چونیاں
اس مضمون میں کسی قابل تصدیق ماخذ کا حوالہ درج نہیں ہے۔ |
اس مضمون کی ویکائی کی ضرورت ہے تاکہ یہ ویکیپیڈیا کے اسلوب تحریر سے ہم آہنگ ہو سکے۔ براہ کرم اس مضمون کی ویکائی میں مدد کریں۔ |
ایک تاریخی شہر اور پنجاب کی تحصیل چونیاں کا دار الحکومت ہے۔ یہ 30 ° 58 '0N 73 ° 58' 60E میں واقع ہے۔ 177 میٹر (583 فٹ) کی ایک بلندی پر واقع ہے 70 کلومیٹر جنوب میں لاہور، پنجاب کے دار الحکومت میں واقع۔ یہ ضلع قصور میں ایک ہی نام کی تحصیل یا ریونیو ذیلی ڈویژن کے ہیڈ کوارٹر ہے۔ شہر انتظامی 12 وارڈ میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ [1]آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ urdu.abbtakk.tv (Error: unknown archive URL)
مقام | تحصیل چونیاں، پنجاب، پاکستان |
---|---|
متناسقات | 31°1′N 73°51′E / 31.017°N 73.850°E |
قسم | آبادی |
رقبہ | 250 ha (620 acre)[1] |
تاریخ | |
متروک | انیسویں-سترہویں صدی قبل مسیح |
چونیاں شہر (1998 کی مردم شماری پاپ۔ 47،600) مقامی سڑکوں کی ایک اہم جنکشن پر پتوکی قصور روڈ پر واقع ہے۔ شہر سابق دریائے بیاس بستر کے دائیں کنارے پر واقع ہے۔ بیاس کئی صدیوں پہلے اس کورس کو تبدیل کر دیا۔[2]
تحصیل چھانگا مانگا کے جنگل، پاکستان میں درختوں کی سب سے بڑی واحد باگان اور چونیاں انڈسٹریل اسٹیٹ، ملک میں مینوفیکچرنگ کی سب سے بڑی تعداد میں سے ایک کے لیے جانا جاتا ہے۔ شہر زرعی پیداوار کے لیے ایک مصروف علاقائی مارکیٹ ہے۔[3]
موجودہ شہر میں 500 سے زائد سال کی عمر ہے۔ کچھ شہر کلبندی کے حصے اور اس کے دروازے کے کئی اب بھی موجود۔ شہر ہڑپپا یا وادئ سندھ کی تہذیب کی طرف سے تعمیر کیا گیا ہے سمجھا ایک ٹیلا پر بنایا گیا ہے۔ بہت کم کھدائی اس کی تصدیق کی کوشش کی ہے۔ آثار قدیمہ کے محکمہ، پاکستان کی حکومت واپس الیگزینڈر عظیم کے وقت (ج۔ 323 قبل مسیح) ملنہ سکے سائٹ پر دریافت کیا گیا تھا، دیگر اشیاء کے علاوہ 1978. میں گذشتہ کھدائی کیے
کھیل کھلاڑی
ترمیمچونیاں شہر ثقافتی و تاریخی لحاظ کے علاوہ کھیلوں میں بھی نمایاں کردار اداکرتا ہے شہر میں کرکٹ بیڈ منٹن، ٹیبل ٹینس،فٹ بال ،سنوکر سمیت مختلف کلبز ہیں شہر میں 2014 سے میگاسپرلیگ کا قیام عمل میں لایا گیا جس کا مقصد کھیلوں کو فروغ دیا جاسکے [4][مردہ ربط]
تہذیب وثقافت
ترمیمپنجابی تہذیب و ثقافت کا مسکن چونیاں شہر دریائے بیاس کے پرانے کنارے پر آباد ہے۔ لوک گیت اور پنجابی مشاعرے چونیاں شہر کا خاصہ ہیں ۔ شعبہ صحافت اور ڈیجیٹل پلیٹ فارم 49 نیوز کا قیام عمل میں لایا گیا تاکہ چونیاں اور ضلع قصور کی تہذیب و ثقافت کے حوالہ سے کام کیا جا سکے [2]گڈ وشرز پاکستان کے زیر اہتمام ماہانہ پنجابی مشاعرہ نشت کا اہتمام کیا جاتا ہے علی دی بیٹھک کے زیر اہتمام بھی ماہانہ نشت کا اہتمام کیا جاتاہے [5]
تاریخ
