ویکیپیڈیا:منتخب مضامین
ویکیپیڈیا کے منتخب مضامین منتخب مضامین ویکیپیڈیا کے بہترین ترین مضامین کو کہا جاتا ہے، جیسا کہ انداز مقالات میں واضح کیا گیا ہے۔ اس سے قبل کہ مضمون کو اس فہرست میں شامل کیا جائے، مضامین پر نظرِ ثانی کے لیے امیدوار برائے منتخب مضمون میں شاملِ فہرست کیا جاتا ہے تاکہ مضمون کی صحت، غیر جانبداری، جامعیت اور انداز مقالات کی جانچ منتخب مضون کے معیار کے مطابق کی جاسکے۔ فی الوقت اردو ویکیپیڈیا پر دو لاکھ سے زائد مضامین میں سے بہت کم منتخب مضامین موجود ہیں۔ جو مضامین منتخب مضمون کو درکار صفات کے حامل نہیں ہوتے، اُن کو امیدوار برائے منتخب مضمون کی فہرست سے نکال دیا جاتا ہے تاکہ اُن میں مطلوبہ بہتری پیدا کی جاسکے اور اُس کے بعد جب وہ تمام تر خوبیوں سے آراستہ و پیراستہ ہو جاتی ہیں تو اُنہیں دوبارہ امیدوار برائے منتخب مضمون کی فہرست میں شامل کیا جاسکتا ہے۔ مضمون کے بائیں جانب بالائی حصے پر موجود کانسی کا یہ چھوٹا سا ستارہ () اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ منسلک مواد ویکیپیڈیا کے منتخب مواد میں شامل ہے۔مزید برآں یکہ اگر کوئی مضمون بیک وقت کئی زبانوں میں منتخب مضمون کی حیثیت حاصل کرچکا ہے تو اسی طرح کا چھوٹا ستارہ دیگر زبانوں کے آن لائن پر دائیں جانب اُس زبان کے نام کے ساتھ نظر آئے گا۔
|
آلات منتخب مضمون:
|
مجموعات ·فنون، فنِ تعمیر اور آثارِ قدیمہ ·اعزاز، سجاوٹ اور امتیازیات ·حیاتیات ·تجارت، معیشت اور مالیات ·کیمیاء اور معدنیات ·کمپیوٹر ·ثقافت و سماج ·تعلیم ·انجینئری اور ٹیکنالوجی ·کھانا اور پینا ·جغرافیہ اور مقامات ·ارضیات، ارضی طبیعیات اور موسمیات ·صحت و طب ·تاریخ ·زبان و لسانیات ·قانون ·ادب اور فن کدہ ·ریاضیات ·شامہ میان (میڈیا) ·موسیقی ·فلسفہء اور نفسیات ·طبیعیات و فلکیات ·سیاسیات و حکومت ·مذہب، عقیدہ اور ضعف الاعتقاد ·شاہی، شریف اور حسب نسب ·کھیل اور تعمیری سرگرمیاں ·نقل و حمل ·بصری کھیل ·جنگ و جدل |
گزشتہ کل کا منتخب مضمون
لکھنؤ بھارت کی سب سے زیادہ آبادی والی ریاست اتر پردیش کا دار الحکومت اور اردو کا قدیم گہوارہ ہے نیز اسے مشرقی تہذیب و تمدن کی آماجگاہ بھی کہا جاتا ہے۔ اس شہر میں لکھنؤ ضلع اور لکھنؤ منڈل کا انتظامی صدر دفتر موجود ہے۔ لکھنؤ شہر اپنی نزاکت، تہذیب و تمدن، کثیر الثقافتی خوبیوں، دسہری آم کے باغوں اور چکن کی کڑھائی کے کام کے لیے معروف ہے۔ سنہ 2006ء میں اس کی آبادی 2،541،101 اور شرح خواندگی 68.63 فیصد تھی۔ حکومت ہند کی 2001ء کی مردم شماری، سماجی اقتصادی اشاریہ اور بنیادی سہولت اشاریہ کے مطابق لکھنؤ ضلع اقلیتوں کی گنجان آبادی والا ضلع ہے۔ کانپور کے بعد یہ شہر اتر پردیش کا سب سے بڑا شہری علاقہ ہے۔ شہر کے درمیان میں دریائے گومتی بہتا ہے جو لکھنؤ کی ثقافت کا بھی ایک حصہ ہے۔
