پنجاب کے روایتی مذاہب
پنجاب کا روایتی مذہب سے مراد عموماً پنجاب کے غیر مسلموں (ہندوؤں اور سکھوں) کے عقائد اور اعمال سے متعلق تہوار اور عبادات ہیں جن میں اجداد کی پوجا، مقامی خداؤں کی عبادات اور دیسی تہوار شامل ہیں۔ پنجاب کے قدیم آباد علاقوں میں بہت سی خانقاہیں اور مزارات ہیں جو مختلف عقائد و مذاہب کے لوگوں میں منقسم ہیں۔[1] یہ مزارات اور خانقاہیں بین الفرقہ مکالمہ کی مظہر ہیں اور بزرگوں کی تعظیم کی روایت سے مختلف ہیں۔[2]
پنجابی لوک کونیات
ترمیماپنے منظم مذاہب سے ہٹ کر پنجابی اپنے روایتی مذاہب پر بھی عمل پیرا ہیں جو کئی مرتبہ منظم مذاہب سے آزاد یا ان کے عقائد سے تخریج شدہ ہوتے ہیں اور پنجاب کے روایتی کا حصہ بنے ہیں۔
پنجاب کے روایتی نظریات کے مطابق دنیا تین سلطنتوں میں منقسم ہے۔[3]
انگریزی | پنجابی | باشندوں |
---|---|---|
Sky | آکاش | دیو لوک (فرشتوں) |
Earth | دھرتی | مت لوک (انسانوں) |
Under World | ناگش | ناگ لوک (سانپ) |
دیو لوک خداؤں، بزرگوں اور اسلاف کی سلطنت ہے جو آسمانوں میں ہے۔ اسلاف بزرگ یا خدا بن سکتے ہیں۔[3]
پنجاب میں اجداد کی پوجا
ترمیمجیتھرا (مزار)—آبائی مزارات
ترمیمجیتھرا ایک ایسا مزار ہوتا ہے جو کسی قبیلہ، اس کی شاخ، خاندانی نام، کسی گاؤں کے مشترکہ بانی بزرگ یا کسی روحانی پیشوا کی عزت و تکریم اور یاد کے لیے اس کی قبر پر تعمیر کیا جاتا ہے۔[3]
جب کبھی کسی گاؤں کا بانی مرتا ہے تو اس گاؤں کے باہر اس کی قبر اور جھنڈی والا ایک مزار تعمیر کیا جاتا ہے۔ ایک گاؤں کے باہر اس قسم کے بہت سے مزارات ہو سکتے ہیں۔
جیتھرا کسی خاندان کے نامور بزرگ یا گاؤں کے بانی کے نام پر تعمیر کیا جاتا ہے۔ تاہم بہت سے گاؤں میں بے نام مزارات بھی ہیں۔ کچھ خاندانوں میں روحانی پیشوا ہی ان کے بانی ہیں۔ اس طرح کی صورت حال میں بزرگ دونوں کرداروں کا حامل ہوتا ہے؛ وہ اس جیتھرا کا سردار بھی ہوتا ہے جس کو اس کی اولاد احتراماً تعمیر کرتی ہے اور روحانی پیشوا بھی جیسا کہ بابا جوگی پیر جس کی کئی لوگ عبادت بھی کرتے ہیں۔[3]
پنجاب میں خاندانی ناموں کا سلسلہ
ترمیمپنجابی لوگوں کا اعتقاد ہے کہ ایک خاندانی نام کے لوگوں کسی ایک مشترک دادا کی اولاد ہوتے ہیں۔ پنجابی میں خاندانی نام گوت یا گوترا کہلاتا ہے۔[3]
ایک ہی نام کے کسی خاندان کے افراد کو ان کے شجرہ سے متعلق چھوٹی چھوٹی مختلف شاخوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ عموماً ایک شاخ کام نام سات پشتوں تک چل سکتا ہے لیکن اس سے زیادہ پشتوں میں بھی یہ نام چلتے ہیں۔[4]
پرانے وقتوں میں ایک گاؤں کے لوگوں کا ایک ہی دادا کی اولاد ہونا اور ایک ہی خاندان سے ہونا عام بات تھی۔ جب لوگ نیا گاؤں بسانے کے لیے ہجرت کرتے تو بھی وہ اس جیتھرا کا احترام جاری رکھتے۔ اب بھی چہل، ساندھو اور دیگر برہمن خاندانوں میں یہ رواج ہے کہ وہ اپنے گاؤں میں نیا جیتھرا تعمیر کرتے ہیں لیکن خاندان کے بانی بزرگ اور اس کے مزار کا احترام بھی کرتے ہیں۔.[3]
