موہن راکیش (मोहन राकेश؛ 8 جنوری 1925ء – 3 جنوری 1972ء) ہندی زبان کے ناول نگار اور ڈراما نگار تھے۔ وہ ہندی ادب میں 1950ء کی دہائی کی نئی کہانی (ادبی تحریک) کے پہل کاروں میں سے تھے۔ انھوں نے پہلا جدید ہندی ڈراما، آشاڑھ کا ایک دن (1958ء) لکھا، جس نے سنگیت ناٹک اکادمی کا مقابلہ جیتا۔ انھوں نے ناول، افسانہ، سفر نام، تنقید، یاداشت اور ڈراما کے میدان میں بہت سی خدمات سر انجام دیں۔[4]

موہن راکیش
معلومات شخصیت
پیدائش 8 جنوری 1925ء [1][2]  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
امرتسر   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 3 جنوری 1972ء (47 سال)[2]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
دہلی   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت بھارت (26 جنوری 1950–)
برطانوی ہند (–14 اگست 1947)
ڈومنین بھارت (15 اگست 1947–26 جنوری 1950)  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
مادر علمی جامعہ پنجاب   ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ماہرِ لسانیات ،  مترجم ،  مصنف [2]،  ڈراما نگار [2]  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان ہندی [3]  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اعزازات
سنگیت ناٹک اکادمی ایوارڈ  
جواہر لعل نہرو فیلوشپ   ویکی ڈیٹا پر (P166) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
باب ادب

انھیں جے شنکر پرساد کی روایت کو آگے بڑھانے والا ڈراما نگار مانا جاتا ہے۔ ان کے یہاں پرساد کی طرح تاریخیت، شعریت، جدیدیت اور رومانیت موجود ہیں۔ موہن راکیش نے ناٹک کے فارم میں توڑپھوڑ نہیں کیا بلکہ اسے موڑ کر ایک نئی تازگی پیدا کی۔ انھوں نے جدید انسان کی کشمکش اور جدید احساس کو ناٹک کے فارم میں منتقل کیا ہے۔ موہن راکیش نے کم ناٹک لکھ کر زیادہ شہرت حاصل کی ہے۔ان کے اہم ڈرامے، اساڑھ کا ایک دن، لہروں کے راج ہنس، آدھ ادھورے، پیر تلے زمین، انڈے کے چھلکے اور رات بیتے تک ہیں۔

موہن راکیش کو ہندی زبان کا پہلا جدید ڈراما نگار مانا جاتا ہے۔ "اساڑھ کا ایک دن" کو اسٹیج اور ڈرامے کا حاصل مانا جاتا ہے۔ یہ شاعر کالی داس کی کہانی نہیں ہے بلکہ ان کی محرک ہیروئن ملکہ کی کہانی ہے۔ "لہروں کے ہنس راج" میں انسانی وجود اور اس کی داخلی آزادی کو اجاگر کیا گیا ہے۔ "آدھے ادھورے" نے جدید زندگی کی پیچیدہ سوالوں اور تضادات کو اٹھا کر ہندی ناٹک میں بحث کا دروازہ کھول دیا۔ اس ناٹک کے سارے کردار ادھورے پن، تشنگی، عدم اعتماد، نفسیاتی الجھن اور معاشی جدوجہد کے عذاب سے دوچار ہیں۔ اس کے بعد موہن راکیش کے کئی ناٹک اور ایکانکی یعنی یک بابی ڈرامے شائع ہوئے لیکن وہ آدھے ادھورے کے معیار کو نہ پہنچ سکے۔

موہن راکیش نئی کہانی کے اہم ستون ہیں۔ ان کی اہم کہانیاں، ایک ٹھہرا ہوا چاقو، اس کی روٹی، سودا، ملبے کا مالک، پھٹا ہوا جوتا، ہوا مرغ، بھوکے اور "ایک اور زندگی" ہیں۔ ”ملبے کا مالک“ تقسیم ہند کے بعد مسلم خاندانوں کی تباہی کی کہانی ہے۔ موہن راکیش کے موضوعات عام طور پر عورت مرد کے نئے رشتوں کی تلاش اور ازدواجی زندگی کی نفسیاتی الجھنوں تک محدود نہیں انھوں نے بہت سے دوسرے مسائل کو بھی اپنی کہانیوں کا موضوع بنایا ہے۔ ایک اور زندگی موہن راکیش کی نمائندہ کہانی ہے۔ یہ عورت مرد کے ٹوٹتے رشتوں کی کہانی ہے۔ اس زمانے کی جدید تہذیب اور جدید فیشن نے معاشرے میں میاں بیوی کے رشتوں میں کیسی ناہمواری پیدا کردی ہے یہ کہانی اس پر گہری نظر ڈالتی ہے۔ کردار کے اندر پیدا ہونے والی باریک سے باریک احساس یا لاشعور میں دبی کسی نازک ترین سوچ کر ابھار کر قارئین کے سامنے رکھ دینے کا فن موہن راکیش کو خوب آتا ہے۔ مجموعہ "پہچان" میں شامل کہانی "سیفٹی پِن" اس کی عمدہ مثال ہے۔

حوالہ جات ترمیم

  1. جی این ڈی آئی ڈی: https://d-nb.info/gnd/119501287 — اخذ شدہ بتاریخ: 14 اکتوبر 2015 — اجازت نامہ: CC0
  2. ^ ا ب پ https://cs.isabart.org/person/158971 — اخذ شدہ بتاریخ: 1 اپریل 2021
  3. کونر آئی ڈی: https://plus.cobiss.net/cobiss/si/sl/conor/141062243
  4. Gabrielle H. Cody، Evert Sprinchorn (2007)۔ The Columbia encyclopedia of modern drama, Volume 2۔ Columbia University Press۔ صفحہ: 1116۔ ISBN 0-231-14424-5