ترمیممشہور ہے کہ یہ شہر سات بار غرق ہو کردوبارہ آباد ہوا۔ 1940 کے الیکشن میں مسلم لیگ کو پنجاب میں محض ایک نشست پر کامیابی ملی تھی وہ چونیاں کی نشست تھی۔چونیاں شہر ایک قلعہ ہے جس کے کئی دروازے ابھی تک قائم ہیں۔ چونیاں کی خاص بات یہ راجا ٹوڈر مل کا شہر ہے۔چونی رانی اس کی بیٹی بیان کی جاتی ہے۔ جس کے نام سے معنون ہوا تھا۔پاکستان میں انڈسٹریل بوائلر کے شعبہ پر اہلیان چونیاں کی مکمل بالا دستی ہے۔چونیاں قیام پاکستان سے قبل صنعتی شہر تھا۔ جننگ اور ٹیکسٹائل کا مرکزتقسیم سے سب سے زیادہ نقصان چونیاں اور قصور شہر کو ہوا جو پنجاب کے مرکزی شہر تھے ۔ بارڈر پر ہو جانے کی وجہ سے ان میں مزید ترقی نہ ہو سکی۔
چونیاں ضلع قصور کی ایک تحصیل ہے۔ قدیم چونیاں دریا بیاس کے کنارے آبا د تھا۔مغل دور میں یہاں ایک بہت بڑی چھاؤنی اور اسلحہ کی ایک فیکٹری تھی۔ آج بھی شہر کے مغربی حصے میں اس فیکٹری کی باقیات کی صورت میں بڑے بڑے لوہے کے ٹکڑوں مل جاتے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے شہر کے گردا گرد سات بڑے ٹیلے تھے جو گیارویں سے اتھارویں صدی تک کی آبادی کے آثار بتاتے ہیں۔آج ان ٹیلوں کو ختم کرکے مکانات تعمیر کر لیے گئے ہیں۔اتھارویں صدی میں دریا ئے بیاس کی وجہ سے ایک بڑے سیلاب کے بھی آثار ملتے ہیں۔ سکھ دور کی کچھ حویلیاں بھی خستہ حال میں نظر آتی ہیں۔جب چونیاں پر راجا رائے کی حکومت تھی تو یہاں کا ایک ڈاکو پیرا بلوچ نے قصور کے لوگوں کے ناک میں دم کر رکھا تھا جس کو بڑی مشکل سے ختم کیا گیا۔1720میں چونیاں کے علاقے ہرچوقی کے مقام پر قصور کے نواب حسین خان اور لاہور کے مغل گورنر عبد الصمد کے درمیان ایک بڑا میدان جنگ سجا جس میں نواب حسین خان کو شکست ہوئی۔چونیاں کے نام کے حوالے سے کئی روایات مشہور ہیں۔چونیاں لفظ چونی کی جمع ہے جس کا مطلب موتی کے ہیں چونکہ ایک زمانے میں یہاں پر موتیوں کی بہتات تھی اس لیے اس کا نام چونیاں پڑ گیا۔ایک اور روایت کے مطابق یہاں اچھوت لوگ آباد تھے۔ مغل دور میں یہاں ایک مسلمان فقیر جہانیاں آکر رہنے لگے جس نے اس کی تمام آبادی کو مسلمان کر دیا۔اس بزرگ کا مقبرہ یہاں موجود ہے۔ اسی مناسبت سے اس کا نام جہانیاں رکھ دیا گیاجو بگڑتے بگڑتے چونیاں ہو گیا۔ ایک اور روایت کے مطابق جب محمد بن قاسم نے ملتان پر حملہ کیا تو چونیاں ملتان کا زیرنگیں تھا جس پر کمبوں ذات کا ایک ہندو راجا حکومت کر تا تھا۔ جب محمد بن قاسم نے راجے سے جنگ کا تاوان مانگا گیا تو اس نے کہا کے میرے پاس اتنی بڑی رقم نہیں ہے لہٰزا میں یہ رقم قسطوں میں دوں گا۔گارنٹی کے طور پر اس نے اپنے بیٹے ما ہاچنوار کو ساتھ بھیج دیا۔اس نے وہاں جا کراسلام قبول کر لیا۔جب ساری رقم دے دی تو لڑکا واپس آیا مگر اسے قبول نہ کیا گیا کونکہ اب وہ مسلمان ہو چکا تھا۔ لوگوں نے اس کو قتل کر دیا۔بعد کے مسلم حکمرانوں نے اس کی یاد میں ایک مقبرہ تعمیر کروایا اور اس علاقے کا نام چنواری پڑ گیا جو بگڑ کر چونیاں ہو گیا۔اسی طرح یہ بھی کہا جا تا ہے جب اکبر نے یہ علاقہ اپنے خاص وزیرٹوڈل مل کو جاگیر کے طور پر دیاتو اس نے اس جگہ کا نام اپنی بیٹی چونی پر رکھا جو بعد میں چونیاں مشہور ہو گیا۔
مشاہیر
ترمیمحوالہ جات
ترمیم- ↑ 31°1′N 73°51′E / 31.017°N 73.850°E{{#coordinates:}}: cannot have more than one primary tag per page
- ↑ "چونیاں کی خبریں"[مردہ ربط]