کام جاری صارف:Tahir697

پیغمبر
سلیمان علیہ السلام
سُلَيْمَان
Solomon

معلومات شخصیت
مقام پیدائش یروشلم, اسرائیل
مقام وفات یروشلم , فلسطین ، اسرائیل
قومیت اسرائیلی
والد داؤد علیہ السلام
عملی زندگی
پیشہ نبی،  شاہی حکمران،  اسلامی نبی  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وجہ شہرت ’’اسرائیل کا تیسرا بادشاہ اور نبی ہونا، شیاطین کو غلام بنانا، جانوروں سے باتیں کرنا، سبا کی فتح


سلیمان علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ نبی علیہ السلام تھے۔ سلیمان علیہ السلام داؤد علیہ السلام کے بیٹے تھے۔ سمجھا جاتا ہے کہ انہوں نے متحدہ اسرائیل پر 970 قبل از مسیح سے لے کر 931 قبل از مسیح تک حکومت کی۔ ان کے بعد ملک اسرائیل کے دو حصے (شمالی اور جنوبی) ہو گئے۔ سلیمان کا سلسلہ نسب یہودا (اولاد یعقوب) کے واسطے سے یعقوب سے جا ملتا ہے۔ قرآن پاک میں انھیں اولاد ابراہیم میں شمار کیا ہے۔ سلیمان بن داؤد بن ایشا بن عوید بن عابر بن سلمون بن نحشون بن عیمنا ذب بن ارم بن حصرون بن فارص بن یہودا بن یعقوب بن اسیاق بن ابراہیم۔ داؤد علیہ السلام کی طرح اللہ تعالیٰ نے سلیمان علیہ السلام کو بھی بہت سے معجزے عطا کر رکھے تھے۔ آپ جانوروں کی بولیاں سمجھ لیتے تھے، ہوا پر آپ کا قابو تھا۔ آپ کا تخت ہوا میں اڑا کرتا تھا۔ یعنی صبح اور شام مختلف سمتوں کو ایک ایک ماہ کا فاصلہ طے کر لیا کرتے تھے۔ سلیمان علیہ السلام کی سب سے بڑی خصوصیت یہ تھی کہ آپ کی حکومت صرف انسانوں پر ہی نہ تھی، بلکہ جن بھی آپ کے تابع تھے۔ سلیمان علیہ السلام نے مسجد اقصی اور بیت المقدس کی تعمیر شروع کی۔ جن دور دور سے پتھر اور سمندر سے موتی نکال نکال کر لایا کرتے تھے۔ یہ عمارتیں آج تک موجود ہیں۔ اس کے علاوہ آپ نے جنوں سے اور بھی بہت سے کام لیے۔ ایک موقع پر اللہ تعالیٰ نے سلیمان علیہ السلام کو آزمائش میں ڈال دیا۔ آپ کے پاس ایک انگوٹھی تھی، جس پر اسم اعظم کندہ تھا، اس انگوٹھی کی بدولت آپ جن و انس پر حکومت کیا کرتے تھے۔ لیکن وہ انگوٹھی کسی وجہ سے گم ہو گئی اور شیطان کے ہاتھ آگئی۔ چنانچہ آپ تخت و سلطنت سے محروم ہو گئے، ایک مدت کے بعد وہ انگوٹھی شیطان کے ہاتھ سے دریا میں گرپڑی، جسے ایک مچھلی نے نگل لیا، وہ مچھلی سلیمان علیہ السلام نے پکڑ لی، جب اس کو چیرا گیا تو انگوٹھی اس کے پیٹ سے مل گئی اور اسی طرح آپ کو دوبارہ سلطنت اور حکومت مل گئی۔ حالانکہ یہ بات غلط ہے کہ وہ انگوٹھی کی بدولت حکومت کرتے تھے۔ حکومت ان کو اللہ نے اپنے فضل خاص سے دی تھی۔

نسب

حضرت سلیمان (علیہ السلام) حضرت داؤد (علیہ السلام) کے صاحبزادے ہیں۔ اس لیے ان کا نسب بھی یہودا کے واسطہ سے حضرت یعقوب (اسرائیل) (علیہ السلام) تک پہنچتا ہے۔
ان کی والدہ ماجدہ کا نام معلوم نہیں ہوسکا ‘ توراۃ نے بنت سبع نام بتایا ہے لیکن اس طرح کہ وہ اول حتی اور یاہ کی بیوی تھی اور پھر داؤد (علیہ السلام) کی بیوی بنی اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) اس سے پیدا ہوئے۔ مگر اس قصہ کی لغویت واقعہ داؤد علیہ السلام میں واضح ہوچکی ہیں اس لیے یہ نام بھی تاریخی حیثیت سے صحیح نہیں ہے۔ ابن ماجہ کی ایک حدیث میں صرف اس قدر منقول ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ سلیمان بن داؤد (علیہ السلام) کی والدہ نے ایک دفعہ سلیمان (علیہ السلام) کو یہ نصیحت فرمائی :
بیٹا رات بھر نہ سوتے رہا کرو اس لیے کہ رات کے اکثر حصہ کو نیند میں گزارنا انسان کو قیامت کے دن اعمال خیر سے محتاج بنا دیتا ہے۔
قرآن عزیز نے بھی صرف اسی قدر بتایا ہے کہ وہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے واسطہ سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی نسل سے ہیں :
{ وَ وَھَبْنَا لَہٗٓ اِسْحٰقَ وَ یَعْقُوْبَط کُلًّا ھَدَیْنَاج وَ نُوْحًا ھَدَیْنَا مِنْ قَبْلُ وَ مِنْ ذُرِّیَّتِہٖ دَاوٗدَ وَ سُلَیْمٰنَ } [1]
” اور ہم نے اس (ابراہیم) کو بخشے اسحاق و یعقوب ‘ ہم نے ہر ایک کو ہدایت دی اور نوح کو ہدایت دی اس (ابراہیم ) سے پہلے اور اس (ابراہیم) کی اولاد میں سے داؤد اور سلیمان کو ہدایت دی۔ “
{ وَوَہَبْنَا لِدَاوٗدَ سُلَیْمَانَ } [2]
” اور ہم نے داؤد کو سلیمان دیا۔ “

قرآن عزیز اور ذکر سلیمان علیہ السلام

قرآن عزیز میں حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا ذکر سترہ جگہ آیا ہے ان میں سے چند جگہ کچھ تفصیل کے ساتھ ذکر ہے اور اکثر جگہ مختصر طور پر ان انعامات اور فضل و کرم کا تذکرہ ہے جو خدا کی جانب سے ان پر اور ان کے والد حضرت داؤد (علیہ السلام) پر نازل ہوتے رہے۔
ذیل کا نقشہ اس سلسلہ کے مطالعہ کیلئے مفید ہے :
بقرہ ۔ ١٠٢ ۔ (٢ مرتبہ) ٢
نمل۔ ١٥۔ ١٦۔ ١٧۔ ١٨۔ ٢٠۔ ٣٦۔ ٤٤۔ ٧
نساء۔ ٦٣۔ ١
سبا۔ ١٢۔ ١
انعام۔ ٨٤۔ ١
ص۔ ٣٠۔ ٣٤۔ ٢
انبیاء ۔ ٧٨۔ ٧٩۔ ٨١ ۔ ٣
ٹوٹل۔ ١٧

بچپن

اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) میں ذکاوت اور فصل مقدمات میں اصابت رائے کا کمال فطرت ہی سے ودیعت کردیا تھا چنانچہ ان کے بچپن کا وہ واقعہ اس کیلئے روشن برہان ہے جو حضرت داؤد (علیہ السلام) کے واقعات کے ضمن میں قرآن عزیز سے نقل کیا جا چکا ہے۔
حضرت داؤد نے ان کے اس جوہر کو پہچان لیا تھا اس لیے بچپن ہی سے ان کو امور مملکت میں شریک کار رکھتے تھے۔ خصوصاً فصل مقدمات میں ان سے ضرور مشورہ فرما لیا کرتے تھے۔

وراثت داؤد (علیہ السلام)

مورخین کہتے ہیں کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) سن رشد کو پہنچ چکے تھے کہ حضرت داؤد (علیہ السلام) کا انتقال ہوگیا اور اللہ تعالیٰ نے ان کو نبوت اور حکومت دونوں میں داؤد (علیہ السلام) کا جانشین بنادیا اور اس طرح فیضان نبوت کے ساتھ ساتھ اسرائیلی حکومت بھی ان کے قبضہ میں آگئی۔ قرآن عزیز نے اسی جانشینی کو وراثت داؤد (علیہ السلام) سے تعبیر کیا ہے :
{ وَوَرِثَ سُلَیْمَانُ دَاوٗدَ } [3]
” اور سلیمان داؤد کا وارث ہوا۔ “
ابن کثیر (رحمۃ اللّٰہ علیہ) کہتے ہیں کہ یہاں وراثت سے نبوت و سلطنت کی وراثت مراد ہے۔ مالی وراثت مراد نہیں ہے ورنہ حضرت داؤد (علیہ السلام) کی اور بھی بہت سی اولاد تھی وہ کیوں محروم رہتی نیز صحاح ستہ میں متعدد جلیل القدر صحابہ سے یہ روایت منقول ہے :
آیت ” وَدَاوٗدَ وَسُلَیْمٰنَ اِذْ یَحْکُمَانِ فِی الْحَرْثِ اِذْ نَفَشَتْ فِیْہِ غَنَمُ الْقَوْمِ “ [4] کی جانب اشارہ ہے۔
( (ان رسول اللّٰہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قال نحن معشر الانبیاء لا نورث ماترکنا فھو صدقۃ۔۔ الحدیث) )
” رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : ہم جماعت انبیاء کی وراثت مالی کا سلسلہ نہیں چلتا اور ہم جو کچھ چھوڑتے ہیں وہ صدقہ ہوجاتا ہے۔ “
یہ روایت صراحت کرتی ہے کہ انبیاء (علیہ السلام) کی وفات کے بعد ان کے مال کا کوئی وارث نہیں ہوتا بلکہ وہ مساکین اور فقراء کا حق ہے اور خدا کے نام پر صدقہ ہے۔ دراصل نبی کی فطرت یہ گوارا نہیں کرتی کہ مال جیسی حقیر شے پر ان کی وراثت کا انتساب ہو۔ اس لیے کہ جن ہستیوں کا مقصد حیات تبلیغ و ارشاد اور راہ خدا کی دعوت ہو وہ کب یہ گوارا کرسکتی ہیں کہ علوم و فیوض نبوت کے علاوہ ایک ادنیٰ شے ان کی وراثت قرار پائے ‘ اس لیے بربنا بشریت بقائے حیات کیلئے وہ جو کچھ مال کی صورت میں رکھتے تھے پس مردن صرف خدا کی ملکیت ہوجانا چاہیے جو فقراء اور مساکین ہی کا حصہ ہوسکتا ہے نہ کہ اس اولوالعزم ہستی کے نسل و خاندان کا۔

نبوت

جن انبیاء ورسل کی صحیح تاریخ منضبط ہے اس سے اور قرآن عزیز کی بعض آیات کی صراحت سے یہ معلوم ہوچکا ہے کہ اللہ تعالیٰ جس ہستی کو شرف نبوت سے سرفراز کرتا ہے اس کو یہ منصب جلیل سن رشد کے بعد عطا فرماتا ہے تاکہ وہ دنیوی اسباب کے لحاظ سے بھی عمر طبعی کا وہ حصہ طے کرلے جس میں عقل و تجربہ پختگی اختیار کرلیتے ہیں اور اس حد پر پہنچ کر استعداد کے مطابق انسانوں کے قوائے فکری و عملی میں استواری اور استقامت پیدا ہوجاتی ہے۔ چنانچہ یہ سنت اللہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے حق میں بھی کار فرما رہی اور سن رشد کے بعد ان کو حکومت و خلافت کے ساتھ ساتھ ” منصب نبوت “ بھی منجانب اللہ عطا ہوا :
{ اِنَّآ اَوْحَیْنَآ اِلَیْکَ کَمَآ اَوْحَیْنَآ اِلٰی نُوْحٍ وَّ النَّبِیّٖنَ مِنْ بَعْدِہٖ وَ اَوْحَیْنَآ اِلٰٓی اِبْرٰھِیْمَ وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِسْحٰقَ وَ یَعْقُوْبَ وَ الْاَسْبَاطِ وَعِیْسٰی وَ اَیُّوْبَ وَ یُوْنُسَ وَ ھٰرُوْنَ وَ سُلَیْمٰنَ } [5]
” بیشک ہم نے (اے محمد) تیری طرف وحی بھیجی جس طرح ہم نے نوح کی جانب وحی بھیجی اور اس کے بعد دوسرے پیغمبروں کی طرف وحی بھیجی اور ابراہیم کی جانب ‘ اسماعیل کی ‘ اسحاق کی ‘ یعقوب کی اور اس کی اولاد کی جانب ‘ اور عیسیٰ کی اور ایوب کی اور یونس کی اور ہارون کی اور سلیمان کی جانب وحی بھیجی۔ “
{ وَ کُلًّا اتَیْنَاحُکْمًا وَّ عِلْمًا } [6]
” اور (داؤد سلیمان) ہر ایک کو ہم نے حکومت دی اور علم (نبوت) دیا۔ “
{ وَلَقَدْ اتَیْنَا دَاوٗدَ وَسُلَیْمَانَ عِلْمًا } [7]
” اور بیشک ہم نے داؤد اور سلیمان کو علم (نبوت کا علم) دیا۔ “

