شمالی اورمغربی ہندوستان میں جن بولیوں کو فروغ حاصل ہوا ان میں ہندی زبان میں "پرتھوی راج راسو" کو ہندی زبان کی پہلی کتاب مانا جاتا ہے۔ یہ دہلی کے راجا پرتھوی راج چوہان کے کارناموں کی روداد ہے۔ اس کی تقلید میں کئی دیگر "راسو" کی تخلیق کی گئی۔زبان میں تبدیلیاں ہوتی رہیں۔ کیونکہ جن علاقوں میں یہ بولی جاتی تھی ان کی توسیع ہوتی گئی۔ نئے حالات کے اظہار کے لیے نئے الفاظ یا تو بنائے گئے یا اس کے زیر اثر علاقوں سے لیے گئے۔ رہنمائی کے لیے ہندی ادب میں سنسکرت کلاسیکی کتابوں کو بنیاد بنایا گیا اور بھرت منی کے "ناٹیہ شاستر" کو ہندی مصنفین نے ذہن میں رکھا۔ جنوب میں ایک تحریک جسے بھکتی تحریک کہا گیا بارہویں تیرہویں صدی میں پیدا ہو چکی تھی۔ جب جنوب کے سنت شمالی ہندوستان پہنچے تو پہلے سے ہی ہندی میں تحریر کیے جا رہے نظم اور نثر ان اثرات سے اچھوتے نہ رہ سکے۔ اس وقت کی شاعری کی فطرت بڑے پیمانہ پر بھکتی سے وابستہ تھی۔ کچھ شاعر جیسے تلسی داس ایک محدود علاقہ میں رہے اور انھوں نے اسی زبان میں شاعرانہ تخلیق کی جس میں وہ رہے دوسری طرف کبیر جیسے دیگر شاعر ایک جگہ سے دوسری جگہ گھومتے رہتے تھے اس لیے ان کی شاعری میں فارسی کے ساتھ ساتھ اردو کے الفاظ بھی شامل ہیں۔ یہ صحیح ہے کہ تلسی داس نے "رام چرتر مانس" کی تخلیق والمیکی کی لکھی رامائن کی بنیاد پر کی لیکن عوامی حکایات پر مبنی کچھ نئے مناظر اور حالات کو اس میں شامل کر لیا۔ والمیکی رامائن میں سیتا کے اخراج کا بیان ہے لیکن تلسی داس کی تخلیق میں اس کا بیان نہیں کیا گیا۔ تلسی داس نے اپنی مثالی شخصیت کو خدائی رتبہ عطاء کر دیا جب کہ والمیکی نے اپنے ہیرو کو انسان ہی رہنے دیا۔

سور ساگراورمذہبی شاعری

ترمیم

اس طرح سورداس نے "سور ساگر" کی تخلیق کی جس میں انھوں نے کرشن کی تصویر کشی ایک طفل شریر لڑکے کے طور پر اور گوپیوں کے ساتھ خوش فعلیاں کرنے والے نوجوان کے طور پر کی۔ سننے والوں کے ذہنوں پر ان شاعروں نے گہرا اثر پیدا کیا۔

اگر رام اور کرشن سے وابستہ تیوہار اتنے زیادہ مقبول ہوئے ہیں تو اس کا سہرا ان شاعروں کو ہی جاتا ہے۔ ان کی تخلیقات نہ صرف دیگر شاعروں کے لیے تحریک کا سبب بنیں بلکہ عہد وسطی کے مصوروں کو انھوں نے تحریک دی۔

میرا بائی جو راجستھانی زبان میں گایا کرتی تھیں اور رس خان جو حالانکہ مسلمان تھے لیکن کرشن کی تعریف میں گاتے تھے۔ نند داس ایک اہم بھکتی شاعر تھے۔ رحیم اور بھوشن اس سے الگ درجے کے شاعر ہیں۔ ان کی شاعری کا موضوع بھکتی نہیں بلکہ روحانیت اخلاقیت اور دنیاوی معاملہ تھے، بہاری نے سترہویں صدی میں "ست سئی" لکھی۔ ان کے دوہوں میں شرنگار (محبت) کے ساتھ کئی دیگر موضوعات کی تصویر کشی کی گئی۔

