ہمارے نظامِ شمسی میں نیپچون آٹھواں اور سورج سے بعید ترین سیارہ ہے۔ اسے روم کے سمندری دیوتا کے نام پر نیپچون کہا گیا ہے اور نصف قطر کے لحاظ سے چوتھا جبکہ کمیت کے اعتبار سے تیسرا بڑا سیارہ ہے۔ نیپچون زمین سے 17 گنا زیادہ وزن رکھتا ہے اور اپنے جڑواں یورینس سے کچھ زیادہ بھاری ہے۔ زمین کی نسبت اس کا سورج سے اوسط فاصلہ 30 گنا زیادہ ہے۔ 23 ستمبر 1846 کو نیپچون دریافت ہوا تو یہ مشاہدے کی بجائے ریاضیاتی پیشین گوئی سے دریافت ہونے والا پہلا سیارہ تھا۔ یورینس کے مدار میں ناقابلِ توجیہ گڑبڑ کی وجہ سے الیکسز بووارڈ نے یہ نتیجہ نکالا تھا کہ اس کی وجہ ایک اور سیارہ ہے۔ جوہان گالے نے جس جگہ یورینس کو دریافت کیا، وہ اربین لی ویریئر کی بتائی ہوئی جگہ سے ایک ڈگری کے فرق پر تھا۔ فوراً بعد ہی اس کا سب سے بڑا چاند ٹریٹن بھی دریافت ہوا۔ تاہم 20ویں صدی تک اس کے دیگر بارہ چاند دوربین سے کبھی نہ دیکھے جا سکے۔ نیپچون تک آج تک صرف ایک خلائی جہاز وائجر دوم گیا ہے۔ یہ جہاز 25 اگست 1989 کو نیپچون کے پاس سے گذرا تھا۔

نیپچون
Neptune Astronomical symbol for Neptune.
Neptune from Voyager 2.
نیپچون، باہیں طرف درمیاں میں عظیم تاریک دھبہ، نیچے داہیں جانب چھوٹا تاریک دھبہ
دریافت
دریافت از
تاریخ دریافت23 ستمبر 1846
تعین کاری
تلفُّظ/ˈnɛptjn/ ( سنیے)[1]
صفاتنیپچیونی
محوری خصوصیات
مفروضہ وقت جے2000
اوج شمسی4537580900 کلومیٹر
30.331855 AU
حضیض شمسی4459504400 کلومیٹر
29.809946 AU
4498542600 کلومیٹر
30.070900 AU
انحراف0.00867797
60190.03 d[2]
164.8 سال
89666 Neptune شمسی دنs[3]
367.49 days[4]
5.43 km/s[4]
259.885588°
میلانیت1.767975° to دائرۃ البروج
6.43° to Sun’s equator
0.72° to Invariable plane[5]
131.782974°
273.219414°
معلوم قدرتی سیارچہ14
طبیعی خصوصیات
اوسط رداس
24622±19 کلومیٹر[6][ا]
24764±15 کلومیٹر[6][ا]
3.883 Earths
قطبی رداس
24341±30 کلومیٹر[6][ا]
3.829 Earths
چپٹا پن0.0171±0.0013
7.6183×109 km2[2][ا]
14.98 Earths
حجم6.254×1013 km3[4][ا]
57.74 Earths
کمیت1.0243×1026 کلوg[4]
17.147 Earths
5.15 × 10-5 Suns
اوسط کثافت
1.638 g/cm3[4][ا]
11.15 m/s2[4][ا]
1.14 g
23.5 km/s[4][ا]
0.6713 day[4]
16 h 6 min 36 s
استوائی گردشی_رفتار
2.68 km/s
9660 کلومیٹر/گھنٹہ
28.32°[4]
North_pole right ascension
19h 57m 20s[6]
299.3°
North_pole declination
42.950°[6]
Albedo0.290 (bond)
0.41 (geom.)[4]
سطحی درجہ حرارت کم اوسط زیادہ
1 bar level 72 K (−201 °C)[4]
0.1 bar (10 کلوPa) 55 K[4]
8.02 to 7.78[4][7]
2.2–2.4″[4][7]
فضا[4]
19.7 ± 0.6 km
Composition by volume80 ± 3.2% ہائیڈروجن (H2)
19 ± 3.2% شمصر (He)
1.5 ± 0.5% میتھین (CH4)
~0.019% ہائیڈروجن دومداد (HD)
~0.00015% ایتھین (C2H6)
Ices:
امونیا (NH3)