خصائصِ سلیمان (علیہ السلام)

پھر حضرت داؤد (علیہ السلام) کی طرح اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو بھی بعض خصوصیات اور امتیازات سے نوازا اور اپنی نعمتوں میں سے بعض ایسی نعمتیں عطا فرمائیں جو ان کی زندگی مبارک کا طغرائے امتیاز بنیں۔

منطق الطیر

اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) دونوں کو یہ خصوصیت عطا فرمائی تھی کہ وہ چرند و پرند کی بولیاں سمجھ لیتے تھے اور دونوں بزرگوں کیلئے ان کی آوازیں ایک ناطق انسان کی گفتگو کی طرح تھیں۔ قرآن عزیز نے سلیمان (علیہ السلام) کے اس شرف کا اس طرح ذکر کیا ہے :
{ وَلَقَدْ اتَیْنَا دَاوٗدَ وَسُلَیْمَانَ عِلْمًاج وَّقَالَا الْحَمْدُ لِلَّہِ الَّذِیْ فَضَّلَنَا عَلٰی کَثِیْرٍ مِّنْ عِبَادِہِ الْمُؤْمِنِیْنَ ۔ وَوَرِثَ سُلَیْمَانُ دَاوٗدَ وَقَالَ ٓیاَیُّہَا النَّاسُ عُلِّمْنَا مَنْطِقَ الطَّیْرِ وَاُوْتِیْنَا مِنْ کُلِّ شَیْئٍ اِنَّ ہٰذَا لَہُوَ الْفَضْلُ الْمُبِیْنُ ۔ } [8]
” اور بیشک ہم نے داؤد اور سلیمان کو ” علم “ دیا اور ان دونوں نے کہا : حمد اللہ کیلئے ہی زیبا ہے جس نے اپنے بہت سے مومن بندوں پر ہم کو فضیلت عطا فرمائی اور سلیمان داؤد کا وارث ہوا اور اس نے کہا : اے لوگو ! ہم کو پرندوں کی بولیوں کا علم دیا گیا ہے اور ہم کو ہر چیز بخشی گئی ہے ‘ بیشک یہ (خدا کا) کھلا ہوا فضل ہے۔ “
اس مقام پر ” منطق الطیر “ کا جس اہمیت کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے اس کو پیش نظر رکھ کر یہ بات تو صاف ہوجاتی ہے کہ اس سے یہ مراد نہیں ہے کہ ”وہ اپنے قیاس وتخمین کے ذریعہ ان کی مختلف قسم کی آوازوں سے صرف ان کے مقصد اور مراد کو سمجھ لیتے تھے اور اس سے زیادہ کچھ نہ تھا “ اس لیے کہ قیاس وتخمین کا یہ درجہ تو بکثرت لوگوں کو حاصل ہے اور وہ پالتو جانوروں کی بھوک پیاس کے وقت کی آواز ‘ خوشی اور مسرت کی آواز ‘ مالک کو قریب دیکھ کر اظہار وفاداری کی آواز اور دشمن کو دیکھ کر خاص طرح سے پکارنے کی آواز کے درمیان بخوبی فرق سمجھتے اور ان کے ان مقاصد کو بآسانی ادراک کرلیتے ہیں۔ نیز ” منطق الطیر “ سے وہ علم بھی مراد نہیں ہوسکتا جو جدید علمی دور میں ظن وتخمین کی راہ سے بعض جانوروں کی گفتگو کے سلسلہ میں ایجاد ہوا ہے اور جو زولوجی کا ایک شعبہ شمار کیا جاتا ہے اس لیے کہ یہ محض اٹکل کا تیر ہے جو مسطورہ بالا تجربہ کے بعد کمان علم سے نکلا ہے اور اس کو علم بمرتبہ یقین کہنا خود واضعین علم الحیوانات کے نزدیک بھی صحیح نہیں ہے۔ علاوہ ازیں وہ ایک اکتسابی فن ہے جو ہر شخص کو تھوڑی سی محنت کے ساتھ حاصل ہوجاتا ہے اور ظاہر ہے کہ حضرت داؤد و سلیمان (علیہ السلام) کے اس علم کیلئے قرآن عزیز کو اس قدر اہم پیرایہ بیان کی ضرورت نہیں تھی۔
قرآن عزیز نے جس انداز میں اس کا ذکر کیا اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے شکریہ کے انداز بیان کو نقل کیا ہے اس سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ حضرت داؤد اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) کیلئے یہ ایسی عظیم الشان نعمت تھی جس کو نشان (معجزہ) کہا جاتا ہے اور وہ بلاشبہ پرندوں کی بولیاں انسان ناطق کی گفتگو کی طرح سمجھتے تھے اور یقیناً ان کا یہ علم اسباب دنیوی سے بالاتر خاص قوانین قدرت کے فیضان کا نتیجہ تھا۔ لہٰذا عقل اس بارے میں صرف یہیں تک جاسکتی ہے کہ اس کے نزدیک یہ محال بات نہیں ہے کیونکہ لغت اور عقل دونوں کے لحاظ سے ” نطق “ کیلئے صرف صوت کا ہونا کافی ہے اور اس کیلئے انسانوں کی طرح گویائی ضروری نہیں ہے اور چرند و پرند کی بولیوں میں صوت اور صوت کا نشیب و فراز دونوں موجود ہیں۔ پس منطق الطیر ایسی بخشش اور موہبت تھی جس کو خدا کا نشان کہنا چاہیے اور جو ان ہی جیسی پاک ہستیوں کیلئے مخصوص ہے۔
قاضی بیضاوی (رحمہ اللہ علیہ) کے اور ہمارے درمیان ” منطق الطیر “ کی تفسیر سے متعلق اس پر تو اتفاق ہے کہ حضرت سلیمان اور حضرت داؤد (علیہ السلام) حیوانات کی بولیاں جس طریقے سے یقینی طور پر سمجھ لیا کرتے تھے وہ عام علمی تدوین سے جدا اللہ تعالیٰ کی جانب سے ان کو بطور نشان کے عطا ہوا تھا البتہ اس کی تفصیل میں یہ فرق ہے کہ قاضی بیضاوی (رحمہ اللہ علیہ) کے نزدیک حیوانات کی بولیاں مختلف کیفیات کی صورت میں تخیل کی مدد سے سمجھی جاتی ہیں اور اس کا یقینی درجہ کسب کے ذریعہ سے نہیں بلکہ موہبت الٰہی سے حاصل ہوتا ہے جو حضرت داؤد و سلیمان (علیہ السلام) کو حاصل تھا اور ہمارے نزدیک دونوں اولو العزم پیغمبر ان کی بولیاں اس طرح سنتے تھے جس طرح انسان کی گفتگو خواہ اس لیے کہ یہ صرف معجزہ تھا جو ان کے ہاتھ پر دکھلایا گیا اور عام طور پر ان کی بولیاں محض کیفیات صوت سے پہچانی جاتی ہیں 1 اور خواہ یہ ہو کہ حقیقتاً ان کی صوت بھی ایسا درجہ رکھتی ہے جس سے وہ صاف صاف ایک دوسرے کو اپنا مطلب سمجھاتے اور سمجھتے ہیں لیکن وہ انسانی نطق سے بہت کمزور درجہ کا ہے۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) اور ہدہد کے مکالمہ کو جس انداز میں قرآن نے بیان کیا ہے وہ میری توجیہ کی تائید کرتا ہے۔
حاشیہ 1 علما علم الحیوانات کہتے ہیں کہ ٹیلی گراف کی صوتی حرکات کی طرح جانوروں کی بولیاں بھی باہم بولی اور سمجھی جاتی ہیں اور ان میں آواز کے زیرو بم کو بھی دخل ہے اور مکرر سہ کر راداء کو بھی۔ بلکہ کہنا یوں چاہیے کہ تار کے گٹ ‘ گر کے ایجاد کا تخیل حیوانوں کی آواز سے ہی ماخوذ ہے۔

تسخیر ریاح

حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی نبوت حقہ کے خصوصی امتیازات میں سے ایک امتیاز یہ بھی تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ” ہوا “ کو ان کے حق میں مسخر کردیا تھا اور وہ ان کے زیرفرمان کردی گئی تھی۔ چنانچہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) جب چاہتے تو صبح کو ایک مہینہ کی مسافت اور شام کو ایک مہینہ کی مسافت کی مقدار سفر کرلیتے تھے۔ قرآن عزیز نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے اس شرف کے متعلق تین باتیں بیان کی ہیں : ایک یہ کہ ” ہوا “ کو سلیمان (علیہ السلام) کے حق میں مسخر کردیا گیا۔ دوسری یہ کہ ” ہوا “ ان کے حکم کے اس طرح تابع تھی کہ شدید اور تیزو تند ہونے کے باوجود ان کے حکم سے ” نرم “ اور آہستہ روی کے باعث ” راحت رساں “ ہوجاتی تھی۔ تیسری بات یہ کہ نرم رفتاری کے باوجود اس کی تیز روی کا یہ عالم تھا کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا صبح و شام کا جدا جدا سفر ایک شہسوار کی مسلسل ایک ماہ کی رفتار مسافت کے مساوی ہوتا تھا۔ گویا تخت سلیمان (علیہ السلام) انجن اور مشین جیسے اسباب ظاہر سے بالاتر صرف خدائے تعالیٰ کے حکم سے ایک بہت تیز رفتار ہوائی جہاز سے بھی زیادہ تیز مگر سبک روی کے ساتھ ہوا کے کاندھے پر اڑا چلا جاتا تھا۔
ایک فطرت پرست انسان کی نگاہ میں یہ بات بہت کھٹکتی ہے ‘مگر ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ جبکہ عقل و فکر کے نزدیک یہ مسلمات میں سے ہے کہ انسان کے قوائے فکری و عملی کے درمیان اس درجہ تفاوت ہے کہ ایک شخص جس شے کو اپنی عقل سے کرتا اور اس کا کرنا آسان سمجھتا ہے۔
دوسرا شخص اسی شے کو ناممکن اور محال یقین کرتا ہے تو اسی اصول پر ان کو یہ تسلیم کرنے میں کیوں انکار ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جس طرح عام قوانین قدرت کے پیش نظر کائنات کی اشیاء کو اسباب کے ساتھ وابستہ کردیا ہے ‘اسی طرح اس کے کچھ خاص قوانین قدرت اور نوامیس فطرت بھی ہیں جو ایسے امور کیلئے مخصوص ہیں جیسا کہ امر زیر بحث ہے اور نفوس قدسیہ (انبیاء (علیہ السلام)) کو ان کا اسی طرح یقینی علم حاصل ہوتا ہے جس طرح اسباب کے ذریعہ مسببات کے وجود کا علم عام عقلاء کو حاصل ہے اور موجودہ دنیوی علوم کی دسترس اس علم تک نہیں ہے لہٰذا جب ایسے امور کے وقوع کی اطلاع علم الیقین (وحی الٰہی) کے ذریعہ حاصل ہوتی ہے تو محض ظن وتخمین اور عقل کے استبعاد کی وجہ سے ایک حقیقت ثابتہ کا کیسے انکار کیا جاسکتا ہے اور اگر ہم کو ایک شئے کا علم نہیں ہے تو یہ کیسے لازم آجاتا ہے کہ وہ شئے حقیقتاً بھی موجود نہیں ہے ؟
لہٰذا جادہ مستقیم یہ ہے کہ واقعہ تسخیر ریاح اور مسافت رفتار کو بغیر کسی تاویل کے صحیح تسلیم کیا جائے البتہ اس مقام پر تخت سلیمان (علیہ السلام) اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے صبح و شام سفر کے متعلق جو تفصیلات سیرت کی کتابوں اور تفسیروں میں منقول ہیں وہ سب اسرائیلیات کا ذخیرہ ہیں اور لا طائل تفصیلات ہیں اور تعجب ہے ابن کثیر (رحمہ اللہ علیہ) جیسے محقق پر کہ اس جگہ وہ بھی ان روایات کو اس طرح نقل فرما رہے ہیں گویا ان کے نزدیک وہ مسلمات میں سے ہیں ‘ حالانکہ تاریخی اعتبار سے ان پر بہت سے صحیح اشکالات وارد ہوتے ہیں۔ قرآن عزیز نے تو اس کے متعلق صرف اس قدر بیان کیا ہے :
{ وَ لِسُلَیْمٰنَ الرِّیْحَ عَاصِفَۃً تَجْرِیْ بِاَمْرِہٖٓ اِلَی الْاَرْضِ الَّتِیْ بٰرَکْنَا فِیْھَا وَکُنَّا بِکُلِّ شَیْئٍ عٰلِمِیْنَ } [9]
” اور مسخر کردیا سلیمان کیلئے تیز و تند ہوا کو کہ اس کے حکم سے اس زمین کی طرف چلتی تھی جس کو ہم نے برکت دی تھی اور ہم ہر شئے کے جاننے والے ہیں۔ “
وَ لِسُلَیْمٰنَ الرِّیْحَ غُدُوُّھَا شَھْرٌ وَّ رَوَاحُھَا شَھْرٌ} [10]
” اور سلیمان کیلئے مسخر کردیا ہوا کو کہ صبح کو ایک مہینہ کی مسافت (طے کراتی) اور شام کو ایک مہینہ کی مسافت۔ “
{ فَسَخَّرْنَا لَہُ الرِّیْحَ تَجْرِیْ بِاَمْرِہٖ رُخَآئً حَیْثُ اَصَابَ } [11]
” اور مسخر کردیا ہم نے اس (سلیمان) کیلئے ہوا کو کہ چلتی ہے وہ اس کے حکم سے نرمی کے ساتھ جہاں وہ پہنچنا چاہے۔ “