کبیر کو چھوڑ کر مذکورہ بالا سبھی ہندی شعرا نے اپنے جذبات لازماً خود کی مذہبی جبلت کی تسکین کے لیے ظاہر کیے۔ کبیر رسم پرست مذہب میں یقین نہیں کرتے تھے۔ وہ ایسے ایشور کے بھکت تھے جس کی کوئی معین شکل نہیں ہے۔ اس ایشور کا نام لینا ہی ان کے لیے سب کچھ تھا۔

ان سبھی شاعروں نے ہندوستانی سماج کو اس طرح متاثر کیا جیسا کہ پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ چونکہ شاعری یاد رکھنا نثر کی بہ نسبت زیادہ آسان ہے اس لیے یہ شاعر زیادہ مقبول ہوئے۔

تاہم ہندی نثر انیسویں صدی کے شروع میں ہی اپنی شکل میں آسکا۔ بھارتی ندر و ہرشچندر ہندی کے ابتدائی ڈ رامہ نگاروں میں سے ایک تھے۔ ان کے کچھ ڈرامے بنیادی طور پر سنسکرت اور دیگر زبانوں کے ڈراموں کا اردو ترجمہ ہے۔ انھوں نے نئی روایت کی شروعات کی۔ مہاویر پرساد یودی ایک اور مصنف تھے جنھوں نے سنسکرت کی کتابوں کا ترجمہ یا اسے ہندی میں منتقل کرنے کا کام کیا۔ بنکم چندر چٹرجی نے بنیادی طور پر بنگالی زبان میں ناول لکھے جن کا ہندی میں ترجمہ ہوا اور یہ بہت مقبول ہوئے "وندے ماترم" جو ہمارا قومی گیت ہے ان کے ناول "آنند مٹھ" کا ہی ایک حصہ ہے۔

سوامی دیانند سرسوتی اور پریم چند

ترمیم

ہندی زبان سوامی دیانند سرسوتی کی اشتراک کو نظر انداز نہیں کر سکتی۔ اصل وندمیں وہ گجراتی تھے اور سنسکرت کے عالم تھے، تاہم انھوں نے ہندی کو پورے ہندوستان کی عوامی زبان بنانے کی وکالت کی۔ انھوں نے ہندی میں لکھنا شروع کیا اور مذہبی و سماجی اصطلاحات سے وابستہ رسائل میں مضامین لکھے۔ ہندی میں "ستیارتھ پرکاش" ان کی سب سے اہم تخلیق ہے۔

ہندی ادب کو جن لوگوں نے خوش حال بنایا ہے ان میں منشی پریم چند کا نام اہم ہے انھوں نے اپنی تخلیقی زندگی کے اواخرمیں اردو سے ہندی میں لکھنا شروع کیا۔

سوریہ کانت ترپاٹھی اور نرالا کو شہرت ملی کیوں کہ انھوں نے ادب کے ذریعہ اپنے سماج کی قدامت پسندی پر سوالیہ نشان لگائے۔

مہا دیوی ورما کے ساتھ جدید دور میں خواتیں کے ساتھ لکھنے کی شروعات ہوئی جنھوں نے عورتوں سے متعلق امور پر روشنی ڈالی ہے۔ میتھلی شرن گپت ایک قابل ذکر نام ہے۔ شنکر پرشاد نے نہایت خوب صورت ڈرامے لکھے۔

اگر ہم درج بالا مصنفین پر نظر ڈالیں تو پاتے ہیں کہ ان کی تحریریں با مقصد تھیں۔ سوامی دیانند ہندو سماج میں اصلاح کے لیے اس میں سرایت کر گئے جھوٹے عقائد اور سماجی برائیوں سے نجات حاصل کرنے کے لیے لکھا۔ منشی پریم چند سماج کی توجہ غریبوں کی قابل رحم حالت اور سماج میں عورتوں کے حالات کی طرف مبذول کرانے کی کوشش کر رہے تھے۔ نرالا جدید بیداری پیدا کرنے میں پیش پیش تھے۔[1]

حوالہ جات

ترمیم
  1. ہندوستانی ثقافت و ورثہ ص 72-74