موسی بن جعفر
موسیٰ الکاظم، حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے فرزند اور اہل تشیع کے ساتویں امام تھے۔ اسم مبارک موسیٰ , کنیت ابو الحسن اور لقب کاظم تھا اور اسی لیے امام موسیٰ کاظم کے نام سے یاد کیے جاتے ہیں۔ آپ کے والد بزرگوار امام جعفر صادق تھے جن کاخاندانی سلسلہ امام حسین شہید کربلا کے واسطہ سے پیغمبر اسلام محمد تک پہنچتا ہے۔ آپ کی والدہ ماجدہ حمیدہ خاتون ملک بر بر کی باشندہ تھیں۔
موسی بن جعفر | |
---|---|
(عربی میں: موسى بن جعفر الكاظم) | |
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 8 نومبر 745ء ابواء |
وفات | 30 اگست 799ء (54 سال)[1] کاظمیہ |
وجہ وفات | زہر |
مدفن | مسجد کاظمیہ |
طرز وفات | قتل |
شہریت | دولت عباسیہ |
زوجہ | نجمہ |
اولاد | علی رضا [2]، زید النار ، احمد بن موسی کاظم ، محمد بن موسی کاظم ، قاسم بن موسی کاظم ، ابراہیم بن موسی کاظم ، حسین بن موسیٰ ، حکیمہ بنت موسی کاظم ، فاطمہ معصومہ ، آمنہ بنت موسی کاظم |
والد | جعفر الصادق [3] |
والدہ | حمیدہ بربریہ |
بہن/بھائی | |
عملی زندگی | |
استاذ | جعفر الصادق |
تلمیذ خاص | علی رضا ، فاطمہ معصومہ |
پیشہ | الٰہیات دان ، امام |
شعبۂ عمل | اسلامی الٰہیات |
درستی - ترمیم |
ولادت
ترمیمسات صفر 128ھ میں آپ کی ولادت ہوئی . اس وقت آپ والد بزرگوار امام جعفر صادق مسند امامت پرمتمکن تھے اور آپ کے فیوض علمی کا دھارا پوری طاقت کے ساتھ بہہ رہا تھا۔اگرچہ امام موسیٰ کاظم سے پہلے آپ کے دو بڑے بھائی اسماعیل اور عبد الله پید اہوچکے تھے مگر اس صاحبزادے کی ولادت سے روحانی امانت (جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد اس سلسلہ کے افراد میں ایک دوسرے کے بعد چلی آ رہی تھی) کا لائق اور حامل یہی پیدا ہونے والا مبارک بچہ تھا۔
نشو و نما اور تربیت
ترمیمآپ کی عمرکے بیس برس اپنے والد بزرگوار امام جعفر صادق کے سایہ تربیت میں گذرے۔ ایک طرف خدا کے دیے ہوئے فطری کمال کے جوہر اور دوسری طرف اس باپ کی تربیت جس نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بتائے ہوئے مکارم اخلاق کی بھولی ہوئی یاد کو ایسا تازہ کر دیا کہ انھیں ایک طرح سے اپنا بنا لیا اور جس کی بنا پر ملت جعفریہ نام ہو گیا۔ امام موسیٰ کاظم نے بچپن اور جوانی کا کافی حصہ اسی مقدس آغوش تعلیم میں گزارا۔ یہاں تک کہ تمام دنیا کے سامنے آپ کے کمالات و فضائل روشن ہو گئے اور امام جعفر صادق نے اپنا جانشین مقرر فرمادیا . باوجود کہ آپ کے بڑے بھائی بھی موجود تھے مگر خدا کی طرف کامنصب میراث کا ترکہ نہیں ہے بلکہ ذاتی کمال کو ڈھونڈھتا ہے۔ سلسلہ معصومین علیہم السلام میں امام حسن مجتبی کے بعد بجائے ان کی اولاد کے امام حسین بن علی کا امام ہونا اور اولاد امام جعفر صادق میں بجائے فرزند اکبر کے امام موسیٰ کاظم کی طرف امامت کا منتقل ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ معیار امامت میں نسبتی وراثت کو مدِنظر نہیں رکھا گیا ہے۔
امامت
ترمیم148ھ امام جعفر صادق کی شہادت ہوئی , اس وقت سے امام موسیٰ کاظم بذاتِ خود فرائض امامت کے ذمہ دار ہوئے۔ اس وقت سلطنت عباسیہ کے تخت پر منصور دوانقی بادشاہ تھا۔ یہ وہی ظالم بادشاہ تھا جس کے ہاتھوں لاتعداد سادات مظالم کا نشانہ بن چکے تھے تلوار کے گھاٹ اتار دیے گئے۔ دیواروں میں چنوا دیے گئے یا قید رکھے گئے تھے۔ خود امام جعفر صادق کے خلاف طرح طرح کی سازشیں کی جاچکی تھیں اور مختلف صورت سے تکلیفیں پہنچائی گئی تھیں یہاں تک کہ منصور ہی کا بھیجا ہوا زہر تھا جس سے اب آپ دنیا سے رخصت ہو رہے تھے۔ ان حالات میں آپ کو اپنے جانشین کے متعلق یہ قطعی اندیشہ تھاکہ حکومتِ وقت اسے زندہ نہ رہنے دے گی اس لیے آپ نے ایک اخلاقی بوجھ حکومت کے کاندھوں پر رکھ دینے کے لیے یہ صورت اختیار فرمائی کہ اپنی جائداد اور گھربار کے انتظام کے لیے پانچ اشخاص کی ایک جماعت مقرر فرمائی۔ جن میں پہلا شخص خود خلیفہ وقت منصور عباسی تھا۔ اس کے علاوہ محمد بن سلیمان حاکم مدینہ، اپنے بیٹے عبد الله فطح (جو امام موسیٰ کاظم سے بڑے تھے)، چوتھے امام موسیٰ کاظم اورپانچویں ان کی والدہ حمیدہ خاتون تھیں۔ امام کا اندیشہ بالکل صحیح تھا اور آپ کات حفظ بھی کامیاب ثابت ہوا۔ چنانچہ جب کی وفات کی اطلاع منصور کو پہنچی تو اس نے پہلے تو سیاسی مصلحت کے طور پر اظہار رنج کیا۔ تین مرتبہ انااللهِ و انا الیہ راجعون کہ اور کہا کہ اب بھلا جعفر صادق کا مثل کون ہے؟ اس کے بعد حاکم مدینہ کو لکھا کہ اگر جعفر صادق نے کسی شخص کو اپنا وصی مقرر کیا ہو تو اس کا سر فوراً قلم کردو۔ حاکم مدینہ نے جواب لکھا کہ انھوں نے تو پانچ وصی مقرر کیے ہیں جن سے پہلے آپ خود ہیں۔ یہ جواب پڑھ کر منصور دیر تک خاموش رہا اور سوچنے کے بعد کہنے لگا تو اس صورت میں تو یہ لوگ قتل نہیں کیے جا سکتے۔ اس کے بعد دس برس تک منصور زندہ رہا لیکن امام موسیٰ کاظم سے کوئی تعرض نہیں کیا اور آپ مذہبی فرائض امامت کی انجام دی میں امن وسکون کے ساتھ مصروف رہے۔ یہ بھی تھا کہ اس زمانے میں منصور شہر بغداد کی تعمیر میں مصروف تھا جس سے 751ھ میں یعنی اپنی موت سے صرف ایک سال پہلے اسے فراغت ہوئی . اس لیے وہ امام موسیٰ کاظم علیہ السّلامکے متعلق کسی ایذا رسانی کی طرف متوجہ نہیں ہوا۔
دور ابتلا
ترمیم751ھ کے آخر میں منصور دوانقی دنیا سے رخصت ہوا تو اس کا بیٹا مہدی تخت سلطنت پر بیٹھا . شروع میں تو اس نے بھی امام موسیٰ کاظم کے عزت واحترام کے خلاف کوئی برتاؤ نہیں گیا مگر چند سال کے بعد پھر وہی بنی فاطمہ کی مخالفت کاجذبہ ابھرا اور 461ھ میں جب وہ حج کے نام سے حجاز کی طرف ایاتو امام موسیٰ کاظم کو اپنے ساتھ مکہ سے بغدادلے گیا اور قید کر دیا۔ ایک سال تک اس کی قید میں رہے . پھر اس کو اپنی غلطی کا احساس ہوا اور کو مدینہ کی طرف واپسی کاموقع دیا گیا , مہدی کے بعد اس کابھائی ہادی 921ھ میں تخت سلطنت پر بیٹھا اور صرف ایک سال ایک مہینے تک اُس نے سلطنت کی . اس کے بعد ہارون رشید کازمانہ ایا جس میں پھر امام موسیٰ کاظم کو آزادی کے ساتھ سانس لینا نصیب نہیں ہوا
اخلاق واوصاف
ترمیمامام موسیٰ کاظم اسی مقدس سلسلہ کے ایک فرد تھے جس کو خالق نے نوع انسان کے لیے معیار کمال قرار دیا تھا۔ا س لیے ان میں سے ہر ایک اپنے وقت میں بہترین اخلاق واوصاف کا مرقع تھا۔بے شک یہ ایک حقیقت ہے کہ بعض افراد میں بعض صفات اتنے ممتاز نظر اتے ہیں کہ سب سے پہلے ان پر نظر پڑتی ہے , چنانچہ ساتویں امام میں تحمل وبرداشت اورغصہ کوضبط کرنے کی صفت اتنی نمایاں تھی کہ آپ کالقب »کاظم « قرار پایا گیا جس کے معنی ہیں غصے کو پینے والا . آپ کو کبھی کسی نے تر شروئی اور سختی کے ساتھ بات کرتے نہیں دیکھا اور انتہائی ناگوار حالات میں بھی مسکراتے ہوئے نظر ائے . مدینے کے ایک حاکم سے آپ کو سخت تکلیفیں پہنچیں . یہاں تک کہ وہ جناب امیر کی شان میں بھی نازیبا الفاظ استعمال کیا کرتا تھا مگر نے اپنے اصحاب کو ہمیشہ اس کے جواب دینے سے روکا . جب اصحاب نے اس کی گستاخیوں کی بہت شکایات کیں اور یہ کہا کہ ہمیں ضبط کی تاب نہیں . ہمیں اس سے انتقام لینے کی اجازت دی جائے تو نے فرمایا کہ » میں خود اس کاتدارک کروں گا .« اس طرح ان کے جذبات میں سکون پیدا کرنے کے بعد خود اس شخص کے پاس ا سکی زراعت پر تشریف لے گئے اور کچھ ایسا احسان اور سلوک فرما یا کہ وہ اپنی گستاخیوں پر نادم ہوا ا ور اپنے طرزِ عمل کو بدل دیا۔ نے اپنے اصحاب سے صورت حال بیان فرماکر پوچھا کہ جو میں نے اس کے ساتھ کیا وہ اچھا تھا یا جس طرح تم لوگ اس کے ساتھ کرنا چاہتے تھے۔ سب نے کہا , یقیناً حضور نے جو طریقہ استعمال فرمایا وہی بہتر تھا۔ اس طرح آپ نے اپنے جدِ بزرگوار امیر کے اس ارشاد کو عمل میں لا کر دکھلایا جو اج تک نہج البلاغہ میں موجود ہے کہ اپنے دشمن پہ احسان کے ساتھ فتح حاصل کرو کیونکہ یہ دو قسم کی فتح میں زیادہ صر لطف کامیابی ہے۔ بیشک اس کے لیے فریق ُ مخالف کے ظرف کاصحیح اندازہ ضروری ہے اور اسی لیے علی نے ان الفاظ کے ساتھ یہ بھی فرمایا ہے کہ »خبردار یہ عدم تشدد کاطریقہ نااہل کے ساتھ اختیار نہ کرنا ورنہ اس کے تشدد میں اضافہ ہو جائے گا .,, یقیناً ایسے عدم تشدد کے موقع کو پہچاننے کے لیے ایسی ہی بالغ نگاہ کی ضرورت ہے جیسی امام کو حاصل تھی مگر یہ اس وقت میں ہے جب مخالف کی طرف سے کوئی ایسا عمل ہو چکا ہو جو اس کے ساتھ انتقامی جواز پیدا کرسکے لیکن اس کی طرف سے اگو کوئی ایسا اقدام ابھی ایسا نہ ہوا تو یہ حضرات بہر حال ا س کے ساتھ احسان کرنا پسند کرتے تھے تاکہ اس کے خلاف حجتقائم ہو اور اسے اپنے جارحانہ اقدام کے لیے تلاش سے بھی کوئی عذر نہ مل سکے .بالکل اسی طرح جیسے ابن ملجم کے ساتھ جو جناب امیر کو شہید کرنے والا تھا۔ اخری وقت تک جناب امیر علیہ السّلاماحسان فرماتے رہے . اسی طرح محمد ابنِ اسمٰعیل کے ساتھ جو امام موسیٰ کاظم علیہ السّلامکی جان لینے کاباعث ہوا , آپ برابر احسان فرماتے رہے , یہاں تک کہ اس سفر کے لیے جو اس نے مدینے سے بغداد کی جانب خلیفہ عباسی کے پاس امام موسیٰ کاظم کی شکائتیں کرنے کے لیے کیا تھا۔ ساڑھے چار سو دینار اور پندرہ سو درہم کی رقم خود ہی نے عطا فرمائی تھی جس کو لے کر وہ روانہ ہوا تھا۔ آپ کو زمانہ بہت ناساز گار ملا تھا۔ نہ اس وقت وہ علمی دربار قائم رہ سکتا تھا جوامام جعفر صادق کے زمانہ میں قائم رہ چکا تھا نہ دوسرے ذرائع سے تبلیغ واشاعت ممکن تھی . بس آپ کی خاموش سیرت ہی تھی جو دنیا کو الِ محمد کی تعلیمات سے روشناس کراسکتی تھی . آپ اپنے مجمعوں میں بھی اکثر بالکل خاموش رہتے تھے یہاں تک کہ جب تک آپ سے کسی امر کے متعلق کوئی سوال نہ کیا جائے آپ گفتگو میں ابتدا بھی نہ فرماتے تھے۔ اس کے باوجود آپ کی علمی جلالت کا سکہ دوست اور دشمن سب کے دل پر قائم تھا اور آپ کی سیرت کی بلندی کو بھی سب مانتے تھے , اسی لیے عام طور پر آپ کو کثرت عبادت اور شب زندہ داری کی وجہ سے »عبد صالح « کے لقب سے یاد جاتا تھا۔ آپ کی سخاوت اور فیاضی کابھی خاص شہرہ تھااور فقرائ مدینہ کی اکثر پوشیدہ طور پر خبر گیری فرماتے تھے ہر نماز کے صبح کے تعقیبات کے بعد افتاب کے بلند ہونے کے بعد سے پیشانی سجدے میں رکھ دیتے تھے اور زوال کے وقت سراٹھاتے تھے۔ قران مجید اور پاس بیٹھنے والے بھی آپ کی اواز سے متاثر ہو کر روتے تھے۔ ہارون رشید کی خلافت اور امام موسیٰ کاظم سے مخالفت 71ھ میں ہادی کے بعد ہارون تخت ُ خلافت پر بیٹھا . سلطنت عباسیہ کے قدیم روایات جو سادات بنی فاطمہ کی مخالفت میں تھے اس کے سامنے تھے خود اس کے باپ منصور کارویہ جو امام جعفر صادق کے خلاف تھا اسے معلوم تھا اس کا یہ ارادہ کہ جعفر صادق کے جانشین کو قتل کر ڈالاجائے یقیناً اس کے بیٹے ہارون کو معلوم ہو چکا ہوگا . وہ تو امام جعفر صادق کی حکیمانہ وصیت کا اخلاقی دباؤ تھا جس نے منصور کے ہاتھ باندھ دیے تھے اور شہر بغداد کی تعمیر کی مصروفیت تھی جس نے اسے اس جانب متوجہ نہ ہونے دیا تھا اب ہارون کے لیے ان میں سے کوئی بات مانع نہ تھی . تخت ُ سلطنت پر بیٹھ کر اپنے اقتدار کو مضبوط رکھنے کے لیے سب سے پہلے تصور پیدا ہو سکتا تھا کہ اس روحانیت کے مرکز کو جو مدینہ کے محلہ بنی ہاشم میں قائم ہے توڑنے کی کوشش کی جائے مگر ایک طرف امام موسیٰ کاظم کامحتاط اور خاموش طرزِ عمل اور دوسری طرف سلطنت کے اندرونی مشکلا ت ان کی وجہ سے نوبرس تک ہارون کو بھی کسی کھلے ہوئے تشدد کا امام کے خلاف موقع نہیں ملا . اس دوران میں عبد اللہ ابن حسن کے فرزند یحییٰ کاواقعہ درپیش ہوا ور وہ امان دیے جانے کے بعد تمام عہدو پیمان کوتوڑ کردردناک طریقے پر پہلے قید رکھے گئے او رپھر قتل کیے گئے۔ باوجودیکہ یحییٰ کے معاملات سے امام موسیٰ کاظم علیہ السّلامکو کسی طرح کا سروکار نہ تھا بلکہ واقعات سے ثابت ہوتا ہے کہ ان کو حکومت ُ وقت کی مخالفت سے منع فرماتے تھے مگر عداوت ُ بنی فاطمہ کاجذبہ جو یحییٰ ابن عبد اللهکی مخالفت کے بہانے سے ابھر گیا تھا اس کی زد سے امام موسیٰ کاظم بھی محفوظ نہ رہ سکے . ادھر یحییٰ ابن خالد بر مکی نے جو وزیر اعظام تھا امین (فرزند ہارون رشید) کے اتالیق جعفر ابن محمد اشعث کی رقابت میں اس کے خلاف یہ الزام قائم کیا کہ یہ امام موسی کاظم کے شیعوں میں سے ہے اور ان کے اقتدار کاخواہاں ہے۔ براہ راست اس کا مقصد ہارون کو جعفر سے برگزشتہ کرنا تھالیکن بالواستہ ا س کا تعلق امام موسی کاظم کے ساتھ بھی . اس لیے ہارون کو کی ضرر رسانی کی فکر پیدا ہو گئی۔ اسی دوران میں یہ واقعہ ہو اکہ ہارون رشید حج کے ارادہ سے مکہ معظمہ میں ایا .اتفاق سے اسی سال امام موسی کاظم بھی حج کو تشریف لائے ہوئے تھے۔ ہارون نے اپنی انکھ سے اس عظمت اور مرجعیت کا مشاہدہ کی جو مسلمانوں میں امام موسی کاظم کے متعلق پائی جاتی تھی . اس سے بھی اس کے حسد کی اگ بھڑک اٹھی اس کے بعد اس میں محمد بن اسمٰعیل کی مخالفت نے اورا ضافہ کر دیا۔ واقعہ یہ ہے کہ اسمٰعیل امام جعفر صادق کے بڑے فرزند تھے اور اس لیے ان کی زندگی میں عام طور پر لوگوں کا خیال یہ تھا کہ وہ امام جعفر صادق کے قائم مقام ہوں گے . مگر ان کا انتقال امام جعفر صادق کے زمانے میں ہو گیا اور الوگوں کا یہ خیال غلط ثابت ہوا . پھر بھی بعض سادہ لوح اصحاب اس خیال پر قائم رہے کہ جانشینی کاحق اسمٰعیل میں منحصر ہے۔ انھوں نے امام موسیٰ کاظم کی امامت کو تسلیم نہیں کیا چنانچہ اسماعیلیہ فرقہ مختصر تعداد میں سہی اب بھی دنیا میں موجود ہے- محمد، ان ہی اسمٰعیل کے فرزند تھے اور اس لیے امام موسٰی کاظم سے ایک طرح کی مخالفت پہلے سے رکھتے تھے مگر چونکہ ان کے ماننے والوں کی تعداد بہت کم تھی اور وہ افراد کوئی نمایاں حیثیت نہ رکھتے تھے اسی لیے ظاہری طور پر امام موسٰی کاظم کے یہاں آمدورفت رکھتے تھے اور ظاہر داری کے طور پر قرابت داری کے تعلقات قائم کیے ہوئے تھے- ہارون رشید نے امام موسٰی کاظم کی مخالفت کی صورتوں پر غور کرتے ہوئے یحییٰبرمکی سے مشورہ لیا کہ میں چاہتا ہوں کہ اولاد ابو طالب میں سے کسی کو بلا کر اس سے موسٰی بن جعفر کے پورے پورے حالات دریافت کروں- یحییٰجو خود عداوتِ بنی فاطمہ میں ہارون سے کم نہ تھا اس نے محمد بن اسمٰعیل کا پتہ دیا کہ آپ ان کو بلا کر دریافت کریں تو صحیح حالات معلوم ہو سکیں گے چنانچہ اسی وقت محمد بن اسمٰعیل کے نام خط لکھا گیا- شہنشاهِ وقت کا خط محمد ابن اسمٰعیل کو پہنچا تو انھوں نے اپنی دنیوی کامیابی کا بہترین ذریعہ سمجھ کر فوراً بغداد جانے کا ارادہ کر لیا- مگر ان دنوں ہاتھ بالکل خالی تھا- اتنا روپیہ پاس موجود نہ تھا کہ سامان سفر کرتے- مجبوراً اسی ڈیوڑھی پر آنا پڑا جہاں کرم و عطا میں دوست اور دشمن کی تمیز نہ تھی- امام موسٰی کاظم کے پاس آ کر بغداد جانے کا ارادہ ظاہر کیا- خوب سمجھتے تھے کہ اس بغداد کے سفر کی بنیاد کیا ہے- حجت تمام کرنے کی غرض سے آپ نے سفر کا سبب دریافت کیا- انھوں نے اپنی پریشان حالی بیان کرتے ہوئے کہا کر قرضدار بہت ہو گیا ہوں- خیال کرتا ہوں کہ شاید وہاں