پاکستان میں ہجومی تشدد

پاکستان میں ہجومی تشدد اور اس کی قسمیں

2014ء تک پاکستان میں ہجومی تشدد مختلف صورتوں جیسے کہ نسلی اور فرقہ وارانہ حملے، فسادات، سرکاری اور عوامی ملکیت کا نقصان اور مسلمان اور غیر مسلم اقلیتوں کے قتل کے واقعات بڑھتے نظر آ رہے تھے۔ 2012ء میں ویڈیو فلم کے خلاف تحریک، 2013ء میں لاہور کے بادامی باغ میں قیام پزیر مسیحی برادری کے گھروں پر حملہ اور 2014ء میں عاشورہ کے موقع پر راولپنڈی میں ایک مسجد اور کئی دکانوں کا جلا دیا جانا، یہ سب پاکستان میں ہر جگہ حاضر ہجوم کے سیاسی اظہار کی چند مثالیں ہیں۔[1] پاکستان میں ہجومی قتل کے کچھ واقعات اس طرح ہیں:

  • مختاراں مائی کی عصمت دری کا معاملہ: 2002ء میں کو میرانوالہ کی پنچایت کے حکم پر 2002ء میں گروہی زنا بالجبر کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ اس واقعے کی وجہ سے عالمی برادری اور پاکستانی دانشوروں میں ایک غصے کی لہر دوڑ گئی۔ تاہم اس موقع پر سب سے چونکانے والا بیان اس وقت کے صدر اور فوجی حکمران پرویز مشرف کا تھا جنھوں نے صاف لفظوں میں اپنے ملک میں زنا بالجبر کا یہ کہ کر دفاع کیا تھا:
آپ کو پاکستان کا ماحول سمجھنے کی ضرورت ہے... یہ ایک منافع بخش صنعت بن چکی ہے۔ کئی لوگ کہتے ہیں کہ اگر آپ ملک سے باہر جانا چاہتی ہیں اور کینیڈا کے لیے ویزا یا شہریت پانا چاہتی ہیں اور کروڑ پتی بننا چاہتی ہیں تو آپ اپنی عصمت دری کروا لینی چاہیے۔[2]
  • مشال خان قتل: یہ عبد الولی خان یونیورسٹی مردان کے ایک پاکستانی مسلم، پشتون طالب علم تھے جنہیں 13 اپریل 2017ء کو مذکورہ جامعہ کے حدود میں مشتعل ہجوم نے توہین مذہب کے الزام میں قتل کیا، حالانکہ یہ الزام سراسر جھوٹ تھا[3] اور قتل کے پس پردہ محرکات کچھ اور تھے۔
  • کوٹ رادھا کشن کا واقعہ: 2014 میں کوٹ رادھا کشن میں بھٹہ مزدور جوڑے شہزاد اور شمع کا قتل اس وجہ سے کیا گیا تھا۔[4] یہ قتل زندہ جلاکر کیا گیا تھا۔ قتل کی وجہ یہ جھوٹی اطلاع تھی کہ اس جوڑے نے قرآن کے صفحات کو پھاڑ کر کچرے میں ڈال دیا تھا۔ عدالت نے ایذا رسانی اور قتل کے 20 ملزمین کو بری کر دیا تھا۔[5]

مزید دیکھیے ترمیم


حوالہ جات ترمیم

  1. http://www.tanqeed.org/2014/03/on-the-irrationality-of-mobs-urdu/
  2. "Musharraf's remarks condemned: Rape victims"۔ DAWN.COM۔ 17 ستمبر، 2005 
  3. Ali Akbar Farhan (15 اپریل، 2017)۔ "No evidence found to suggest Mashal Khan committed blasphemy: CM Khattak"۔ DAWN.COM  النص " Hassan" تم تجاهله (معاونت); Inamullah Khattak<span class= تم تجاهله (معاونت); Mohammad Ashfaq<span class= تم تجاهله (معاونت);
  4. ڈان اخبار (6 نومبر، 2014)۔ "'زندہ جلائی جانے والی مسیحی خاتون حاملہ تھی'"۔ Dawn News Television 
  5. "Pakistani court acquits 20 men accused of torturing and killing Christian couple Shama and Shahzad"۔ 26 مارچ، 2018۔ 03 اگست 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 اگست 2019