پانی (H2O)
امونصر آبی گندھکداد (NH4SH)

میتھین برف (?) (CH4•5.75H2O)

نیپچون کی ساخت یورینس سے ملتی جلتی ہے اور یہ دونوں سیارے دیگر گیسی دیو مشتری اور زحل سے فرق ہیں۔ نیپچون کی فضاء میں اگرچہ مشتری اور زحل کی مانند ہائیڈروجن اور ہیلئم اور ہائیڈرو کاربن و نائٹروجن سے بنی ہے لیکن اس میں پانی، امونیا اور میتھین کی برفیں زیادہ نسبت سے پائی جاتی ہیں۔ فلکیات دان بعض اوقات نیپچون اور یورینس کو برفانی دیو کہتے ہیں۔ یورینس کی مانند نیپچون بنیادی طور پر برفوں اور چٹانوں سے بنا ہے۔ اس کے علاوہ معمولی مقدار میں میتھین کی موجودگی سے اس کا رنگ نیلا دکھائی دیتا ہے۔

یورینس کی بے جان فضاء کے برعکس نیپچون کی فضاء خاصی متحرک اور موسمیاتی تبدیلیاں رکھتی ہے۔ 1989 میں وائجر دوم جب اس کے پاس سے گذرا تو اس کے جنوبی نصف کرے پر ایک بڑا دھبہ دکھائی دیا جس کا حجم مشتری کے عظیم دھبے کے برابر تھا۔ یہ دھبے طوفانی ہواؤں سے پیدا ہوتے ہیں۔ یہ ہوائیں نظامِ شمسی کی تیز ترین ہوتی ہیں اور ان کی رفتار 2100 کلومیٹر فی گھنٹہ تک پہنچ جاتی ہے۔ سورج سے دوری کی بنا پر اس کی فضاء ہمارے نظامِ شمسی کے سرد ترین مقامات میں سے ایک ہے۔ بادلوں کے بالائی سرے پر درجہ حرارت منفی 218 ڈگری تک پہنچ جاتا ہے جبکہ سطح پر درجہ حرارت اندازہً 5000 ڈگری سینٹی گریڈ رہتا ہے۔ نیپچون کے گرد مدھم سے حلقے پائے جاتے ہیں جنہیں پہلی بار 1960 کی دہائی میں دریافت کیا گیا لیکن ان کی تصدیق 1989 میں وائجر دوم نے کی۔

نیپچون اور زمین کا موازنہ

تاریخ

ترمیم

دریافت

ترمیم

گلیلیو کی بنائی ہوئی تصاویر سے پتہ چلتا ہے کہ اس نے 28 دسمبر 1612 کو پہلی بار اور 27 جنوری 1613 کو دوسری بار نیپچون دیکھا تھا۔ دونوں مرتبہ اس نے غلطی سے اسے ستارہ سمجھ لیا تھا۔ اس لیے نیپچون کی دریافت اس سے منسوب نہیں ہے۔ پہلی بار اسے نیپچون اس لیے ساکن دکھائی دیا کیونکہ عین اسی دن نیپچون کی حرکت الٹی ہوئی تھی اور اگلے کئی دن تک یہ حرکت بہت سُست رہی اور گلیلیو کی سادہ دوربین سے اسے نہ دیکھا جا سکا۔ جولائی 2009 میں میلبورن یونیورسٹی کے طبیعیات دان ڈیوڈ جیمیسن کے مطابق گلیلیو کو کم از کم یہ اندازہ ضرور تھا کہ نیپچون نے پسِ منظر میں موجود ستاروں کی نسبت ہلکی سی حرکت کی تھی۔

1821 میں الیکسز بووارڈ نے نیپچون کے ہمسائے یورینس کی مدار میں گردش کے بارے جدول بنایا۔ بعد میں کیے گئے مطالعے سے پتہ چلا کہ اس میں کئی خامیاں تھیں جن کی وجہ سے بووارڈ نے ان خامیوں کو کسی دوسرے نامعلوم سیارے کی کششِ ثقل سے منسلک کیا جو یورینس کے مدار میں خلل ڈال رہا تھا۔ 1843 میں جان کوچ ایڈمز نے یورینس سے متعلق موجود ڈیٹا پر کام شروع کیا اور 1845 تا 1846 میں اس نئے سیارے کے بارے کئی نظریات پیش کیے۔