وقت کے ساتھ ساتھ پنجاب کے گاؤں کی ترکیب بدل گئی اور مختلف خاندانوں کے لوگ ایک ہی گاؤں میں آباد ہونا شروع ہو گئے۔ اس وجہ سے ایک گاؤں کے اطراف میں مختلف جیتھرا ہو سکتے ہیں جو مختلف خاندانوں کے افراد نے تعمیر کیے ہوں، یہ بھی ممکن ہے کہ گاؤں کے باہر ایک جیتھرا ایسا ہو جو اس گاؤں کے لوگوں کے مشترکہ دادا کا ہو اور باقی شاخوں کے اجداد کے الگ الگ جیتھرا ہوں۔[5]
جب کسی شاخ کے لوگ نیا گاؤں بساتے ہیں تو اپنے آبائی گاؤں کے جیتھرا کی زیارت بھی کرتے رہتے ہیں۔ اگر یہ ممکن نہ ہو تو پرانے جیتھرا سے رابطے کی علامت کے طور پر نئے گاؤں کے باہر بڑے داد کے نام کا ایک اور مزار تعمیر کر لیا جاتا ہے۔[3]
حاضری
ترمیمہندو لوگ عموماً شادی بیاہ، ہندو مہینے کی پندرہویں اور کئی مرتبہ ہندی مہینہ کے پہلے اتوار کو جیتھرا پر حاضری دیتے ہیں۔ بڑے بیٹے کی اولاد تالاب پر جاتی ہے اور شیولنگ (عضو تناسل) کی شکل بنانے کے لیے زمین کھودتی ہے، کچھ لوگ اس اپنے داد کے مزار پر رکھتے ہیں اور بعد ازاں مزار پر پھول، گھی اور دوسرے چڑھاوے چڑھاتے ہیں اس لیے یہ ایک قسم کی شیولنگ پوجا ہے۔ کچھ دیہات میں پھول چڑھانے کا پختہ رواج ہے۔[3]
پوجا
ترمیمجیتھرا کا احترام کسی منظم مذہب سے متعلق نہیں بلکہ یہ عموماً تمام قدیم پنجابی مذاہب کے لوگوں میں پایا جاتا ہے۔ منظم مذاہب میں عبادات کی طرح جیتھرا کے احترام نے کوئی خاص جگہ نہیں لی بلکہ اس کا مقصد صرف بزرگوں کے لیے احترام کا اظہار ہے۔
جیتھرا کے مشہور ماخذ اور متعلقین و عاملین میں چہل جٹ، اتوال، چیمہ اور تولی خاندان کے افراد شامل ہیں۔
بزرگوں کے مزارات کی فہرست
ترمیممزار | قوم |
---|---|
پیر بابا کالا مہر | سندہو |
دادی چیہو جی، بنگا | پارمار |
بابا جوگی پیر | چاہل |
بابا کالو ناتھ | رومانہ |
بابا سدھ کلنجہر | بھلر |
لکھن پیر | چیمہ |
پیر بدونکی | چیمہ |
سدھسن | رندھاوا |
تلکارا | سندہو |
سدھ سورت رام | گل |
تلا | باسی |
پھلا | ڈھلوں قبیلہ کی شاخ محارمپور |
کپلا | سمرائی (سمراما) |
کرپال | حاکم پور |
ادی | گرچا |
مزار موضع تکھنی، ضلع حاصل پور | گگی |
بابا مانا جی | شیرگل |
بابا کرتار سنگھ جی، جمال پور عصر | اولکھ |
بابا سیریا جی (موضع تلونڈی خورد، ضلع مولنپور پنجاب) | ڈب |
|- |بابا کلدار جی موضع گھوندی کلاں، ضلع لدھیانہ پنجاب |کشیاپ گوترا برہمن |}
میلے
ترمیمپنجاب میں درج ذیل میلے منائے جاتے ہیں۔
بابا کالو ناتھ میلہ
ترمیمضلع بٹھنڈا میں بوچھو منڈی کے قریب ناتھنا گاؤں میں فروری اور مارچ کے مہینوں کے دوران رومانہ خاندان کے افراد کے بزرگ بابا کالو ناتھ کے احترام میں ایک بڑے میلہ کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ میلہ چار دن تک جاری رہتا ہے۔ پہلا دن رومانا افراد کے لیے مخصوص ہے جبکہ باقی تین دنوں میں تمام افراد میلہ میں شرکت کر سکتے ہیں۔
بابا کالا مہر میلہ
ترمیمبابا کالا مہر سندھو کے اعزاز میں ضلع امرتسر میں ہر سال ایک میلے کا انعقاد کیا جاتا ہے۔
میلہ ہر سال اپریل کے مہینہ کے دوران منعقد ہوتا ہے جس میں سندھو قبیلے کے افراد نیز پنجاب اور راجستھان سے دوسرے قبائل کے افراد بھی شرکت کرتے ہیں۔
سندھو قبیلے کی دیومالا داستان کے مطابق بابا کالا مہر اپنے مویشیوں کی دیکھ بھال کیا کرتے تھے کہ ایک مرتبہ اس دوران ان کی بابا گوروکھ ناتھ سے ملاقات ہوئی۔ بابا گورکھ ناتھ نے پیر بابا کالا مہر سے ان کی بھینسوں کا دودھ لینے کے لیے درخواست کی۔ اس پر ایککرامت ظاہر ہوئی۔ اس وقت وہاں موجود تمام مویشی نر سانڈ تھے، بابا جی نے اپنے مویشیوں کو اپنی چھڑی سے ضربیں لگائیں اور ان سے دودھ حاصل کیا۔
بابا جوگی پیر میلہ
ترمیمبھوپال کا گاؤں ضلع بٹھنڈا کی تحصیل مانسا میں واقع ہے۔
یہ گاؤں بابا جوگی پیر کے میلہ کے باعث معروف ہے[6] جو چہال جاٹ برادری کے روحانی پیشوا مانے جاتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ مغل حکمرانی کے دور میں بابا جوگی پیر نے مغلوں کی افواج سے لڑائی
جنگ کے دوران ان کا سر کاٹ دیا گیا لیکن ان کا بے سر کا جسم لڑتا رہا یہاں تک کہ اس گاؤں میں گر کر مردہ ہو گیا۔ عوام جوگی پیر کی قربانی سے بہت متاثر ہوئے، انھوں نے وہاں ایک مزار تعمیر کی اور میلے کا انعقاد کیا۔[6]
ایک اور دیومالائی داستان میں روایت ہے کہ کچھ لوگ مزار کی حدود میں واقع درختوں کے نیچے ٹھہرے۔ رات میں انھیں شدید پیاس محسوس ہوئی مگر وہاں پانی کی دستیابی کا کوئی ایسا ذریعہ نہیں تھا جس سے وہ اپنی پیاس بجھا سکیں۔ مانا جاتا ہے کہ جوگی پیر کی ایک غیبی آواز سنائی دی: "تم لوگ پیاس سے کیوں مر رہے ہو؟ تالاب کی اینٹ اٹھاؤ اور پانی حاصل کر لو۔" انھوں نے ایسا ہی کیا تو اینٹ کے نیچے پانی موجود پایا اور اس طرح اپنی پیاس بجھائی۔[6]
سال میں دو مرتبہ 28 بھادوں (اگست-ستمبر) اور 16 چیت (مارچ-اپریل) کو جوگی پیر کے مزار پر ایک میلہ منعقد کیا جاتا ہے۔ اس میں ہندو اور سکھ دونوں قوموں کے افراد شرکت کرتے ہیں جبکہ چہال جاٹوں کی ایک بڑی تعداد اس میں شمولیت کرتی ہے۔ لوگ خصوصاً بچے کی پیدائش یا شادی کی تقاریب کے انعقاد پر مزار کی تعظیم کرتے ہیں۔ جوگی پیر کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے لوگ وہاں کی زمین کی ڈوئییوں کی مدد سے کھرچا بھی جاتا ہے۔[6]
مزارات
ترمیمخطہ پنجاب میں بزرگوں کی تعظیم کے لیے خانقاہوں اور مزارات کی تعمیر کا عام رواج ہے۔ مزار شہید ایک ایسی عمارت ہے جو کسی بزرگ کی یاد کے لیے اور اس کے احترام میں تعمیر کی جاتی ہے۔[7] مسلمانوں کے مزارات کو درگاہ اور ہندو کے مزارات کو سمدھ کہا جاتا ہے۔
خواجہ خضر