لکھنؤ اس خطے میں واقع ہے جسے ماضی میں اودھ کہا جاتا تھا۔ لکھنؤ ہمیشہ سے ایک کثیر الثقافتی شہر رہا ہے۔ یہاں کے حکمرانوں اور نوابوں نے انسانی آداب، خوبصورت باغات، شاعری، موسیقی اور دیگر فنون لطیفہ کی خوب پذیرائی کی۔ لکھنؤ نوابوں کا شہر بھی کہلاتا ہے نیز اسے مشرق کا سنہری شہر اور شیراز ہند بھی کہتے ہیں۔ آج کا لکھنؤ ایک ترقی پذیر شہر ہے جس میں اقتصادی ترقی دکھائی دیتی ہے اور یہ بھارت کے تیزی سے بڑھ رہےبالائی غیر میٹرو پندرہ شہروں میں سے ایک ہے۔ لکھنؤ ہندی اور اردو ادب کے مراکز میں سے ایک ہے۔ یہاں زیادہ تر لوگ اردو بولتے ہیں۔ یہاں کا لکھنوی انداز گفتگو مشہور زمانہ ہے۔ اس کے علاوہ یہاں ہندی اور انگریزی زبانیں بھی بولی جاتی ہیں۔
آج کا منتخب مضمون
وارانسی بھارت کی ریاست اتر پردیش کا ایک تاریخی شہر ہے۔ اس کا ایک اور معروف نام کاشی بھی ہے۔ یہ شہر دریائے گنگا کے بائیں کنارے پر آباد ہے۔ اس کا اصل نام وارانسی ہے جو بگڑ کر بنارس ہو گیا۔ وارانسی کو ہندوؤں کے نزدیک بہت متبرک شہر سمجھا جاتا ہے۔ یہاں ایک سو سے زائد مندر ہیں۔ ہر سال تقریباً دس لاکھ یاتری یہاں اشنان کے لیے آتے ہیں۔ نیز شہنشاہ اورنگزیب عالمگیر کی تعمیر کردہ مسجد اسلامی دور کی بہترین یادگار ہے۔ بنارس ہندو یونیورسٹی جو 1916ء میں قائم کی گئی تھی بہت بڑی درس گاہ ہے۔ اس میں سنسکرت کی تعلیم کا خاص انتظام ہے۔ ہندو مت کے علاوہ بدھ مت اور جین مت میں بھی اسے مقدس سمجھا جاتا ہے۔
وارانسی کی ثقافت اور دریائے گنگا کا آپس میں انتہائی اہم مذہبی رشتہ ہے۔ یہ شہر صدیوں سے ہندوستان بالخصوص شمالی ہندوستان کا ثقافتی اور مذہبی مرکز رہا۔ ہندوستانی کلاسیکی موسیقی کا بنارس گھرانا وارانسی سے ہی تعلق رکھتا ہے۔ بھارت کے کئی فلسفی، شاعر، مصنف، وارانسی کے ہیں، جن میں کبیر، رویداس، مالک رامانند، شوانند گوسوامی، منشی پریم چند، جيشكر پرساد، آچاریہ رام چندر شکلا، پنڈت روی شنکر، پنڈت ہری پرساد چورسیا اور استاد بسم اللہ خان کچھ اہم نام ہیں۔ یہاں کے لوگ بھوجپوری بولتے ہیں جو ہندی کا ہی ایک لہجہ ہے۔ وارانسی کو اکثر مندروں کا شہر، ہندوستان کا مذہبی دار الحکومت، بھگوان شیو کی نگری، ديپوں کا شہر، علم نگری وغیرہ جیسے ناموں سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ مشہور امریکی مصنف مارک ٹوین لکھتا ہے "بنارس تاریخ سے بھی قدیم، روایات سے بھی پرانا ہے"۔