تسخیر جن و حیوانات

حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی حکومت کا ایک بڑا امتیاز جو کائنات میں کسی کو نصیب نہیں ہوا ‘ یہ تھا کہ ان کے زیر نگیں صرف انسان ہی نہیں تھے بلکہ جن اور حیوانات بھی تابع فرمان تھے اور یہ سب حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے حاکمانہ اقتدار کے تابع اور زیر حکم تھے۔
بعض ملاحدہ نے ” انکار معجزہ “ اور ” انکار جن “ کے شوق میں ان جیسے دیگر مقامات کی طرح یہاں بھی عجیب مضحکہ خیز باتیں کہی ہیں۔ کہتے ہیں کہ جن سے مراد ایک ایسی قوم ہے جو اس زمانہ میں بہت قوی ہیکل اور دیو پیکر تھی اور سلیمان (علیہ السلام) کے علاوہ کسی کے قابو میں نہ آتی تھی اور تسخیر حیوانات کے متعلق کہتے ہیں کہ قرآن میں اس سلسلہ کا ذکر صرف ہدہد سے متعلق ہے اور یہاں ہدہد پرند مراد نہیں ہے بلکہ ایک شخص کا نام ہدہد تھا جو پانی کی تفتیش پر مقرر تھا اور زمانہ طویل سے لوگوں میں رسم چلی آتی ہے کہ وہ اپنی اولاد کے نام ان حیوانات کے نام پر رکھتے تھے جن کی وہ پرستش کرتے تھے۔ چنانچہ آج اس کو ایک مستقل علم کی حیثیت دے دی گئی ہے جو ٹوٹیزم کے نام سے موسوم ہے۔
اس قسم کی رکیک تاویل کرنے والے یا تو جذبہ الحاد میں قصداً تحریف کیلئے جرأت بےجا کے مرتکب ہوتے ہیں اور یا قرآن عزیز کی تعلیم سے نا آشنا ہونے کے باوجود دعوی بےدلیل پر اصرار کرتے ہیں۔قرآن عزیز نے ” جن “ کے متعلق جگہ جگہ بصراحت یہ اعلان کیا ہے کہ وہ بھی انسانوں سے جدا خدا کی ایک مخلوق ہے۔ چنانچہ ہم تفصیل کے ساتھ قصص القرآن جلد اول میں اس پر بحث کر آئے ہیں اور یہاں صرف ایک آیت پر اکتفا کرتے ہیں جو اس بارے میں قول فیصل کا حکم رکھتی ہے :
{ وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ } [12]
” اور ہم نے جن اور انسان کو صرف اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ خدا کے طاعت گزار ثابت ہوں۔ “
اس آیت میں جن کو انسان سے جدا مخلوق ظاہر کر کے دونوں کی تخلیق کی حکمت بیان کی گئی ہے۔ لہٰذا اس آیت کو پیش نظر رکھنے کے بعد یہ کہنا کہ ” جن “ انسانوں ہی میں سے ایک قوی ہیکل قوم کا نام ہے جہالت ہے علم نہیں ہے۔ اسی طرح جبکہ ہدہد کے واقعہ میں قرآن عزیز نے صاف صاف اس کو پرند کہا ہے تو کسی کو کیا حق ہے کہ اس کے خلاف لچر تاویل کی پناہ لے۔ قرآن عزیز میں ہے :
{ وَتَفَقَّدَ الطَّیْرَ فَقَالَ مَا لِیَ لَا اَرَی الْہُدْہُدَ اَمْ کَانَ مِنَ الْغَائِبِیْنَ } [13]
” اور سلیمان نے پرندوں کا جائزہ لیا تو کہا : یہ کیا بات ہے کہ میں ہدہد کو نہیں دیکھتا کیا وہ غائب ہے ؟ “
غرض سلیمان (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے یہ بےمثل شرف عطا فرمایا کہ ان کی حکومت انسانوں کے علاوہ جن ‘ حیوانات اور ہوا پر بھی تھی اور یہ سب بحکم خدا ان کے حکم کے تابع اور مطیع تھے اور یہ سب کچھ اس لیے ہوا کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے ایک مرتبہ درگاہ الٰہی میں یہ دعاء کی :
{ رَبِّ اغْفِرْ لِیْ وَہَبْ لِیْ مُلْکًا لَّا یَنْبَغِیْ لِاَحَدٍ مِّنْم بَعْدِ اِنَّکَ اَنْتَ الْوَہَّابُ } [14]
” اے پروردگار مجھ کو بخش دے اور میرے لیے ایسی حکومت عطا کر جو میرے بعد کسی کیلئے بھی میسر نہ ہو۔ بیشک تو بہت دینے والا ہے۔ “
چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا کو قبول فرمایا اور ایک ایسی عجیب و غریب حکومت عطا فرمائی کہ نہ ان سے پہلے کسی کو نصیب ہوئی اور نہ ان کے بعد کسی کو میسر آئے گی۔
حضرت ابوہریرہ (رضی اللہ عنہ) سے منقول ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک دن ارشاد فرمایا : گزشتہ شب ایک سرکش جن نے اچانک یہ کوشش کی کہ میری نماز میں خلل ڈالے مگر خدائے تعالیٰ نے مجھ کو اس پر قابو دے دیا اور میں نے اس کو پکڑ لیا اس کے بعد میں نے ارادہ کیا کہ اس کو مسجد کے ستون سے باندھ دوں تاکہ تم سب دن میں اس کو دیکھ سکو مگر اس وقت مجھ کو اپنے بھائی سلیمان (علیہ السلام) کی دعا یاد آگئی کہ انھوں نے خدائے تعالیٰ کے حضور میں عرض کیا :
{ رَبِّ اغْفِرْ لِیْ وَہَبْ لِیْ مُلْکًا لَّا یَنْبَغِیْ لِاَحَدٍ مِّنْم بَعْدِیْ } [15]
یہ یاد آتے ہی میں نے اس کو ذلیل کر کے چھوڑ دیا۔ ١ ؎ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس ارشاد : ( (فذکرت دعوۃ اخی سلیمن))
کا مطلب یہ ہے کہ اگرچہ خدائے تعالیٰ نے مجھ میں کل انبیاء ورسل کے خصائص و امتیازات جمع کر دئیے ہیں اور اس لیے تسخیر قوم جن پر بھی مجھ کو قدرت حاصل ہے لیکن جبکہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے اس اختصاص کو اپنا طغرائے امتیاز قرار دیا ہے تو میں نے اس سلسلہ کا مظاہرہ مناسب نہیں سمجھا۔

