عمان اردن کا دار الحکومت اور اس کا سب سے بڑا شہر ہونے کے ساتھ ساتھ ملک کا اقتصادی، سیاسی اور ثقافتی مرکز بھی ہے۔[1] شمال وسطی اردن میں واقع عمان شہر محافظہ عمان کا انتظامی مرکز ہے۔ شہر کی آبادی 4،007،526 اور رقبہ 1،680 مربع کلو میٹر (648.7 مربع میل) ہے۔[2] آج عمان کو جدید ترین عرب شہروں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔[3] یہ خطے میں خاص طور پر عرب اور یورپی سیاحوں کے لیے ایک اہم سیاحتی مقام ہے۔[4]

عمان میں آبادی کے ابتدائی شواہد نئے سنگی دور کے مقام عین غزال سے ملے ہیں جہاں سے قدیم ترین انسانی ڈھانچے جو 7250 ق م کے ہیں دریافت کیے گئے ہیں۔ آہنی دور میں شہر کو عمون کہا جاتا تھا جو مملکت عمون کا دار الحکومت تھا۔ رومی دور میں اس کا نام فلاڈیلفیا تھا اور آخر کار اسلامی دور اسے عمان کا نام دیا گیا۔ قرون وسطی اور مابعد قرون وسطی میں یہ ایک غیر آباد شہر تھا۔ جدید عمان کی تاریخ انیسویں صدی میں ادیگی تارکین وطن کو سلطنت عثمانیہ کی جانب سے وہاں 1867ء میں آبادکاری سے شروع ہوتی ہے۔ پہلی بلدیاتی کونسل کا قیام 1909ء میں عمل میں آیا۔1921ء میں اردن کا دار الحکومت بننے کے بعد عمان نے تیزی سے ترقی کی۔ شہر نے پناہ گزینوں کی کئی مسلسل لہروں کو بھی سہارا دیا جس میں 1948ء اور 1967ء میں فلسطین سے، 1990ء اور 2003ء میں عراق سے اور 2011ء کے بعد سے سوریہ کے پناہ گزین شامل ہیں۔ ابتدا میں یہ شہر سات پہاڑیوں پر بسا تھا اور اب یہ 19 پہاڑیوں پر پھیل چکا ہے۔ اس کے 27 اضلاع ہیں جو بلدیہ عمان کبری کے زیر انتظام ہیں اور اس کے موجودہ میئر يوسف الشواربہ ہیں۔ عمان کے علاقوں کے نام پہاڑیوں اور وادیوں کے نام پر ہیں جہاں وہ واقع ہیں مثلاً وادی عبدون میں واقع عبدون محلہ۔ مشرقی عمان بنیادی طور پر تاریخی مقامات سے بھرا ہوا ہے جو اکثر ثقافتی سرگرمیوں کی میزبانی کرتا ہے، جبکہ مغربی عمان زیادہ تر جدید ہے اور شہر کا اقتصادی مرکز ہے۔

تقریباً دو ملین زائرین 2014ء میں عمان میں پہنچے، جو اسے دنیا کا 93 واں اور عرب دنيا کا پانچواں سب سے زیادہ دورہ کیا جانے والا شہر بناتا ہے۔ اور عالمی شہر اشاریہ میں اسے بیٹا شہر کا درجہ دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ اسے اقتصادی، مزدور، ماحولیاتی، سماجی اور ثقافتی عوامل کے مطابق مشرق وسطی اور شمالی افریقا کے بہترین شہروں میں سے ایک کا درجہ حاصل ہے۔ شہر عرب دنیا میں کثیر ملکی کارپوریشنوں کے قیام کے لیے دوحہ کے ساتھ مقبول ترین مقامات میں سے ہے اور اس معاملے میں یہ صرف دبئی سے پیچھے ہے۔ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اگلے 10 سالوں میں یہ تین شہر علاقے کثیر ملکی کارپوریشنوں کی زیادہ تر سرگرمیوں کا مرکز بن جائیں گے۔

  1. "Revealed: the 20 cities UAE residents visit most"۔ Arabian Business Publishing Ltd۔ 2015-05-01۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 ستمبر 2015 
  2. "Population stands at around 9.5 million, including 2.9 million guests"۔ The Jordan Times۔ The Jordan News۔ 2016-01-22۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 جنوری 2016 
  3. نقص حوالہ: ٹیگ <ref>‎ درست نہیں ہے؛ Rt.com نامی حوالہ کے لیے کوئی مواد درج نہیں کیا گیا۔ (مزید معلومات کے لیے معاونت صفحہ دیکھیے)۔
  4. "Number of tourists dropped by 14% in 2013 — official report"۔ The Jordan Times۔ The Jordan News۔ 2014-02-08۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 ستمبر 2015