نوری المالکی نام نوري كامل محمد حسن المالكي، تاریخ پیدائش 20 جون 1950، جواد المالكي اور أبو إسراء کے نام سے بھی جانے جاتے ہیں۔ یہ ایک عراقی سیاست دان ہیں، یہ 2006 سے 2014تک عراق کے وزیر اعظم رہے ہیں، پھر 2014 میں نائب صدر کے عہدہ پر فائز ہوئے۔ یہ اسلامی دعوۃ پارٹی کے سیکریٹری جنرل ہیں۔ ان کی پہلی کابینہ نے 20مئی2006 میں حلف اٹھایا تھا جبکہ دوسری کا بینہ نے 21دسمبر2010 میں حلف اٹھایا تھا المالکی نے اپنی سیاسی زندگی ایک شیعہ لیڈر کے طور پر شروع کی جس نے صدام کی حکومت کو 1970 میں چیلنج کر دیا تھا۔ ایک شیعہ لیڈر کی حثیت سے اس نے ایرانی اور شامیوں کی مدد سے صدام مخالف سرگرمیاں جاری رکھیں۔ یہاں تک کے اس کو حکومت حاصل ہو گئی۔ مگر وہ حکومٹ چلانے میں ناکام رہا، شمالی عراقی باغیوں کے ہاتھوں پے در پے شکست کھانے کے بعد وہ حکومت چھوڑنے پر مجبور ہو گیا۔ اس نے 14اگست2014 کو اپنے استعفیٰ کا اعلان کر دیا۔ 

نوری المالکی
(عربی میں: نوري المالكي ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
 

مناصب
وزیر اعظم عراق   ویکی ڈیٹا پر (P39) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
برسر عہدہ
20 مئی 2007  – 8 ستمبر 2014 
 
حیدر العبادی  
معلومات شخصیت
پیدائشی نام (عربی میں: نوري كامل المالكي‎ ویکی ڈیٹا پر (P1477) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیدائش 20 جون 1950ء (74 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت عراق   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مذہب اہل تشیع
جماعت حزب الدعوۃ الاسلامیۃ   ویکی ڈیٹا پر (P102) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تعداد اولاد
عملی زندگی
مادر علمی جامعہ بغداد   ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ سیاست دان   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
IMDB پر صفحات  ویکی ڈیٹا پر (P345) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

نوری المالکی نام نوري كامل محمد حسن المالكي، تاریخ پیدائش 20 جون 1950، جواد المالكي اور أبو إسراء کے نام سے بھی جانے جاتے ہیں۔ یہ ایک عراقی سیاست دان ہیں، یہ 2006 سے 2014تک عراق کے وزیر اعظم رہے ہیں، پھر 2014 میں نائب صدر کے عہدہ پر فائز ہوئے۔ یہ اسلامی دعوۃ پارٹی کے سیکریٹری جنرل ہیں۔ ان کی پہلی کابینہ نے 20مئی2006 میں حلف اٹھایا تھا جبکہ دوسری کا بینہ نے 21دسمبر2010 میں حلف اٹھایا تھا المالکی نے اپنی سیاسی زندگی ایک شیعہ لیڈر کے طور پر شروع کی جس نے صدام کی حکومت کو 1970 میں چیلنج کر دیا تھا۔ ایک شیعہ لیڈر کی حثیت سے اس نے ایرانی اور شامیوں کی مدد سے صدام مخالف سرگرمیاں جاری رکھیں۔ یہاں تک کے اس کو حکومت حاصل ہو گئی۔ مگر وہ حکومٹ چلانے میں ناکام رہا، شمالی عراقی باغیوں کے ہاتھوں پے در پے شکست کھانے کے بعد وہ حکومت چھوڑنے پر مجبور ہو گیا۔ اس نے 14اگست2014 کو اپنے استعفیٰ کا اعلان کر دیا۔