جا کر کوئی صورت بسر اوقات کی نکلے اور میرا قرضہ ادا ہو جائے- نے فرمایا- وہاں جانے کی ضرورت نہیں ہے- میں وعدہ کرتا ہوں کہ تمھارا تمام قرضہ ادا کر دوں گا- افسوس ہے کہ محمد نے اس کے بعد بھی بغداد جانے کا ارادہ نہیں بدلا-چلتے وقت سے رخصت ہونے لگے- عرض کیا کہ مجھے وہاں کے متعلق کچھ ہدایت فرمائی جائے- نے اس کا کچھ جواب نہ دیا- جب انھوں نے کئی مرتبہ اصرار کیا تو نے فرمایا کہ» بس اتنا خیال رکھنا کہ میرے خون میں شریک نہ ہونا اور میرے بچوں کی یتیمی کے باعث نہ ہونا« محمد نے اس کے بعد بہت کہا کہ یہ بھلا کون سی بات ہے جو مجھ سے کہی جاتی ہے، کچھ اور ہدایت فرمایئے- نے اس کے علاوہ کچھ کہنے سے انکار کیا- جب وہ چلنے لگے تو نے ساڑھے چار سو دینار اور پندرہ سو درہم انھیں مصارف کے لیے عطا فرمائے- نتیجہ وہی ہوا جو کے پیش نظر تھا- محمد ابن اسمٰعیل بغداد پہنچے اور وزیر اعظم یحییٰ برمکی کے مہمان ہوئے اس کے بعد یحییٰکے ساتھ ہارون کے دربار میں پہنچے مصلحت وقت کی بنا پر بہت تعظیم و تکریم کی گئی- اثنائ گفتگو میں ہارون نے مدینہ کے حالات دریافت کیے- محمد نے انتہائی غلط بیانیوں کے ساتھ وہاں کے حالات کا تذکرہ کیا اور یہ بھی کہا کہ میں نے آج تک نہیں دیکھا اور نہ سنا کہ ایک ملک میں دو بادشاہ ہوں- اس نے کہا کہ اس کا کیا مطلب? محمد نے کہا کہ بالکل اسی طرح جس طرح آپ بغداد میں سلطنت قائم کیے ہوئے ہیں- اطراف ملک سے ان کے پاس خراج پہنچتا ہے اور وہ آپ کے مقابلے کے دعوے دار ہیں- یہی وہ باتیں تھیں جن کے کہنے کے لیے یحییٰ برمکی نے محمد کو منتخب کیا تھا ہارون کا غیظ و غضب انتہائی اشتعال کے درجے تک پہنچ گیا- اس نے محمد کو دس ہزار دینار عطا کر کے رخصت کیا- خدا کا کرنا یہ کہ محمد کو اس رقم سے فائدہ اٹھانے کا ایک دن بھی موقع نہ ملا- اسی شب کو ان کے حلق میں درد پیدا ہوا- صبح ہوتے ہوئے وہ دنیا سے رخصت ہو گئے- ہارون کو یہ خبر پہنچی تو اس نے اشرفیوں کے توڑے واپس منگوا لیے مگر محمد کی باتوں کا اثر اس کے دل میں ایسا جم گیا تھا کہ اس نے یہ طے کر لیا کہ امام موسٰی کاظم کا نام صفحہ ہستی سے مٹا دیا جائے- چنانچہ ~0179ئھ میں پھر ہارون رشید نے مکہ معظمہ کا سفر کیا اور وہاں سے مدینہ منورہ گیا- دو ایک روز قیام کے بعد کچھ لوگ امام موسٰی کاظم کو گرفتار کرنے کے لیے روزانہ کیے- جب یہ لوگ امام کے مکان پر پہنچے تو معلوم ہوا کہ روضئہ رسول پر ہیں- ان لوگوں نے روضہ پیغمبر کی عزت کا بھی خیال نہ کیا- اس وقت قبر رسول کے نزدیک نماز میں مشغول تھے- بے رحم دشمنوں نے آپ کو نماز کی حالت میں ہی قید کر لیا اور ہارون کے پاس لے گئے- مدینہ رسول کے رہنے والوں کی بے حسی اس سے پہلے بھی بہت دفعہ دیکھی جا چکی تھی- یہ بھی اس کی ایک مثال تھی کہ رسول کا فرزند روضئہ رسول سے اس طرح گرفتار کر کے لے جایا جا رہا تھا مگر نام نہاد مسلمانوں میں ایک بھی ایسا نہ تھا جو کسی طرح کی آواز بطور احتجاج بلند کرتا- یہ بیس شوال 179ھ کا واقعہ ہے- ہارون نے اس اندیشے سے کہ کوئی جماعت امام موسٰی کاظم کو رہا کرنے کی کوشش نہ کرے دو محملیں تیار کرائیں- ایک میں امام موسٰی کاظم کو سوار کیا اور اس کو ایک بڑی فوجی جمعیت کے حلقے میں بصرہ روانہ کیا اور دوسری محمل جو خالی تھی اسے بھی اتنی ہی جمعیت کی حفاظت میں بغداد روانہ کیا- مقصد یہ تھا کہ آپ کے محل قیام اور قید کی جگہ کو بھی مشکوک بنا دیا جائے یہ نہایت حسرت ناک واقعہ تھا کہ امام کے اہل حرم اور بچے وقت رخصت آپ کو دیکھ بھی نہ سکیں اور اچانک محل سرا میں صرف یہ اطلاع پہنچ سکی کہ سلطنت وقت کی طرف سے قید کر لیے گئے اس سے بیبیوں اور بچوں میں کہرام برپا ہو گیا اور یقیناً امام کے دل پر بھی اس کا جو صدمہ ہو سکتا ہے