ترمیمپنجاب کے علاقہ میں خواجہ خضر ایک آبی روح ہیں جو دریاؤں، کنوؤں اور ندیوں سے متعلق ہیں۔[8] سکندر نامہ میں ان کا ایک ایسے بزرگ کے طور پر ذکر کیا گیا ہے جنھوں نے آب حیات پی رکھا ہے اور ہندو اور مسلم دونوں عقائد کے لوگوں کی نظر میں قابل احترام ہیں۔[8] کبھی کبھی ان کی خیالی تصویر ایک سبز چولا پہنے مچھلی پر سوار ایک بزرگ کی شکل میں بنائی جاتی ہے۔[8] بھکر صوبہ پنجاب، پاکستان کے دریائے سندھ میں موجود ایک جزیرہ پر ان کی مرکزی خانقاہ ہے۔[8]
سنجی
ترمیمسنجی ایک تہوار ہے جو ہندو دیوی ماں کے لیے مخصوص ہے۔
گگا پیر
ترمیمگگا پیر کو سانپوں کے خلاف حفاظت کے نظریہ سے تعظیم دی جاتی ہے۔ چھپر میلہ کے نام سے ایک سالانہ تہوار اس سلسلہ میں منعقد کیا جاتا ہے۔
کھیتری اور دیوی گرگا کے کھیت
ترمیمبطور روایت نورتری کے پہلے دن پنجاب کے لوگ دالیں، اناج اور دوسرے بیج گملوں میں بو دیتے ہیں اور ان کی نو دن تک آبپاشی کرتے ہیں جس کے بعد بیج اگ آتے ہیں۔ اس رسم کو "کھیتری" کہا جاتا ہے۔ یہ خوش حالی اور افراط کی نشانی ہے۔ اس رسم میں جو کی گملوں میں کاشتکاری بہت اہمیت کی حامل ہے۔ دسویں دن، کونپلیں تین تا پانچ انچ لمبی ہو جاتی ہیں۔ دوسہرا کے روز گرگا دیوی (پاروتی دیوی) [9] کی پوجا اور خوشی کے حصول کے لیے کھیتریوں میں اگی ہوئی پنیری کو سرخ کپڑے سے ڈھانک دیا جاتا ہے۔ دوسہرا کی عبادت اور دعاؤں کے بعد یہ پنیری یا کھیتری اکھیڑ کر پانی میں ڈبو دی جاتی ہے۔ اس رسم کا تعلق فصلوں کی برداشت سے ہے۔ جو کی کاشت اور برداشت پہلے پھل کی علامت ہے۔[10][11]
پنجاب کے کسانوں کے مطابق روایتی طور پر فصل خریف دوسہرا کی رسم ادا کرنے کے بعد کاٹی جاتی ہے جبکہ فصل ربیع اور گندم کی فصل دیوالی کی رسم کے بعد بوئی جاتی ہے۔ اس لیے دوسہرا شکرانے کا اور دیوالی کٹائی کا تہوار سمجھا جاتا ہے۔
سخی سرور
ترمیمپاکستان اور بھارت میں خطۂ پنجاب کے بہت سے گاؤں میں سخی سرور کے مزارات موجود ہیں جو لکھ داتا پیر کے نام سے مشہور ہیں۔ پیر سخی سرور کا ایک مزار صوبہ پنجاب، پاکستان کے ضلع ڈیرہ غازی خان میں موجود ہے۔ ہر سال مارچ کے مہینے میں لکھ داتا پیر کے مزار پر ایک عظیم الشان میلے کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ گاؤں کا نام بھی سخی سرور ہے جو ڈیرہ غازی خان سے 34 کلومیٹر دور ہے۔ 9 دن تک جاری رہنے والا ایک میلہ کا اہتمام ہر سال بھارت کے صوبہ پنجاب کے شہر موکند پور میں بھی کیا جاتا ہے۔
ستالا ماتا
ترمیمستالا ماتا کی عبادت بچوں کی بیماریوں سے حفاظت کے لیے کی جاتی ہے۔ اس سلسلہ میں لدھیانہ میں ایک جراگ میلہ کے نام سے بڑا میلہ منعقد کیا جاتا ہے۔[12]
گورکھ ناتھ
ترمیمگورکھ ناتھ بارہویں اور تیرہویں صدی کے درمیانی عرصہ میں ہوئے ہیں۔[13] ناتھ یوگی کا تعلق شیوا پرستی سے ہے۔ شیوا پرستی مکندرا ناتھ کے دو اہم چیلوں میں سے ایک ہے جبکہ دوسرے کا نام چورنگی ہے۔ گورکھ ناتھ نے پورن بھگت کا کامیاب علاج کیا تھا۔
پورن بھگت
