ریل/پٹری نقل و حمل یا ریلوے یا راہ آہن ایسی نقل و حمل کو کہا جاتا کو کہا جاتا ہے کہ جو پٹری یا ریلوے لائن کے ذریعے کی جاتی ہو۔ پٹری نقل و حمل کو انگریزی میں Railway یا Railroad کہا جاتا ہے۔ اردو میں اس کو عام طور پر ریلوے یا ریل کہا جاتا ہے۔

ریل کی پٹری یا ریلوے لائن
مال بردار ٹرین

پٹری یا ریلوے لائن فولاد کی دو پٹریوں پر مشتمل ہوتی ہے جو سلیپر ( لکڑی یا لوہے کے تختے یا کنکریٹ کے سلب) پر لگی ہوئی ہوتی ہیں اور سلیپر بلاسٹ (پتھروں کی سطح جو زمین کے اوپر ہوتی ہے) پر رکھے ہوئے ہوتے ہیں۔ ریل کی پٹری کو اردو میں عام طور پر ریلوے لائن کہا جاتا ہے۔ اس ریلوے لائن پر ہی ٹرینیں چلتی ہیں اور مسافروں یا اشیاء کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرتی ہیں۔

تاریخ

ترمیم

سولہویں صدی کے ایک جرمن سائنس دان جارج ایگریکولا نے اپنی کتاب معدنیات میں ایک ایسی گاڑی کا ذکر کیا ہے جو لکڑی کے کھمبوں پر چلتی تھی۔ اسے گھوڑے کھینچتے تھے۔ 1790ء میں اسی قسم کی ایک گھوڑا گاڑی کانوں سے کوئلہ ڈھونے کے لیے، برطانیہ میں چلائی گئی۔ لیکن یہ لوہے کی پٹری پر چلتی تھی۔ 1804ء میں ایک انگریز انجینیر رچرڈ ٹرے دی تھک نے بھاپ سے چلنے والا انجن تیار کیا۔ لیکن یہ صرف بیس ٹن وزن کھینچ سکتا تھا۔ اس کے بعد جارج سٹیفن سن نے اس سے زیادہ طاقتور انجن بنایا۔ اس انجن کے کامیاب تجربے کے بعد سٹاکٹن سے ڈارلنگٹن تک ریل کی پٹری بچھائی گئی جس پر صرف مال گاڑیاں چلائی گئیں۔ 1830ء میں لیور پول سے مانچسٹر کو ملانے والی ریلوے لائن کا افتتاح ہوا اور برطانیہ میں سب سے پہلی مسافر گاڑی اسی ریلوے لائن پر چلی۔ اس کے بعد ریاست ہائے متحدہ میں 1833ء بلجیم اور جرمنی میں 1835ء میں کینڈا 1836، فرانس 1837ء ہالینڈ اور اٹلی میں 1839ء میں ریل گاڑیاں چلنے لگیں۔

ہندوستان میں ریلوے کی تاریخ کا آغاز 1845ء سے ہوا۔ اس سال کلکتے سے رانی گنج بمبئی سے کلیان اورمدراس سے ارکونام تک تین ریل گاڑیاں تجرباتی طور پر چلائی گئیں۔ 13 مئی 1861ء کو کراچی سے کوٹری تک چلنے والی ریل گاڑی کا افتتاح ہوا۔ 10 اپریل 1862ء کو لاہور اور امرتسر کے درمیان پہلی گاڑی چلی۔ 1865ء میں ملتان کو لاہور سے ریلوے کے ذریعے سے ملا گیا۔ 1889ء میں سکھر کے مقام پر دریائے سندھ پر پل تعمیر ہونے سے پنجاب اور سندھ ریل کے ذریعے مل گئے ۔