وہ ظاہر ہے- مگر آپ کے ضبط و صبر کی طاقت کے سامنے ہر مشکل آسان تھی- معلوم نہیں کتنے ہیر پھیر سے یہ راستہ کیا گیا تھا کہ پورے ایک مہینہ سترہ روزکے بعد سات ذی الحجہ کو آپ بصرہ پہنچائے گئے- کامل ایک سال تک آپ بصرہ میں قید رہے- یہاں کا حاکم ہارون کا چچا زاد بھائی عیسٰی ابن جعفر تھا شروع میں تو اسے صرف بادشاہ کے حکم تعمیل مدنظر تھی بعد میں اس نے غور کرنا شروع کیا- آخر ان کے قید کیے جانے کا سبب کیا ہے- اس سلسلے میں اس کو امام کے حالات اور سیرت زندگی اور اخلاق و اوصاف کی جستجو کا موقع بھی ملا اور جتنا اس نے امام کی سیرت کا مطالعہ کیا اتنا اس کے دل پر آپ کی بلندی اخلاق اور حسن کردار کا قائم ہو گیا- اپنے ان تاثرات سے اس نے ہارون کو مطلع بھی کر دیا- ہارون پر اس کا الٹا اثر ہوا کہ عیسٰی کے متعلق بدگمانی پیدا ہو گئی- اس لیے اس نے امام موسٰی کاظم کو بغداد میں بلا بھیجا- فضل ابن ربیع کی حراست میں دے دیا اور پھر فضل کا رجحان شیعیت کی طرف محسوس کر کے یحییٰبرمکی کو اس کے لیے مقرر کیا- معلوم ہوتا ہے کہ امام کے اخلاق واوصاف کی کشش ہر ایک پر اپنا اثر ڈالتی تھی- اس لیے ظالم بادشاہ کو نگرانوں کی تبدیلی کی ضرورت پڑتی تھی-
فضل وکمال
ترمیمموسیٰ الکاظم اس خانوادہ علم کے گوہر شب چراغ تھے جس کا ہر ہر فرد آسمان فضل وکمال کا بدر کامل اورمسند علم کا شیخ الکل تھا،اس لیے امام کاظم کو دولتِ علم گویا وراثۃً نصیب ہوئی تھی، اس کے علاوہ جودوکرم،عبادت وریاضت،تضرع وانکسار اورتقویٰ وپاکبازی کا پیکر مجسم تھے،ابو حاتم ان کو امام المسلمین کہتے ہیں،حافظ ذہبی لکھتے ہیں: کان صالحاً عابداً جوادًا حلیماً کبیر القدر [4]وہ صالح عبادت گزار،حلیم الطبع،سخی اورجلیل المرتبت تھے۔
حدیث
ترمیمانھوں نے تبحر علمی اور جلالتِ فنی کے باوجود اپنی زیادہ تر توجہ عبادت اور تبلیغ دین میں صرف کی،اسی وجہ سے ان کی روایات کی تعداد بہت کم ملتی ہے ؛لیکن اس کے باوجود یہ ایک حقیقت مسلم ہے کہ ان سے مروی تھوڑی سی حدیثیں بھی صحیح معنیٰ میں "بہ قامت کہتربہ قیمت بہتر"کی مصداق ہیں۔ حدیث میں انھوں نے اپنے باکمال والد امام جعفر بن محمد الملقب بہ صادق کے علاوہ عبد اللہ بن دینار اور عبد الملک بن قدامہ الجمہی سے استفادہ کیا تھا، ممکن ہے ان کے حلقہ شیوخ میں کچھ اورائمہ بھی شامل ہوں،لیکن طبقات وتراجم میں ان کے صرف مذکورہ تین ہی اساتذہ حدیث کا ذکر ملتا ہے،ان میں بھی ثانی الذکر سے امام کاظم کے تلمذ کو حافظ ابن حجر نے مشتبہ قراردیا ہے؛چنانچہ وہ لکھتے ہیں کہ اگر موسیٰ کاظم کا سنہ ولادت 128ھ مستند اورصحیح ہے تو پھر عبد اللہ بن دینار سے ان کے حصول تلمذ کا کوئی سوال نہیں،کیونکہ ابن دینار کی وفات اس سے پہلے ہی 127 ھ میں ہو گئی تھی۔ [5] خود ان کے دریائے فیض سے سیراب ہونے والوں میں ان کے دو بھائی علی و محمد اورصاحبزادگان ابراہیم،حسین،اسماعیل،علی رضی کے علاوہ صالح بن یزید اور محمد بن صدقۃ العنبری کے نام قابلِ ذکر ہیں۔ [6]
ثقاہت
ترمیمان کی ثقاہت اورصداقت کو علمائے فن نے بالاتفاق ہر قسم کے ریب وشک سے بالاتر قراردیا ہے،ابو حاتم ‘ثقۃ،صدوق امام کہتے ہیں ۔ [7]
عبادت
ترمیمعبادت وریاضت کا خاص اہتمام تھا ،کثرتِ عبادت کا یہ عالم تھا کہ اپنے زمانہ کے سب سے بڑے عالم شمار ہوتے تھے،حافظ ابن جوزی نے صفوۃ الصفوۃ میں ان کا بہت نمایاں تذکرہ کیا ہے، علامہ ابن کثیر رقمطرازہیں: کان کثیر العبادۃ والمشاءۃ حتی کہ جب ہارون الرشید نے ان کو دیوار زنداں کے پیچھے ڈال دیا تو بھی ان کے شب وروز کے معمولات میں کوئی فرق نہ آسکا؛چنانچہ قید خانہ کی ایک عینی راویہ نے ان کے دن رات کے معمولات یہ بیان کیے ہیں۔ ‘كان إذا صلى العتمة حمد الله ومجده ودعاه فلم يزل كذالك حتى يزول الليل فإذا زال الليل قام يصلي حتى يصلي الصبح ثم يذكر قليلاً حتى تطلع الشمس ثم يقعد إلى ارتفاع الضحى ثم يتهيأ ويستاك ويأكل ثم يرقد إلى قبل الزوال ثم يتوضأ ويصلي حتى يصلي العصر ثم يذكر في القبلة حتى يصلي المغرب ثم يصلي ما بين المغرب والعتمة’ [8] وہ عشا کی نماز پڑھنے کے بعد برابر ذکر وفکر اورحمد وثنا میں مشغول رہتے یہاں تک کہ جب کافی رات گذر جاتی تو اٹھ کر نماز پڑھنا شروع کردیتے اورصبح تک یہ سلسلہ جاری رہتا،پھر فجر کی نماز پڑھ کر طلوع آفتاب تک تھوڑا ذکر کرتے،پھر کافی دیر تک مراقبہ میں بیٹھتے،پھر مسواک وغیرہ کرتے اورکھانا تناول فرماتے،پھر زوال سے قبل تک استراحت کرتے پھر وضوکرکے نماز پڑھنا شروع کرتے اورعصر تک پڑھتے رہتے پھر قبلہ رو ہوکر ذکر اللہ میں مصروف رہتے اورمغرب کی نماز تک یہ سلسلہ جاری رہتا پھر نماز مغرب پڑھنے کے بعد عشاء تک مسلسل نوافل پڑھتے رہتے۔ ان معمولات کے مطالعہ سے یہ حقیقت بھی منکشف ہوتی ہے کہ امام کاظم کثرت عبادت وریاضت کے ساتھ اپنی روح و جسم کے حقوق سے بھی پوری طرح عہدہ برآ ہوتے تھے،مذکورہ بالا بیان کی راویہ اخت سندی جو زندان میں امام صاحبؒ کی خدمت پر مامور تھی ،جب بھی ان کو دیکھتی تو کہتی کہ بڑے ہی بد نصیب اورناکام ہیں وہ لوگ جو خدا کے ایسے صالح اورعبادت گزار بندے سے تعرض کرتے ہیں اورانہیں پریشان کرتے ہیں [9]حافظ ذہبی انھیں صالح،عابد،جواد ، حلیم اورجلیل المرتبت لکھتے ہیں۔ [10]
سخاوت
ترمیمجود وسخاوت ،سیر چشمی اورفیاضی اہل بیت کرام کا ایک مشترک وصف اورخصوصی تمغۂ امتیاز تھا،امام کاظم بھی اس وصف کا ایک اعلیٰ نمونہ تھے، خیرالدین زرکلی لکھتے ہیں: کان احد کبار العلماء الاجواد [11] وہ ان اکابر علما میں سے تھے جو سخاوت کی صفت سے متصف تھے۔ امام ذہبی رقمطراز ہیں کہ: کان موسیٰ من اجود الحکماء [12] موسیٰ کاظم بہترین حکماء میں سے تھے۔ ان کی دادودہش اورفیاضی وسیر چشمی کے بکثرت واقعات خطیب کی تاریخ بغداد اوریافعی کی مرأۃ الجنان میں منقول ہیں۔ [13]
قید وبند کی صعوبتیں
ترمیمتاریخ اسلام میں ایسے اہل دعوت وعزیمت علما کی کافی تعداد ملتی ہے جنھوں نے حق و صداقت اورایمان وایقان کے چراغ روشن رکھنے کی خاطر دار ورسن اور قید و بند کے تمام شدائد و صعوبتوں کو بطیب خاطر انگیز کیا ؛بلکہ کتنوں نے تو اسی راہ میں اپنی جان بھی جان آفرین کے سپرد کردی،لیکن ان کے پائے ثبات واستقلال میں ذرہ برابر تزلزل نہ پیدا ہو سکا،امام موسیٰ کاظم بھی دوبار اس سعادت سے بہرہ ور ہوئے تھے۔ سب سے پہلے خلیفہ مہدی نے ان کو قید کیا تھا، لیکن اس کے کچھ ہی دنوں کے بعد اس نے خواب میں حضرت علیؓ کی زیارت کی،جن کے چہرے سے سخت ناراضی کے آثار عیاں تھے اوروہ خلیفہ کو مخاطب کرکے فرما رہے تھے: فھل عسیتم ان تولیتم ان تفسدوافی الارض وتقطعوا ارحامکم تم سے عجب نہیں کہ اگر تم حاکم ہو جاؤ تو ملک میں خرابی کرنے لگو اوراپنے رشتوں کو توڑ ڈالو۔ چنانچہ اس کے بعد مہدی نے موسیٰ کاظم کو اس شرط پر فوراً رہا کر دیا کہ وہ اس کے اوراس کے لڑکوں کے خلاف خروج نہ کریں گے اورامام صاحب کو تین ہزار دینار دے کر بصد اعزاز واکرام مدینہ واپس بھیج دیا۔ پھر ہارون الرشید کے ایامِ خلافت میں ایک مرتبہ اسے خبر ملی کہ عوام امام موسیٰ کاظمؒ کے ہاتھوں پر بیعت ک رہے ہیں،اس سے اس کو بہت اندیشہ لاحق ہوا؛ چنا نچہ رامضان 179 ھ میں جب خلیفہ مذکور عمرہ کی غرض سے حرمین گیا تو واپسی پر امام صاحبؒ کو بھی اپنے ہمراہ بصرہ لیتا آیا اوروہاں کے والی عیسیٰ بن جعفر کے پاس مقید کر دیا،وہ ایک سال تک وہاں رہے،اس کے بعد پھر بغداد کے مرکزی قید خانہ میں منتقل کر دیے گئے اورتادمِ حیات وہیں رہے۔ [14]
قید بیجا سے رہائی کی دُعا
