مہر گڑھ علم الآثار میں جدید زمانہ پتھر کا ایک اہم مقام ہے جو آج کل بلوچستان، پاکستان میں واقع ہے۔ معلوم تاریخ کے حساب سے یہ جنوبی ایشیا کا پہلا علاقہ ہے جہاں گندم اور جو کی پہلی بار زراعت کی گئی اور جانوروں کو پالنے کے بارے میں پتہ لگتا ہے۔

مہر گڑھ
Mehrgarh
مهرګړ
مہر گڑھ is located in پاکستان
مہر گڑھ
اندرون پاکستان
متبادل ناممہر گڑھ
مقامدھادر, بلوچستان، پاکستان
تاریخ
قیامتقریبا 7000 ق م
متروکتقریبا 2600 ق م
ادوارجدید زمانہ پتھر
اہم معلومات
کھدائی کی تاریخ1974–1986, 1997–2000
ماہرین آثار قدیمہژاں فرانسوا جاریج, Catherine Jarrige
پاکستان کے نقشے میں مہر گڑھ کا مقام

ایشیا کا پہلا شہر

ترمیم

مہر گڑھ نے سات ہزار سال قبل مسیحی جنم لیا۔بلوچستانی شہرسبّی سے ساحل مکران کی طرف 130 کلومیٹر دور کچھی کا میدان شروع ہو جاتا ہے۔ یہ میدان تقریباً دس ہزار مربع کلومیٹر رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔ اس علاقے میں ایک آبادی کہ بنیاد رکھی گئی جو آج ’’مہر گڑھ‘‘کہلاتی ہے۔ یہ نام قریب ہی واقع ایک دیہات سے ماخوذ ہے جو آج بھی آباد ہے۔اس دیہات میں دراصل چیف آف ساروان،نواب غوث بخش رئیسانی مرحوم کی سرمائی رہائش گاہ واقع تھی۔1968ء میں انھوں نے ماہرین اثریات کو خبر دی کہ مہر گڑھ کے قریب ہی ایک ٹیلہ واقع ہے جہاں سے اکثر قدیم اشیا ملتی ہیں۔ اس انکشاف پہ ماہرین نے جب ٹیلے کی کھدائی کی ،تو ایک قدیم شہر کے کھنڈر دریافت ہو گئے۔

پہلی آبادی

ترمیم

نو ہزار سال قبل آبادی بڑھنے اور شکار کم ہونے کی وجہ سے ایک مقامی قبیلہ مستقل طور پہ دریائے بولان کے کنارے واقع مہر گڑھ میں آباد ہو گیا۔ رفتہ رفتہ وہ وہاں کھیت لگا کر اناج اگانے اور مویشی پالنے لگا تاکہ پیٹ کی آگ بجھا سکے۔ یوں وہ قبیلہ ان اولیّں انسانی گروہوں میں سے ایک بن گیا جنھوں نے کرہ ارض پہ اول اول کھیتی باڑی کرنے اور جانور پالنے کا آغاز کیا۔ بنی نوع انسان کی تاریخ کا یہ انقلابی عمل علم اثریات میں ’’نیولیتھک انقلاب‘‘ (Neolithic Revolution) کے نام سے مشہور ہوا۔ کم از کم براعظم ایشیا میں اس بین الاقوامی انقلاب کا مولد و مرکز مہر گڑھ ہی تھا۔ شروع میں بستی چند ایکڑوں پہ محیط تھی۔ رفتہ رفتہ دیگر خانہ بدوش قبائل بھی وہاں آباد ہوئے ،تو بستی کا رقبہ پھیلنے لگا۔ ماہرین آثار قدیمہ کی رو سے سات ہزار سال پہلے مہرگڑھ میں دس تا بیس ہزار کے مابین انسان آباد تھے۔ یہ اس زمانے کے لحاظ سے بہت بڑی تعداد ہے کیونکہ تب پورے برصغیر میں انسانی آبادی صرف دو لاکھ تھی۔ اسی لیے مہر گڑھ کا شمار دنیا کے اولیّں شہروں میں ہوتا ہے۔ دیگر قدیم ترین شہروں میں قتلہیوک (ترکی)،عین غزال (اردن) اور اورک(عراق) نمایاں حیثیت رکھتے ہیں۔