کل آنے والا منتخب مضمون
پشاور پاکستان کا ایک قدیم شہر اور صوبہ خیبر پختونخوا کا صدر مقام ہے۔ وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقوں کا انتظامی مرکز بھی یہیں ہے۔ بڑی وادی میں بنا یہ شہر درہ خیبر کے مشرقی سرے پر واقع ہے۔ پاکستان اور افغانستان کی سرحد اس کے پاس ہی ہے۔ وسط ایشیا اور جنوبی ایشیا کی اہم گذرگاہوں پر واقع یہ شہر علاقے کے بڑے شہروں میں سے ایک اور ثقافتی لحاظ سے متنوع ہے۔ پشاور میں آب پاشی کے لیے دریائے کابل اور دریائے کنڑ سے نکلنے والی نہریں گذرتی ہیں۔
پشاور پاکستان کے نسلی اور لسانی اعتبار سے متنوع ترین شہروں میں سے ایک ہے۔ اس کی شہری آبادی بڑھ رہی ہے جس کی وجوہات اردگرد کے دیہات اور خیبرپختونخوا کے دوسرے چھوٹے شہروں کی مقامی آبادی کا روزگار کے سلسلے میں بڑے شہر کو منتقلی، تعلیم اور دیگر خدمات شامل ہیں۔اس کے علاوہ آس پاس کے علاقوں میں فوجی کاروائیوں اور افغان مہاجرین کی آمد سے بھی یہاں کی آبادی بہت بڑھ گئی ہے۔ خیبر پختونخوا میں تعلیمی، سیاسی اور کاروباری اعتبار سے پشاور سب سے آگے ہے اور علاقے کے ترقی یافتہ ترین شہروں میں سے ایک ہے۔ پاکستان میں طب اور تعلیم کے حوالے سے بہترین تعلیمی اداروں میں سے کئی پشاور میں قائم ہیں۔ خانہ و مردم شماری پاکستان 2017ء کے مطابق پشاور کی آبادی 1،970،042 ہے جو اسے خیبر پختونخوا کا سب سے بڑا اور پاکستان کا چھٹا سب سے بڑا شہر بناتی ہے۔
پرسوں آنے والا منتخب مضمون
کاؤنٹی ڈبلن کی آبادی بمطابق 2016ء 1،347،359 ہے، جبکہ گریٹر ڈبلن علاقہ کی آبادی 1،904،806 نفوس پر مشتمل ہے۔
آثار قدیمہ کے ماہرین میں یہ بات اب بھی زیر بحث ہے کہ ساتویں صدی میں کیلٹک زبان بولنے والوں نے ٹھیک کس مقام پر ڈبلن کو آباد کیا تھا۔ بعد میں اس کی توسیع بطور وائی کنگ آبادی ہوئی، نارمن حملے کے بعد مملکت ڈبلن جزیرہ آئرلینڈ کا مرکزی شہر بنا۔ شہر نے سترہویں صدی کے بعد بہت تیزی سے ترقی کی 1800ء میں یونین ایکٹ 100 سے قبل یہ کچھ عرصہ کے لیے سلطنت برطانیہ کا دوسرا سب سے بڑا شہر تھا۔ 1922ء میں آئرلینڈ کے تقسیم کے بعد ڈبلن آئرش آزاد ریاست (بعد میں نام تبدیل کر کے جمہوریہ آئرلینڈ رکھا گیا) کا دار الحکومت بنا۔
2010ء میں گلوبلائزیشن اینڈ ورلڈ سٹیز ریسرچ نیٹ ورک نے اسے عالمی شہر کا درجہ "الفا" عطا کیا جس سے یہ دنیا کے تیس بہترین شہروں میں شمار ہوتا ہے۔ یہ تعلیم، فنون، انتظامیہ، معیشت اور صنعت کا ایک تاریخی اور معاصر مرکز ہے۔