ترمیمامام کاظم کی بلندی شان کی ایک بین دلیل یہ بھی ہے کہ بغداد کے زمانۂ اسیری میں انھیں حالم رؤیا میں رسول اکرم ﷺ کی زیارت نصیب ہوئی،آپ ﷺ ان سے فرما رہے تھے: "اے موسیٰ !یقیناً تم مظلوم ہو،میں چند کلمات تلقین کرتا ہوں،اگر تم ان کا ورد کرو،تو آج ہی شب تم قید سے رہا ہوجاؤ گے وہ کلمات یہ ہیں: يا سامع كل صوت يا سائق الفوت يا كاسى العظام لحما ومنشرها بعد الموت أسألك باسمائك الحسنى وباسمك الأعظم الكبر المخزون المكنون الذي لم يطلع عليه احد من المخلوقين يا حليما ذا أناة ياذا المعروف الذي لا ينقطع ابدا فرج عني۔ [15]
صاف گوئی
ترمیمقید خانہ ہی سے انھوں نے خلیفہ کے نام ایک خط لکھا تھا ،جو ان کی صاف گوئی،جرأت اورحق گوئی کا پورا عکاس ہے،اس خط میں تحریر تھا: اما بعد یا امیر المؤ منین انہ لم ینقص عنی یوم من البلاء الا انقضی عنک یوم من الرخاء حتیٰ یفضی بنا ذالک الیٰ یوم یخسر فیہ المبطلون [16] اے امیر المومنین ! جوں جوں میری آزمائش کے ایام گذ رہے ہیں ویسے ویسے تمھارے عیش وراحت کے دن بھی کم ہوتے جا رہے ہیں حتی کہ ہم دنوں ایک ایسے دن ملیں گے جب بُرا عمل کرنے والے خسارہ میں رہیں گے۔
شہادت
ترمیمسب سے آخر میں امام سندی بن شاہک کے قید خانے میں رکھے گئے یہ شخص بہت ہی بے رحم اور سخت دل تھا- آخر اسی قید میں کوانگور میں زہر دیا گیا- 25 رجب 183ھ میں 55 سال کی عمر میں موسیٰ کاظم کی وفات ہوئی بعد وفات آپ کی نعش کے ساتھ بھی کوئی اعزاز کی صورت اختیار نہیں کی گئی بلکہ حیری طریقے پر توہین آمیز الفاظ کے ساتھ اعلان کرتے ہوئے آپ کی لاش کو قبرستان کی طرف روانہ کیا گیا-[حوالہ درکار] مگر اب ذرا عوام میں احساس پیدا ہو گیا تھا اس لیے کچھ اشخاص نے امام کے جنازے کو لے لیا[حوالہ درکار] اور پھر عزت و احترام کے ساتھ مشایعت کر کے بغداد سے باہر اس مقام پر جواب کاظمین کے نام سے مشہور ہے دفن کیا-
وفات
ترمیمکامل 73 سال دنیائے علم و عمل کو منور رکھنے کے بعد 25 رجب 183ھ کو شمع فروزاں گل ہو گئی،اکثر علما کا خیال ہے کہ بغداد کے قید خانہ میں ان کی وفات ہوئی،بغداد میں آج بھی ان کا مزار مشہور آفاق اورمرجع انام ہے۔ [17]
عید موسی الکاظم
ترمیمعید موسیٰ الکاظم شیعہ مسلمانوں کے فرقۂ بارہ امام کی طرف سے موسی کاظم کی یاد میں منایا جانے والا تہوار ہے۔
حوالہ جات
ترمیم- ↑ https://www.al-islam.org/story-holy-kaaba-and-its-people-smr-shabbar
- ↑ عنوان : Али ибн Муса
- ↑ عنوان : Муса ибн Джафар
- ↑ (خلاصۃ تذہیب تہذیب الکمال:390)
- ↑ (تہذیب التہذیب:10/340)
- ↑ (تہذیب التہذیب:1/339)
- ↑ (میزان الاعتدال:3/209)
- ↑ (تاریخ بغداد،باب ذکر من اسمہ موسی:5/465)
- ↑ (تاریخ بغداد:13/31)
- ↑ (العبر فی خبر من غبر:1/287)
- ↑ (الاعلام :3/1081)
- ↑ (میزان الاعتدال:3/209)
- ↑ (تاریخ بغداد:13/32،33،مراۃ الجنان:1/394)
- ↑ (تہذیب التہذیب:10/340)
- ↑ (شذرات الذہب:1/304)
- ↑ (البدایہ والنہایہ:10/183)
- ↑ (صفوۃ الصفوۃ:2/105،ومیزان الاعتدال:3/209)
- بحار الانوار\\المجلسي\\ج 48 ص 248
- تاريخ اليعقوبي\\ج2 ص 414
- الإرشاد\للمفيد\ ج2 ص 243
- حياة الإمام موسى بن جعفر ... دراسة وتحليل، باقر شريف القرشي، ص 528.
- مختار صفوة الصفوة، ص 152.* تهذيب التهذيب، لابن حجر العسقلاني ج10، ص 302.
- ميزان الاعتدال في نقد الرجال للحافظ الذهبي، ج4، ص202.
- الأعلام، لخير الدين الزركلي،ج7، ص321.* إعلام الورى في أعلام الهدى، للفضل بن الحسن الطبرسي، ج2، ص25.* نور الابصار في مناقب آل بيت النبي المختار، مؤمن الشبلنجي، ص135.
- الإمام موسى الكاظم عليه السلام
بیرونی روابط
ترمیملوا خطا ماڈیول:Navbox_with_columns میں 228 سطر پر: bad argument #1 to 'inArray' (table expected, got nil)۔