ہندوستان کے گورنر جنرل کی کونسل کے پہلے رُکن برائے قانون ” لارڈ میکالے” کے برطانیہ کی پارلیمنٹ کو 2 فروری 1835 عیسوی کے خطاب سے اقتباس ۔

“I have traveled across the length and breadth of India and I have not seen one person who is a beggar, who is a thief, such wealth I have seen in this country, such high moral values, people of such caliber that I don’t think we would ever conquer this country unless we break the very backbone of this nation which is her spiritual and cultural heritage and, therefore, I propose that we replace her old and ancient education system, her culture, for if the Indians think that all that is foreign and English is good and greater than their own, they will lose their self-esteem, their native culture and they will become what we want them, a truly dominated nation”.

میں نے ہندوستان کے طول و عرض میں سفر کیا ہے۔ مجھے کوئی بھی شخص بھکاری یا چور نظر نہیں آیا۔ اس ملک میں میں نے بہت دولت دیکھی ہے، لوگوں کی اخلاقی اقدار بلند ہیں اور سمجھ بوجھ اتنی اچھی ہے کہ میرے خیال میں ہم اس وقت تک اس ملک کو فتح نہیں کر سکتے جب تک کہ ہم ان کی دینی اور ثقافتی اقدار کو توڑ نہ دیں جو ان کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس لیے میں یہ تجویز کرتا ہوں کہ ہم ان کا قدیم نظام تعلیم اور تہذیب تبدیل کریں۔ کیونکہ اگر ہندوستانی لوگ یہ سمجھیں کہ ہر انگریزی اور غیر ملکی شے ان کی اپنی اشیاء سے بہتر ہے تو وہ اپنا قومی وقار اور تہذیب کھو دیں گے اور حقیقتاً ویسی ہی مغلوب قوم بن جائیں گے جیسا کہ ہم انھیں بنانا چاہتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔
اس زمانے میں ہندوستان میں فارسی اور سنسکرت زبان میں تعلیم دی جاتی تھی۔

1876–78 کے جنوبی ہندوستان کے قحط زدگان۔ انگریز اس زمانے میں بھی ہندوستان سے غلہ برآمد(ایکسپورٹ)کرتے رہے۔ اس قحط میں لگ بھگ 70 لاکھ لوگ مر گئے۔
1876–78 کے قحط کے زمانے میں مدراس کے ساحل پر غلہ فراہمی (ایکسپورٹ) کے لیے منتظر ہے۔ (February 1877)

لارڈ میکالے نے تعلیم بطور ہتھیار کی تجویز دی تاکہ ہندوستانیوں کی مطلوبہ ذہن سازی کی جا سکے۔ تاریخ نے ثابت کیا کہ یہ تجویز درست تھی اور اس کے نتیجے میں ہندوستانی اپنا قومی وقار کھو کر مغلوب قوم بن گئے۔ اس تقریر کے بعد لارڈ میکالے کو ہندوستان کے لیے نظام تعلیم مرتب کرنے کا کام سونپا گیا اور اس نظام کے اثرات آج تک دیکھے جا سکتے ہیں۔ اسی بات کو ان اشعار میں واضح کیا جا سکتا ہے۔

گلا تو گھونٹ دیا اہلِ مدرسہ نے تیرا
کہاں سے آئے صدا لا الہ الا اللہ
(اقبال)

چھوڑ لٹریچر کو اپنی ہسٹری کو بھول جا
شیخ و مسجد سے تعلق ترک کر اسکول جا
چار دن کی زندگی ہے کوفت سے کیا فائدہ
کھا ڈبل روٹی، کلرکی کر، خوشی سے پھول جا
(اکبر الہ آبادی)

قانون برائے انگریزی زبان

ترمیم

1835 میں English Education Act بنایا گیا۔ میکالے کا اصرار تھا کہ ہندوستانیوں کو انگریزی ادب پڑھایا جائے جبکہ خود انگریز اس زمانے میں کیمیا، برقیات، دھات کاری اور معدنی وسائل سے متعلق تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ انگریز اچھی طرح جانتا تھا کہ سائنس اور ٹیکنولوجی پڑھانے سے ملک معاشی ترقی کی جانب گامزن ہو جاتا ہے جبکہ ادب پڑھانے سے معاشی ترقی نہیں ہوتی کیونکہ ادبی مواد ایکسپورٹ نہیں ہوتا جبکہ سائنسی مواد ایکسپورٹ ہو کر ملک کی آمدنی بڑھاتا ہے۔

اوڈ کا مراسلہ

ترمیم

1854ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے ڈائریکٹرز کے صدر چارلس اوڈ نے ہندوستان میں تعلیمی اصلاحات کے لیے جو مراسلہ بھیجا اسے Wood’s Despatch کہتے ہیں۔ اس میں واضح کیا گیا تھا کہ ہندوستانیوں کی تعلیم ایسی ہونی چاہیے جو برطانوی تجارت کے لیے منافع بخش ثابت ہو اور کمپنی کو قابل اعتبار ملازم فراہم کرے۔ مقصد بالکل واضح تھا کہ ہندوستان producer اکنومی نہ بن سکے بلکہ کنزیومر اکنومی یا سروس سیکٹر میں تبدیل ہو جائے۔
Economic benefit was one of the practical uses as pointed in the Despatch. It said that European learning would enable Indians to understand the advantages which accrue from the expansion of trade and commerce. It would make them see the importance of development of resources of the country. Introducing the Indians to European ways of life would change their tastes and then create demand for British goods.

