"مٹی آدم کھاتی ہے" محمد حمید شاہد کا اردو ناول ہے جو جنوری 2007ء میں اکادمی بازیافت کراچی سے منظر عام پر آیا۔ قبل ازیں محمد حمید شاہد کے افسانوں کے تین مجوعے، بند آنکھوں سے پرے، جنم جہنم اور مرگ زار کے علاوہ متعدد کتب شایع ہو چکی تھیں۔ بھارت سے اردو ادب کے سب سے نمایاں نقاد اور فکشن نگار شمس الر حمن فاروقی نے اس ناول کی بابت لکھا ہے "کبھی کبھی ایسا لگتا ہے کہ جینا اور دکھ سہنا ایک ہی شے ہیں۔ جو دکھ سہتا ہے وہی جیتا ہے۔ اس ناول میں ایک شخص اپنے باپ سے محروم ہو جاتا ہے، دشمن کے ہاتھوں نہیں یہ اس کے اپنے ہی ہیں جو اس کی موت کے ذمہ دار ہیں۔ ایک عورت کو اس کے اپنے گولی مار دیتے ہیں، کیوں کہ وہ انھیں چھوڑ کرجانا چاہتی ہے۔ ایک شخص جسے بچ رہنے کا کوئی حق نہیں وہ لہو لگا کر شہیدوں میں شامل ہوتے ہوتے بج نکلتا ہے۔ لیکن جو بچ نکلا، وہ بچا نہیں۔ دکھ کی چادر بیمار اور صحت مند،قوی اور ضعیف، سب کو ڈھک لیتی ہے۔ محمد حمید شاہد نہایت زی ہوش اور حساس قصہ گو معلوم ہوتے ہیں۔ بظاہر پیچیدگی کے باوجود ان کے بیانیہ میں یہ وصف ہے کہ ہم قصہ گو سے دور نہیں ہوتے۔ محمد حمید شاہد کی دوسری بڑی صفت ان کے موضوعات کا تنوع ہے۔ مٹی آدم کھاتی ہے اس لحاظ سے بھی منفرد ہے کہ اس میں مشرقی پاکستان / بنگلہ دیش کی حقیقت سے آنکھ ملانے کی کوشش رومان اور تشدد کو یکجا کر دیتی ہے۔ اسے محمد حمید شاہد کی بہت بڑی کامیابی سمجھنا چاہیے کہ وہ ایسے موضوع کو بھی اپنے بیانیہ میں بے تکلف لے آتے ہیں جس کے بارے میں زیادہ تر افسانہ نگار گو مگو میں مبتلا ہیں کہ فکشن کی سطح پر اس سے کیا معاملہ کیا جائے۔ دکھ شاید سب کچھ سکھا دیتا ہے۔"[1]

حوالہ جات

ترمیم
  1. سبق اردو، دربھنگہ، بھارت شمارہ 18