اس کے علاوہ اسی وقت اربین لی ویریئر نے بھی خود سے اس موضوع پر کام کیا۔ جب ان دونوں کے نظریات پیش ہوئے کہ مطلوبہ نیا سیارہ کس جگہ اور کس وقت دکھائی دینا چاہیے تو کیمبرج کی رصدگاہ کے سربراہ جیمز چلیس نے اگست اور ستمبر کے دوران اس کی تلاش کی ناکام کوششیں کیں۔

آخرکار 23 ستمبر 1846 کو نیپچون متوقع جگہ سے محض ایک ڈگری دور دکھائی دیا۔

وجہ تسمیہ

ترمیم

دریافت کے کچھ عرصہ بعد تک نیپچون کو یورینس سے اگلا سیارہ یا لی وریئر کا سیارہ کہا جاتا تھا۔ اس سلسلے میں مختلف ممالک سے مختلف آراء آتی رہیں اور 29 دسمبر 1846 کو سینٹ پیٹرز برگ اکیڈمی آف سائنسز کی طرف سے اسے نیپچون کا نام دیا گیا جو جلد ہی مقبولِ عام ہو گیا۔ وجہ یہ تھی کہ زمین کے سوا باقی تمام سیارے رومن اور یونانی دیومالا سے لیے گئے تھے۔

کیفیت

ترمیم

1846 میں اپنی دریافت سے لے کر 1930 میں پلوٹو کی دریافت تک نیپچون کو نظامِ شمسی کا بعید ترین سیارہ شمار کیا جاتا تھا۔ تاہم پلوٹو کا مدار اسے 1979 سے 1999 تک اسے نیپچون سے آگے لے آیا۔ 1992 میں کوئیپر کی پٹی کی دریافت سے فلکیات دان اس بات پر منقسم ہیں کہ آیا پلوٹو کو سیارہ ماننا چاہیے یا اس پٹی کے دیگر شہابیوں اور بونے سیاروں کی مانند ایک۔ 2006 میں بین الاقوامی فلکیاتی یونین نے پلوٹو کو بونا سیارہ قرار دے دیا جس سے نیپچون ایک بار پھر سے نظامِ شمسی کا بعید ترین سیارہ بن گیا ہے۔

ساخت اور بناوٹ

ترمیم

کمیت کے اعتبار سے نیپچون زمین اور نسبتاً بڑے گیسی دیو کے درمیان آتا ہے۔ زمین کی نسبت اس کی کمیت 17 گنا زیادہ ہے لیکن مشتری کا محضٍ انیسواں حصہ۔ مشتری کی سطحی کششِ ثقل نیپچون سے زیادہ ہے اور ان دونوں سیاروں کے علاوہ کسی سیارے کی کشش زمین سے زیادہ نہیں۔ خطِ استوا پر نیپچون کا نصف قطر 24764 کلومیٹر ہے جو زمین سے تقریباً چار گنا زیادہ ہے۔ نیپچون اور یورینس کو مشترکہ طور پر برفانی دیو بھی کہا جاتا ہے کیونکہ ان کا حجم نسبتاً چھوٹا اور قابلِ تبخیر مادے زیادہ ہیں۔ نظامِ شمسی سے باہر کے سیاروں کی تلاش میں نیپچون کے حوالے سے انھیں نیپچونز کہا جاتا ہے۔

اندرونی ساخت

ترمیم
 
نیپچون کی اندرونی ساخت:
1. بالائی فضائی، سب سے اوپر بادل ہیں
2.ہائیڈروجن پر مشتمل فضا, ہیلیم اور میتھین گیس
3. پانی، امونیا اور میتھین کی برفانی تہ پر مشتمل
4. مرکزہ چٹانوں پر مشتمل (سیلیکٹ، نکل اور لوہا)

نیپچون کی اندرونی ساخت یورینس سے مماثل ہے۔ اس کے وزن کا 5 سے 10 فیصد حصہ اس کی فضاء پر مشتمل ہے۔ جوں جوں فضاء میں نیچے ہوتے جائیں تو میتھین، امونیا اور پانی کا تناسب بڑھتا جاتا ہے۔

