سید احمد خان

برطانوی ہندوستان کے مصلح اور سماجی کارکن (1817-1898)

احمد خان متقی بن محمد متقی (17 اکتوبر 1817ء27 مارچ 1898ء) المعروف سر سید، سر سید احمد خان انیسویں صدی کے ایک ہندوستانی مسلم نظریۂ عملیت کے حامل [3]، مصلح [4][5] اور فلسفی تھے۔ ان کو برصغیر میں مسلم قوم پرستی کا سرخیل مانا جاتا ہے اور دو قومی نظریہ کا خالق تصور کیا جاتا ہے، جو آگے چل کر تحریک پاکستان کی بنیاد بنا۔[6][7]

خان بہادر ،سر [1]  ویکی ڈیٹا پر (P511) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
سر سید احمد خان
78
78
سر سید احمد خان (1817–1898)

معلومات شخصیت
پیدائش 17 اکتوبر 1817(1817-10-17)
دہلی، مغلیہ سلطنت
وفات 27 مارچ 1898(1898-30-27) (عمر  80 سال)
علی گڑھ، برطانوی راج
مدفن علی گڑھ   ویکی ڈیٹا پر (P119) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
رہائش علی گڑھ
قومیت برطانوی ہند
دیگر نام سر سید
عملی زندگی
مادر علمی یونیورسٹی آف ایڈنبرا
ایسٹ انڈیا کمپنی کالج
استاذ مملوک علی نانوتوی   ویکی ڈیٹا پر (P1066) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ منصف ،  فلسفی ،  شہہ سوار ،  وکیل ،  سیاست دان ،  الٰہیات دان   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان اردو [2]،  انگریزی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کارہائے نمایاں The Mohammadan Commentary on the Holy Bible
Reasons for the Indian Revolt of 1857
اعزازات
سٹار آف انڈیا
دستخط
 

1838ء میں اس نے ایسٹ انڈیا کمپنی میں ملازمت اختیار کی اور 1867ء وہ چھوٹے مقدمات کے لیے جج مقرر کیے گئے۔ 1876ء میں وہ ملازمت سے مستعفی ہوئے۔ 1857ء کی جنگ آزادی کے دوران میں وہ ایسٹ انڈیا کمپنی کا وفادار رہے اور یورپیوں کی جانیں بچانے میں اس کے کردار کی سلطنت برطانیہ کی طرف سے ستائش کی گئی۔[4] بغاوت ختم ہونے کے بعد انھوں نے اسباب بغاوت ہند پر ایک رسالہ لکھا جس میں ہندوستان کی رعایا کو اور خاص کر مسلمانوں کو بغاوت کے الزام سے بری کیا۔ اس رسالہ کا فائدہ سلطنت برطانیہ کو ہوا جس نے اس کی بنیاد پر ایسٹ انڈیا کمپنی سے برصغیر کا تمام قبضہ لے لیا اور ہندوستان کے تمام معاملات براہ راست اپنے قبضہ میں لے لیے۔ مسلمانوں کے راسخ الاعتقاد طرز کو ان کے مستقبل کے لیے خطرہ سمجھتے ہوئے سرسید نے مغربی طرز کی سائنسی تعلیم کو فروغ دینے کے لیے جدید اسکولوں اور جرائد کا اجرا کیا اپنے کلامی مکتبِ فکر کی بنیاد ڈالی جو معتزلہ کے افکار کا چربہ تھا مگر اس کے کلامی نظریات مقبول نہ ہو سکے اس لیے صرف سائنسی علوم کی اشاعت تک محدود رہا۔

1859ء میں سر سید نے مرادآباد میں گلشن اسکول، 1863ء میں غازی پور میں وکٹوریہ اسکول اور 1864ء میں سائنسی سوسائٹی برائے مسلمانان قائم کی۔ 1875ء میں محمدن اینگلو اورینٹل کالج جو جنوبی ایشیا میں پہلی مسلم یونیورسٹی بنا۔[8] اپنے کردار کے دوران میں سر سید نے بار بار مسلمانوں کو سلطنت برطانیہ سے وفاداری پر زور دیا اور تمام ہندوستانی مسلمانوں کو اردو کو بطور زبانِ رابطۂ عامہ اپنانے کی کوشش کی۔۔ وہ اپنی برطانوی وفاداریوں کے سبب انڈین نیشنل کانگریس کی طرف سے گہری تنقید کا نشانہ بنا۔[9]

سر سید کو پاکستان اور بھارتی مسلمانوں میں ایک موثر شخصیت کے طور پر دیکھا جاتا ہے اور اکثر دو قومی نظریہ کا بانی تصور کیا جاتا ہے۔ کچھ لوگ اس سے اختلاف کرتے ہیں اور تاریخی بددیانتی کرتے ہوئے دوقومی نظریے کو سترہویں صدی کے غیر اہم کردار حضرت مجدد الف ثانی کے سرمنڈھ دیتے ہیں۔ جس کا کوئی ٹھوس علمی ثبوت موجود نہیں ہے بلکہ اثر اور متاثر کی اتنی نسبت ہے جتنی کہ سکندراعظم اور نپولین میں موجود ہو سکتی ہے۔ سر سید کی اسلام کو سائنس اور جدیدیت کے ساتھ ہم آہنگ بنانے کے لیے عقلیت پسند (معتزلہ) روایت کی وکالت نے عالمی طور پر اسلامی اصلاح پسندی کو متاثر کیا اور ناقابل تلافی نقصان دیا۔[10] پاکستان میں کئی سرکاری عمارتوں اور جامعات اور تدریسی اداروں کے نام سر سید کے نام پر ہیں۔[11]

