پرتاپ ردر
پرتاپ ردر (حکمرانی: 1289ء – 1323ء) جنہیں ردردیو دوم بھی کہا جاتا ہے، ہندوستان کے کاکتیہ شاہی خاندان کے آخری فرماں روا تھے۔ ان کی حکومت خطہ دکن کے مشرقی حصے پر تھی اور اس کا پایہ تخت ورنگل میں تھا۔ پرتاپ ردر اپنی دادی ردرم دیوی کے جانشین ہوئے اور کاکتی شہنشاہ کہلائے۔ اپنی کل حکمرانی کے نصف اول میں انھوں نے ان سرداروں کو محکوم بنایا جو پیشرو حکمران کے دور میں خود مختاری کا خواب دیکھنے بلکہ یک گونہ اعلان کر چکے تھے۔ نیز پرتاپ ردر نے کاکتی کی ہمسایہ ہندو مملکتوں یادو، پانڈئے اور کامپیلی پر چڑھائی کرکے ان پر بھی فتح حاصل کی۔
سنہ 1310ء میں کاکتی سلطنت پر سلطنت دہلی کے فرماں روا سلطان علاء الدین خلجی کا لشکر حملہ آور ہوا تو پرتاپ ردر تخت دہلی کے باجگزاری پر رضامند ہو گئے۔ لیکن سلطان کی وفات کے بعد انھوں نے خراج ادا کرنا بند کر دیا۔ چنانچہ علاء الدین کے بیٹے قطب الدین مبارک شاہ نے پھر چڑھائی کی تو پرتاپ ردر دوبارہ خراج ادا کرنے پر آمادہ ہو گئے۔ جب خلجی خاندان کی حکومت ختم ہو گئی تو انھوں نے پھر دلی خراج بھیجنا بند کر دیا۔ چنانچہ تخت دہلی پر اس وقت متمکن سلطان غیاث الدین تغلق نے کاکتی سلطنت کے خلاف سنہ 1323ء میں فیصلہ کن حملہ کرنے کا فرمان جاری کیا۔ اس لشکر کشی کے نتیجے میں کاکتیہ شاہی خاندان کی حکومت کا خاتمہ ہوا اور ان کی ریاست سلطنت دہلی میں ضم ہو گئی۔
ابتدائی زندگی
ترمیمپرتاپ ردر اپنی دادی ردرم دیوی کے بعد کاکتی تخت پر متمکن ہوئے۔ ان کی والدہ ممّادمّا ردرم دیوی اور چالوکیہ شہزادہ ویربھدر کی بڑی بیٹی تھیں اور ان کے والد مہادیو کاکتی شہزادے تھے۔[1]
وفات
ترمیمالغ خان نے پرتاپ ردر اور ان کے اہل خانہ کو دلی روانہ کر دیا اور تغلق کماندار قدیر خان اور خواجہ حاجی کی ہم رکابی میں کچھ فوجی بھی ساتھ کر دیے۔[2] تغلق درباری مورخ شمس سراج عارف نے صرف اتنا لکھا ہے کہ پرتاپ ردر نے دلی کے راستے ہی میں دم توڑ دیا تھا۔ سنہ 1330ء کے ایک مُسُنری کتبہ میں درج ہے کہ پرتاپ ردر کو جب دلی لے جایا جا رہا تھا تو دریائے نرمدا کے کنارے ان کی وفات ہو گئی۔ اسی طرح سنہ 1423ء کے ایک کتبے میں درج ہے کہ "وہ اپنی خوشی سے دیوتاؤں کی دنیا کی طرف کوچ کر گئے"۔[3] ان تمام شواہد کو سامنے رکھیں تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ پرتاپ ردر نے دلی جاتے ہوئے نرمدا ندی کے کنارے خود کشی کرلی تھی۔[4]
حوالہ جات
ترمیم- ↑ P. V. P. Sastry 1978, p. 128.
- ↑ P. V. P. Sastry 1978, p. 139.
- ↑ P. V. P. Sastry 1978, p. 140.
- ↑ Richard M. Eaton 2005, p. 21.
کتابیات
ترمیم- B. Satyanarayana Singh (1999)۔ The Art and Architecture of the Kākatīyas۔ Bharatiya Kala Prakashan۔ ISBN 978-81-86050-34-7
- Banarsi Prasad Saksena (1992)۔ "The Khaljis: Alauddin Khalji"۔ $1 میں Mohammad Habib and Khaliq Ahmad Nizami۔ A Comprehensive History of India: The Delhi Sultanat (A.D. 1206-1526)۔ 5 (Second ایڈیشن)۔ The Indian History Congress / People's Publishing House۔ OCLC 31870180
- Cynthia Talbot (2001)۔ Precolonial India in Practice: Society, Region, and Identity in Medieval Andhra۔ Oxford University Press۔ ISBN 978-0-19-513661-6۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 مئی 2018
- Kishori Saran Lal (1950)۔ History of the Khaljis (1290-1320)۔ Allahabad: The Indian Press۔ OCLC 685167335
- N. Venkataramanayya، P. V. P. Sastry (1957)۔ "The Kākatīyas"۔ $1 میں R. S. Sharma۔ A Comprehensive history of India: A.D. 985-1206۔ 4 (Part 1)۔ Indian History Congress / People's Publishing House۔ ISBN 978-81-7007-121-1
- N. Venkataramanayya، M. Somasekhara Sarma (1960)۔ مدیر: Ghulam Yazdani۔ The Early History of the Deccan Parts۔ VIII: Yādavas of Seuṇadeśa۔ Oxford University Press۔ OCLC 59001459۔ 28 اگست 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ
- P. V. P. Sastry (1978)۔ مدیر: N. Ramesan۔ The Kākatiyas of Warangal۔ Hyderabad: Government of Andhra Pradesh۔ OCLC 252341228
- Richard M. Eaton (2005)۔ A Social History of the Deccan, 1300-1761۔ Cambridge University Press۔ ISBN 9780521254847