بتدریج تاریک اور گرم ہوتی ہوئی فضاء آخرکار پگھلے ہوئے مرکزے تک پہنچ جاتی ہے جہاں درجہ حرارت 2000 سے 5000 ڈگری کیلون تک ہے۔ مرکزہ زمین کے 10 سے 15 گنا وزنی ہے اور اس میں پانی، امونیا اور میتھین بکثرت پائی جاتی ہیں۔ اتنا گرم ہونے کے باوجود اس سیارے کو سائنسی زبان میں برفانی دیو کہا جاتا ہے۔ پانی امونیا اور میتھین کے اس ملغوبے کو پانی اور امونیا کا سمندر بھی کہا جاتا ہے۔ 7000 کلومیٹر کی گہرائی میں میتھین ہیرے کی قلموں میں بدلتی جاتی ہے۔

نیپچون کا مرکزہ لوہے، نکل اور سیلیکٹ سے بنا ہے جس کی وجہ سے مرکزے کا اندرونی حصہ زمین سے تھوڑا زیادہ وزنی ہے۔ اس جگہ دباؤ زمین کی نسبت دسیوں لاکھ گنا زیادہ ہے اور درجہ حرارت شاید 5400 ڈگری کیلون۔

فضاء

ترمیم

زیادہ بلندی پر نیپچون کی فضاء میں 80 فیصد ہائیڈروجن 19 فیصد ہیلیئم اور انتہائی کم مقدار میں میتھین موجود ہے۔ فضائی میتھین کی وجہ سے ہی نیپچون کا رنگ نیلا دکھائی دیتا ہے۔

نیپچون کی فضاء کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ نچلا حصہ وہ ہے جہاں بلندی کے ساتھ ساتھ درجہ حرارت کم ہوتا ہے اور بالائی حصہ جہاں درجہ حرارت بلندی کے ساتھ ساتھ بڑھتا جاتا ہے-

نیپچون سورج سے بہت دور ہونے کی وجہ سے سورج کی حرارت کی بجائے بالائے بنفشی تابکاری سے گرم رہتا ہے۔ اس کا ایک ذریعہ نیپچون کے مقناطیسی میدان کے ساتھ آئنوں کا ٹکراؤ ہے۔ اس کے علاوہ کششِ ثقل کی لہریں بھی ذمہ دار ہو سکتی ہیں۔

مقناطیسی کرہ

ترمیم

مقناطیسی کرے کے اعتبار سے بھی نیپچون اور یورینس کافی مماثل ہیں اور نیپچون کے مقناطیسی کرے کا مرکز سیارے کے مرکز سے کم از کم 13500 کلومیٹر دور ہے۔

نیپچون کا بو شاک یعنی وہ علاقہ جہاں مقناطیسی میدان کی وجہ سے شمسی ہوائیں کمزور پڑنے لگ جاتی ہیں،، سیارے کے نصف قطر کے تقریباً 35 گنا زیادہ فاصلے پر ہے۔ اس طرح میگنیٹو پاز یعنی وہ جگہ جہاں مقناطیسی میدان شمسی ہواؤں کو روک لیتا ہے، 23-26.5 نصف قطروں کے فاصلے پر ہے۔

سیاراتی دائرے

ترمیم

نیپچون کے گرد دائرے موجود ہیں لیکن ان کی مقدار زحل کی نسبت بہت کم ہے۔ اندازہ ہے کہ یہ دائرے برفانی ذرات پر مشتمل ہیں جو سلیکیٹ یا کاربن سے بنے ہیں۔ اسی وجہ سے ان کا رنگ سرخی مائل ہے۔ نیپچون کے گرد تین بڑے دائرے ہیں۔

پہلی بار تین دائرے ایڈورڈ گوئینان نے اپنی ٹیم کی مدد سے 1968 میں دریافت کیے تھے۔ 1984 میں پہلی بار یہ نظریہ پیش کیا گیا کہ ان دائروں کے درمیان خالی جگہیں بھی ہیں کیونکہ اس وقت نیپچون ایک ستارے کے سامنے سے گذرا۔ 1989 میں وائجر دوم نے ان مدھم دائروں کی کئی تصاویر بھیجیں۔

2005 میں زمین سے دوربین کی مدد سے مشاہدے سے پتہ چلا ہے کہ یہ دائرے توقعات سے کہیں زیادہ غیر مستحکم ہیں۔ 2002 اور 2003 لی گئی تصاویر اور وائجر دوم کی تصاویر کے مقابلے سے پتہ چلتا ہے کہ یہ دائرے گھلتے جا رہے ہیں۔ ایک دائرے کے بارے توقع ہے کہ وہ سو سال کے عرصے میں ختم ہو جائے گا۔