Wood’s Despatch also said that European learning would improve the moral character of Indians. This would help in supplying the Company with civil servants who could be trusted.[1]

پرانا ہندوستانی تعلیمی نظام

ترمیم

1830 میں اسکاٹ لینڈ کے ایک پادری William Adam نے بنگال اور بہار کا دورہ کرنے کے بعد اپنی رپورٹ پیش کی جس میں بتایا گیا تھا کہ بنگال اور بہار کے علاقے میں ایک لاکھ پٹشالے ہیں۔ اگرچہ ہر پٹشالے میں طالب علموں کی اوسط تعداد صرف بیس ہے لیکن مجموعی تعداد بیس لاکھ بن جاتی ہے۔ یہ پٹشالے مقامی مخیر حضرات کے تعاون سے چلتے تھے۔ کسی باقاعدہ نظام کے تحت تعلیم نہیں دی جاتی تھی۔ فیس مقرر نہیں تھی۔ کوئی چھپی ہوئی کتاب نہیں تھی۔ الگ عمارت نہیں ہوتی تھی۔ کرسیاں یا بینچ نہیں ہوتی تھیں۔ کلاسیں الگ الگ نہیں ہوتی تھیں۔ حاضری کا رجسٹر نہیں ہوتا تھا۔ نہ باقاعدگی سے امتحان ہوتے تھے نہ کوئی ٹائم ٹیبل ہوتا تھا۔ کسی برگد کے درخت کے نیچے، خالی دکان، مندر یا گرو کے گھر میں کلاس لی جاتی تھی۔
فیس والدین کی مالی حالت کے مطابق لی جاتی تھی۔ ساری پڑھائی زبانی ہوتی تھی اور سلیبس استاد (گرو) کی مرضی کے مطابق ہوتا تھا۔ طالب علموں کو الگ الگ کلاس میں نہیں بٹھایا جاتا تھا بلکہ سب اکٹھے بیٹھتے تھے۔
یہ نظام مقامی ضروریات کے مطابق تھا۔ جب فصل کی کٹائی کا وقت آتا تھا تو چھٹیاں ہو جاتی تھیں کیونکہ بچے کھیتوں میں والدین کا ہاتھ بٹاتے تھے۔ اس کے بعد پٹشالے دوبارہ کھل جاتے تھے۔
1854 کے بعد انگریز حکومت نے دیہی تعلیمی نظام کو بدلنے کا فیصلہ کیا۔ کمپنی نے بہت سارے پنڈت مقرر کیے۔ ہر پنڈت کو چار یا پانچ اسکولوں کی ذمہ داری دی گئی۔ ٹیکسٹ بُک متعارف کرائی گئیں۔ ٹائم ٹیبل بنائے گئے۔ سالانہ امتحان لیے جانے لگے۔ فیس مقرر کی گئی اور ہر بچے کے لیے مقررہ وقت پر فیس دینا، کلاسوں میں حاضر ہونا اور نئے قاعدے قانون کے مطابق چلنا ضروری بنایا گیا۔
جن پٹشالوں نے نیا انگریزی نظام قبول کر لیا انھیں حکومت کی طرف سے مالی امداد ملنے لگی جبکہ جن پٹشالوں نے اطاعت قبول نہیں کری انھیں امداد نہ ملنے کی وجہ سے جاری رکھنا مشکل سے مشکل تر ہوتا چلا گیا۔ اس نئے نظام سے کسانوں اور غریبوں کے بچوں کی تعلیم سخت متاثر ہوئی۔ جب فصل کٹنے کے زمانے میں بچے چھٹی کرتے تھے تو اسے ڈسپلین کی خلاف ورزی قرار دیا جانے لگا۔

