نارائن شیام
نارائن شیام (انگریزی: Narayan Shyam) بھارت سے تعلق رکھنے والے سندھی زبان کے نامور شاعر تھے۔ ترقی پسند تحریک سے وابستہ صفِ اول کے شعرا میں شامل تھے۔ انھیں ان کے شعری مجموعے پر ساہتیہ اکیڈمی کی جانب سے 1970ء میں ساہتیہ اکیڈمی اعزاز برائے سندھی ادب دیا گیا۔
نارائن شیام | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 25 جولائی 1922ء ضلع نواب شاہ ، سندھ ، بمبئی پریزیڈنسی |
وفات | 10 جنوری 1989ء (67 سال) ممبئی ، بھارت |
شہریت | بھارت برطانوی ہند |
عملی زندگی | |
مادر علمی | ممبئی یونیورسٹی |
تعلیمی اسناد | بی اے (آنرز) |
پیشہ | شاعر |
پیشہ ورانہ زبان | سندھی |
کارہائے نمایاں | وری آ بھریو پلاند |
تحریک | ترقی پسند تحریک |
اعزازات | |
ساہتیہ اکادمی ایوارڈ (برائے:وری آ بھریو پلاند ) (1970)[1] |
|
باب ادب | |
درستی - ترمیم |
حالات زندگی
ترمیمنارائن شیام 25 جولائی 1922ء کو گوٹھ کھاہی قاسم، تحصیل نوشہرو فیروز، ضلع نوابشاہ، سندھ)، بمبئی پریزیڈنسی میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم نوابشاہ میں حاصل کی۔ 1943ء میں بے اے (آنرز) کی سند بمبئی یونیورسٹی سے حاصل کی۔ بی اے (آنرز) میں ان کا اختیاری مضمون فارسی تھا۔ مسلم مدرسہ اسکول نوشہروفیروز میں فارسی کے استاد مقرر ہوئے۔ جہاں انھوں نے اکتوبر 1947ء تک تدریسی خدمات انجام دیں۔ تقسیم ہند کے بعد جنوری 1948ء میں وہ بھارت کے شہر بمبئی منتقل ہو گئے۔ اجمیر میں بھی رہے۔ بھارت میں پوسٹ اینڈ ٹیلیگراف کے محکمہ میں ملازمت اختیار کی۔ انھوں سندھی شاعری کے ترقی پسند دبستان کے نہایت اہم اور نمائندہ شاعر تھے۔ ترقی پسند خالات، تصورات اور رجحانات کو سندھی شاعری میں مستحکم کرنے کے لیے نارائن شیام نے اہم کردار ادا کیا۔ ان کی شاعری میں سماجی و سیاسی شعور کی پختگی کار فرما نظر آتی ہے۔ نارائن آزادی اور عوامی بہبود کی تحریکوں سے وابستہ رہے ہیں، اسی لیے ان کے کلام میں عصری معروضیت واضح طور پر جھلکتی ہے۔ ان کی شاعری کے اسلوب میں ندرتِ اظہار، اثر پذیری کی لہریں مدغم ہوتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں۔ نارائن شیام کا مطالعہ وسیع تھا، عالمی ادب پر گہری نظر رکھتے تھے۔ وہ عالمی ادب میں ہونے والی وسیع البنیاد تبدیلیوں سے پوری طرح آگاہ تھے اور ادب کے بدلتے ہوئے کردار کا شعور بھی رکھتے تھے،اسی وجہ سے ان کی شاعری تفننِ طبع کی بجائے نہایت سنجیدہ سماجی کردار ادا کرتی ہے۔ نارائن ان سندھی شاعروں میں صفِ اول کے شاعر ہیں جنھوں نے سندھی ادب کی قدیم اصنافِ سخن یعنی وائی ، کافی اور بیت وغیرہ کے ساتھ ساتھ مغربی شاعری کی بعض اصناف کے کامیاب تجربے کیے ہیں مثلاً بلینک ورس، فری ورس اور سانیٹ ے جو تجربے نارائن شیام نے کیے ہیں، اس کے سبب انھوں نے سندھی شاعری کی بساط کو مزید توانائی اور رنگارنگی عطا کر دی ہے۔ نارائن نے جاپانی صنف سخن ہائیکو کی طرز پر سندھی شاعرہی میں تین مختصر مصرعوں میں نہایت کامیاب تجربہ کیا ہے جو سندھی شعریات میں ایک اضافہ کی حیثیت رکھتا ہے۔[2] بھارت کی ساہتیہ اکیڈمی نے 1970ء میں انھیں ساہتیہ اکیڈمی اعزاز عطا کیا۔ ان کی ادبی خدمات کے صلے میں بھارت میں ان کے نام سے ایک ادبی انعام نارائن شیام ایوارڈ کا اجرا ہوا ہے جو سندھی زبان میں شائع ہونے والے شعری مجموعوں پر دیا جاتا ہے۔[3]
وفات
ترمیمنارائن شیام 10 جنوری 1989ء میں بمبئی، بھارت میں وفات پا گئے۔
حوالہ جات
ترمیم- ↑ http://sahitya-akademi.gov.in/awards/akademi%20samman_suchi.jsp#SINDHI — اخذ شدہ بتاریخ: 16 اپریل 2019
- ↑ سید مظہر جمیل، مختصر تاریخ زبان و ادب سندھی، ادارہ فروغ قومی زبان اسلام آباد، 2017ء، ص 368
- ↑ Param Abichandani (2001)۔ Narayan Shyam۔ Sahitya Academy, New Delhi, India۔ ISBN 81-260-0447-9