موسم

ترمیم

نیپچون اور یورینس میں ایک فرق ان کے موسم کا بھی ہے۔ 1986 میں جب وائجر دوم پہنچا تو یورینس کی فضاء بالکل بے جان تھی جبکہ نیپچون سے گذرتے وقت وائجر دوم نے 1989 میں کافی موسمیاتی عوامل دیکھے۔

نیپچون کے موسم میں انتہائی متحرک طوفان آتے ہیں جن کی رفتار تقریباً 600 میٹر فی سیکنڈ تک پہنچ جاتی ہے جو آواز کی رفتار سے قریب تر ہے۔ بادلوں کی حرکات کے مشاہدے سے پتہ چلا ہے کہ عموماً مشرق کی سمت چلنے والی ہوائیں 20 میٹر فی سیکنڈ جبکہ مغرب کی سمت 325 میٹر فی سیکنڈ ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ خطِ استوا پر ہوا کی رفتار 400 میٹر فی سیکنڈ جبکہ قطبین پر 250 میٹر فی سیکنڈ رہتی ہیں۔

نیپچون کے خطِ استوا پر میتھین، ایتھین اور ایتھائن کی مقدار قطبین سے 10 سے 100 گنا زیادہ ہے۔

2007 میں پتہ چلا کہ نیپچون کے جنوبی قطب پر بالائی فضاء کا درجہ حرارت باقی سیارے سے 10 ڈگری زیادہ ہے۔ نیپچون کا اوسط درجہ حرارت منفی 200 ڈگری سینٹی گریڈ ہے۔ اس فرق کی وجہ سے یہاں میتھین جمی ہوئی نہیں اور اٹھتی ہوئی خلاء میں خارج ہو رہی ہے۔ نیپچون کا مدار ایسا ہے کہ اس کا جنوبی قطب اپنے چوتھائی سال جو زمین کے 40 سال کے برابر ہے، سورج کی سمت رہتا ہے اور جب اس کی سمت بدلے گی تو میتھین کے خارج ہونے کا مقام قطب شمالی ہو جائے گا جو سورج کی سمت ہوگا۔

موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے جنوبی نصف کرے پر بادلوں کی مقدار اور چمک بڑھ رہی ہے جس کا پہلی بار 1980 میں مشاہدہ کیا گیا تھا اور چونکہ نیپچون کا موسم 40 زمینی سالوں کے برابر ہوتا ہے، 2020 میں جا کر ختم ہوگا۔

طوفان

ترمیم

1989 میں عظیم دھبہ جو اینٹی سائیکلونک طوفان ہے جس کا رقبہ 13000 کلومیٹر طویل اور 6600 کلومیٹر چوڑا ہے، ناسا کے وائجر دوم خلائی جہاز نے دریافت کیا۔ یہ دھبہ مشتری کے عظیم دھبے سے مماثل ہے۔ پانچ سال بعد 2 نومبر 1994 میں ہبل خلائی دوربین کو یہ دھبہ دکھائی نہیں دیا۔ اس کی بجائے اسی طرح کا ایک طوفان شمالی نصف کرے پر بنا دکھائی دیا۔

سکوٹر کے نام کا ایک اور طوفان جس کے اوپری بادل سفید رنگ کے تھے، عظیم دھبے کے جنوب میں دکھائی دیا۔ اس کی رفتار عظیم دھبے والے طوفان سے زیادہ تیز تھی۔ اسے وائجر دوم کے پہنچنے سے ذرا قبل دیکھا گیا تھا۔ بعد کی تصویروں میں زیادہ تیز رفتار بادل دکھائی دیے۔ ایک چھوٹا دھبہ جو جنوبی سائیکلون ہے، 1989 میں دیکھا گیا۔ ابتدا میں یہ بالکل تاریک تھا لیکن جب وائجر دوم پہنچا تو اس کے درمیان سفید رنگ کا مرکز بن چکا تھا جو اکثر تصاویر میں واضح دکھائی دیتا تھا۔

