نادر کاکوروی

اردو شاعر

نادر کاکوروِی (پیدائش: 1867ء – وفات:20 اکتوبر 1912ء) اردو زبان کے نامور شاعر تھے۔ نادر علامہ اقبال کے ہم عصر بھی تھے۔ نادر کے ذاتی حالات بہت کم ملتے ہیں اور دنیائے اُردو اَدب انھیں فراموش کرچکی ہے۔

نادر کاکوروی
معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 1867ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کاکوری   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 20 اکتوبر 1912ء (44–45 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کاکوری   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وجہ وفات خناق   ویکی ڈیٹا پر (P509) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت برطانوی ہند (1867–20 اکتوبر 1912)  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ شاعر   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان اردو   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

سوانح

ترمیم

پیدائش

ترمیم

نادر کا پیدائشی نام شیخ نادر علی تھا۔ مالک رام نے پورا نام قاضی نادر علی خان عباسی لکھا ہے۔ مالک رام نے تذکرۂ ماہ و سال میں سالِ پیدائش 1887ء لکھا ہے[1] لیکن یہ درست نہیں۔ ممتاز حسن نے نادر کے مجموعہ کلام ’’جذباتِ نادر‘‘ کے مقدمہ میں نادر کا سالِ پیدائش 1857ء لکھا ہے [2]مگر یہ بھی درست معلوم نہیں ہوتا، اردو ورثہ کی جانب سے انتخاب کلام نادر کاکوروی (اوکسفرڈ یونیورسٹی پریس) [3] میں بھی سال پیدائش 1857 درج ہے۔ محمد عبد اللہ قریشی نے اپنی تصنیف ’’معاصرین اقبالؔ کی نظر میں‘‘ میں نادرکاکوروی کا ذِکر کرتے ہوئے اُن کا سالِ پیدائش 1867ء لکھا ہے [4] جو قرین قیاس درست معلوم ہوتا ہے کیونکہ بوقتِ وفات نادر کی عمر 45 یا 46 سال کے قریب قریب تھی۔ اِس لیے سالِ پیدائش 1867ء زیادہ درست ہے۔

شخصیت و خاندان

ترمیم

نادر کا خاندان کاکوری کا مشہور عباسی خاندان تھا جس کے وہ چشم و چراغ تھے۔ والد کا نام شیخ حامد علی اور دادا کا نام شیخ طالب علی تھا[5]۔ نادر کی زندگی کے حالات تفصیل سے نہیں ملتے۔ ’’عباسیانِ کاکوری‘‘ کے نام اسے اُن کے خاندان کا ایک مبسوط تذکرہ شائع ہوا جو اِسی خاندان کے ایک رکن کی تصنیف ہے مگر اِس تذکرے میں نادرؔ کا ذِکر بہت سرسری سا کیا گیا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ نادر جیسے آزادطبع شخص کے لیے زیادہ گنجائش نہیں نکل سکی۔ محقق ممتاز حسن نے نادر کے احباب کے وسیلہ سے مزید حالات معلوم کرنے کی کوشش کی تھی مگر وہ کوشش کامیاب نہ ہو سکی۔[6]

وفات

ترمیم

نادر کی وفات مرضِ خناق کے باعث 20 اکتوبر 1912ء کو عین حالتِ شباب میں ہوئی۔ [7]کل 45 برس عمر پائی۔[8]

شاعری

ترمیم

نادر اچھے پڑھے لکھے، انگریزی دان، شگفتہ مزاج اور قوم پرست شخص تھے۔ نادر کی شاعری اردو زبان کی نئی تحریک میں ایک خاص مقام رکھتی ہے۔ یہ تحریک حالیؔ اور آزادؔ کی نیچرل شاعری سے شروع ہوتی ہے، اگرچہ اِس تحریک کے عناصر حالی اور آزادؔ سے پہلے بھی میر تقی میر، انشاء اللہ خاں انشاؔ، نظیر اکبرآبادی اور دیگر دوسرے شعرا کے کلام میں پائے جاتے ہیں مگر اِس کا فروغ حالیؔ اور آزادؔ کی کوششوں سے ہوا۔ جن میں کرنل ہالرائڈ (ناظم تعلیماتِ پنجاب) کی سرپرستی کا بہت عمل دخل تھا۔ اِس تحریک کا مقصد یہ تھا کہ اردو شاعری کو زندگی کے حقائق اور واقعات کے قریب لایا جائے اور تصنع اور تکلف کو ترک کر دیا جائے۔ تشبیہ اور اِستعارے کی بنیاد عام زندگی کے مشاہدات پر رکھی جائے تاکہ شاعری زیادہ مؤثر ہو سکے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اِس تحریک کے دو شاعرانہ نصب العین تھے، سادگی اور واقعیت۔ یہی وہ ’’نیچرل شاعری‘‘ تھی جسے حالیؔ نے اپنے مقدمہ شعر و شاعری میں منظرعام پر لانے کی کوشش کی اور جس کے نمونے ہمیں آزادؔ کی ’’شبِ سیاہ‘‘ اور حالیؔ کے ’’مناظرۂ رحم و انصاف‘‘ میں ملتے ہیں۔[9]

نادر ادیبوں کی نظر میں

ترمیم

عبدالحلیم شرر:

"نادر نے اردو کی ایک نئے میدان میں رہبری کی اور بہت وسیع حد تک کامیاب ہوئے ہیں۔ انہوں نے کوشش کی ہے کہ انگریزی شاعری کے لطیف مذاق کو اردو میں پیدا کریں۔ لہذا قدردان ادب اردو کو ان کا شکر گزار ہونا چاہیے۔"

رام بابو سکسینہ:

نادر علی خان نادر طرز جدید کے بہت عمدہ کہنے والوں میں سے تھے۔ اس رنگ میں ان کی اکثر نظمیں بہت مشہور ہیں۔ درد و اثر، اعلی تخیل، حب وطن ان کے کلام کے مخصوصات میں سے ہیں۔ یہ انگریزی شعراء بائرن اور ٹامس مور کے دلدادہ تھے اور چاہتے تھے کہ انہی کا رنگ نہایت سلیس اور عمدہ طریقے سے اردو میں بھی داخل ہو جائے۔

کتابیات

ترمیم


حوالہ جات

ترمیم
  1. تذکرۂ  ماہ و سال، صفحہ 379۔
  2. جذباتِ نادر، مقدمہ از ممتاز حسن،صفحہ 2۔
  3. انتخاب کلام نادر کاکوروی، اوکسفرڈ پریس، صفحہ 5
  4. معاصرین اقبالؔ کی نظر میں، صفحہ 56
  5. معاصرین اقبالؔ کی نظر میں،  صفحہ 60۔
  6. جذباتِ نادر، مقدمہ از ممتاز حسن،صفحہ 2۔
  7. تذکرۂ  ماہ و سال، صفحہ 379۔
  8. جذباتِ نادر، مقدمہ از ممتاز حسن،صفحہ 2۔
  9. جذباتِ نادر، مقدمہ از ممتاز حسن،صفحہ 2-3۔