علویہ
علی بن ابی طالب کی تلوار ذو الفقار کی خیالی تصویر، جو علویوں اور شیعوں دونوں کے لیے انتہائی اہم علامت ہے۔
خضر زیارت گاہ جس کے متعلق علویوں کا اعتقاد ہے کہ یہاں موسی اور خضر نے ملاقات کی، یہ شام ترکیہ سرحد کے قریب واقع ہے۔
کل آبادی
تقریباً 4 ملین[1]
بانی
ابن نُصیر[2] اور خصیبی[3]
اہم آبادی والے علاقے
شام2 سے 3 ملین کے درمیان[4]
 ترکیہ500،000 سے 1 ملین[5][6]
 ارجنٹائن180،000[7][8]
 لبنان150،000[9][10][11]
 جرمنی70،000[12][13]
 اسرائیل2،824 [14]
 آسٹریلیا25،000[ا][15]
زبانیں
شامی لہجہ، ترک اور دیگر زبانیں۔

ابتدا

ترمیم

نصیریہ باطنی فرقہ کی ایک جماعت ہے فرانسیسیوں نے انھیں علویین کا نام دیا ہے۔ یہ فرقہ اصل میں ایک شخص سے منسوب ہے جسے محمد بن نصیر کہا جاتا تھا یہ ”بنی نمیر“ کے غلاموں اور اس امام حسن عسکری کے گرد جمع ہونے والوں میں سے ایک تھا جسے اثنا عشری شیعہ اپنا گیارھواں امام گردانتے ہیں۔[16]

علوی کے معنی ’حضرت علی کے پیروکار‘ کے ہیں۔ شیعہ فرقے میں پیغمبرِ اسلام کے داماد حضرت علی کی تعظیم کی جاتی ہے اور علوی فرقے کی طرح یہ عقیدہ موجود ہے کہ پیغمبرِ اسلام کے بعد انھیں ہی پہلا امام ہونا چاہیے تھا۔ تاہم علوی فرقے کے حوالے سے یہ تاثر کہ وہ حضرت علی کو خدا کے بعد قابل تعظیم سمجھتے ہیں، کے باعث اکثر سنی مسلمان انھیں ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ تاہم کچھ سکالرز کا ماننا ہے کہ علویوی کے عقائد کے حوالے سے اس نوعیت کے تاثرات بے بنیاد ہیں۔ [17]

موجودہ زمانہ

ترمیم

شام میں علوی برادری ملک کے بحیرۂ روم کے ساتھ جڑی ساحلی پٹی کے ساتھ آباد ہیں۔ ان کی اکثریت ساحلی شہروں لاذقیہ اور طرطوس میں رہتی ہے اور یہ شمال میں ترک سرحد کی جانب پھیل جاتی ہے۔ ان کی کچھ تعداد ترکی کے صوبہ حطائی اور لبنان کے جنوب اور شمال میں بھی موجود ہے۔ مشرقِ وسطیٰ میں علویوں کو دیگر مسلمانوں کی جانب سے بہت زیادہ لبرل یا سیکولر سمجھا جاتا ہے اور اس فرقے کے عقائد پر دیگر فرقوں کی جانب سے شدید تنقید بھی کی جاتی ہے۔ علوی فرقے کے بارے میں بہت کم آگاہی پائی جاتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس فرقے میں کرسمس کا تہوار بھی منایا جاتا ہے اور دین زرتشتی کا نیا سال بھی۔ فرانسیسی آبادکاروں کی جانب سے شامی علویوں کو ایک علیحدہ مذہب دینے کی کوشش کی گئی تھی لیکن علوی رہنماؤں کی جانب سے اس کی مخالفت کی گئی تھی۔

سنہ 2016 میں بی بی سی کو حاصل ہونے والی ایک دستاویز کے مطابق شامی صدر بشار الاسد کے علوی دھڑے کے رہنماؤں نے ایک انتہائی غیر معمولی قدم اٹھاتے ہوئے حکومت سے دوری اختیار کرنے کا کہا تھا۔ اس دستاویز میں علوی رہنماؤں نے اس بات پر زور دیا تھا کہ اُن کا عقیدہ ’صرف خدا کی عبادت کرنے کے بارے میں ہے۔‘ اُن کا مزید کہنا تھا کہ ’قرآن ہی ہماری واحد مقدس کتاب ہے اور یہ ہمارے مسلمان ہونے کی واضح دلیل ہے۔‘ دستاویز میں علویوں کے رہنماؤں کی جانب سے اس بات پر زور دیا گیا تھا کہ ان کے عقائد شیعہ اسلام سے مختلف ہیں۔ اور وہ ماضی کے ایسے فتوؤں کو رد کرتے ہیں جن کے مطابق علوی فرقے کو شیعہ اسلام کی ایک شاخ کہا گیا تھا۔ انھوں نے اس بات کو بھی واضح کیا کہ وہ برابری، خود مختاری پر یقین رکھتے ہیں اور انھوں نے سیکولرزم کو شام کا مستقبل کہا۔ [17]

عالمى سىاسى اثر و رسوخ

ترمیم

سنہ 2011 میں جب مشرقِ وسطیٰ میں دیگر سربراہان کو برطرف کیا گیا تھا تو شام کے صدر بشار الاسد کے خلاف بھی بغاوت ہوئی تھی تاہم یہ ناکام ثابت ہوئی تھی۔ اس بغاوت کو اس فرقہ وارانہ رنگ دیا گیا تھا کیونکہ یہ معلوم ہوا تھا کہ احتجاج کرنے والوں کی اکثریت سنی فرقے سے تھی۔ خیال رہے کہ صدر بشار الاسد کی جانب سے اہم سیاسی اور عسکری عہدوں پر علوی فرقے سے تعلق رکھنے والے افراد ہی تعینات کیے جاتے تھے۔ دمشق اور حلب میں سنی تاجروں کے ساتھ اتحاد کر کے علوی اشرافیہ نے اپنا اثر و رسوخ معیشت کے ساتھ سکیورٹی محکموں اور فوج میں بھی بڑھایا۔ سخت گیر اسد نواز شبیحہ ملشیا میں بڑی تعداد علوی فرقے سے تعلق رکھتی ہے۔ خبررساں ادارے روئٹرز کے مطابق شام میں فرقہ وارانہ ٹارگٹ کلنگز میں اس لیے اضافہ ہوا تھا کیونکہ صدر بشار الاسد کا تعلق علوی فرقے سے ہے۔ روئٹرز کے مطابق علوی برادری کے تمام افراد بشار الاسد کی حمایت نہیں کرتے تھے اور اُن میں سے بہت کم ایسے ہیں جنھیں بشار الاسد کے دورِ اقتدار سے فائدہ ہوا ہے اور ان کی بڑی تعداد شام کی مرکزی پہاڑیوں میں رہ رہی ہے۔ [17]

حوالہ جات

ترمیم
  1. "The Politics of Sectarian Insecurity: Alawite 'Asabiyya and the Rise and Decline of the Asad Dynasty of Syria - University of Otago"۔ www.otago.ac.nz page 6
  2. "MOḤAMMAD B. NOṢAYR"۔ Encyclopaedia Iranica۔ electricpulp.com
  3. "ḴAṢIBI"۔ Encyclopaedia Iranica۔ electricpulp.com
  4. "The 'secretive sect' in charge of Syria"۔ BBC News۔ 17 مئی 2012۔ اخذ شدہ بتاریخ 2021-04-13
  5. Matthew Cassel۔ "Syria strife tests Turkish Alawites"
  6. Richard Spencer (3 اپریل 2016)۔ "Who are the Alawites?"۔ The Telegraph
  7. Silvia Montenegro (2018)۔ "'Alawis in Argentina: Religious and political identity in the diaspora"۔ Contemporary Islam۔ ج 12: 23–38۔ DOI:10.1007/s11562-017-0405-7۔ hdl:11336/76408۔ S2CID:255312769
  8. "Early_Muslim_immigration in Argentina", in: ‘Early_Muslim_immigration , Published: 18 December 2022
  9. [1] آرکائیو شدہ 6 اگست 2012 بذریعہ وے بیک مشین
  10. "Lebanese Allawites welcome Syria's withdrawal as 'necessary'"۔ The Daily Star۔ 30 اپریل 2005۔ 2019-05-31 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2024-12-10
  11. "Lebanon's Alawi: A Minority Struggles in a 'Nation' of Sects"۔ Al Akhbar English۔ 8 نومبر 2011۔ 2016-03-04 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2012-07-06
  12. "Mitgliederzahlen: Islam", in: Religionswissenschaftlicher Medien- und Informationsdienst|Religionswissenschaftliche Medien- und Informationsdienst e. V. (Abbreviation: REMID), Retrieved 13 February 2017
  13. "Anzahl der Muslime in Deutschland nach Glaubensrichtung im Jahr 2015* (in 1.000)", in: Statista GmbH, Retrieved 13 February 2017
  14. UNIFIL Press Kit آرکائیو شدہ 14 اگست 2021 بذریعہ وے بیک مشین p.6
  15. Ghassan Hage (2002)۔ Arab-Australians today: citizenship and belonging (Paperback ایڈیشن)۔ Melbourne University Publishing۔ ص 40۔ ISBN:0-522-84979-2
  16. بضم النون مصغرا۔ (المنجد 710)
  17. ^ ا ب پ "'علوی': وہ فرقہ جس نے اقلیت میں ہوتے ہوئے شام پر 50 برس تک حکمرانی کی"۔ بی بی سی اردو۔ 9 دسمبر 2024