نواب سلیم اللہ
اس مضمون میں کسی قابل تصدیق ماخذ کا حوالہ درج نہیں ہے۔ |
نواب سلیم اللہ خان 7 جون 1871ء کو احسن منزل ڈھاکہ میں پیدا ہوئے۔ آپ سر احسان اللہ خان نے بڑے بیٹے تھے۔ آپ کی مروجہ علوم کے علاوہ جرمن ٹیوٹرز سے بھی تربیت کا اہتمام کیا۔ آپ نے اپنی عملی زندگی کا آغاز 1893ء میں نوجوانی میں ڈپٹی مجسٹریٹ کی حیثیت سے کیا، آپ نہایت منصف مزاج تھے لہذا آپ نے سب سے زیادہ کسانوں، کاشتکاروں کے حقوق کے تحفظ کے لیے کام کیا۔ آپ چونکہ حریت کے جذبہ سے مامور تھے اور نوکری کرنا مزاج کے موافق نہ تھا لہذا محض دو برس 1895ء میں ملازمت چھوڑی۔ غریب کاشتکاروں کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرتے خصوصاً مشرق بنگال کے مفلس و نادار عوام کی بھلائی اور پسماندہ علاقوں میں تعلیمی ترقی کے لیے کوشاں رہے۔ 1901ء میں اپنے والد کی وفات کے بعد میمن سنگھ میں کاروبار کو سنبھالا۔ آپ کی شب روز محنت اور پسماندہ مسلم قوم کے لیے تگ و دو سے نہ صرف عوام بلکہ حکومتی حلقوں میں بھی آپ کی بہت قدر و منزلت تھی۔ حکومتی سرپرستی میں کانگرسی سیاسی سرگرمیوں کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے آپ نے بھی مشرقی بنگال کے مسلمانوں کے لیے سیاسی و تعلیمی میدان میں راہنمائی کا سلسلہ شروع کیا۔ کلکتہ کے دار الخلافہ ہونے کی وجہ سے مغربی بنگال میں روز افزوں ترقی ہو رہی تھی اور ڈھاکہ سمیت مسلم اکثریتی علاقے بدستور نظر انداز کیے جا رہے تھے۔ آپ نے برطانوی حکمرانوں کو بنگال کی تقسیم کے سلسلہ میں وقتاً فوقتاً قائل کرنے کا فریضہ جاری رکھا۔ خصوصاً کانگرسی پالیسی کے برعکس 1903-04ء میں وائسرائے لارڈکرزن کو مشرقی بنگال کے مسلمانوں کی پسماندگی اور صوبہ کی وسعت کے پیش نظر تقسیم بنگال پر قائل کیا اور 16 اکتوبر 1905ء کو بنگال کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ ہندوئوں نے اس فیصلے کو اپنی بقا اور سالمیت کا مسئلہ بنا کر ’’سودیشی تحریک ‘‘ کا آغاز انگریزوں کو دبائو میں لانے کے لیے کیا۔ ساتھ ساتھ مسلمانوں کا معاشی و سماجی بائیکاٹ بھی کیا۔ لیکن نواب صاحب ہندوئوں کو خاطر میں لانے والے نہ تھے۔ آپ نے نارتھ بروک ہال ڈھاکہ میں مسلم قائدین کا اجلاس طلب کیا اور محمڈن پروانشل یونین بنائی۔ اسی طرح 15,14 اپریل 1906ء میں شاہ باغ ڈھاکہ میں مشرقی بنگال اور آسام کے لیے صوبائی ایجوکیشنل کونسل تشکیل دی۔ آپ ہندوئوں کے معتصبانہ رویہ اور کانگرسی کی مسلم دشمن پالیسی سے بہت دل برداشتہ ہوئے کیونکہ تقسیم بنگال سے مسلمانوں کو ہندوئوں کے غلبہ سے وقتی طور پر نجات نہ ملی لیکن ہندوئوں کی پرتشدد کارروائیوں سے اگرچہ انگریز دبنے والے نہ تھے مگر اس امر کا خدشہ موجود تھا کہ تقسیم کسی وقت منسوخ ہو سکتی تھی 1905ء میں برطانیہ میں حکومتی تبدیلی، شملہ وفد (اکتوبر 1906ء ) اور تقسیم بنگال پر ہندوئوں کا منفی طرز عمل مسلم زعماء کے لیے فکر و عمل کی مزید را ہیں کھولنے کا باعث بنا۔ ان معروضی حالات میں ہندوستان کے طول و عرض کے قائدین کی نگاہیں کسی ایسے مسیحا کی تلاش میں تھیں جو ان کے دکھ درد کو کم کر کے اتحاد یگانگت کا باعث بنے۔ لہذا نواب محسن الملک نے نواب سلیم اللہ خان کو علی گڑھ کے چند اکابرین کی تجویز پر لکھا کہ آل انڈیا محمڈن ایجوکیشنل کا بیسواں سالانہ اجلاس ڈھاکہ میں طلب کریں تاکہ آئندہ کا متفقہ لائحہ عمل مرتب کیا جا سکے۔ اس طرح 27 تا 30 دسمبر 1906ء مسلم زعما کا مشترکہ اجلاس ڈھاکہ میں طلب کیا گیا۔ اس تاریخی اجتماع میں نواب محسن الملک ، نواب وقار الملک حکیم اجمل خان ، سر علی امام ،مولانا ظفر علی خان ، مولانا محمد علی جوہر ، قابل ذکر تھے۔ میزبانی کا فریضہ نواب سلیم اللہ خان نے ادا کیا۔ نواب وقار الملک نے مؤثر صدارتی خطبہ دیا جس کے بعد نواب سلیم اللہ خان نے ایک قرارداد پیش کی جس کے مطابق ’’ہندوستان کے مختلف حصوں سے آئے ہوئے نمائندگان پر مشتمل اجلاس فیصلہ کرتا ہے کہ ایک ’’سیاسی انجمن‘‘ کا قیام عمل میں لایا جائے جس کا نام ’’کل ہند مسلم لیگ ‘‘ ہو۔ قرارداد کی حمایت میں مولانا محمد علی جوہر، حکیم اجمل خان اور مولانا ظفر علی خان کے علاوہ بیشتر مندوبین نے کی۔ بقول ڈاکٹر کمال عزیز:’’مسلم لیگ چار عناصر کی وجہ سے معرض وجود میں آئی سرسید کا مسلمانوں کو ایک علاحدہ قوم قرار دینا دوم، انڈین نیشنل کانگرس کا ہندو فرقہ پرستانہ ذہن اور رویہ، سوم تقسیم بنگال کیخلاف مسلم کش رویہ چہارم مسلمانوں کی نمائندہ اداروں میں شمولیت کی خواہش اوران سب سے بڑھ کر نوجوان راہنما نواب سلیم اللہ خان آف ڈھاکہ کا تاریخ ساز کردار۔ جنھوں نے آل انڈیا مسلم لیگ میں کوئی کلیدی عہدہ لینے سے انکار کیا۔ اوراس شرف سے مشرف ہوئے کہ ’’احسن منزل‘‘ مسلمانان ہند کے لیے احسن اقدامات اٹھانے کا باعث بنی۔ نواب سلیم اللہ خان کی تاریخی طور پر تین اہم خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائیگا۔ گو کہ زندگی نے آپ سے وفا نہ کی اور عین عالم شباب میں 16 جنوری 1915ء کو آپ مالک حقیقی سے جا ملے۔