اصلاح امت کے لیے سبق آموز ۴۰؍ احادیث کا مجموعہ

مضمون و اقتباس

ترمیم

اس رسالہ میں شاہ اکبر داناپوری نے سر سیّد احمد کے عقیدے کی گرفت، تہذیب الاخلاق کی عبارت پر تلخ تبصرے بھی کیے ہیں اور مولانا قاسم نانوتوی کے مدرسہ سے علی گڑھ کا موازنہ بھی کیا ہے، واضح ہو کہ حضرت اکبرؔ کی یہ تالیف ۱۲۸۸ ہجری کی ہے اور مولانا کی کتاب تحذیرالناس ۱۲۹۰ ہجری میں طبع ہوئی، سر سیّد کے حوالے سے حدیث دوازدھم میں حضرت اکبرؔ رقمطراز ہیں کہ

’’جو جو معتقدات سیّد احمد خان کی ہیں، یعنی گردن مڑوری مرغی انگریزوں کی پکی ہوئی کھا لینا اور تاویلات معنی ’’کلام اللہ‘‘ کی بے محل کرنا یا ’’بِسْمِ اللہ‘‘ کو یہ کہنا کہ یہ بمشورۂ حضرت سلمان فارسی داخلِ قرآن کی گئی ہے، بذریعۂ وحی اس کا نزول نہیں، ہرگز ہرگز قابلِ اعتبار نہیں، یہ تو میں نہیں کہہ سکتا کہ یہ صاحب بہادر مسلمان نہیں مگر اقوال تو ان کے سراسر مردود ہیں، ہرگز توجہ کے قابل نہیں، بعض بعض نوجوان آزادی پسندوں نے جو قیدِ مذہب سے تنگ آئے ہوئے تھے، صاحبِ موصوف کے پرچہ اخبار تہذیب الاخلاق کو اپنی خواہشِ نفسانی کے موافق پاکر خوب لطف دینوی اٹھائی اور غافل اس سے کہ تقلیدِ شخصی سے یوں بھی نہ چھوٹے‘‘ [1]

اسی طرح ایرانی طرز و معاشرت کا لکھنؤ پر اثرات کے حوالے سے حدیث شانزدھم میں رقمطراز ہیں کہ

’’  داڑھی منڈوانا اور مونچیں بڑھانا یہ رسم گبروں کی ہے، چوں کہ ایران قدیمی ملک اُن کا تھا، لہٰذا اہلِ ایران نے اُن کی یہ رسم بھی اور سوائے اس کے اور مراسم بھی مثل آرائش تابوتِ موتیٰ اور نوحہ وغیرہ پسند کر لیں، چنانچہ اہلِ ایران کی تقلید بوجہ اتحاد مذہب شیعیانِ لکھنؤ نے قبول کر لی، حالاں کہ ثابت ہے کہ ائمۂ معصومین میں سےمَعَاذَاللہ کسی کا قصر ریش فرمانا دیکھا نہیں گیا اور جناب مجتہد صاحب کا فعل بھی میرے دعویٰ کا مثبت ہے‘‘ [2]

حدیثِ ہفتدھم میں بنو امیہ اور قوم یزید کا تذکرہ آیا ہے، اس سے متعلق آپ رقمطراز ہیں کہ

’’یہ تو ہم مانتے ہیں کہ یزید پر ایک فرقے نے اہلِ سنت کی لعن جائز رکھی ہے مگر قومِ یزید میں تو وہ لوگ بھی آ گئے جو بنی امیہ کے جواہر کہے گیے ہیں، جیسے حضرت عثمان یا عمر بن عبدالعزیز یا معاویہ بن یزید اب یہ سمجھنا چاہیے کہ جب لعن کے باب میں یہ تنبیہ ہے جو کفر کے معنیٰ میں داخل نہیں ہے تو کافر اور مشرک کہنے والے پر کیا کچھ الزام قائم نہیں ہوسکتا، ہمارے برادران عامل بالحدیث جو ذرا سے شبہ پر حنفیہ کو کافر اور مشرک بنا دیتے ہیں‘‘[3]

فدک کے تعلق سے حدیث سی و پنجم میں حضرت اکبرؔ رقمطراز ہیں کہ

’’تھوڑی زمین آپ کی مدینہ شریف، فدک اور خیبر میں تھی، اُس کا معمول یہ تھا کہ بعد خرچ ازواجِ مطہرات کے جو بچ رہتا، آپ مسلمانانِ مساکین کو عنایت فرمایا کرتے، چنانچہ وہی وصیت آپ نے اپنے بعد کے واسطے بھی فرمائی، جب حضرت صدیقِ اکبر خلیفہ ہوئے تو آپ نے اُس کا انتظام حضرت عباس اور حضرت علی مرتضیٰ کے حوالہ کیا اور یہی انتظام خلفائے ثلاثہ کی خلافت تک رہا اور حضرت علی مرتضیٰ نے بھی اپنی عہدِ خلافت میں یہی انتظام قائم رکھا پھر ہمارے اثنائے عشری بھائیوں کو خلفائے ثلاثہ پر کیا حق اعتراض کا باقی رہا‘‘[4]

کیفیت

ترمیم

اس رسالہ میں چہل حدیث سے قبل علم حدیث اور اس کی غرض و غایت اوراس کی قسموں کو بیان کیا گیا ہے تاکہ قارئین کو کسی طرح کی تکلیف نہ ہو، حضرت اکبر نے اس کا تاریخی نام نذر اولاد رسول رکھا ہے جس سے ۱۲۸۸ ہجری نکلتا ہے، اس کے علاوہ اسے تحفۂ مقبول، نذرِ اولادِ رسول، اخبارالعشق اور چہل حدیث  کے نام سے بھی جانا گیا، حضرت اکبر نے اسے ۱۲۸۸ ہجری ماہ محرم الحرام کے عشرۂ اول میں قلمبند کیا اور ۱۳۰۵ ہجری میں علم حدیث اور اس کی قسموں کی وضاحت اور اپنے مریدین و مسترشدین کو وصیت کرتے ہوئے اسے مکمل کیا، اس کی اشاعتِ اول مولانا سیّد رحیم الدین نقشبندی نے اپنے اہتمام سے یونین پریس الپنچ، بانکی پور، پٹنہ سے ۳۲؍ صفحات پر کرائی جسے قارئین نے خوب پسند کیا اور اس کی کئی کاپیاں فروخت ہوئیں۔[5]

غرض و غایت

ترمیم

شاہ اکبر داناپوری نے اسے اپنے مریدین و معتقدین کے لیے تحریر فرمایا تھا تاکہ انہیں کسی طرح کی دشواری نہ ہوسکے اور ان کے بچے اور خواتین تک بنیادی چیزوں کا علم بہ آسانی پہنچ جائے، روز بروز مسلمانوں کے اخلاقی حالت تباہ ہوتے جا رہے ہیں اسی بات کو مد نظر رکھتے ہوئے اکثر وہی احادیث درج ہوئی ہیں جو اعلیٰ اخلاق اور تہذیب و تمدن، صحیح و غلط کے مابین فرق اور ایمان و عمل کی سلامتی کے ذریں اصول ہیں، اس میں شرک و بدعت، اطاعت و پرہیزگاری، نذر و نیاز، خیر و شر، فضائل و مناقب، نماز و روزہ، نام و نسب، ایمان و عمل، لباس و زبان، مال و قرض، حقوق و وسوسہ اور تصویر و میراث وغیرہ کا بھی بیان ہے، اس موضوع پر حضرت اکبرؔ نے خصوصیت کے ساتھ ۴۰؍ احادیث ایک جگہ جمع فرمائی ہیں، تمام احادیث کے تراجم اور ’ف‘ کی سرخی لگا کر اس کی تفصیل بھی بیان کر دی ہے، اس سے قبل چہل حدیث کے موضوع پر لکھے جانے والے تمام رسائل اصل حدیث اور اس کے تراجم پر ہی منحصر ہوتے تھے، حضرت اکبرؔ نے پہلی مرتبہ حدیث و تراجم کے علاوہ الگ سے اس کی تفصیل بھی لکھی،حضرت اکبر نے ان ۴۰؍ احادیث کو الصحیح البخاری، الصحیح المسلم اور الجامع الترمذی سے اخذ کی ہیں، اس کی اشاعتِ ثانیہ خانقاہ سجادیہ ابوالعلائیہ سے شائع ہوئی ہے۔[6]

حوالہ

ترمیم
  1. ابوالعلائی، ریان (۲۰۲۴)۔ چہل حدیث۔ پٹنہ: خانقاہ سجادیہ ابوالعلائیہ۔ ص ۸ {{حوالہ کتاب}}: تحقق من التاريخ في: |year= (معاونت)
  2. ابوالعلائی، ریان (۲۰۲۴)۔ چہل۔ پٹنہ: خانقاہ سجادیہ ابوالعلائیہ۔ ص ۸ {{حوالہ کتاب}}: تحقق من التاريخ في: |year= (معاونت)
  3. ابوالعلائی، ریان (۲۰۲۴)۔ چہل حدیث۔ ۲۰۲۴: خانقاہ سجادیہ ابوالعلائیہ۔ ص ۹ {{حوالہ کتاب}}: تحقق من التاريخ في: |year= (معاونت)اسلوب حوالہ 1 کا انتظام: مقام (link)
  4. ابوالعلائی، ریان (۲۰۲۴)۔ چہل حدیث۔ پٹنہ: خانقاہ سجادیہ ابوالعلائیہ۔ ص ۹ {{حوالہ کتاب}}: تحقق من التاريخ في: |year= (معاونت)
  5. ابوالعلائی، ریان (۲۰۲۴)۔ چہل حدیث۔ پٹنہ: خانقاہ سجادیہ ابوالعلائیہ۔ ص ۱۳ {{حوالہ کتاب}}: تحقق من التاريخ في: |year= (معاونت)
  6. ابوالعلائی، ریان (۲۰۲۴)۔ چہل حدیث۔ پٹنہ: خانقاہ سجادیہ ابوالعلائیہ۔ ص ۱۴ {{حوالہ کتاب}}: تحقق من التاريخ في: |year= (معاونت)