پرزم (سرویلینس پروگرام)

پرزم ریاستہائے متحدہ امریکا کا ایک خفیہ برقی نگہداری پروگرامنگ ہے جس میں 2007ء سے وسیع پیمانے پر دنیا بھر کے افراد کے ڈیٹا کی جاسوسی کی جا رہی ہے۔ یہ پروگرامنگ 2013ء میں افشا ہوا۔[1][2] اور اس کا سرکاری نام پرزم بتایا گیا۔ امریکی کانگرس کے کئی ارکان کو اس وسیع جاسوسی پروگرامنگ کا پہلے سے علم تھا۔

Slide from a leaked NSA presentation explaining the PRISM electronic surveillance program.

2013ء میں سنوڈن نے گارجین کے اخبار نویس گلن گرینوالڈ کو پیغام بھیجا کہ اس کے پاس امریکی جاسوسی بارے مواد ہے مگر وہ صرف پی جی پی کے ذریعہ انکرپشن طریقہ سے برقی رابط قائم کرنا چاہتا ہے۔ گرینوالڈ اس طریقہ سے نابلد تھا، چنانچہ رابطہ میں بہت تاخیر ہوئی۔ اس کے بعد سنوڈن نے گرینوالڈ اور واشنگٹن پوسٹ کو مواد بھیجا۔ PRISM (surveillance program) بارے 41 صفحات پر مشتمل مواد ان کے حوالے کیا۔ دونوں اخباروں نے امریکی سرکار سے رابطہ کیا اور صرف دو تین صفحات شائع کرنے کی جراءت کر سکے۔[3]

تکنیکی مشارکات کی معاونت

ترمیم

بلومبرگ نے انکشاف کیا کہ امریکا کی بڑی مشارکات جن میں مائکروسافٹ، گوگل، اے ٹی اینڈ ٹی، ورائزن شامل ہیں، حکومت سے جاسوسی کے لیے بھر پور تعاون کرتے ہیں۔[4] انٹرنیٹ اخفائے راز پر اس جنگ کے لیے امریکہ نے گوگل، فیس بک، وغیرہ کو لاکھوں کی ادائیگی کی ۔[5] گوگل پہلے ہی عدالت میں حلفیہ بیان دے چکا تھا کہ جی-میل صارفین کو اخفائے راز کی توقع نہیں رکھنی چاہیے۔[6] ویکیپیڈیا فاؤنڈیشن نے دعوی کیا کہ وہ اس پروگرامنگ کا حصہ نہیں بنے۔[7] آہستہ اہستہ مزید انکشافات آتے گئے۔ گارجین نے بتایا کہ مائیکوسافت نے سکائپ میں چور دروازہ (بنام شطرنج پروگرامنگ) لگا کر حکومت کو لوگوں کی گفتگو پر جاسوسی کرنے کے قابل بنایا۔[8] سی-نیٹ نے بتایا کہ امریکی حساس وفاقی ادارے حبالہ شارکہ سے صارفین کے پاس ورڈ جاننے کا مطالبہ کرتے ہیں،[9] جس کی مدد سے صارف کا تمام آن لائن کھاتہ ان کے ہاتھ لگ جاتا ہے۔

ماروائے عدالت جاسوسی و نگہداری

ترمیم

امریکی حکومت کو اپنے ہی لوگوں پر جاسوسی کے لیے عدالت کی اجازت کی ضرورت نہیں۔[10] اس سے پہلے امریکی عوام کو دھوکا تھا کہ ان پر جاسوسی اور نگہداری کے لیے حکومت عدالتی حکم حاصل کرنے کی پابند ہے اور وہ اسے اپنے آئین کا حصہ بتاتے تھے۔

انٹرنیٹ اور محمول پر قبضہ

ترمیم

سنوڈن دستاویزات کی مدد سے گارڈین اور نیویارک ٹائمز نے انکشاف کیا کہ امریکی این-ایس-اے نے انٹرنیٹ پر عام استعمال ہونے والے اخفا دستور توڑ لیے ہیں، کچھ ریاضیاتی سینہ زوری سے اور کچھ تکنیکی مشارکہ کی مدد سے سافٹ ویئر و کثیف میں چور دروازے لگا کر۔[11] تمام ذکی محمول پر بھی مکمل قبضہ ہے اور کسی بھی محمول پر ڈیٹا پڑھ سکتے ہیں اور خلیاتی بات چیت سجل کر سکتے ہیں۔[12]

نجی کمپیوٹر پر قبضہ

ترمیم

امریکا نے نجی اور تجارتی اداروں کے کمپیوٹر پر مصنع خبیث نصب کر کے ہزاروں کو غلام بنا لیا، ان کمپیوٹر کا نیٹ ورک گراف سنوڈن کے افشا کیے ہوئے دستاویزات سے ملا۔[13]

ردّ عمل

ترمیم

سرکاری رد عمل

ترمیم

امریکی ایوان نمائندگان میں NSA کی امریکی شہریوں پر جاسوسی اور ڈیٹا زخیرہ کم کرنے کے لیے تحریک پیش کی گئی جو ناکام ہو گئی۔[14]

