لاہور کا میسونک ٹیمپل لاہور، پاکستان کے چیئرنگ کراس کے قریب واقع ہے۔ یہ معبد پرنس البرٹ وکٹر لاج 2307 ای سی اور ہوپ اینڈ پرسیویرینس لاج نمبر 782 کی سابقہ قیام گاہ ہے؛ جو یونائیٹیڈ گرین لاج آف انگلینڈ سے منظور شدہ تھے۔ جب اس وقت کے وزیر اعظم، ذوالفقار علی بھٹو نے 1972ء میں پاکستان میں فری میسنری پر پابندی عائد کی تو اس کے بعد سے اس عمارت کو میسونک مقاصد کے لیے استعمال نہیں کیا گیا ہے۔[1]

میسونک ٹیمپل لاہور نمبر 2370
مقام90 مال روڈ، لاہور، پاکستان
متناسقات31°33′33″N 74°19′28.29″E / 31.55917°N 74.3245250°E / 31.55917; 74.3245250
تاسیس1860
تعمیر1914
لوا خطا ماڈیول:Location_map میں 525 سطر پر: Unable to find the specified location map definition: "Module:Location map/data/پاکستان" does not exist۔

لاج آف ہوپ اینڈ پرسیویرینس نمبر 782 ترمیم

لاج آف ہوپ اینڈ پرسیویرینس کا پہلا میسونک معبد لاہور کے علاقے انار کلی میں 1859ء میں قائم ہوا۔[2] لاج روڈ پر اب یہ جگہ لیڈی میکلاگن گورنمنٹ ہائی اسکول کے زیر استعمال ہے۔[3] دوسرا میسونک معبد 1914ء میں قائم کیا گیا، جس میں سنگ بنیاد کے لیے اس کے پیشرو کا استعمال کیا گیا۔[4] قیام سے قبل اس زمین پر باغ تھا۔[5] نئے معبد کی صناعی کا کام بیسل ایم سلیوان نے انجام دیا، جو حکومت پنجاب کے مشاورتی ماہر تعمیرات تھے۔ یہ عمارت شاہ دین بلڈنگ کا عکس تھی جو کوئنز روڈ کے ساتھ سڑک پر واقع تھی۔ بعد میں اس کو استعمال میں لانے کے لیے پنجاب کے وزیر اعلیٰ سیکریٹریٹ کی جانب سے مرمت کی گئی۔ شاہ دین بلڈنگ میں حالیہ ترامیم کے بعد دونوں عمارتیں اب مزید ایک دوسرے کا عکس نہیں رہی ہیں۔ [6]

رڈیارڈ کپلنگ ترمیم

1885ء میں اصل لاج کی اصل عمارت میں مصنف اور شاعر رڈیارڈ کپلنگ کو لاج آف ہوپ اینڈ پرسیویرینس میں ایک ضابطے کے تحت میسن بنایا گیا، جس میں ان کو 21 ویں سال گرہ سے قبل میسن بننے کی اجازت دی گئی۔ میسن بننے کے بعد انھوں نے لاج کے سیکریٹری کے طور پر خدمات انجام دیں۔[7] وہ تین سال تک لاج کے ارکان رہے، جس کے بعد 1889ء میں اس عہدے کو خیر باد کہہ دیا۔[8] انھوں نے لاج آف ہوپ اینڈ پر سیویرینس میں اپنے گزارے گئے وقت کو "Something of Myself" اور "Times" کو لکھے گئے خط میں تحریر کیا ہے؛ جس میں انھوں نے بیان کیا کہ "میسونک ہال کی خالی دیواروں پر حضرت سلیمان علیہ السّلام کے ہیکل کے نسخوں کا ٹانگنا" اور مختلف مذاہب کے ماننے والوں سے ملنا، جس میں مسلمان، ہندو، سکھ اور یہودی شامل تھے۔ [9] کپلنگ نے اپنے ناول "Kim" کے اولین منظر میں اصل 1859ء والی بلڈنگ کا حوالہ دیا ہے، جس میں اس کو ایک بڑے نیلے اور سفید رنگ کے جادو گھر (Magic House) سے تشبیہ دی گئی ہے، جسے ہم میسونک لاج کا نام دیتے ہیں۔[10][11] کتاب میں پلاٹ کی ایک لائین کم کی تحویل میں موجود کاغذ کے ایک پرچے سے متعلق ہے، جو ایک "کلیئرینس سرٹیفیکیٹ" ہے؛ جو ظاہر کرتا ہے کہ اس کے آنجہانی والد ایک میسن تھے۔ 1914ء میں کپلنگ کے ہندوستان چھوڑ جانے کے بہت عرصے بعد لاج نے وہ عمارت منہدم کر دی جس کے بارے میں کپلنگ نے بیان کیا تھا۔ اس عمارت کی جگہ موجودہ عمارت قائم کی گئی۔

موجودہ صورت حال ترمیم

1972ء میں اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان میں فری میسنری اور دیگر دوسرے غیر ملکی اداروں پر پابندی عائد کر دی۔[1] ایک عرصے کے لیے لاج بند کر دیا گیا اور عمارت کسی کے استعمال میں نہیں رہی۔ اب اس کو پنجاب حکومت کی عمارت کے طور پر مختلف مقاصد کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔[12][13] 1980ء کے اواخر میں ہیریٹیج فاؤنڈیشن پاکستان اور لاہور کے تشویش میں مبتلا شہریوں نے مال روڈ پر قومی ورثے کی حامل عمارتوں کی مرمت اور آرائش کے لیے ایک پراجیکٹ کا آغاز کیا، جن میں یہ عمارت بھی شامل تھی۔ [14]

مزید دیکھیے ترمیم

حوالہ جات ترمیم

  1. ^ ا ب "Masonic mystique " - Dawn.com[مردہ ربط]
  2. "Laying the Foundation Stone of a Masonic Hall at Anarkullee" - The Freemasons' quarterly (magazine and) review, Pg. 356, 5 Nov 1859
  3. Majid Sheikh (21 September 2003)۔ "Walking to Charing Cross"۔ Dawn۔ Pakistan۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 ستمبر 2010 
  4. Nazir Ahmad Chaudhry (1998)۔ Lahore: Glimpses of a Glorious Heritage۔ Sang-e-Meel Publications۔ صفحہ: 202–207۔ ISBN 978-969-35-0944-1۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 اکتوبر 2018 
  5. Majid Sheikh (21 September 2003)۔ "Walking to Charing Cross"۔ Dawn۔ Pakistan۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 31 اگست 2010۔ a map of the Charing Cross area, drawn by the British in 1867, makes interesting reading. The area from the crossing, going eastwards, has nothing but gardens on the right. Where today stands the Masonic Hall has a beautiful ‘circular garden’ 
  6. N. Naz، Z. Ashraf (Jan 2008)۔ "Transformation of Urban Open Spaces of Lahore: From Charing Cross to Faisal Square" (PDF)۔ Pakistan Journal of Engineering and Applied Sciences۔ 2: 65–78۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 اکتوبر 2018 
  7. Kipling and Freemasonry---MWBro. Robert A. Gordon PGM - G.L. P.E.I.
  8. Masonic biography of Joseph Rudyard Kipling, Grand Lodge BC&Y
  9. H. Paul Jeffers (2005)۔ Freemasons: A History and Exploration of the World's Oldest Secret Society۔ Citadel Press۔ صفحہ: 192–193۔ ISBN 978-0-8065-2662-1۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 اکتوبر 2018 
  10. Rudyard Kipling (1922)۔ Kim۔ Garden City, N.Y.: Doubleday, Page and Company۔ صفحہ: 2ff۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 اکتوبر 2018 
  11. Rudyard Kipling (1998)۔ مدیر: Alan Sandison۔ Kim۔ Oxford University Press۔ صفحہ: 2, 291۔ ISBN 978-0-19-283513-0۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 اکتوبر 2018۔ the Masonic Lodge: this is the lodge ('Hope and Perseverance no. 782 E.C.') to which Kipling was admitted in 1885.... 
  12. "The office of this organization was set up at Free Mason Hall, which had been taken over from the Masonic Society. This building is now known as 90-Shahrah-e-Quaid-e-Azam and the offices of the Chief Minister are located therein. ..." 50 years of Lahore Arts Council, Alhamra by the Alhamra Council
  13. "Evaluation of Seventh Five Year Plan, 1988-93" by the Pakistan Planning Council, Pg. 151
  14. Lari, Y. (2003). Lahore - Illustrated City Guide. Karachi, Pakistan: Heritage Foundation Pakistan 2003