ترمیمپورن بھگت خطۂ پنجاب اور برصغیر کے دوسرے خطوں میں مانے جانے والے مقدس بزرگ ہیں۔ وہ سیالکوٹ کے شہزادہ اور راجہ سالباہن گجر کے بیٹے تھے۔[14] ان کو بابا شاہ ناتھ جی کے نام سے بھی پوجا جاتا ہے۔ پورن بھگت نے اپنے والد کے حکم پر بچپن میں ایک کنوئیں میں وقت گزارنے کے دوران گورکھ ناتھ سے روحانی تربیت حاصل کی۔
لوگ سیالکوٹ میں واقع پورن کے کوئیں کی زیارت کرتے ہیں، خصوصاً عورتیں اور بچے جو کوئٹہ اور کراچی جیسے دور دراز علاقوں سے سفر کر کے یہاں آتے ہیں۔[15]
روزے
ترمیمپنجابی روزے پنجاب کے قدیم مذاہب کا حصہ ہیں۔
موسمی تہوار
ترمیمپنجاب ایک ایسی ریاست ہے جس میں کاشتکاری بہت ہوتی ہے۔ اس وجہ سے پنجابی لوہاری، بسنت پنچھمی، بیساکھی اور تیاں کے موسمی تہوار احترام کے ساتھ مناتے ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ تہوار مذہبی تہواروں کے ساتھ مخلوط ہو گئے ہیں، مگر ان کے اصل مقاصد ابھی ناپید نہیں ہوئے۔
حوالہ جات
ترمیم- ↑ Replicating Memory, Creating Images: Pirs and Dargahs in Popular Art and Media of Contemporary East Punjab Yogesh Snehi [1] آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ kjc-sv006.kjc.uni-heidelberg.de (Error: unknown archive URL)
- ↑ Historicity, Orality and ‘Lesser Shrines’: Popular Culture and Change at the Dargah of Panj Pirs at Abohar,” in Sufism in Punjab: Mystics, Literature and Shrines, ed.
- ^ ا ب پ ت ٹ ث ج چ "Centre for Sikh Studies, University of California."۔ 03 مارچ 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 03 اگست 2016
- ↑ This is not definitive
- ↑ A Glossary of the tribes & castes of Punjab by H. A Rose
- ^ ا ب پ ت "Gazetteer of Bathinda 1992 Edition"۔ 01 جون 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 03 اگست 2016
- ↑ Sandip Singh Chohan, Thesis for the University of Wolverhampton: The Phenomenon of possession and exorcism in North India and amongst the Punjabi Diaspora in Wolverhampton https://ssl.gstatic.com/docs/doclist/images/icon_10_pdf_list.png[2]
- ^ ا ب پ ت M. Longworth Dames۔ "Khwadja Khidr"۔ Encyclopedia of Islam, Second Edition۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 اپریل 2012
- ↑ "http://www.nameandfame.org/g.html"۔ 27 جون 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 03 اگست 2016 روابط خارجية في
|title=
(معاونت) - ↑ "آرکائیو کاپی"۔ 03 مارچ 2001 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 03 اگست 2016
- ↑ http://www.webindia123.com/punjab/festivals/festivals1.htm
- ↑ "آرکائیو کاپی"۔ 25 فروری 2021 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 03 اگست 2016
- ↑ Briggs (1938), p. 249
- ↑ Laddhu Ram۔ Kissa Puran Bhagat۔ Lahore: Munshi Chiragdeen
- ↑ Dawn 8 October 2012