بیت المقدس کی تعمیر

حق تعالیٰ نے ” جن “ کو ایسی مخلوق بنایا ہے جو مشکل سے مشکل اور سخت سے سخت کام انجام دے سکتی ہے۔ اس لیے حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے یہ ارادہ فرمایا کہ مسجد (ہیکل) کے چہار جانب ایک عظیم الشان شہر آباد کیا جائے اور مسجد کی تعمیر بھی ازسر نو کی جائے ‘ ان کی خواہش یہ تھی کہ مسجد اور شہر کو بیش قیمت پتھروں سے بنوائیں اور اس کے لیے بعید سے بعید اطراف سے حسین اور بڑے بڑے پتھر منگوائیں۔ ظاہر ہے کہ اس زمانہ کے رسل و رسائل کے محدود اور مختصر وسائل سلیمان (علیہ السلام) کی خواہش کی تکمیل کیلئے کافی نہیں تھے اور یہ کام صرف ” جن “ ہی انجام دے سکتے تھے۔ لہٰذا انھوں نے ” جن “ ہی سے یہ خدمت لی۔ چنانچہ وہ دور دور سے خوبصورت اور بڑے بڑے پتھر جمع کر کے لاتے اور بیت المقدس کی تعمیر کا کام انجام دیتے تھے۔
عام طور پر یہ مشہور ہے کہ مسجد اقصیٰ اور بیت المقدس کی تعمیر حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے زمانہ میں ہوئی ہے ‘لیکن یہ صحیح نہیں ہے اس لیے کہ بخاری اور مسلم کی صحیح مرفوع حدیث میں ہے کہ ایک مرتبہ حضرت ابو ذر غفاری (رضی اللہ عنہ) نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا :
یارسول اللہ ! دنیا کی سب سے پہلی مسجد کون سی ہے ؟ آپ نے فرمایا مسجد حرام ‘ ابوذر (رضی اللہ عنہ) نے پھر دریافت کیا : اس کے بعد کون سی مسجد عالم وجود میں آئی آپ نے فرمایا مسجد اقصیٰ ۔ ابو ذر (رضی اللہ عنہ) نے تیسری مرتبہ سوال کیا کہ ان دونوں کی درمیانی مدت کس قدر ہے تو نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا دونوں کے درمیان چالیس سال کی مدت ہے۔ حالانکہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) بانی مسجد حرام کے درمیان ایک ہزار سال سے بھی زیادہ مدت کا فاصلہ ہے۔ اس لیے حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے مسجد حرام کی بنیاد رکھی اور وہ مکہ کی آبادی کا باعث بنی اسی طرح حضرت یعقوب (اسرائیل) (علیہ السلام) نے مسجد بیت المقدس کی بنیاد ڈالی اور اس کی وجہ سے بیت المقدس کی آبادی وجود میں آئی پھر عرصہ دراز کے بعد حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے حکم سے مسجد اور شہر کی تعمیر کی تجدید کی گئی اور جنوں کی تسخیر کی وجہ سے بےنظیر اور شاندار تعمیر عالم وجود میں آئی جو آج تک لوگوں کیلئے باعث حیرت ہے کہ ایسے دیو پیکر پتھر کہاں سے لائے گئے ‘ کس طرح لائے گئے اور جر ثقیل کے وہ کون سے آلات تھے جن کے ذریعہ ان کو ایسی بلندیوں پر پہنچا کر باہم اتصال پیدا کیا گیا۔ قوم جن نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کیلئے بیت المقدس کے علاوہ اور بھی تعمیرات کیں اور بعض ایسی چیزیں بنائیں جو اس زمانہ کے لحاظ سے عجیب و غریب سمجھی جاتی تھیں۔ چنانچہ قرآن عزیز میں ہے :
{ وَ مِنَ الشَّیٰطِیْنِ مَنْ یَّغُوْصُوْنَ لَہٗ وَ یَعْمَلُوْنَ عَمَلًا دُوْنَ ذٰلِکَج وَ کُنَّا لَھُمْ حٰفِظِیْنَ } [16]
” اور شیطانوں (سرکش جنوں) میں سے ہم نے مسخر کر دئیے وہ جو اس (سلیمان) کیلئے سمندروں میں غوطے مارتے (یعنی) بیش قیمت بحری اشیاء نکالتے اور اس کے علاوہ اور بہت سے کام انجام دیتے اور ہم ان کیلئے نگران اور نگہبان تھے۔ “
{ وَ مِنَ الْجِنِّ مَنْ یَّعْمَلُ بَیْنَ یَدَیْہِ بِاِذْنِ رَبِّہٖ وَ مَنْ یَّزِغْ مِنْھُمْ عَنْ اَمْرِنَا نُذِقْہُ مِنْ عَذَابِ السَّعِیْرِ ۔ یَعْمَلُوْنَ لَہٗ مَا یَشَآئُ مِنْ مَّحَارِیْبَ وَ تَمَاثِیْلَ وَ جِفَانٍ کَالْجَوَابِ وَ قُدُوْرٍرّٰسِیٰتٍط اِعْمَلُوْٓا اٰلَ دَاوٗدَ شُکْرًاط وَ قَلِیْلٌ مِّنْ عِبَادِیَ الشَّکُوْرُ۔ } [17]
” اور جنوں میں سے وہ تھے جو اس کے سامنے خدمت انجام دیتے تھے اس کے پروردگار کے حکم سے اور جو کوئی ان میں سے ہمارے حکم کے خلاف کجروی کرے ہم اس کو دوزخ کا عذاب چکھائیں گے۔ وہ اس کیلئے بناتے تھے جو کچھ وہ چاہتا تھا ‘ قلعوں کی تعمیر ‘ ہتھیار اور تصاویر اور بڑے بڑے لگن جو حوضوں کی مانند تھے اور بڑی بڑی دیگیں جو اپنی بڑائی کی وجہ سے ایک جگہ جمی رہیں اے آل داؤد ! شکرگزاری کے کام کرو اور میرے بندوں میں سے بہت کم شکرگزار ہیں۔ “
{ وَحُشِرَ لِسُلَیْمَانَ جُنُوْدُہٗ مِنَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ وَالطَّیْرِ فَہُمْ یُوْزَعُوْنَ } [18]
” اور اکٹھے کئے گئے سلیمان کیلئے اس کے لشکر جنوں میں سے انسانوں میں سے پرندوں میں سے اور وہ درجہ بدرجہ کھڑے کئے جاتے ہیں۔ “
{ وَالشَّیٰطِیْنَ کُلَّ بَنَّآئٍ وَّغَوَّاصٍ ۔ وَّ اخَرِیْنَ مُقَرَّنِیْنَ فِی الْاَصْفَادِ ۔ ہٰذَا عَطَآؤُنَا فَامْنُنْ اَوْ اَمْسِکْ بِغَیْرِ حِسَابٍ۔ } [19]
” اور مسخر کر دئیے سلیمان کیلئے شیطان (سرکش جن) ہر قسم کے کام کرنے والے ‘ عمارت بنانے والے ‘ دریا میں غوطہ لگانے والے اور وہ (سرکش سے سرکش) جو جکڑے ہوئے ہیں زنجیروں میں۔ یہ ہماری بخشش و عطا ہے ‘ چاہے اس کو بخش دو یا روکے رکھو ‘ تم سے اس کا کوئی مواخذہ نہیں۔ “
حضرت شاہ عبد القادر (رحمہ اللہ علیہ) فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) پر ایسے عظیم الشان احسانات کئے اور پھر یہاں تک فرمایا کہ اس بےانتہا دولت و ثروت کے صرف وخرچ ‘ داد و دہش اور روک کر رکھنے میں تم سے کوئی بازپرس بھی نہیں ہے مگر ان تمام باتوں کے باوجود حضرت سلیمان (علیہ السلام) اس دولت و حکومت کو مخلوق خدا کی خدمت کیلئے ” امانت الٰہی “ سمجھ کر ایک حبہ بھی اپنی ذات پر صرف نہیں فرماتے بلکہ اپنی روزی ٹوکریاں بنا کر حاصل کرتے تھے۔ بیضاوی (رحمہ اللہ علیہ) نے اس مقام پر یہ اسرائیلی روایت نقل کی ہے کہ قوم جن نے تخت سلیمان (علیہ السلام) کو اس کاریگری سے بنایا تھا کہ تخت کے نیچے دو زبردست اور خونخوار شیر کھڑے تھے اور دوگدھ (نسر) معلق تھے اور جب حضرت سلیمان (علیہ السلام) تخت حکومت پر جلوہ افروز ہونے کیلئے تخت کے قریب تشریف لے جاتے تو دونوں شیر اپنے بازو پھیلا کر بیٹھ جاتے اور تخت نیچا ہوجاتا اور وہ بیٹھ جاتے تو شیر پھر کھڑے ہوجاتے اور فوراً ہیبت ناک گدھ اپنے پروں کو پھیلا کر سر مبارک پر سایہ فگن ہوجاتے تھے۔ اسی طرح انھوں نے پتھر سے بڑی اور بھاری دیگیں بنائی تھیں جو چولہوں پر قائم تھیں اور اپنی ضخامت کی وجہ سے حرکت میں نہیں آتی تھیں اور بڑے بڑے حوض پتھر تراش کر بنائے تھے اور شہر بیت المقدس اور ہیکل (مسجد اقصیٰ ) اور ان سب اشیاء کی تعمیر اور کاریگری میں صرف سات سال لگے تھے۔ [20]
توراۃ میں متعدد جگہ ان تعمیری خدمات کا تفصیل کے ساتھ ذکر ہے :
” اور یہی باعث ہے جس سے سلیمان بادشاہ نے لوگوں سے بیگارلی کہ خداوند کا گھر (مسجد اور شہر یروشلم) اور اپنا قصر (قصر سلیمان) اور (شہر) ملو اور یروشلم کی شہر پناہ اور (شہر) حاصور اور مجدد اور جاذر بھی بنائے۔۔ سو سلیمان نے جاذر اور بیت حوران اسفل کو پھر تعمیر کیا اور بعلات اور دشت تدمر کو مملکت کے درمیان۔۔ اور خزانے کے سارے شہر جو سلیمان کے تھے اور اس کی گاڑی کے شہر اور اس کے سرداروں کے شہر بنائے اور جو کچھ سلیمان کی تمنا تھی سو یروشلم میں اور لبنان میں اور اپنی مملکت کی ساری زمین میں بنائے۔[21]
اسی طرح توراۃ میں پتھر کے عظیم الشان حوض ‘ بڑی اور بھاری دیگیں اور تصویروں اور ان کے بنانے کیلئے بیش قیمت پتھروں کے متعلق طویل فہرست دی گئی ہے۔ [22]

تانبے کے چشمے

حضرت سلیمان (علیہ السلام) چونکہ عظیم الشان عمارات ‘ پرشوکت وپرہیبت قلعوں کی تعمیر کے بہت شائق تھے اور ایسی تعمیرات کے استحکام میں بہت دلچسپی رکھتے تھے اس لیے ضروری تھا کہ گارے اور چونے کے بجائے پگھلی ہوئی دھات گارے کی طرح استعمال کی جائے۔ لیکن اس قدر کثیر مقدار میں یہ کیسے میسر آئے ؟ یہ سوال تھا جس کا حل حضرت سلیمان (علیہ السلام) چاہتے تھے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی اس مشکل کو اس طرح حل کردیا کہ ان کو پگھلے ہوئے تانبے کے چشمے مرحمت فرما دئیے۔
بعض مفسرین کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ حسب ضرورت سلیمان (علیہ السلام) کیلئے تانبے کو پگھلا دیتا تھا اور یہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کیلئے ایک ” نشان “ تھا اور اس سے قبل کوئی شخص دھات کا پگھلانا نہیں جانتا تھا۔ اور نجارکہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) پر یہ انعام کیا کہ زمین کے جن حصوں میں ناری مادہ کی وجہ سے تانبا پانی کی طرح پگھل کر بہہ رہا تھا ‘ ان چشموں کو حضرت سلیمان (علیہ السلام) پر آشکارا کردیا اور ان سے قبل کوئی شخص زمین کے اندر دھات کے چشموں سے آگاہ نہ تھا۔ [23]
چنانچہ ابن کثیر بروایت قتادہ (رحمہ اللہ علیہ) ناقل ہیں کہ پگھلے ہوئے تانبے کے یہ چشمے یمن میں تھے جن کو اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) پر ظاہر کردیا تھا۔ [24]
قرآن عزیز نے اس حقیقت کی کوئی تفصیل بیان نہیں کی اور مسطورہ بالا دونوں توجیہات آیت زیر بحث کا مصداق بن سکتی ہیں۔ اس لیے ان دونوں میں سے کسی ایک کا انتخاب صاحب مطالعہ کے اپنے ذوق پر ہے۔ توراۃ میں حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے اس خصوصی امتیاز کا کوئی ذکر نہیں ہے۔

حضرت سلیمان (علیہ السلام) اور جہاد کے گھوڑوں کا واقعہ

قرآن عزیز نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے متعلق ایک مختصر واقعہ کا اس طرح تذکرہ کیا ہے :
{ وَوَہَبْنَا لِدَاوٗدَ سُلَیْمَانَط نِعْمَ الْعَبْدُط اِنَّہٗ اَوَّابٌ ۔ اِذْ عُرِضَ عَلَیْہِ بِالْعَشِیِّ الصَّافِنَاتُ الْجِیَادُ ۔ فَقَالَ اِنِّیْٓ اَحْبَبْتُ حُبَّ الْخَیْرِ عَنْ ذِکْرِ رَبِّیْج حَتّٰی تَوَارَتْ بِالْحِجَابِ ۔ رُدُّوْہَا عَلَیَّط فَطَفِقَ مَسْحًم بِالسُّوْقِ وَالْاَعْنَاقِ ۔ } [25]
” اور ہم نے داؤد کو سلیمان (فرزند) عطا کیا وہ اچھا بندہ تھا ‘ بیشک وہ خدا کی جانب بہت رجوع ہونے والا تھا (اس کا واقعہ قابل ذکر ہے ) جب اس کے سامنے شام کے وقت اصیل اور سبک رو گھوڑے پیش کئے گئے تو وہ کہنے لگا بیشک میری محبت مال (جہاد کے گھوڑوں کی محبت) پروردگار کے ذکر ہی میں سے ہے۔ یہاں تک کہ وہ گھوڑے نظر سے اوجھل ہوگئے ( حضرت سلیمان نے فرمایا ) ان کو واپس لاؤ پھر وہ ان کی پنڈلیاں اور گردنیں چھونے اور تھپتھپانے لگا۔ “
اس تفسیر کے مطابق { اَحْبَبْتُ حُبَّ الْخَیْرِ عَنْ ذِکْرِ رَبِّیْ } [26]
کے معنی یہ ہوئے کہ بیشک میں پروردگار کے ذکر سے غافل ہو کر مال کی محبت میں لگ گیا اور آیت حَتّٰی تَوَارَتْ بِالْحِجَابِ میں تَوَارَتْ کی ضمیر آفتاب کی جانب راجع ہے جو عبارت میں محذوف ہے یعنی توراۃ الشمس بالحجاب)) اور آیت { فَطَفِقَ مَسْحًام بِالسُّوْقِ وَالْاَعْنَاقِ } [27]
میں ” مسح “ کے معنی ” ضرب “ کے ہیں یعنی ان کی کونچیں اور گردنیں کاٹ ڈالیں۔
ابن کثیر (رحمہ اللہ علیہ) نے اسی قول کو اختیار کیا ہے اور کہا ہے کہ اکثر سلف کی بھی یہی رائے ہے اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا یہ عمل قصداً نہیں تھا بلکہ اسی قسم کا معاملہ تھا جیسا کہ غزوہ خندق کے موقع پر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پیش آیا کہ عصر کی نماز فوت ہوگئی اور آپ نے مع صحابہ غروب آفتاب کے بعد اس کی قضا کی۔ اور جب کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے خدا کے ذکر کی محبت میں اپنے بہترین گھوڑوں کو ذبح کردیا تو اللہ تعالیٰ نے ان پر یہ عظیم الشان انعام فرمایا کہ ” ہوا “ کو ان کیلئے مسخر کردیا۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی اس روایت کے مطابق جو حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کی سند سے منقول ہے حقیقت واقعہ یہ ہے کہ جہاد کی مہم کے سلسلہ میں جب حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے گھوڑوں کو حاضر کرنے کا حکم دیا اور وہ پیش کئے گئے اور پھر وہ تمام صورت پیش آئی جو پہلی تفسیر میں ذکر ہوچکی تو حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے واپس منگا کر گھوڑوں کو پنڈلیوں اور گردنوں پر ہلکے ہلکے مارا اور فرمایا کہ آئندہ تم ذکر اللہ سے غفلت کا باعث نہ بننا۔ [28]
گویا اس روایت کے پیش نظر ” مسح “ کے معنی آہستہ آہستہ مارنے کے ہوئے اور مطلب یہ ہوا کہ اگرچہ جہاد کی مصروفیت ہی کی بنا پر غفلت کا یہ معاملہ پیش آیا تاہم حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے بظاہر اسباب گھوڑوں کو اس کا باعث سمجھ کر ان کے ساتھ ایسا معاملہ کیا جس سے فی الجملہ رنج کا اظہار بھی ثابت ہوتا ہے اور یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ حیوان سمجھ کر ان کو اپنے غیظ و غضب کا شکار نہیں بنانا چاہتے بلکہ فی الجملہ اظہار رنج کرنا چاہتے ہیں۔
مسطورہ بالا ہر دو تفاسیر سے جدا حضرت عبداللہ بن عباس سے بطریق علی بن ابی طلحہ جو تفسیر منقول ہے اس میں نہ نماز فوت ہونے کا ذکر ہے اور نہ سورج غروب ہونے کا مسئلہ ہے اور نہ گھوڑوں کے ذبح کردینے کا واقعہ زیر بحث آیا ہے ‘ بلکہ واقعہ کی صورت اس طرح ذکر کی گئی ہے کہ جہاد کی ایک مہم کے موقع پر ایک شام کو حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے جہاد کے گھوڑوں کو اصطبل سے لانے کا حکم دیا۔ جب وہ پیش کئے گئے تو آپ کو چونکہ گھوڑوں کی نسلوں اور ان کے ذاتی اوصاف کے علم کا کمال حاصل تھا ‘ اس لیے آپ نے جب ان سب کو اصیل ‘ سبک رو ‘ خوش رو اور پھر بہت بڑی تعداد میں پایاتو آپ پر مسرت و انبساط کی کیفیت طاری ہوگئی اور فرمانے لگے ان گھوڑوں سے میری یہ محبت ایسی مالی محبت میں شامل ہے جو پروردگار کے ذکر ہی کا ایک شعبہ ہے۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے اس غور و فکر کے درمیان گھوڑے اصطبل کو روانہ ہوگئے۔ چنانچہ جب انھوں نے نظر اوپر اٹھائی تو وہ نگاہ سے اوجھل ہوچکے تھے۔ آپ نے حکم دیا ان کو واپس لاؤ جب وہ واپس لائے گئے تو حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے محبت اور آلات جہاد کی حیثیت سے عزت و توقیر کی خاطر ان کی پنڈلیوں اور گردن پر ہاتھ پھیرنا اور تھپتھپانا شروع کردیا اور ایک ماہر فن کی طرح ان کو مانوس کرنے لگے۔
گویا اس تفسیر کے مطابق آیت اِنِّیْ اَحْبَبْبُ حُبَّ الْخَیْرَ عَنْ ذِکْرِ رَبِّیْ [29] کا ترجمہ یہ ہوا ” بلاشبہ میری محبت مال (جہاد کے گھوڑوں کی محبت) ذکر خدا ہی میں سے ہے “ اور تَوَارَتْ بِالْحِجَابِ میں تَوَارَتْ کی ضمیر الصافنَاتُ الْجِیَادُ ہی کی طرف ہے ‘ یعنی جب گھوڑے آنکھ سے اوجھل ہوگئے اور اس طرح ” شمس “ کے محذوف ماننے کی ضرورت نہیں رہتی اور فَطَفِقَ مَسْحًام بِالسَّوْقِ وَالْاَعْنَاقِ [30] ” میں مسح “ کے ” چھونے اور ہاتھ پھیرنے کے “ وہی عام معنی ہیں جو لغت میں بہت مشہور ہیں۔
ابن جریر طبری اور امام رازی رحمہ اللہ علیہما ; اسی تفسیر کو راجح اور قرین صواب سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جب گھوڑوں کی تعداد ہزاروں تھی اور وہ بھی جہاد کیلئے تیار کئے گئے تھے اور یہ بھی ظاہر ہے کہ اگر حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی نماز فوت ہوگئی تھی تو اس میں ان حیوانوں کا کوئی قصور نہ تھا جو ان کو عذاب دیا جائے پس ان امور کے پیش نظر آیات کی وہ تفسیر صحیح نہیں ہوسکتی جس کی نسبت حضرت علی (رضی اللہ عنہ) کی جانب کی جاتی ہے۔

حضرت سلیمان (علیہ السلام) اور بنی اسرائیل کا بہتان

گزشتہ صفحات میں تاریخی نقول سے یہ واضح ہوچکا ہے کہ بنی اسرائیل نے اپنی الہامی کتابوں میں تحریف کردی تھی اور اپنی اغراض دنیوی کی خاطر ان میں ہر قسم کا ردو بدل کردیا تھا۔ چنانچہ حضرت داؤد اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے معاملہ میں تو اس درجہ جسارت اختیار کی کہ ان کی نبوت و رسالت سے بھی انکار کر کے ان پر طرح طرح کے الزام اور بےہودہ بہتان لگائے۔ منجملہ دوسرے الزامات کے ایک الزام حضرت سلیمان (علیہ السلام) پر یہ بھی لگایا کہ وہ جادو کے حامل اور اس ہی کے زور پر ” کنگ سلیمان “ تھے اور جن وانس اور وحوش و طیور کو مسخر کئے ہوئے تھے۔ قرآن عزیز نے اپنا فرض ادا کرتے ہوئے بنی اسرائیل کے لگائے ہوئے اس بہتان کی مدلل تردید کی اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی پیغمبرانہ عظمت کو نمایاں اور روشن کیا۔ اس نے بتایا کہ سلیمان (علیہ السلام) کا دامن جادو کی نجاست سے پاک ہے اور اصل حقیقت یہ ہے کہ سلیمان (علیہ السلام) کے زمانہ میں بنی اسرائیل کو گمراہ کرنے کیلئے شیاطین (انس و جن) نے سحر کو سکھایا اور اس کو مدون کیا اور بنی اسرائیل نے کتاب اللّٰہ ( توراۃ و زبور) کو پس پشت ڈال کر اس کو الہامی قانون سمجھا اور جادو سیکھنے سکھانے لگے اور جب بنی اسرائیل میں سے مخصوص اہل حق نے ان کو سمجھایا اور بتایا کہ یہ سخت گمراہی اور کفر ہے تم اس سے باز آجاؤ تو شیطان کے بہکانے پر انھوں نے یہ کہناشروع کردیا کہ یہ سلیمان (علیہ السلام) کا سکھایا ہوا علم ہے اور سلیمان (علیہ السلام) اسی کے ذریعہ سے اتنی بڑی حکومت کے مالک تھے اور یہ کہہ کر اپنی گمراہی پر قائم رہے۔ مگر وہ اس قول میں جھوٹ بولتے اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) پر بہتان طرازی کرتے ہیں۔
سدی کہتے ہیں کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) ہی کی زندگی میں بنی اسرائیل میں یہ گمراہی شروع ہوگئی تھی اور ان میں یہ بھی مشہور ہوگیا تھا کہ ” جن “ علم غیب جانتے ہیں۔ چنانچہ جب حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو اس کی خبر ہوئی تو انھوں نے شیاطین کے ان تمام نوشتوں کو حاصل کر کے اپنے تخت کے نیچے دفن کردیا تاکہ جن و انس کسی کو وہاں تک پہنچنے کی جرأت نہ ہوسکے اور ساتھ ہی یہ فرمان جاری کردیا کہ جو شخص سحر کرے گا یا جنوں کے متعلق علم غیب کا عقیدہ رکھے گا تو اس کو قتل کی سزا دی جائے گی۔ لیکن جب سلیمان (علیہ السلام) کا انتقال ہوگیا تو شیاطین نے اس مدفون ذخیرہ کو نکال لیا اور بنی اسرائیل میں یہ عقیدہ پیدا کردیا کہ جادو کا یہ علم حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا علم ہے اور وہ اسی قوت سے جن و انس ‘ وحوش و طیور اور ہوا پر حکومت کرتے تھے اور اس طرح جادو کو پھر بنی اسرائیل میں رائج کردیا۔ [31]
قرآن عزیز نے اس تاریخی حقیقت کو اس ضمن میں بیان کیا ہے کہ بنی اسرائیل باوجود اس یقین رکھنے کے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خدا کے سچے پیغمبر ہیں اور ان کی نبوت کی بشارت کثرت سے کتب عہد قدیم میں موجود ہیں ‘ پھر بھی ضد اور ہٹ کی راہ سے رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت و رسالت کا انکار کرتے ہیں اور کتب الٰہیہ کو پس پشت ڈال کر اسی طرح شیطان کی پیروی کرتے ہیں جس طرح حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے زمانے میں جادو کے متعلق کرچکے ہیں ‘ اور آج تک بےجا جسارت کے ساتھ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی جانب کفر (جادو) کی نسبت کرتے چلے آتے ہیں۔ چنانچہ قرآن عزیز کا سیاق وسباق اس حقیقت کو بخوبی واضح کر رہا ہے :
{ وَ لَمَّا جَآئَھُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ عِنْدِ اللّٰہِ مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَھُمْ نَبَذَ فَرِیْقٌ مِّنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَق لا کِتٰبَ اللّٰہِ وَرَآئَ ظُھُوْرِھِمْ کَاَنَّھُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ ۔ وَ اتَّبَعُوْا مَا تَتْلُوا الشَّیٰطِیْنُ عَلٰی مُلْکِ سُلَیْمٰنَ وَ مَا کَفَرَ سُلَیْمٰنُ وَ لٰکِنَّ الشَّیٰطِیْنَ کَفَرُوْا یُعَلِّمُوْنَ النَّاسَ السِّحْرَ وَ مَآ اُنْزِلَ عَلَی الْمَلَکَیْنِ بِبَابِلَ ھَارُوْتَ وَ مَارُوْتَط وَ مَا یُعَلِّمٰنِ مِنْ اَحَدٍ حتّٰی یَقُوْلَآ اِنَّمَا نَحْنُ فِتْنَۃٌ فَلَا تَکْفُرْط فَیَتَعَلَّمُوْنَ مِنْھُمَا مَا یُفَرِّقُوْنَ بِہٖ بَیْنَ الْمَرْئِ وَ زَوْجِہٖ وَ مَا ھُمْ بِضَآرِّیْنَ بِہٖ مِنْ اَحَدٍ اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰہِ وَ یَتَعَلَّمُوْنَ مَا یَضُرُّھُمْ وَ لَا یَنْفَعُھُمْ وَ لَقَدْ عَلِمُوْا لَمَنِ اشْتَرٰہُ مَا لَہٗ فِی الْاٰخِرَۃِ مِنْ خَلَاقٍ وَ لَبِئْسَ مَا شَرَوْا بِہٖٓ اَنْفُسَھُمْ لَوْ کَانُوْا یَعْلَمُوْنَ۔ } [32]
” اور جب ان (بنی اسرائیل) کے پاس اللہ کی جانب سے رسول آیا جو تصدیق کررہا ہے ان الہامی کتابوں کی جو ان کے پاس ہیں تو جو لوگ (بنی اسرائیل ) کتاب ( توراۃ ) دئیے گئے تھے انھوں نے اللہ کی کتاب ( توراۃ ) کو پس پشت ڈال دیا اور (آپ کی صداقت کی بشارت کے متعلق) ایسے ہوگئے گویا وہ جانتے ہی نہیں اور (یہ تو وہ لوگ ہیں کہ) انھوں نے سلیمان کے زمانہ میں اس چیز کی پیروی اختیار کرلی تھی جو شیاطین پڑھتے تھے اور سلیمان نے کفر نہیں کیا تھا لیکن شیاطین نے کفر کیا تھا کہ لوگوں کو جادو سکھاتے تھے اور وہ (علم) جو بابل میں ہاروت و ماروت دو فرشتوں پر نازل کیا گیا اور جس کو کہ وہ دونوں جب کسی کو سکھاتے تھے تو یہ کہہ کر سکھاتے تھے کہ ہم (تمہارے لیے) سخت آزمائش ہیں ‘ لہٰذا تم (اب) کفر نہ کرنا مگر وہ (بنی اسرائیل) ان دونوں سے بھی ایسی بات سیکھتے کہ جس کے ذریعہ سے زن و شو کے درمیان تفریق پیدا ہوجائے حالانکہ وہ اس کے ذریعہ سے خدا کی مرضی کے بغیر کسی کو بھی نقصان نہیں پہنچا سکتے (البتہ) وہ ایسی شئے سیکھتے ہیں جو (انجام کار) ان کو نقصان پہنچانے والی ہے اور ان کو ہرگز نفع نہیں دے گی اور بےشبہ وہ جانتے ہیں کہ جس شخص نے اس شئے (جادو) کو خریدا ‘ اس کیلئے آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہے اور ضرور وہ شئے بہت بری ہے جس کے عوض میں انھوں نے اپنی جان فروخت کر ڈالی کاش کہ وہ سمجھتے (یعنی سمجھنے کے بعد اس سے بچتے) اور وہ کام نہ کرتے جس کا نتیجہ برا ہے۔ “
مسطورہ بالا آیات میں جن حقائق کو واضح کیا گیا ہے ‘ ان کی تفسیر میں مفسرین مختلف ذوق رکھتے ہیں ‘اس لیے کہ ان تین باتوں کے علاوہ جن کا گزشتہ سطور میں ذکر آچکا ہے واقعہ کی باقی تفصیلات کے بارے میں قرآن عزیز خاموش ہے۔کیونکہ وہ تفصیلات اس مقصد کے لیے ضروری نہیں ہیں چنانچہ اس سلسلے کی تفاسیر میں سے ہم نے ترجمہ میں عام تفسیر سے جدا راہ اختیار کی ہے جو آیۃ من آیات اللہ محقق عصر علامہ محمد انور شاہ نور اللہ مرقدہ کی تحقیق سے ماخوذ ہے حضرت استاذ کی تحقیق کا خلاصہ یہ ہے :
” جب بنی اسرائیل کو شیاطین نے سحر سکھا کر گمراہ کردیا اور شیاطین کو غیب داں یقین کرنے لگے اور یہ وہ زمانہ تھا کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی وفات ہوچکی تھی اور اس وقت ان کے درمیان خدا کا کوئی نبی موجود نہ تھا اور بنی اسرائیل کو راہ ہدایت دکھانے اور سنبھالنے کے لیے اس معجزانہ طریقے کے مطابق جو صدیوں سے ان کے لیے حق تعالیٰ کی جانب سے سنت متوارثہ بنا ہوا تھا ‘ ہاروت و ماروت دو فرشتے آسمان سے نازل کیے گئے اور انھوں نے بنی اسرائیل کو توراۃ سے ماخوذ اسماء وصفات الٰہی کے اسرارکا ایسا علم سکھایا جو ” سحر “ کے مقابلے میں ممتاز اور سحر کے ناپاک اثرات سے پاک تھا اور اس کی وجہ سے ایک اسرائیلی بآسانی یہ سمجھ سکتا تھا کہ یہ ” سحر “ ہے اور یہ ” علوی علم الاسرار “ ہے اور جب فرشتے بنی اسرائیل کو یہ علم سکھاتے تو پھر ان کو نصیحت کرتے کہ اب جب کہ تم پر اصل حقیقت منکشف ہوگئی اور تم نے حق و باطل کے درمیان چشم دید مشاہدہ کرلیا تو اب کتاب اللہ کے علم کو پس پشت ڈال کر پھر بھی سحر کی طرف رجوع کرو گے تو تم بلاشبہ کافر ہوجاؤ گے کیونکہ خدا کی حجت تم پر تمام ہوگئی اور اب تمہارے لیے کوئی عذر باقی نہیں رہا ‘ گویا ہمارا وجود تمہارے لیے ایک آزمائش ہے کہ تم ہماری تعلیم کے بعد شیاطین کے تابع ہو کر ” سحر “ ہی کے شیدائی رہتے ہو یا اس سے زیادہ زبردست اور امر حق کتاب اللہ کے علم کی پیروی کرتے ہو ؟ لیکن بنی اسرائیل کی کج فطرت نے اس موقع پر بھی ان کا ساتھ نہ چھوڑا اور انھوں نے اس پاک ” علوی علم “ کو بھی ناجائز اور حرام خواہشات کے لیے استعمال کرنا شروع کردیا ‘ مثلاً زن و شوہر کے درمیان ناحق تفریق وغیرہ ‘ اور اس طرح حق کو باطل کے ساتھ خلط ملط کر کے اس کو بھی ایک کر شمہ بنادیا۔ اور حق کو باطل کے ساتھ خلط کرنے یا کسی پاک جملہ کے خواص و اثرات کو ناجائز اور حرام کاموں میں استعمال کرنے کے متعلق علمائے حق کی تصریحات موجود ہیں کہ یہ بھی ساحرانہ عمل کی شکل اختیار کرلیتا ہے اور اسی لیے حرام اور کفر ہے۔ “ [33]
حضرت شاہ صاحب (رحمہ اللہ علیہ) کی اس تفسیر کے مطابق آیت { وَمَا اُنْزِلَ عَلَی الْمَلَکَیْنِ } [34] میں مَا نافیہ نہیں ہے بلکہ بمعنی اَلَّذِیْ ہے۔
اس لیے کہ آیت میں سحر اور مَا اُنْزِلَ کے درمیان معطوف اور معطوف علیہ کی نسبت ہے اور عربیت کے قاعدہ سے عطف ‘ مغائرت کلام کیلئے ہوتا ہے۔ لہٰذا آیات زیر بحث میں ” سحر “ الگ شئے ہے جو شیاطین کے ذریعہ سے وجود پذیر ہوتا ہے اور فرشتوں کا لایا ہوا علم دوسری شے ہے جو پاک مقصد کیلئے تعلیم کیا گیا ‘ لہٰذا فرشتوں کی جانب سحر کی نسبت صحیح نہیں ہوسکتی۔ یہ تفسیر معانی کی ترتیب ‘ سیاق وسباق کی مطابقت اور حقائق و وقائع کی وضاحت کے لحاظ سے بہت وقیع ہے اور اس لیے ہم اسی کو راجح سمجھتے ہیں۔
اس تفسیر کے علاوہ دوسری تفسیر مشہور نحوی فراء سے منقول ہے۔ وہ مَا اُنْزِلَ میں مَا کو نافیہ تسلیم کرتا ہے اور کہتا ہے کہ آیات کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل میں سحر کی تعلیم شیاطین کے ذریعہ پھیلی اور ان کا یہ عقیدہ غلط ہے کہ یہ سلیمان (علیہ السلام) کا علم ہے اور یہ بھی غلط کہ بابل میں ہاروت و ماروت دو فرشتے نازل ہوئے اور وہ بنی اسرائیل کو جادو سکھاتے اور سکھاتے وقت یہ تنبیہ کرتے کہ ہم آزمائش بنا کر تمہارے پاس بھیجے گئے ہیں۔ تم اگر سیکھو گے تو ہم ضرور سکھا دیں گے ‘ مگر تم کافر ہو جاؤ گے ‘ اس لیے تم کو نصیحت کرتے ہیں کہ کفر اختیار نہ کرو اور جب بنی اسرائیل اصرار کرتے تو وہ زن و شوہر کے درمیان تفریق کا جادو سکھا دیتے۔ یہ سارا قصہ جو ان کے درمیان مشہور ہے سب غلط ہے اور ایسا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا۔
تیسری تفسیر امام قرطبی (رحمہ اللہ علیہ) کی جانب منسوب ہے اور ابن جریر بھی اسی کو راجح تسلیم کرتے ہیں اور وہ یہ کہ آیت مَا اُنْزِلَ میں ” مَا “ نافیہ ہے اور ہاروت و ماروت ” شیاطین “ سے بدل ہے اور مطلب یہ ہے کہ یہ غلط ہے کہ بنی اسرائیل کی آزمائش کیلئے آسمان کے فرشتے سحرکا علم لے کر آئے تھے بلکہ شیاطین سحر سکھاتے تھے جن میں سے بابل میں دو مشہور شخصیتیں ہاروت و ماروت کی تھیں اور وہ جادو سکھاتے تو بنی اسرائیل کی مذہبی زندگی پر طعن کرتے ہوئے یہ کہتے جاتے کہ دیکھو ! اگر تم نے ہم سے یہ ” سحر “ سیکھا تو تم کافر ہو جاؤ گے مگر بنی اسرائیل کی گمراہی کا یہ عالم تھا کہ یہ سب کچھ سننے کے بعد بھی ان سے زن و شوہر کے درمیان تفریق کا جادو سیکھتے اور کتاب اللہ کو پس پشت ڈال دیتے تھے۔
ہمارے خیال میں یہ دونوں تفسیریں بھی عام تفسیر سے زیادہ بہتر ہیں کیونکہ عام تفسیر کے مطابق ما کو بمعنی اَلَّذِیْ تسلیم کر کے یہ مطلب لینا کہ بابل میں ہاروت و ماروت دو فرشتے بنی اسرائیل کی آزمائش کیلئے خدائے تعالیٰ کی جانب سے نازل ہو کر سحر سکھاتے اور ساتھ ہی یہ تنبیہ بھی کرتے جاتے تھے کہ ہم سے یہ علم نہ سیکھو ورنہ کافر ہو جاؤ گے ‘ بےوجہ متعدد اشکالات کو دعوت دینا اور ” سحر “ اور ” مَا اُنْزِلَ “ کو بےدلیل ایک ہی شئے تسلیم کرنا ہے۔
ان تفاسیر کے علاوہ آیات زیر بحث کے سلسلہ میں بعض عجیب و غریب آثار صحابہ (رضی اللہ عنہم) و رضوا عنہ اور ایک مرفوع روایت کتب تفسیر میں منقول ہیں۔ حالانکہ یہ حقیقتاًنہ آثار صحابہ ہیں اور نہ مرفوع حدیث ‘ بلکہ کعب احبار اور دوسرے علمائے یہود کے وہ بیان کردہ قصے ہیں جو بنی اسرائیل کا ذخیرہ خرافات کہے جانے کے مستحق ہیں۔ ان قصوں کا خلاصہ یہ ہے کہ ہاروت و ماروت فرشتوں نے ایک مرتبہ خدائے تعالیٰ کے حضور میں انسانوں کی معصیتوں کا مذاق اڑایا کہ یہ کیسی ذلیل مخلوق ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہمہ قسم کے انعامات کے باوجود اس کے احکام کی خلاف ورزی کرتی رہتی ہے۔ یہ طنز اللہ تعالیٰ کو پسند نہ آیا اور ان سے فرمایا کہ اگر تم دنیا کے ماحول میں محصور ہوتے تو تم بھی یہی کرتے۔ فرشتوں نے اپنی عصمت اور پاکدامنی پر اعتماد کا اظہار کیا ‘ تب بطور آزمائش ان دونوں کو زمین پر اتار دیا گیا۔ یہاں رہتے رہتے ایک مرتبہ ان کی نگاہ ایک بےحد حسین عورت زہرہ پڑی اور دونوں اس کے عشق میں گرفتار ہوگئے اور زہرہ سے قربت کے طلبگار ہوئے۔ اس نے کہا جب تک تم شراب نہ پیو گے ‘ قتل نہیں کرو گے اور بت کو سجدہ نہیں کرو گے ‘ مجھے حاصل نہیں کرسکتے۔ چنانچہ زہرہ کے عشق میں انھوں نے یہ تینوں کام کئے۔ زہرہ نے بحالت مقاربت ان سے دریافت کیا کہ وہ آسمان پر کس طرح جاتے ہیں۔ فرشتوں نے اس کو اسم اعظم سکھا دیا اور زہرہ اسم اعظم پڑھ کر آسمان پر چلی گئی اور یہ دونوں فرشتے خدا کے غضب میں مبتلا ہوگئے اور بابل کے کنویں میں قید کر دئیے گئے۔ اب جو شخص ان کو آواز دے کر ان سے جادو سیکھنا چاہتا ہے ‘ وہ اول تو اس کو منع کرتے اور کافر ہوجانے کا خوف دلاتے ہیں ‘ لیکن جب وہ اصرار کرتا ہے تو اس کو جادو سکھا دیتے ہیں اور اس سے دریافت کرتے ہیں کہ تجھ کو کچھ نظر آیا۔ وہ شخص کہتا ہے کہ ایک نورانی شکل کا انسان گھوڑے پر جاتا ہوا نظر آتا ہے۔ فرشتے کہتے ہیں کہ یہ تیرا ایمان تھا جو تجھ سے جدا ہوگیا اور اب تو جادو گر بن گیا۔ یہ فرشتے قیامت تک خدا کے عذاب کی وجہ سے اسی طرح کنویں میں الٹے لٹکے رہیں گے۔ [35]
اس روایت کا لغو ہونا خود بخود واضح ہے ‘ اس لیے محققین نے اس کی لغویت اور خرافت پر متنبہ کر کے اسلامی روایات کے دامن کو اس سے پاک اور محفوظ ظاہر کیا ہے۔ چنانچہ ابن کثیر (رحمہ اللہ علیہ) نے اول مرفوع روایت پر بحث کرتے ہوئے یہ فیصلہ دیا ہے :
((واقرب ما یکون فی ھذا انہ من روایۃ عبد اللّٰہ بن عمر عن کعب الاحبار لا عن النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فدارالحدیث و رجع الی نقل کعب الاحبار عن کتب بنی اسرائیل)) [36]
” اور اس سلسلہ میں قریب تر بات یہ ہے کہ عبداللہ بن عمر سے جو روایت مسند احمد میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نسبت سے منقول ہے ‘ وہ دراصل عبداللہ بن عمر نے کعب احبار سے اسرائیلی قصہ نقل کیا ہے ‘ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جانب اس کی نسبت ہرگز صحیح نہیں ہے۔ (بیان کردہ تصریحات کے بعد) نتیجہ یہ نکلا کہ جس حدیث کو مرفوع کہا جاتا تھا ‘ وہ آخر کار کعب احبار کی روایت ثابت ہوئی جو انھوں نے بنی اسرائیل کی کتابوں سے نقل کر کے بیان کی ہے۔ “
اور اس فیصلہ کے بعد ان تمام آثار پر تنقید کرتے ہوئے جو اس سلسلہ میں صحابہ (رضی اللہ عنہم) اور تابعین (رحمہ اللہ علیہم) کی جانب منسوب کئے جاتے ہیں ‘ جو محاکمہ کیا ہے اس کا حاصل یہ ہے :
” ہاروت و ماروت کا یہ قصہ (زہرہ اور چاہ بابل کا قصہ) تابعین کی ایک اچھی خاصی جماعت نے نقل کیا ہے ‘ مثلاً مجاہد ‘ سدی ‘ حسن بصری ‘ قتادہ ‘ ابو العالیہ ‘ زہری ‘ ربیع بن انس ‘ مقاتل ‘ ابن حبان (رحمہ اللہ علیہم اجمعین) وغیرہ اور پھر ان سے نقل کر کے متقدمین اور متاخرین نے کثرت سے بیان کیا ہے ‘ مگر ان تمام نقول کا حال یہ ہے کہ ان میں جس قدر تفصیلات بھی منقول ہیں وہ سب بنی اسرائیل کے قصوں سے لی گئی ہیں ‘ اس لیے کہ صادق و مصدوق پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے (کہ جن کی شان مبارک یہ ہے کہ وہ اپنے ہوائے نفس سے کچھ بھی نہیں کہتے جو کچھ فرماتے ہیں وحی الٰہی سے فرماتے ہیں) اس بارے میں کوئی صحیح روایت ذخیرہ حدیث میں موجود نہیں ہے اور قرآن کا ظاہر سیاق واقعہ کو مجمل رکھتا ہے اور کوئی تفصیل اور تشریح نہیں کرتا اس لیے ہمارا ایمان یہ ہے کہ قرآن عزیز نے جس قدر اس سلسلہ میں بیان کیا ہے وہ حق ہے اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس کی تفصیل و تشریح کیا ہے ‘ وہ اس ہی کے سپرد ہے۔ واللہ اعلم بحقیقۃ الحال۔ “ [37]
یعنی قرآن عزیزنے اس واقعہ کو جس غرض سے بیان کیا ہے وہ تو صرف اس قدر ہے کہ بنی اسرائیل کا حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی جانب جادو (کفر ) کی نسبت کرنا بہتان اور افتراء ہے ‘ یہ کام شیاطین کا تھا ‘ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا دامن اس سے پاک ہے اور یہ کہ بنی اسرائیل نے شیاطین کی پیروی اختیار کی اور اللہ کی کتاب کو پس پشت ڈال دیا اور باقی تفصیلات کو اس نے نظر انداز کر کے صرف اجمال پر اکتفا کیا ہے۔ لہٰذا ہمارے لیے اس کے اجمال پر ایمان لے آنا ہی کافی ہے اور اس کی شرح و بسط کو خدا کے حوالہ کرنا ہی اسلم طریقہ ہے۔ کیونکہ ان تفصیلات سے دین و ملت کا کوئی مسئلہ وابستہ نہیں ہے۔ ابن کثیر (رحمہ اللہ علیہ) کے اس مسلک کی تائید بعض دوسرے محققین نے بھی کی ہے ‘ جس میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ اور ابوحیان اندلسی خصوصیت سے قابل ذکر ہیں۔ [38]

ملکہ سبا

سلیمان علیہ السلام کے زمانے میں یمن کے علاقے پر ملکہ سباکی حکومت تھی، ایک دن سلیمان علیہ السلام کا دربار لگا ہوا تھا، جس میں تمام جن وانس، چرند، پرند اپنی اپنی جگہوں پر بیٹھے ہوئے تھے، دیکھا کہ ہدہد غیر حاضر ہے آپ نے فرمایا ہد ہد نظر نہیں آتا اگر اس نے اس غیر حاضری کی معقول وجہ بیان نہ کی تو اسے سخت سزا دی جائے گی، ابھی یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ ہدہد بھی حاضر ہو گیا، سلیمان علیہ السلام کے دریافت کرنے پر ہدہد نے بتایا کہ میں اڑتا ہوا یمن کے ملک میں جا پہنچا تھا، جہاں کی حکومت ملکہ سبا کے ہاتھ میں ہے۔ خدا نے سب کچھ دے رکھا ہے اس کا تخت بہت قیمتی اور شاندار ہے لیکن شیطان نے اس کو گمراہ کر رکھا ہے، وہ خدائے واحد کی بجائے آفتاب کی پرستش کرتی ہے۔

ملکہ سبا کو خط

سلیمان علیہ السلام نے فرمایا کہ اچھا تو میرا خط اس کے پاس لے جا، تیرے جھوٹ اور سچ کا امتحان ابھی ہو جائے گا چنانچہ ہدہد آپ کا خط لے کر ملکہ سبا کے پاس پہنچا اور خط اس کے آگے ڈال دیا، ملکہ نے خط پڑھ کر درباریوں کو بلایا اور خط کا مضمون پڑھ کر سنایا، جس میں درج تھا۔

یہ خط سلیمان علیہ السلام کی طرف سے ہے اور اللہ کے نام سے شروع کیا جاتا ہے جو بڑا مہربان اور رحم والا ہے۔ تم کو سرکشی اور سربلندی کا اظہار نہیں کرنا چاہیے اور تم میرے پاس خدا کی فرماں بردار بن کر آؤ۔

سلیمان کا جواب

ملکہ سبا نے بہت سے تحفے تحائف سلیمان علیہ السلام کی خدمت میں بھیجے۔ آپ نے ان تحائف کو دیکھ کر فرمایا کہ ملکہ نے میرے پیغام کا مقصد نہیں سمجھا۔ آپ نے ملکہ کے سفیروں کو دیکھ کر فرمایا۔ تم نہیں دیکھتے کہ میرے پاس کس چیز کی کمی ہے، یہ تحفے واپس لے جاؤ اور اپنی ملکہ سے کہو کہ اگر میرے پیغام کی تعمیل نہ کی تو میں عظیم الشان لشکر لے کر وہاں پہنچوں گا اور تم کو رسوا اور ذلیل کرکے تمہارے شہر سے نکال دوں گا۔
جب قاصد سلیمان علیہ السلام کا پیغام لے کر ملکہ کے پاس گئے تو اس نے یہی مناسب سمجھا کہ خود سلیمان علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہو جائے۔ جب سلیمان علیہ السلام کو ملکہ کی روانگی کا علم ہوا تو آپ نے فرمایا کہ دربار والوں میں کوئی ایسا ہے جو ملکہ کا تخت یہاں لے آئے۔ ایک جن نے کہا کہ آپ کے دربار برخاست ہونے تک میں تخت لاسکتا ہوں اور میں امین بھی ہوں۔ آپ کے وزیر آصف بن برخیا نے کہا کہ میں آنکھ جھپکتے تک اس کا تخت پیش کر سکتا ہوں۔ اس نے اسم اعظم پڑھا تو ملکہ سبا کا تخت حاضر ہو گیا۔[39]

ملکہ سبا کا قبول اسلام

اور جونہی سلیمان علیہ السلام نے مڑ کر دیکھا تو ملکہ کا تخت وہاں موجود تھا۔ اس پر سلیمان علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا اور فرمایا کہ خدا کا یہ فضل میری آزمائش کے لیے ہے تاکہ وہ دیکھے کہ اس حالت میں بھی اس کا شکر ادا کرتا ہوں یا نہیں۔ اب آپ نے حکم دیا کہ اس کی شکل بدل دی جائے جب ملکہ سلیمان علیہ السلام کے دربار میں پہنچی تو اس سے پوچھا گیا، کیا تیرا تخت بھی ایسا ہی ہے جیسا یہ ہے، اس نے کہا یہ تو وہی ہے۔ ملکہ سبا نے سلیمان علیہ السلام کے پیغمبرانہ جاہ و جلال کو دیکھ کر دین حق قبول کر لیا۔

ازواج

سلیمان علیہ السلام کے پاس ایک سو زوجات تھیں جس کا ثبوت صحیح بخاری کی مندرجہ ذیل حديث سے ملتا ہے : ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ بیان کرتے ہیں :

سلیمان بن داود علیہم السلام نے کہا کہ آج رات میں سو عورتوں کے پاس جاؤں گا، ہرعورت ایک بچہ جنے گی جو اللہ تعالیٰ کے راستے میں قتال کرے گا، تو فرشتے نے کہا انشاء اللہ کہہ لو، تو انہوں نے نہ کہا اور ان شاء اللہ کہنا بھول گئے تواس رات سب کے پاس گئے تو ان میں سے کسی نے بھی کچھ نہ جنا صرف ایک نے آدھا بچہ جنا۔ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : کہ اگر وہ ان شاء اللہ کہہ لیتے تو ایسا نہ ہوتا اور ان کی ضرورت کو پورا کرنے کا باعث بن سکتا تھا۔ [40]


اور صحیح مسلم کی حدیث نمبر (1654) میں نوے عورتوں کا ذکر ہے اور ایک اور روایت جسے امام بخاری نے جہاد کے لیے اولاد طلب کرنے کے باب میں تعلیقا ذکر کیا ہے جس میں ننانوے عورتوں کا ذکر ہے۔

نبوت

داؤد علیہ السلام کے انتقال کے وقت، ایک روایت کے مطابق سلیمان علیہ السلام کی عمر پچیس سال تھی۔ اللہ تعالیٰ نے نبوت اور حکومت دونوں میں سلیمان علیہ السلام کو داؤد علیہ السلام کا جانشین بنایا۔ یوں نبوت کے ساتھ ساتھ اسرائیلی حکومت بھی ان کے قبضے میں آ گئی۔

ترجمہ:

اور سلیمان علیہ السلام داؤد علیہ السلام کا وارث ہوا۔

تفسیر

یہاں وراثت سے مراد مال و دولت اور حکومت و سلطنت نہیں ہے، کیونکہ سلیمان علیہ السلام داؤد علیہ السلام کی واحد اولاد نہ تھے۔ ان کی سو بیویاں تھیں ان سے اولادیں بھی تھیں اور داؤد علیہ السلام کی وفات کے وقت آپ کے انیس بیٹوں کا ذکر ملتا ہے۔ اگر وراثت سے مراد مال و دولت، جائداد اور سلطنت ہے تو پھر انیس کے انیس بیٹے وارث ٹھہرتے اور سلیمان علیہ السلام کی تخصیص باقی نہ رہتی۔ اب چونکہ یہاں وارث ہونے میں سلیمان علیہ السلام کا ذکر ہے تو وہ علم اور نبوت ہی کی وراثت ہو سکتی ہے۔ (وان العلماء ورثۃ الأنبیاء) بے شک علما ہی انبیا کے وارث ہوا کرتے ہیں (علم کے ) پھر دوسری بات یہ بھی ہے کہ انبیا کی وفات کے بعد ان کی اولاد ان کے مال و دولت کی وارث نہیں ہوتی بلکہ تمام مال و اسباب مساکین و فقرا کا حق سمجھتے ہوئے خدا کے نام پر صدقہ کر دیا جاتا ہے کیونکہ یہ حقیقت ہے کہ انبیا کے مال کی میراث تقسیم نہیں ہوا کرتی۔ رسول پاکﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ

ہم جماعت انبیا ہیں۔ ہمارے ورثے بٹا نہیں کرتے۔ ہم جو کچھ چھوڑ جائیں، صدقہ ہے۔

وفات

سلیمان علیہ السلام کی وفات کا واقعہ بڑا دلچسپ ہے۔ سلیمان علیہ السلام کے حکم سے جنوں کی ایک جماعت ہیکل سلیمانی (بیت المقدس) بنانے میں مصروف تھی کہ سلیمان علیہ السلام کی وفات کا وقت آن پہنچا، آپ ایک لاٹھی کے سہارے کھڑے ہو گئے اور انتقال فرما گئے۔ جنوں کو آپ کی موت کی خبر نہ ہوئی اور وہ اپنے کام میں لگے رہے۔ آخر ایک عرصہ کے بعد جب ان کی لاٹھی کو دیمک نے چاٹ لیا تو وہ بودی ہو کر ٹوٹ کر گر پڑی اور سلیمان علیہ السلام جو لاٹھی کے سہارے کھڑے تھے وہ بھی گر پڑے۔ اس وقت جنوں کو معلوم ہوا کہ سلیمان علیہ السلام تو مدت سے انتقال کرچکے ہیں۔

دولت

سلیمان علیہ السلام اپنے زمانے کے امیر ترین آدمی تھے۔ اگر آج کے حساب سے دیکھا جائے تو وہ 2200 ارب ڈالر کے مالک تھے۔ اپنے 39 سالہ دور حکومت میں انہیں ہر سال 25 ٹن سونا بطور نذرانہ ملتا تھا۔[41]

ہیکل سلیمانی

ہیکل سلیمانی کی تعمیر حضرت داود نے شروع کی تھی جن کی وفات کے بعد سلیمان علیہ السلام نے اسے مکمل کیا۔ اس کی تعمیر کے لیے بیرون ملک سے معمار بلواے گئے تھے جو سلیمان علیہ السلام کے غلام نہیں تھے اور اس وجہ سے فری میسن کہلاتے تھے۔[42] ہیکل سلیمانی میں انہوں نے سلیمان علیہ السلام کے خزانے کے خفیہ تہ خانے بھی تعمیر کیے۔ ہیکل کی تعمیر مکمل ہونے کے بعد وہ ملک سے چلے گئے لیکن یہ راز نسل در نسل اپنی اولادوں کو منتقل کرتے رہے۔
کوئی دو ہزار سال بعد کچھ مہم جو یروشلم کی اس مقدس عبادت گاہ کے باقی ماندہ کھنڈر تک آئے بادشاہ وقت سے اجازت نامہ حاصل کیا اور یورپ سے زائرین کے آنے جانے کی حفاظت کے انتظامات سنبھالے۔ انہوں نے اپنے آباواجداد کی فراہم کردہ نشانیوں کی مدد سے ان مقامات کو ڈھونڈھ نکالا اور بہت بڑی مقدار میں سونا نکال کر Knights Templar کی تنظیم بنائی[43] جس کا ایک حصہ بینکنگ کرتا تھا اور دوسرا حصہ فوجی امور سرانجام دیتا تھا۔ یہ دنیا کی پہلی ملٹی نیشنل کارپوریشن تھی۔
بینکنگ کے امور میں مداخلت کی وجہ سے رومن چرچ ان کا شدید دشمن بن گیا اور پورے یورپ میں Knights Templar کے خلاف اقدامات کیے جانے لگے۔ اور 1312ء کے بعد ان کا خاتمہ ہو گیا۔

 
ہیکل سلیمانی کی مغربی دیوار جو دیوار گریہ کہلاتی ہے۔

دیوار گریہ کے پاس زیر زمین تہ خانوں تک جانے والا کنواں آج بھی موجود ہے جسے مضبوط اور شفاف شیشے کی چادر سے ڈھک دیا گیا ہے۔[44]

اقتباس

روایت ہے کہ یروشلم کے شمال میں بحیرہ روم کے ساحل پر ٹائر (Tyre) نامی ایک بڑا تجارتی شہر تھا۔ وہاں کے بادشاہ نے اپنا سفیر بادشاہ سلیمان کے پاس بھیجا اور اپنے شہر میں امن و امان اور لوٹ مار کی بگڑتی صورت حال پر مشورہ مانگا۔ بادشاہ سلیمان نے کہا کہ اگر اچھے تعلقات قائم کرنے ہیں تو اپنے بادشاہ کو کہو کہ اپنی سب سے چہیتی اور خوبصورت بیٹی کی مجھ سے شادی کر دے۔ جب شادی ہو گئی تو بادشاہ سلیمان نے سفیر سے مسئلے کی تفصیلات پوچھیں۔ سفیر نے بتایا کہ شہر کے مزدور روٹی نہ ملنے کی وجہ سے اکثر لوٹ مار کرتے ہیں اور پولیس انہیں اس جرم میں قتل کرتی ہے۔ اس وجہ سے شہر کی آبادی کم ہوتی جا رہی ہے اور ہمارے بادشاہ کا خیال ہے کہ عوام ہی ہماری اصل دولت ہیں۔
بادشاہ سلیمان اس نتیجے پر پہنچے کہ جب شہر میں گندم کی بہتات ہوتی ہے اور قیمتیں بہت گری ہوئی ہوتی ہیں تو بھی تنخواہ اتنی کم ہوتی ہے کہ مزدور گندم خرید نہیں سکتے۔ اس کے برعکس جب گندم کی شدید قلت ہوتی ہے اور قیمت زیادہ ہوتی ہے تو تنخواہ بڑھنے کے باوجود گندم مزدوروں کی قوت خرید سے باہر ہوتی ہے۔
بادشاہ سلیمان نے سفیر کو خط دیا اور کہا کہ تمہاری زندگی اس خط کی رازداری سے مشروط ہے۔ اپنے بادشاہ کو میرا مشورہ دو کہ اپنے شہر میں امپورٹ اور ایکسپورٹ پر سے کسٹم ڈیوٹی بالکل ختم کر دے۔ اور دو سال بعد دوبارہ میرے پاس آنا۔
بادشاہ سلیمان اس بات سے اچھی طرح واقف تھے کہ ٹائر کے شہر میں کسٹم کے حکام رشوت خور ہیں۔ جب وہاں کسٹم کا محکمہ ہی ختم کر دیا گیا تو تاجروں کو درآمد برآمد کی بڑی آزادی مل گئی ورنہ پہلے انہیں 20 فیصد کسٹم ڈیوٹی ادا کرنی پڑتی تھی۔ بحری جہازوں کے کپتانوں اور کاروانوں نے ٹائر شہر کا رخ کیا۔ کچھ ہی دنوں میں وہاں حکومتی کرپشن سے آزاد تجارت کی وجہ سے بڑی خوشحالی آ گئی۔
دو سال بعد شہر ٹائر کا سفیر دوبارہ بادشاہ سلیمان کے دربار میں حاضر ہوا۔ بادشاہ سلیمان نے اس سے کہا کہ تمہیں کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں اپنے یہودی بینکاروں کی مدد سے تمہاری خوشحالی سے واقف ہوں۔ اپنے بادشاہ کو میرا دوسرا مشورہ دو کہ کسٹم کا محکمہ دوبارہ بحال کر دے مگر اس دفعہ کسٹم کا کام صرف اعداد و شمار جمع کرنا ہو گا، ڈیوٹی وصول کرنا نہیں ہو گا۔ اب پھر دو سال بعد آنا۔
دو تین سال بعد جب سفیر پھر حاضر ہوا تو بادشاہ سلیمان نے تیسرا خط دیا اور سفیر کو دو سال بعد بلایا۔ خط میں لکھا تھا کہ اپنے شہر میں بڑی ضیافت کا اہتمام کرو جس میں شہر کے سارے بینکروں کا آنا لازمی ہو اور نہ آنے والے بینکر کو فوراً شہربدر کر دیا جائے۔ ضیافت کے اختتام پر ٹائر کے بادشاہ نے کہا کہ ہمارے پاس درست ترین اعداد و شمار ہیں کہ کس نے کتنی درآمد اور برآمد کی ہے اور ان اعداد و شمار پر تم بھی مکمل اعتبار کرتے ہو۔ آج سے ہر بینکر اپنی ہر درآمد اور برآمد پر ماہانہ 10 فیصد ٹیکس دے گا۔ بینکروں نے بڑا شور مچایا مگر بادشاہ نے ایک نہ سنی۔
دو سال بعد شہر ٹائر کا سفیر پھر بادشاہ سلیمان کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اب اس کا شہر انتہائی خوشحال ہو چکا تھا۔ بادشاہ سلیمان نے اسے آخری خط دیا اور کہا کہ اب واپس یہاں آنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس خط میں ٹائر کے بادشاہ کو مشورہ دیا گیا تھا کہ دوبارہ بینکاروں کو ضیافت پر بلاو اور جو بینکار نہ آئے اسے قتل کر کے اس کے بیوی بچوں کو غلام بنا کر بیچ دیا جائے۔ اور انہیں حکم دو کہ اگر شہر ٹائر میں قیمتیں 10 فیصد بڑھ جاتی ہیں تو بینکروں کو 11 فیصد ٹیکس دینا پڑے گا۔ اور اگر قیمتیں 15 فیصد بڑھ جاتی ہیں تو بینکروں کو 13 فیصد ٹیکس دینا پڑے گا۔ اور اگر قیمتیں 20 فیصد بڑھ جائیں تو ٹیکس 15 فیصد ہو جائے گا۔ اس زمانے کی دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ ٹائر کے شہر میں اگلے 70 سالوں تک قیمتیں مستحکم رہی تھیں۔[45]

حوالہ جات

  1. (سورہ الانعام : ٦/٨٤)
  2. (سورہ ص : ٣٨/٣٠)
  3. (سورہ النمل : ٢٧/١٦)
  4. (سورہ انبیاء ٢١/٧٨)
  5. (سورہ النساء : ٤/١٦٣)
  6. (سورہ الانبیاء : ٢١/٧٩)
  7. (سورہ النمل : ٢٧/١٥)
  8. (سورہ النمل : ٢٧/١٥‘ ١٦)
  9. (سورہ الانبیاء : ٢١/٨١)
  10. (سورہ سبا : ٣٤/١٢)
  11. (سورہ ص : ٣٨/٣٦)
  12. (سورہ الذاریات : ٥١/٥٦)
  13. (سورہ النمل : ٢٧/٢٠)
  14. (سورہ ص : ٣٨/٣٥)
  15. (سورہ ص : ٣٨/٣٥)
  16. (سورہ الانبیاء : ٢١/٨٢)
  17. (سورہ سبا : ٣٤/١٢‘ ١٣)
  18. (سورہ النمل : ٢٧/١٧)
  19. (سورہ ص : ٣٨/٣٧ تا ٣٩)
  20. (تفسیر بیضاوی سورة سبا)
  21. (بائبل کتاب سلاطین باب ٩ آیات ١٥۔ ٢٠)
  22. (تورات کتاب سلاطین باب ٧۔ ٨)
  23. (قصص الانبیاء عربی صفحہ 393)
  24. (البدایہ والنہایہ جلد ٢ ص ٢٨)
  25. (سورہ ص : ٣٨/٣٠ تا ٣٣)
  26. (سورہ ص : ٣٨/٣٢)
  27. (سورہ ص : ٣٨/٣٣)
  28. (فتح الباری جلد ٦ ص ٣٧٦)
  29. (سورہ ص : ٣٨/٣٢)
  30. (سورہ ص : ٣٨/٣٣)
  31. (تفسیر ابن کثیر جلد ١ ص ١٣٤)
  32. (سورہ البقرۃ : ٢/١٠١‘ ١٠٢)
  33. موضح القرآن از شاہ عبد القادر نور اللہ مرقدہ زیر آیت فَقَبَضْتُ قَبْضَۃً مِّنْ اَثَرِ الرَّسُوْلِ و کتاب النبوات از شیخ الاسلام حافظ ابن تیمیہ (رح)
  34. (سورہ بقرہ : ٢/١٠٢)
  35. تفسیر ابن کثیر جلد ١ ص ١٣٧۔
  36. (تفسیر ابن کثیر جلد 1 صفحہ 137)
  37. (ترجمہ از تفسیر ابن کثیر جلد ١ ص ١٤١)
  38. البحر المحیط جلد ١ قصہ ہاروت و ماروت
  39. اسم اعظم
  40. صحیح بخاری حدیث نمبر (5242)
  41. The Richest People in Human History
  42. Pietre-Stones Kent Henderson, The Legend of Hiram Abif, retrieved 12th Jan 2013
  43. Money is the lifeblood of the powerful and the chains and key to human enslavement
  44. The story of the Wailing Wall, Jerusalem, Israel
  45. THE JUDAEO-CHRISTIAN AGREEMENT IN CATALONIA.

1۔ القرآن، 2:249

2۔ تہامی، ص 46

3۔ ادارہ سیارہ ڈائجسٹ ص 272 تا 276

4۔ مہر، غلام رسول، ص 89

5۔ ادارہ سیارہ ڈائجسٹ ص 272 تا 276

6۔ مہر، غلام رسول، ص 82

7۔ ادارہ سیارہ ڈائجسٹ ص 272 تا 276

8۔ القرآن، ص: 20

9۔ القرآن، البقرہ:2:252

10۔ ا محمد حفیظ الرحمن سینوہاروی، مولانا، ص 92

11۔ القرآن، المائدہ:78

12۔ القرآن، الاعراف: 166

13۔ عبد العزیز ہزاروی، مولانا ص 568۔ 569

14۔ محمد شفیع، مولانا، ص 496

15۔ القرآن، ص: 24

16۔ القرآن، ص:26

17۔ قاضی عبد الرزاق، ص206

18۔ القرآن، ص: 20

19۔ القرآن، بنی اسرائیل : 55

20۔ القرآن، سبا:11۔ 10

21۔ عبد الرحمن، مولانا، ص 36

22۔ حفیظ الرحمن سیوہاروی، مولانا، ص 93

23۔ مہر، ص 83

24۔ القرآن (38: 30)

25۔ عطا اللہ ساجد مولانا، ص 572

26۔ عبد الرحمن، مولانا، ص 37۔ 38

27۔ عطا اللہ ساجد، مولانا، ص 587

28۔ عطا اللہ ساجد، مولانا، ص 587

29۔ القرآن، ص :25

30۔ مولانا عبد الرحمن، مولانا، ص 41۔ 42

31۔ عطا اللہ ساجد، ص 586

32۔ قاضی عبد الرزاق، ص 214

33۔ القرآن، النمل: 16

34۔ قاضی عبد الرزاق، حافظ قاضی ص 209

35۔ عبد الرحمن، مولانا، ہدایت کے چراغ۔ سیرت انبیائے کرام، ص 84۔ 85

36۔ القرآن، النمل:21۔ 20

37۔ عبد الرزاق، حافظ قاضی، تذکرۃ الانبیا، ص 228۔ 229

38۔ غلام نبی بن عنایت اللہ، ص 369

39۔ القرآن، ص:33۔ 30

40۔ القرآن، ص: 35۔ 34

41۔ القرآن ص:36

42۔ چراغ علی، مولوی، ص 156

43۔ ایضاً ص 154

44۔ معارف القرآن جلد دوم ص 116

45۔ القرآن، الانبیا:82

46۔ القرآن، سبا: 13۔ 12

47۔ چراغ علی، مولوی، ص 152۔ 153

48۔ قصص القرآن، ص 110۔ 111

49۔ القرآن، البقرہ:248

50۔ تفہیم القرآن، جلد اول ص 189

51۔ شاہکار اسلامی انسائیکلوپیڈیا ص409

52۔ معارف القرآن جلد ہفتم‘ ص۔ 276

53۔ القرآن، النمل: 19

54۔ تہامی، ص 53