اقتباس

ترمیم
  • "جب تم کسی شخص کے خیالات کنٹرول کر لیتے ہو تو تمھیں اس کے اعمال کی فکر نہیں رہتی۔ تمھیں اسے یہ بتانے کی ضرورت نہیں پڑتی کہ یہاں مت کھڑے ہو اور پرے ہٹو۔ وہ خود اپنی مناسب جگہ تلاش کر لے گا اور پھر وہاں سے نہیں ہٹے گا۔ تمھیں اُسے یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ پچھلے دروازے سے نکل جاو۔ وہ بغیر کہے چلا جائے گا۔ درحقیقت اگر وہاں کوئی پچھلا دروازہ نہ ہو تو وہ خود اُسے بنا لے گا۔ اس کی تعلیم نے ایسا کرنا لازمی بنا دیا ہے۔"
“When you control a man’s thinking you do not have to worry about his actions. You do not have to tell him not to stand here or go yonder. He will find his ‘proper place’ and will stay in it. You do not need to send him to the back door. He will go without being told. In fact, if there is no back door, he will cut one for his special benefit. His education makes it necessary.” — Dr. Carter Godwin Woodson
  • "جبری اور غیر دلچسپ اسکول کی مدد اس لیے ضروری ہے تاکہ بچوں کو آئندہ کی جبری اور غیر دلچسپ نوکری قبول کرنے کے لیے تیار کیا جا سکے "
Critics of schooling—from Henry David Thoreau, to Paul Goodman, to John Holt, to John Taylor Gatto—have understood that coercive and unengaging schooling is necessary to ensure that young people more readily accept coercive and unengaging employment.[2]
  • "ہم نے ایک ایسی دنیا بنا دی ہے جس میں بچوں کو اپنی فطری صلاحیتوں سے لازماً دستبردار ہونا پڑتا ہے اور بغیر سوچے سمجھے وہ بیکار اصول اپنانے پڑتے ہیں جو ان پر تھوپ دیے گئے ہیں"
”We have created a world in which children must suppress their natural instincts to take charge of their own education and, instead, mindlessly follow paths to nowhere laid out for them by adults. We have created a world that is literally driving many young people crazy and leaving many others unable to develop the confidence and skills required for adult responsibility.” (p. 19)[3]
  • صرف اطاعت گزاری پڑھائی گئی۔ ہنر نہیں سکھایا۔
Taught Obedience, Not Skills[4]
  • اسکول کا ذہانت یا معلومات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اسکول صرف اطاعت گزاری کی ٹریننگ دیتے ہیں۔
School is not about knowledge or intelligence. It is about obedience. It trains youth to be obedient to authority figures and to seek their approval.[5]
  • کلاسوں میں صرف واقعات رٹائے جاتے ہیں جو اکثر مشکوک ہوتے ہیں۔ جب معاشرہ منطق سے جدا ہو جاتا ہے تو زوال پزیر ہو جاتا ہے۔
The classroom, at best, has taken on the appearance of a fact-memorization factory; and we should express grave doubts about the relevance and truth of many of those facts.
A society filled with people who float in the drift of non-logic is a society that declines.[6]
  • پہلی دنیا میں تعلیم کیپیٹلزم کا حصہ بن چکی ہے۔ اس کا مقصد صنعت کے لیے تعلیم یافتہ کارکن بنانا اور صنعتی پیداوار کے لیے خریدار فراہم کرنا ہے۔ اس کو مہذبانہ انداز میں یوں کہا جاتا ہے کہ تعلیم کا مقصد ملک کو معاشی خوش حالی عطا کرنا ہے۔ اسی طرح ذاتی سطح پر آج تعلیم کا مقصد بہتر اور باعزت روزگار حاصل کرنا ہے۔۔۔۔تعلیم کو مالیاتی ہدف سے جوڑنا بڑی بدقسمتی ہے۔۔۔۔ یہ تعلیم کی عظمت کو گرا دیتا ہے جس سے معاشرہ بھی زوال پزیر ہو جاتا ہے۔۔۔۔ اگر انسانوں کو ایک مستحکم اور پائیدار معاشرہ بنانا ہو تو انھیں اس کے لیے جدوجہد کرنی پڑے گی۔ انھیں ایک مشترک ہدف، عقیدہ، اقدار اور زندگی کے بارے میں نظریہ اپنانا ہو گا۔ جب معاشرے کے سارے افراد ایک ہی مشترک فریم ورک سے بندھے ہوئے نہیں ہوتے تو وہ معاشرہ بکھر جاتا ہے اور یہ افراد دوسرے معاشروں میں ضم ہو جاتے ہیں۔ معاشرہ میں مشترک مفاد نسل در نسل قائم رہنا چاہیے۔ اور یہی تعلیم کا اصل مقصد ہے۔
In the “first” world, education has become an extension of the capitalist system. Its purpose is to provide qualified workforce for its machinery of production and eager consumers for its products. Stated in a more polished form, the purpose of education is to provide for the economic prosperity of a country. Similarly on a personal level today the purpose of education is to be able to earn a respectable living....the linking of education to financial goals is extremely unfortunate....It degrades education and through it the society....If human are to form a viable, thriving society they must chose to do so. What drives that choice is the sharing of common goals, beliefs, values and outlook on life. Without a common framework binding its members, a human society cannot continue to exist; it will disintegrate and be absorbed by other societies. Further, the society must ensure that the common ground will continue to hold from generation to generation. This is the real purpose of education.[7]

مزید دیکھیے

ترمیم

بیرونی ربط

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم