حکیم اجمل خان
حکیم اجمل خان دہلوی (پیدائش: 12 فروری 1868ء— وفات: 29 دسمبر 1927ء) برطانوی ہند کے طب یونانی کے مشہور طبیب و حکیم تھے۔
حکیم اجمل خان | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 12 فروری 1868ء دہلی |
تاریخ وفات | 29 دسمبر 1927ء (59 سال) |
شہریت | برطانوی ہند |
جماعت | انڈین نیشنل کانگریس |
عملی زندگی | |
پیشہ | سیاست دان ، حریت پسند |
درستی - ترمیم |
تعارف
ترمیمحکیم اجمل خاں دہلی میں پیدا ہوئے۔ مورث اعلیٰ شہنشاہ بابر کے ساتھ ہرات سے ہندوستان آئے تھے۔ اکبر کے عہد میں ان کا خاندان دربار شاہی سے وابستہ ہوا۔ اجمل خان کے والد حکیم محمود خان شاہ عالم کے طبیب خاص حکیم محمد شریف خان کے پوتے تھے۔ حکیم اجمل خان نے قرآن حفظ کرنے کے بعد عربی و فارسی کی تعلیم حاصل کی۔ بعد ازاں اپنے بڑے بھائی حکیم محمد واصل خاں سے طب پڑھی۔ اور اس علم میں اتنی دست گاہ پیدا کی کہ ملک کے طول و عرض میں مشہور ہو گئے۔ 1892ء میں نواب رام پور کے طبیب مقرر ہوئے۔ 1906ء میں طبی کانفرنس کی بنیاد رکھی۔ اسی سال مسلم لیگ کے قیام کی تائید کی۔ 1908ء میں حکومت ہند نے حاذق الملک کا خطاب دیا۔ دو مرتبہ یورپ کا سفر کیا۔ 1912ء میں طبیہ کالج قائم کیا اور 1920ء میں جامعہ ملیہ کے منتظم اعلٰی مقرر ہوئے۔ کانگرس کی مجلس عاملہ نے حکومت کے خلاف سول نافرمانی کی تحریک آپ ہی کی صدارت میں منظور کی تھی۔ 1921ء میں خلافت کانفرنس کی صدارت کی۔ قوم نے آپ کو مسیح الملک کا خطاب دیا تھا اور آپ دہلی کے بے تاج بادشاہ کہلاتے تھے۔ ہندو مسلم اتحاد کے پرجوش حامی تھے۔ ملکی سیاست میں آپ کی رائے خاص اہمیت رکھتی تھی۔ سیاسی مضامین کے علاوہ طب پر کئی کتابیں تصنیف کیں۔
نامور طبیب، سیاست دان اور کل ہند طبی کانفرنس کے بانی تھے۔ ہندو مسلم اتحاد کے حامی اور اقبال کے دوست تھے۔ شملہ وفد میں شامل تھے اور لارڈ منٹو سے جداگانہ انتخاب کا مطالبہ کیا۔ سیای مظامین کے علاوہ وہ طب پر کئی کتابیں لکھ چکیں ہیں۔ اجمل دواخانہ کسی تعارف کا محتاج نہیں ۔ ایلو پیتھک طریقہ علاج سے قبل چار پانچ دہائیوں تک پاکستان کے طول و عرض میں اجمل دواخانہ کی خدمات قابل تعریف کیں۔
کالج کی تاریخ
ترمیم29 مارچ 1916ء کو مسیح الملک ؒ نے لارڈ ہارڈنگ کے ذریعہ باضابطہ طور سے آیورویدک اینڈ یونانی طبیہ کالج کی عمارت کا سنگ بنیاد رکھوایا تھا۔ تاکہ انگر یز و ں کی متعصبانہ سازشیں دیسی طبوں کی باد بہاری کو زہر آلود نہ کرنے پائیں اوریہ سبھی فنون ہمیشہ کے لیے امر ہوجائیں۔ کالج کے سنگ بنیاد کے ساتھ ہی وہاں طب کی باقاعدہ تعلیم کا آغاز ہوا۔ کالج کے مصارف کے مستقل انتظام کے لیے انھوں نے ایک شاندار دوا خانہ قائم کیا۔ ’’ہندوستانی دوا خانہ دہلی‘‘ کے نام سے، اس کی آمدنی کالج کے لیے وقف تھی۔ ملک اور قوم کے لیے ان کا دل کس قدر فیاض تھا اس کا اندازہ اس واقعہ سے لگایا جا سکتا ہے۔ مولانا اخلاق حسین دہلویؒ اپنے والد کے حوالے سے بیان کرتے ہیں کہ سردی کا موسم، کڑا کے کا جاڑا، رات کا وقت، بارہ ایک کا عمل، بازاروں میں سناٹا۔ وہ کسی تقریب میں شریک ہو کر آ رہے تھے۔ جامع مسجد پہنچے تو دیکھا کہ ہلکے ہلکے بگھی آئی اور جنوبی دروازے کی سیڑھیوں کے پاس ٹھہر گئی۔ حکیم محمد اجمل خاںؒ باہر نکلے۔ سیڑھیوں پر جو لوگ سکڑے سکڑے پڑے تھے، گاڑی میں سے لحاف نکالتے اور ہر ایک کو آہستہ سے اوڑھا دیتے۔ جب سب کو اڑھا چکے تو گاڑی ہلکے ہلکے ہرے بھرے صاحب کے مزار کی طرف چلی گئی۔ یہ تھا کالج کے بانی کا حسن اخلاق اور غریبوں، بے سہاروں اور مسکینوں کے لیے ان کے دل میں ہمدردی کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا جذبہ۔
دوسری طرف تھی ان کی اپنے ملک کے تمام مذاہب کے ماننے والے شہریوں سے بے پناہ محبت جس کی مثالیں کم نہیں تو معدوم ضرور ہیں۔ وہ ایک طرف کانگریس کے مضبوط لیڈر تھے ۔ ان کی قربانیوں اور خوابوں کا تقاضا تو یہ تھا کہ اس کوو سعت دی جاتی کالج کو ترقی دیکر یونانی اینڈ آیورویدک یونیورسٹی کا درجہ دیا جاتا جہاں سیکولر اور ہندومسلم اتحاد کا مثالی ماحول دنیا کے لیے درس عبرت ثابت ہوتا۔ مگر ہائے افسوس کہ حکومتیں اس کی جڑیں کاٹنے میں ہی سرگرم دکھائی دیتی ہیں۔
خطاب
ترمیم- حاذق الملک: انگریزی حکومت کی طرف سے
- مسیح الملک: قوم کی طرف سے
اعزاز
ترمیم1987ء میں ہندوستان کی حکومت کی جانب سے حکیم اجمل خان کے اعزاز میں ایک یادگاری ڈاک ٹکٹ جاری کیا گیا اور دہلی میں ایک تفریحی پارک اور سڑک بھی ان کے نام سے منسوب ہے۔
اجمل دواخانہ پاکستان
ترمیمتقسیم ہند کے وقت حکیم محمد نبی خان، جو حکیم محمد اجمل خان کے پوتے تھے نے پاکستان نقل مکانی کی اور پاکستان آکر انھوں نے ایک دواخانے کی بنیاد رکھی۔ دواخانہ حکیم اجمل خان کے نام سے منسوب مشہور اجمل دواخانہ ہے۔ اس دواخانے کی سو سے زائد شاخیں پاکستان کے مختلف شہروں میں ہیں۔