نذیر حسین ایک بھارتی فلمی اداکار، ہدایت کار اور منظر نویس تھے۔[2][3][4][5][6] وہ ہندی سنیما میں کردار اداکار کے طور پر مشہور تھے اور تقریباً 500 فلموں میں کام کیا۔

نذیر حسین
 

معلومات شخصیت
پیدائش 1 اکتوبر 1924(1924-10-01)
غازی پور، اتر پردیش، برطانوی ہند[1]
وفات 16 اکتوبر 1987(1987-10-16) (عمر  63 سال)
ممبئی، بھارت
قومیت بھارتی
عملی زندگی
پیشہ بالی وڈ اور بھوجپوری اداکار
فلمی ہدایت کار
فلم پروڈیوسر
فلم سازی
منظر نویس
پیشہ ورانہ زبان ہندی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اعزازات
IMDB پر صفحات  ویکی ڈیٹا پر (P345) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

حالاتِ زندگی ترمیم

لاجواب شخصیت اور متاثرکن آواز کے مالک نذیر حسین 1 اکتوبر 1924ء، کو بھارت کی ریاست اترپردیش کے ضلع غازی پور میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد ریلوے گارڈ تھے۔ نذیر حسین کی پرورش لکھنؤ میں ہوئی۔ انھوں نے تھوڑے عرصے کے لیے برطانوی فوج میں کام کیا۔ پھر وہ سبھاش چندر بوس سے متاثر ہوئے اور ان کی جماعت انڈین نیشنل آرمی (آئی این اے) میں شامل ہو گئے۔ بالی وڈ میں داخلے کی ایک بڑی وجہ ان کی آئی این اے سے وابستگی تھی۔ نذیر حسین نے ہندوستان کے بے بدل ہدایتکار بمل رائے کے ساتھ مل کر فلم ’’پہلا آدمی‘‘ بنائی۔ یہ فلم آئی این اے کے تجربے کی بنیاد پر بنائی گئی تھی۔ برطانوی سامراج سے آزادی کے بعد نذیر حسین کو حریت پسند قرار دیا گیا۔ انھیں زندگی بھر کے لیے مفت ریلوے پاس دے دیا گیا۔ ان دنوں بمل رائے اور سبھاش چند بوس آئی این اے پر فلم بنانے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے وہ آئی این اے ارکان کی تلاش میں تھے تاکہ وہ ان کی معاونت کریں۔ نذیر حسین کی شخصیت اور خوبصورت آواز نے بمل رائے کو اپنی طرف متوجہ کیا۔ تاہم نذیر حسین فلموں میں کام کرنے کے لیے تیار نہ تھے۔ کیونکہ ان کا پس منظر فلمی نہیں تھا۔ ان کے دوستوں نے انھیں فلموں میں کام کرنے کے لیے قائل کیا۔ ’’پہلا آدمی‘‘ 1950ء میں ریلیز ہوئی۔ اس کے بعد وہ بمل رائے کی فلموں کا لازمی حصہ بن گئے۔ کریکٹر ایکٹر کی حیثیت سے شائقین فلم نے ان کی بہت پزیرائی کی۔ انھوں نے ان گنت سپرہٹ فلموں میں کام کیا۔ وہ جذباتی مناظر کی وجہ سے بہت مشہور تھے اور انھیں ’’آنسوئوں کا کنستر‘‘ کہا جاتا تھا۔[7]

ہندی فلمیں ترمیم

ان کی مشہور ہندی فلموں میں ’’دو بیگھہ زمین، دیوداس، پاری نیتا، بمبئی کا بابو، گنگا جمنا، لیڈر، پرکھ، کشمیر کی کلی، انوراگ، میرے جیون ساتھی، رام اور شیام، جیول تھیف، امر اکبر انتھونی، پے انگ گیسٹ، کٹی پتنگ‘‘ اور کئی دیگر فلمیں شامل ہیں۔ نذیر حسین کو ہمیشہ اس بات کا قلق رہا کہ بھوجپوری سینما کی ترقی اور نشو و نما دیکھنے سے پہلے ہی سابق بھارتی صدر راجندر پرشاد چل بسے۔ یہاں اس حقیقت کا تذکرہ ضروری ہے کہ نذیر حسین نے سب سے زیادہ دیوآنند کے ساتھ کام کیا۔ ایک زمانے میں نذیر حسین، دیو آنند، مکرجی اور ایس ڈی برمن کا گروپ بہت مشہور تھا۔ اس ٹیم نے بڑا خوبصورت کام کیا۔ ان کی فلمیں آج کے شائقین بھی بہت پسند کرتے ہیں۔ بمل رائے کی فلم ’’دو بیگھہ زمین‘‘ میں بلراج ساہنی نے لافانی اداکاری کا مظاہرہ کیا تھا۔ لیکن ان کے علاوہ نروپارائے، رتن کمار اور نذیر حسین نے بھی اپنی اداکارانہ صلاحیتوں کی دھاک جمادی تھی۔ رتن کمار ہندوستان کے مشہور ترین چائلڈ آرٹسٹ تھے اور ان کی فطری اداکاری نے ایک عالم کو متاثر کیا تھا۔ بعد میں رتن کمار پاکستان آ گئے تھے اور یہاں انھوں نے کچھ فلموں میں کام کیا۔ ان کی سب سے اہم فلم ’’ناگن‘‘ تھی جس میں انھوں نے نیلو کے ساتھ اپنی اداکاری کے جوہر دکھائے تھے۔ نذیر حسین نے ’’دو بیگھہ زمین‘‘ میں اس رکشہ کھینچنے والے کا کردار ادا کیا تھا جو بلراج ساہنی کو یہ کام سکھاتا ہے۔ انھوں نے زیادہ تر فلموں میں مثبت کردار ادا کیے۔ مرکزی کرداروں کی موجودگی میں کریکٹرایکٹر کی حیثیت سے اپنے آپ کو منوانا کوئی آسان بات نہ تھی۔ یہ نذیر حسین تھے جنھوں نے اپنی زبردست صلاحیتوں کے بل بوتے پر شائقین فلم کے دلوں میں گھر کر لیا۔ بڑے بڑے ناقدین فلم ان کی تعریفوں کے پل باندھتے نظر آتے تھے۔ وہ جس فلم میں بھی ہوتے تھے اپنا نقش چھوڑ جاتے تھے۔[7]