اندرونی حرارت

ترمیم

یورینس کی نسبت نیپچون کا زیادہ متحرک موسم اس کی اندرونی حرارت کی وجہ سے ہے۔ اگرچہ یورینس کی نسبت نیپچون سورج سے ڈیڑھ گنا زیادہ دور ہے اور یورینس کی نسبت محض 40 فیصد حرارت وصول کرتا ہے، پھر بھی دونوں کی سطح کے درجہ حرارت تقریباً برابر ہیں۔ بالائی فضاء میں درجہ حرارت منفی 221.4 ڈگری جبکہ گہرائی میں جہاں دباؤ ایک بار کے برابر ہے درجہ حرارت منفی 201.15 ڈگری سینٹی گریڈ ہے۔ گیسی تہوں میں درجہ حرارت بتدریج بڑھتا جاتا ہے۔ یورینس کی طرح نیپچون میں حرارت کا منبع نامعلوم ہے لیکن فرق زیادہ ہے کیونکہ یورینس سورج سے ملنے والی توانائی کا 1.1 گنا منعکس کرتا ہے جبکہ نیپچون سورج سے آنے والی روشنی کا 2.61 گنا منعکس کرتا ہے۔ اگرچہ نیپچون سورج سے بعید ترین سیارہ ہے لیکن سورج سے آنے والی توانائی اتنی ہوتی ہے کہ وہ اس پر پورے نظامِ شمسی کی تیز ترین ہوائیں چلاتی ہے۔ اس بارے کئی نظریات ہیں جیسا کہ مرکزے میں تابکار عناصر کی موجودگی، زیادہ دباؤ پر میتھین کی ہائیڈروجن، ہیرے اور ہائیڈروکاربن میں تبدیلی وغیرہ اہم ہیں۔

مدار اور گردش

ترمیم
 
نیپچون (سرخ کوس) سورج کے گرد ایک مکمل چکر(درمیان) زمین کے ہر 164.79مدار پر. ہلکے نیلے رنگ کی شے یورینس کی نمائندگی کرتی ہے۔

نیپچون اور سورج کا اوسط درمیانی فاصلہ ساڑھے چار ارب کلومیٹر ہے جو 30.1 فلکیاتی اکائیاں بنتا ہے۔ سورج کے گرد ایک چکر 164.79 زمینی سالوں میں مکمل کرتا ہے۔ 1846 میں اپنی دریافت کے بعد 12 جولائی 2011 کو نیپچون نے سورج کے گرد پہلا چکر پورا کیا ہے۔

سورج کے گرد نیپچون کا مدار بیضوی ہے جس کی وجہ سے سورج سے نزدیک ترین اور بعید ترین فاصلوں میں تقریباً 101 ملین یعنی 10 کروڑ دس لاکھ کلومیٹر کا فرق ہے۔

زمین اور مریخ کی مانند نیپچون اپنے مدار پر ترچھی حرکت کرتا ہے جس کی وجہ سے یہاں کے موسم بھی زمین سے مماثل ہیں۔ تاہم ہر موسم زمینی اعتبار سے 40 سال طویل ہوتا ہے۔

مدار پر ارتعاش

ترمیم

نیپچون کے مدار کا اس کے بعد موجود اجرامِ فلکی پر براہ راست اثر رکھتا ہے۔ ان اجرامِ فلکی کو کوئیپر کی پٹی کہا جاتا ہے۔ کوئیپر کی پٹی میں چھوٹی چھوٹی برفانی دنیائیں موجود ہیں جو اسٹیرائیڈ بیلٹ سے مماثل لیکن بہت وسیع ہے۔ کوئیپر کی پٹی نیپچون کے مدار سے جو 30 فلکیاتی اکائیوں پر ہے، سے شروع ہو کر 55 فلکیاتی اکائیوں تک پھیلی ہوئی ہے۔ جیسے مشتری اسٹیرائیڈ بیلٹ پر اثر انداز ہو کر اس کی ساخت میں فیصلہ کن کردار ادا کرتا ہے، اسی طرح نیپچون کی کششِ ثقل کوئیپر کی پٹی پر اثر ڈالتی ہے۔ نظامِ شمسی کے ارتقا کے دوران نیپچون کی کشش کی وجہ سے کوئیپر کی پٹی میں کئی جگہ خلاء پیدا ہوئے ہیں۔ ایسا ہی ایک خلاء 40 تا 42 فلکیاتی اکائیوں پر محیط ہے۔