مہر گڑھ کی دریافت

ترمیم

مہر گڑھ کے آثار 1974ء میں فرانسیسی اور پاکستانی ماہرین اثریات نے دریافت کیے۔ تب سے علاقے میں وقتاً فوقتاً کھدائی جاری ہے تاکہ شہر کے تاریخی حقائق دریافت ہو سکیں۔ اب تک کی تحقیق کے مطابق مہر گڑھ کا علاقہ 500 ایکڑ رقبے پر پھیلا ہوا تھا۔ وہاں قدیم انسانوں نے اوپر تلے سات بستیاں بسائیں۔ تاہم وہ سبھی معاشرتی، تہذیبی، ثقافتی اور تکنیکی اعتبار سے ایک دوسرے سے تعلق رکھتی تھیں۔

بود وباش

ترمیم

مہر گڑھ کے رہائشی مٹی سے بنے مکانوں میں رہتے،گندم اور جو اگاتے،اناج زیرزمین بنے گوداموں میں ذخیرہ کرتے اور تانبے سے اوزار بناتے تھے۔ انھوں نے ہی گائے بھینسیں اور بھیڑ بکریاں پالنا شروع کیں۔ جوں جوں شہر میں علوم و فنون کو ترقی ملی، مہر گڑھیے رنگسازی کرنے اور دیگر دھاتوں سے بھی ترقی یافتہ آلات و اوزار بنانے لگے۔ یوں برصغیر میں خصوصاً یہ شہر جدت، تخلیق و ایجاد کا مرکز بن گیا۔ چھ ہزار سال پہلے علاقے میں کپاس بھی کاشت کی جانے لگی۔ نقش و نگار والے برتن بننے لگے۔ چونکہ شہر درہ بولان جیسی اہم گذرگاہ پہ واقع تھا،سو وہاں افغانستان،ایران اور چین سے آنے جانے والے قافلے بھی قیام کرنے لگے۔ عین ممکن ہے کہ اسی میل ملاپ سے مہر گڑھ کثیر الاقومی (ملٹی نیشنل)باشندوں کا نگر بن گیا۔

آبادی کا دوسرے علاقوں میں جانا

ترمیم

آثارقدیمہ سے عیاں ہے کہ ساڑھے چار ہزار برس قبل اچانک مہر گڑھ ویران ہو گیا۔ وہاں آباد سبھی لوگ ٹولیوں کی صورت دوسری بستیوں کی سمت ہجرت کر گئے۔1974ء میں ماہرین ثبوت نہ ہونے کے باعث وہ وجوہ تلاش نہیں کر سکے جن کی بنا پر ہجرت انجام پائی۔ یہ عقدہ اکیس سال بعد حل ہوا۔ 1995ء میں ہند شناسی (Indology) کے عالمی شہرت یافتہ ماہرین…جارج فیورسٹین، سبھاش کاک اور ڈیوڈ فرولے نے ایک تحقیقی کتاب ’’گہوارہ ِتہذیب کی تلاش میں،قدیم ہندوستان پہ نئی نظر‘‘(The Search of the Cradle of Civilization: New Light on Ancient India)شائع کی۔ اس میں ماہرین نے افشا کیا کہ مہر گڑھ کے باشندوں ہی نے دور جدید کے پاکستانی صوبوں، پنجاب اور سندھ پہنچ کر ہڑپہ تہذیب کی بنیاد رکھی۔ (یہ وادی سندھ کی تہذیب بھی کہلاتی ہے۔) انھوں نے ان صوبوں میں مختلف چھوٹی بڑی بستیاں بسائیں جو موجودہ بھارتی ریاست ،گجرات تک پھیلی ہوئی تھیں۔ ان بستیوں میں ہڑپہ، موہنجوداڑو، گنویری والا،راکھی گڑھی اور ڈھولاویر نمایاں ہیں۔ بیشتر بستیاں سندھ یا ہاکڑا (گھاگرا) دریاؤں کے کنارے آباد ہوئیں۔ مہر گڑھیے چونکہ ہزا رہا سال کے عرصے میں بستی بنانے کا پیچیدہ میکنزم سیکھ چکے تھے، سو انھیں نئی آبادیاں بسانے میں مشکلات پیش نہیں آئیں۔ اس سلسلے میں انھیں مقامی باشندوں کا تعاون بھی یقیناً حاصل ہوا ہو گا۔ تاہم ماہرین اب تک یہ نہیں جان سکے کہ مہرگڑھیوں نے اپنا آبائی علاقہ کیوں چھوڑ دیا؟ ایک بڑی وجہ دریائے بولان میں سیلاب آنا ہو سکتی ہے۔ جب سیلاب آتا،تو ان کے کھیت،گودام اور گھر بار تباہ ہو جاتے۔ سوانھیں سب کچھ ازسرنو تعمیر کرنا پڑتا۔ ہر سال نازل ہونے والی اسی قدرتی آفت سے بچنے کے لیے مہر گڑھیے رفتہ رفتہ میدانی علاقوں کی طرف چلے گئے۔

ہندو مت کا گہوارہ

ترمیم

’’گہوارہ ِتہذیب کی تلاش میں‘‘کتاب کے محققوں نے ایک اور دلچسپ انکشاف کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ ہڑپہ تہذیب جب عروج پا گئی،تو مہر گڑھیوں ہی نے ’’ویدک دور‘‘ کا آغاز کیا جو 1750ق م(قبل مسیح) تا500ق م پھیلا ہوا ہے۔ اسی دور میں ہندومت کی قدیم ترین مذہبی کتابیں تخلیق ہوئیں۔ ان میں وید(رگ وید،اتھرا ویدوغیرہ)،اپنشد اور شرسترا ہندوؤوں کے نزدیک بہت اہم سمجھی جاتی ہیں۔ ان محققین کا کہنا ہے کہ وسطی ایشیا یا ایران سے آریاؤں کی آمد محض فسانہ ہے۔ سچ یہ ہے کہ ہندومت ان قدیم روایات اور رسوم و رواج کا مجموعہ ہے جنھوں نے ہزاروں برس کے عرصے میں مہر گڑھ،کوٹ ڈیجی،ہڑپہ، مونجوداڑو (موہانڑوجودڑو)وغیرہ میں جنم لیا۔گویا مہر گڑھ ہندومت کا مولد و مرکز قرار پاتا ہے کیونکہ زمانہ قدیم میں یہی ہندوستان کا سب سے بڑا شہر اور تہذیب و ثقافت کامرکز تھا۔ قدیم و جدید روایات کا تقابل بھی یہی سچائی سامنے لاتا ہے۔ مثال کے طور پہ مہرگڑھ میں گائے یا بیل کو بڑی مقدس حیثیت حاصل تھی۔ کیونکہ مہر گڑھیے اسی حیوان کی مدد سے اناج اگاتے اور یوں شکم پروری کا سامان پیدا کرتے تھے۔ اور ہندومت میں آج بھی گائے کو مقدس ترین جانور سمجھا جاتا ہے۔ سنسکرت زبان میں گائے ’’گئو‘‘کہلاتی ہے۔ اِس لفظ کی اہمیت کا اندازہ یوں لگائیے کہ اُس کے بطن سے سیکڑوں الفاظ نے جنم لیا۔ مثلاً ستارے اور دھوپ کوگئو کہا گیا اور زمین بھی اسی نام سے جانی گئی۔ ویدک دور کے مذہبی رہنماؤں کی ہیجان انگیز تقریر بھی گئو کہلائی۔’’گئو پال‘‘سے مراد ہے شریف کسان یا زمین پہ حکمرانی کرنے والا شہنشاہ! غرض آٹھ نو ہزار سال قبل کچھی کے وسیع میدان میں قدیم مقامی قبائل نے جن بستیوں کی بنیاد رکھی (اور جن کا مجموعہ مہر گڑھ کہلاتا ہے)،وہیں جنم لینے والی روایات اور رسومات بعد ازاں وہ خمیر بنیں جس سے ہندومت کا وجود سامنے آیا۔[1]

حوالہ جات

ترمیم

بیرونی روابط

ترمیم

29°23′N 67°37′E / 29.383°N 67.617°E / 29.383; 67.617