بھوجپوری سینما کی نشو و نما میں کردار ترمیم

ہندوستان کے سابق صدر راجندر پرشاد سے ایک تقریب میں ہندی فلموں کے بے مثل کریکٹر ایکٹر نذیر حسین نے ملاقات کی۔ نذیر حسین یو پی کے ضلع غازی پور سے تعلق رکھتے تھے۔ انھیں جب یہ علم ہوا کہ راجندر پرشاد کا تعلق بھی غازی پور سے ہے تو وہ ان سے ملنے کے لیے بے تاب ہو گئے۔ ملاقات کے دوران میں انھوں نے سابق بھارتی صدر سے بھوجپوری سینما کے بارے میں تفصیلی بات چیت کی۔ سابق بھارتی صدر نے ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے انھیں تلقین کی کہ وہ بھوجپوری زبان میں فلمیں بنائیں۔ اس سلسلے میں انھوں نے اپنے بھرپور تعاون کی بھی پیشکش کی۔ بعد میں ہندی فلموں کے اس کریکٹر ایکٹر نے بھوجپوری سینما کی نشو و نما میں اہم ترین کردار ادا کیا۔ وہ ہندی فلموں کے ساتھ ساتھ ایکٹر، ڈائریکٹر اور سکرین رائٹر کی حیثیت سے کام کرنے لگے۔ پہلی بھوجپوری فلم ’’گنگا میا تو ہے پیاری چادہائی بو‘‘ کی تکمیل میں نذیر حسین نے جو کردار ادا کیا اس کی جتنی تحسین کی جائے کم ہے۔ ان کی بھوجپوری فلم ’’بالم پردیسیا‘‘ بھوجپوری فلمی صنعت کی تاریخ میں اہم حیثیت رکھتی ہے۔ نذیر حسین کی بھوجپوری زبان میں فلمیں سماجی مسائل کے گرد گھومتی تھیں۔ ان کی فلموں میں جہیز کا مسئلہ اور بے زمین کسانوں کی مشکلات اہم ترین موضوعات تھے۔ جوان لڑکی کے مجبور باپ کے کردار میں ان کی اداکاری دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی۔ انھوں نے اپنی فلموں میں ظالم زمینداروں اور سرمایہ داروں کی مکاریوں کو بے نقاب کیا۔ المیہ کردار نگاری میں ان کا کوئی جواب نہ تھا۔[7]

وفات ترمیم

نذیر حسین نے بڑی بھرپور زندگی گزاری۔ وہ 1985ء میں اس جہان فانی سے رخصت ہو گئے۔ ایسے لوگ تاریخ کے صفحات میں ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔[7]

حوالہ جات ترمیم

  1. Bhojpuri cinema scripts a success story for five decades | entertainment | Hindustan Times
  2. انٹرنیٹ مووی ڈیٹابیس (IMDb) پر نذیر حسین
  3. Danish Khan (15 مئی 2012)۔ "Nazir Hussain: From INA to Bollywood"۔ TwoCircles 
  4. Jaskiran Kapoor (23 دسمبر 2009)۔ "Such a long journey"۔ The Indian Express۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 3 فروری 2014 
  5. Jaskiran Kapoor (8 مئی 2009)۔ "golden age of bhojpuri cinema"۔ online india۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 فروری 2014 
  6. Jaskiran Kapoor (8 مئی 2009)۔ "The bhojpuri (purvanchal) film industries"۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 فروری 2014 
  7. ^ ا ب پ ت نذیر حسین، دنیا ڈاٹ پی کے ۔

بیرونی روابط ترمیم

انٹرنیٹ مووی ڈیٹابیس (IMDb) پر Nazir Hussain