تاہم ان خلاؤں میں چند ایسے اجرامِ فلکی پائے جاتے ہیں جو نظامِ شمسی کے آغاز کی نشانی ہیں۔ ان میں سے کئی اجرامِ فلکی کی گردش نیپچون کی حرکت سے منسلک ہوتی ہے۔ بعض اجسام جتنی دیر میں سورج کے گرد دو چکر لگائیں، نیپچون تین چکر پورا کر لیتا ہے۔ اسی طرح ایک اور دو، تین اور چار، تین اور پانچ، چار اور سات اور دو اور پانچ کا تناسب بھی عام ہے۔ نیپچون کے تین چکروں پر دو چکر لگانے والے اجرامِ فلکی پلوٹینو کہلاتے ہیں کیونکہ پلوٹو ان میں سے ایک ہے۔ اگرچہ پلوٹو باقاعدگی سے نیپچون کے مدار سے گذرتا ہے لیکن کبھی اس سے ٹکرا نہیں سکتا۔

تشکیل اور منتقلی

ترمیم

برفانی دیوؤں کی تشکیل کے بارے درست ماڈل بنانا بہت مشکل ہے۔ موجودہ ماڈلوں کی مدد سے پتہ چلتا ہے کہ روایتی نظریے کے مطابق نظامِ شمسی کے بیرونی حصوں میں مادہ اتنا موجود ہی نہیں تھا کہ اتنے بڑے سیارے تشکیل پا سکتے۔ ایک نظریہ یہ ہے کہ یہ سیارے سورج کے قریب بنے اور پھر بعد میں اپنے موجودہ مدار کو منتقل ہو گئے۔ اس نظریے سے ٹرانس نیپچونیئن علاقے میں موجود دوسرے چھوٹے اجرامِ فلکی کے وجود کے بارے وضاحت مل سکتی ہے۔ اس بارے قبولِ عام نظریہ نائس ماڈل کہلاتا ہے جو ان دیو سیاروں کی منتقلی کے کوئیپر کی پٹی پر ہونے والے اثرات کی وضاحت کرتا ہے۔

چاند

ترمیم

نیپچون کے اب تک 14 معلوم چاند ہیں۔ سب سے بڑا اور تمام چاندوں کے مجموعی وزن کے 99.5 فیصد کمیت کا حامل چاند ٹریٹن ہے جو کُروی شکل کا ہے۔ اسے ولیم لاسل نے نیپچون کی دریافت کے محض 17 دن بعد دریافت کیا تھا۔ پورے نظامِ شمسی میں یہ واحد چاند ہے جس کی حرکت سیارے کے مخالف سمت ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ چاند بنا نہیں بلکہ کوئیپر کی پٹی کا کوئی بونا سیارہ تھا جسے نیپچون کی کششِ ثقل نے اپنی طرف کھینچ لیا۔ کم ہوتے ہوئے مدار سے پتہ چلتا ہے کہ یہ چاند آج سے تقریباً 3.6 ارب سال بعد نیپچون کے اتنا قریب پہنچ جائے گا کہ اس کی کششِ ثقل کی وجہ سے ٹوٹ پھوٹ جائے گا۔ 1989ء میں کی گئی پیمائش سے ٹریٹن ہمارے نظامِ شمسی کا سب سے سرد اجرامِ فلکی ہے جو منفی 235 ڈگری سینٹی گریڈ ماپا گیا ہے۔

دریافت کے اعتبار سے نیپچون کا دوسرا چاند بے ڈھنگا نیریڈ ہے جس کا مدار پورے نظامِ شمسی کے عجیب ترین مداروں میں سے ایک ہے۔ اسی وجہ سے مدار پر حرکت کرتے وقت اس کا نیپچون سے قریب ترین اور بعید ترین فاصلہ سات گنا فرق ہوتا ہے۔

 
پروٹیوس ،نیپچون کا چاند

جولائی تا ستمبر 1989 وائجر دوم نے نیپچون کے چھ مزید چاند دریافت کیے۔ ان میں سے پروٹیوس اتنا بڑا ہے کہ اپنی کششِ ثقل کی وجہ سے گول ہوئے بغیر اپنا وجود برقرار رکھ سکتا ہے۔ یہ دوسرا سب سے زیادہ کمیت والا چاند ٹریٹن کی کمیت کے محض چوتھائی فیصد کے برابر ہے۔ 2002 اور 2003 میں 5 مزید بے ڈھنگے چاند دریافت ہوئے تھے جن کا اعلان 2004 میں کیا گیا۔ چونکہ نیپچون سمندر کے دیوتا کے نام سے منسوب ہے، اس لیے اس کے چاند سمندر کے دیگر غیر اہم دیوتاوں سے منسوب ہیں۔