عوامی ردّ عمل

ترمیم

امریکی عوام کی بڑی تعداد نے پرزم پروگرامنگ اور غیر محدود ٹاؤٹ کے تحت گھریلو جاسوسی پر ناراضی کا اظہار کیا، البتہ تمام امریکی غیر ملکیوں پر جاسوسی کے حق میں تھے۔ این-ایس-اے کے سربراہ امریکی فوجی جامع کتھ اسکندر نے کانگرس کو فخریہ بتایا کہ پاکستان میں صرف ایک ماہ کے دوران 13،5 بلین جاسوسی ٹکرے حاصل کیے گئے جن میں موبائل فون اور انٹرنیٹ کی جاسوسی شامل ہے۔ پاکستانی حکام نے کہا کہ انھوں نے اس خبر پر امریکا سے وضاحت طلب کی۔[15]

پاکستان کے خلاف جاسوسی

ترمیم

سنوڈن کی دی گئی دستاویزات سے انکشاف ہوا کہ امریکا کا 2013ء میں 52.6 بلین ڈالر کا کالا جاسوسی بجٹ ہے جو بارک اوبامہ کی حکومت نے منظور کیا۔[16] اس کالے بجٹ سے جاسوسی کا بڑا نشانہ پاکستان ہے جن میں پاکستان کی فوج، دفاعی اثاثے، حکومتی اور سرکاری اہلکار اور تقریباً ہر شخص شامل ہے۔[17] طریقہ واردات میں مواصلاتی بنیادی ڈھانچہ پر حملہ اور کھٹمل نصب۔[18] این-ایس-اے کے سربراہ امریکی فوجی جامع کتھ اسکندر نے کانگرس میں فخریہ اعتراف جرم کیا کہ پاکستان میں صرف ایک ماہ کے دوران 13،5 بلین جاسوسی ٹکرے حاصل کیے گئے جن میں موبائل فون اور انٹرنیٹ کی جاسوسی شامل ہے۔۔[15]

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. "NSA Prism program taps in to user data of Apple, Google and others"۔ گارجین۔ 6 جون 2013ء۔ 2019-01-06 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2013-06-09
  2. "Boundless Informant: the NSA's secret tool to track global surveillance data"۔ گارجین۔ 6 جون 2013ء۔ 2019-01-06 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2013-06-09
  3. "Snowden Censored by Craven Media"۔ کرپٹوم۔ 10 جون 2013ء۔ 2013-06-14 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا
  4. "U.S. Agencies Said to Swap Data With Thousands of Firms"۔ بلومبرگ۔ 14 جون 2013ء۔ 2019-01-06 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2013-06-15
  5. "NSA paid millions to cover Prism compliance costs for tech companies"۔ گارجین۔ 22 اگست 2013ء۔ 2019-01-06 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا
  6. "Google: Gmail users can't expect privacy when sending emails"۔ انڈپنڈنت۔ 14 اگست 2013ء۔ 2019-01-06 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا
  7. meta
  8. "Skype's secret Project Chess reportedly helped NSA access customers' data"۔ گارجین۔ 20 جون 2013ء۔ 2019-01-06 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا
  9. ڈیکلن مک کلاغ (25 جولائی 2013ء)۔ "Feds tell Web firms to turn over user account passwords"۔ c-net۔ 2019-01-06 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا
  10. "Revealed: the top secret rules that allow NSA to use US data without a warrant"۔ گارجین۔ 20 جون 2013ء۔ 2019-01-06 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا
  11. "Now we know why UK spooks simply shrugged at SSL encryption"۔ دی رجسٹر۔ 6 ستمبر 2013ء۔ 2019-01-06 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا
  12. "Privacy Scandal: NSA Can Spy on Smart Phone Data"۔ سپائیگل۔ 7 ستمبر 2013ء۔ 2019-01-06 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا
  13. "Map Shows The NSA's Massive Worldwide Malware Operations"۔ بزنس انسائڈر۔ 23 نومبر 2013ء۔ 2019-01-06 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا
  14. "NSA surveillance: narrow defeat for amendment to restrict data collection"۔ گارجین۔ 24 جولائی 2013ء۔ 2019-01-06 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا
  15. ^ ا ب وارث حسین (19 جون 2013ء)۔ "Big Brother is watching Pakistan"۔ ڈان۔ 2019-01-06 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا
  16. "U.S. spy network's successes, failures and objectives detailed in 'black budget' summary"۔ واشنگتں پوسٹ۔ 29 اگست 2013ء
  17. "Top-secret U.S. intelligence files show new levels of distrust of Pakistan"۔ واشنگتں پوسٹ۔ 2019-01-06 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا
  18. "NSA Laughs at PCs, Prefers Hacking Routers and Switches"۔ وائرڈ۔ 4 ستمبر 2013ء۔ 2019-01-06 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا