⇐ مولانا قاری مفتی عبد اللطیف چشتی،بیلجیم:2004ء ⇐ مولانا محمد فیصل عباس جماعتی،نائب خطیب داتا دربار ،لاہور:2004ء ⇐ استاذ العلما مولانا محمد فاروق شریف رضوی ،مدرس جا معہ نظامیہ رضویہ، لاہور:2006ء


حیات ِ مستعار کا آخری دن اور وفات

ترمیم

مفتیٔ اعظم پاکستان علیہ الرحمہ حسبِ معمول 26 اگست 2003ء بروز منگل کو جامعہ نظامیہ رضویہ ، لوہاری دروازہ تشریف لے گئے۔اپنے حصے کے اسباق پڑھائے۔ نمازِ ظہر پڑھی اوراس کے بعد جامعہ کے ناظمِ امورِ تعلقاتِ عامہ مولانا غلام فرید ہزاروی صاحب کو فرمانے لگے :میں جامعہ نظامیہ رضویہ، شیخوپورہ جانا چاہتا ہوں۔ انھوں نے کہا : آپ کے صاحب زادے حافظ نصیر احمد موجود ہیں، مَیں انھیں کہتا ہوں کہ گھر سے گاڑی لے آئیں۔ فرمایا:ایک آدمی کے لیے گاڑی لے کر جانا مناسب نہیں ہے، ہاں!حافظ نصیر احمد کو کہیں کہ وہ مجھے بتّی چوک تک چھوڑ آئے۔ اندازہ فرمائیں کہ انھیں ادارے کی کفایت شعاری کا کتنا خیال تھا ؟ ستر سال کی عمر، ٹانگوں میں کسی کسی وقت کھچاؤ کی کیفیت، ایسے حالات میں آدمی آرام کا طلب گار ہو ہی جاتا ہے، لیکن مفتی صاحب آرام سے کوسوں دُور تھے ۔ آپ ویگن پر سوار ہو کر تنہا شیخوپورہ گئے۔ سرگودھا روڈ پر واقع جامعہ نظامیہ رضویہ میں جلوہ گر ہوئے۔ اساتذہ سے ملے۔کچھ ہدایات دیں۔ پھر پورے مدرسے کا چکر لگایا اور عصر کے قریب وہاں سے واپس ہوئے تو اپنے صاحب زادے مولانا محمد عبدالمصطفیٰ ہزاروی کو ساتھ لیتے آئے۔ جب راوی کے بتی چوک پر اترے تو صاحب زادہ مولانا عبدالمصطفیٰ صاحب کو کہا کہ :میرے سینے میں بائیں طرف درد ہو رہی ہے، میں گھر جاتا ہوں، تم راستے سے لیموں لیتے آنا۔ گھر پہنچ کر مغرب کی نماز پڑھائی، اس کے بعد قہوہ منگوایا، قہوے میں لیموں نچوڑا... خیال تھا کہ گیس کا عارضہ ہے، قہوہ پینے سے طبیعت ٹھیک ہو جائے گی... لیموں نچوڑتے ہی چارپائی پر لیٹ گئے، آپ کی بہو نے کہا: لیموں اور نچوڑوں؟ مفتی صاحب علیہ الرحمہ نے فرمایا: بس جتنا نچوڑنا تھا ،نچوڑ لیا۔ اس کے ساتھ ہی اللہ کا نام لیا اور دنیا سے رخصت ہو گئے

نماز جنازہ و تدفین

ترمیم

مفتیٔ اعظم پاکستان مؤرخہ 27 جمادی الاخرٰی 1424 ھ /26 اگست2003ء بروز منگل کو بعد از نماز مغرب خالقِ حقیقی کو جا ملے۔ اگلے دن بروز بدھ 2 بجے دوپہر عتیق اسٹیڈیم، نزد بادشاہی مسجد،لاہور میں پچاس ہزار سے زائد علما و مشایخِ پاکستان کے علاوہ ہزاروں لوگوں نے قائدِ اہلِ سنت مولانا شاہ احمد نورانی صدیقی علیہ الرحمہ کی اقتدا میں نمازِ جنازہ پڑھنے کی سعادت حاصل کی۔ جب مفتی صاحب کا جنازہ لے کرروانہ ہوئے تو ہلکی ہلکی بوندا باندی ہو رہی تھی اور یہ سلسلہ بُڈھے دریا تک جاری رہا۔گویا یہ ربِّ کریم کی طرف سے اُس شخصیت کے لیے ابتدائی انعام تھا ،جس نے تمام زندگی قال اللہ و قال الرسولﷺ کے لیے وقف کر رکھی تھی۔ عتیق اسٹیڈیم میں نمازجنازہ کے بعد جامعہ نظامیہ رضویہ ،شیخوپورہ جنازہ لے جایا گیااور پھر پانچ بجے جامعہ نظامیہ رضویہ، شیخوپورہ میں ہزارہا لوگوں نے استاذ العلما سید حسین الدین شاہ صاحب کی اقتدا میں نماز جنازہ ادا کی اوربعد نماز عصر آپ کو جامع مسجد رضا کے جنوبی مینار کے زیرِ سایہ مزار اقدس میں اتاردیا گیا۔

بیرونی روابط

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. ^ ا ب پ ت ٹ شیخ الحدیث مفتی محمد صدیق ہزاروی (2003)۔ سیدی مفتی اعظم۔ لاہور: مکتبہ اہلسنت، جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور۔ ص 3–9
  2. پروفیسر عطاء الرحمن رضوی (2018)۔ "مفتی اعظم پاکستان... یادوں کے نقوش"۔ مجلہ النظامیہ۔ جلد 19 شمارہ 8: 117،118
  3. صاحبزادہ غلام مرتضیٰ ہزاروی۔ مفتی اعظم پاکستان کے حالات اور علمی کارنامے۔ ص 8
  4. ^ ا ب پ "مجلہ النظامیہ"۔ مجلہ النظامیہ۔ اگست، ستمبر 2021 {{حوالہ رسالہ}}: تحقق من التاريخ في: |سال= (معاونت)