مشاہدہ

ترمیم

نیپچون عام انسان کو کبھی دوربین کی مدد کے بغیر دکھائی نہیں دیتا۔ عام دوربین سے اسے دیکھا جا سکتا ہے جس میں نیپچون ایک چھوٹی نیلی تھالی کی شکل میں یورینس جیسا دکھائی دیتا ہے۔

طویل فاصلے کی وجہ سے اس کا دکھائی دینے والا چھوٹا حجم مشاہدے کو بہت مشکل بنا دیتا ہے اور ہبل خلائی دوربین کے بننے سے قبل اس کا مشاہدہ بہت محدود تھا۔

زمین سے مشاہدے سے ہر 367 دن بعد نیپچون کی حرکت کی سمت الٹ ہوتی دکھائی دیتی ہے۔

ریڈیائی مشاہدوں سے پتہ چلتا ہے کہ نیپچون سے مسلسل اور بے قاعدہ ریڈیائی لہروں کا اخراج ہوتا ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ اس کی وجہ سیارے کا گردش کرتا مقناطیسی میدان ہے۔ زیریں سُرخ مشاہدے پر اس کے طوفانوں کا رنگ سرد پسِ منظر کی وجہ سے روشن دکھائی دیتا ہے جس سے ان کے حجم اور ساخت کے بارے جاننا آسان ہو جاتا ہے۔

مہم جوئی

ترمیم

25 اگست 1989 کو وائجر دوم نیپچون کے قریب تری پہنچا۔ چونکہ وائجر کے راستے میں آنے والا یہ آخری بڑا سیارہ تھا، اس لیے فیصلہ کیا گیا کہ وائجر دوم اس کے چاند ٹرائیٹن کا بھی مشاہدہ کرے گا۔ اسی طرح وائجر اول نے زحل اور اس کے چاند ٹائیٹن کے حوالے سے کیا تھا۔

اس دوران وائجر دوم سے آنے والے سگنل 246 منٹ بعد زمین پر پہنچے۔ اس وجہ سے خلائی جہاز نے پہلے سے دی گئی ہدایات کے مطابق کام جاری رکھا۔ خلائی جہاز ایک چاند نیریڈ کے بہت قریب سے گذرا اور پھر نیپچون کی فضاء سے 4400 کلومیٹر پر 25 اگست کو گذرا اور پھر اسی دن بعد میں سب سے بڑے چاند ٹرائٹن کے پاس سے گذرا۔

وائجر دوم نے نیپچون کے مقناطیسی میدان کی موجودگی کی تصدیق کی اور یہ بھی معلوم کیا کہ یورینس کی طرح اس کے مقناطیسی میدان کا مرکز سیارے کے مرکز سے ہٹا ہوا ہے۔ وائجر دوم سے یہ بھی پتہ چلا کہ نیپچون کا موسم بہت متحرک ہے۔ اس کے علاوہ وائجر دوم نے چھ نئے چاند اور ایک نیا دائرہ بھی دریافت کیا۔

2003 میں ناسا نے ایک مشن تجویز کیا جو کسینی کی طرح کا ہوگا لیکن اس میں ایٹمی ری ایکٹر نہیں ہوگا۔ یہ منصوبہ جیٹ پروپلشن لیب اور کیلیفورنیا انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی یعنی کالٹیک کا مشترکہ ہوگا۔

حوالہ جات

ترمیم
  1. Elizabeth Walter (21 April 2003)۔ Cambridge Advanced Learner's Dictionary (2nd ایڈیشن)۔ Cambridge University Press۔ ISBN 978-0-521-53106-1 
  2. ^ ا ب
  3. Courtney Seligman۔ "Rotation Period and Day Length"۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 اگست 2009 
  4. ^ ا ب پ ت ٹ ث ج چ ح خ د ڈ ذ ر​ ڑ​ David R. Williams (1 September 2004)۔ "Neptune Fact Sheet"۔ NASA۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 14 اگست 2007 
  5. "The MeanPlane (Invariable plane) of the Solar System passing through the barycenter"۔ 3 اپریل 2009۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 اپریل 2009  (produced with Solex 10 آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ chemistry.unina.it (Error: unknown archive URL) written by Aldo Vitagliano; see also Invariable plane)
  6. ^ ا ب پ ت ٹ
  7. ^ ا ب