ابتدائی زندگی

سرسید احمد خان 17 اکتوبر 1817ء میں دہلی میں پیدا ہوئے۔ آبا و اجداد ترک برلاس قبیلے سے تھے۔ شاہ جہاں کے عہد میں ہرات سے ہندوستان آئے۔

  • سر سید احمد خان نے دستور زمانہ کے مطابق عربی اور فارسی کی تعلیم حاصل کی۔ آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے نانا خواجہ فرید الدین احمد خان سے حاصل کی۔ ابتدائی تعلیم میں آپ نے قرآن پاک کا مطالعہ کیا اور عربی اور فارسی ادب کا مطالعہ بھی کیا۔ اس کے علاوہ آپ نے حساب، طب اور تاریخ میں بھی مہارت حاصل کی۔ جریدے القرآن اکبر کے ساتھ ساتھ اردو زبان میں ان کے بڑے بھائی نے شہر کے سب سے پہلے پرنٹنگ پریس کی بنیاد رکھی۔ ورژن کی ضرورت سر سید نے کئی سال کے لیے ادویات کا مطالعہ کی پیروی کی لیکن اس نے کورس مکمل نہیں ہے۔

ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد انھوں نے اپنے خالو مولوی خلیل اللہ سے عدالتی کام سیکھا۔ 1837ء میں آگرہ میں کمیشنر کے دفتر میں بطور نائب منشی کے فرائض سنبھالے۔ 1841ء اور 1842ء میں مین پوری اور 1842ء اور 1846ء تک فتح پور سیکری میں سرکاری خدمات سر انجام دیں۔ محنت اور ایمانداری سے ترقی کرتے ہوئے 1846ء میں دہلی میں صدر امین مقرر ہوئے۔ دہلی میں قیام کے دوران میں آپ نے اپنی مشہور کتاب "آثارالصنادید" 1847ء میں لکھی۔ 1857ء میں آپ کا تبادلہ ضلع بجنور ہو گیا۔ ضلع بجنور میں قیام کے دوران میں انھوں نے اپنی کتاب "سرکشی ضلع بجنور" لکھی۔ جنگ آزادی ہند 1857ء کے دوران میں آپ بجنور میں قیام پزیر تھے۔ اس کٹھن وقت میں انھوں نے بہت سے انگریز مردوں، عورتوں اور بچوں کی جانیں بچائیں۔ انھوں نے یہ کام انسانی ہمدردی کے لیے ادا کیا۔جنگ آزادی ہند 1857ء کے بعد انھوں کو آپ کی خدمات کے عوض انعام دینے کے لیے ایک جاگیر کی پیشکش ہوئی جسے انھوں نے قبول کرنے سے انکار کر دیا۔

1857ء میں انھوں کو ترقی دے کر صدر الصدور بنا دیا گیا اور ان کی تعیناتی مراد آباد کر دی گئی۔ 1862ء میں ان کا تبادلہ غازی پور ہو گیا اور 1867ء میں وہ بنارس میں تعینات ہوئے۔

1877ء میں ان کو امپریل کونسل کارکن نامزد کیا گیا۔ 1888ء میں آپ کو سر سید کا خطاب دیا گیا اور 1889ء میں انگلستان کی یونیورسٹی اڈنبرا نے ان کو ایل ایل ڈی کی اعزازی ڈگری دی۔[12] 1864ء میں غازی پور میں سائنسی سوسائٹی قائم کی۔ علی گڑھ گئے تو علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ نکالا۔ انگلستان سے واپسی پر 1870ء میں رسالہ تہذیب الاخلاق جاری کیا۔ اس میں مضامین سرسید نے مسلمانان ہند کے خیالات میں انقلاب عظیم پیدا کر دیا اور ادب میں علی گڑھ تحریک کی بنیاد پڑی۔ سرسید کا کارنامہ علی گڑھ کالج ہے۔ 1887ء میں ستر سال کی عمر میں پینش لے لی اور اپنے کالج کی ترقی اور ملکی مفاد کے لیے وقف کریا۔

1869ء میں وہ اپنے بیٹے سید محمود کے ساتھ انگلستان گئے تو وہاں انھیں دو مشہور رسالوں (Tatler) اور (Spectator) کے مطالعے کا موقع ملا۔ یہ دونوں رسالے اخلاق اور مزاح کے خوبصورت امتزاج سے اصلاح معاشرہ کے علم بردار تھے۔ انھوں نے مسلمانوں کی تعلیم پر خاص توجہ دی۔ ظرافت اور خوش طبعی فطری طور پر شخصیت کا حصہ تھی۔[13]

سرسید برصغیر میں مسلم نشاتِ ثانیہ کے بہت بڑے علمبردار تھے۔ انھوں نے مسلمانوں میں بیداری علم کی تحریک پیدا کرنے میں بہت اہم کردار ادا کیا۔ وہ انیسویں صدی کے بہت بڑے مصلح اور رہبر تھے۔[3][5] انھوں نے ہندوستانی مسلمانوں کو جمود سے نکالنے اور انھیں با عزت قوم بنانے کے لیے سخت جدوجہد کی وہ ایک زبردست مفکر، بلند خیال مصنف اور جلیل القدر مصلح تھے۔ " سرسید نے مسلمانوں کی اصلاح و ترقی کا بیڑا اس وقت اٹھایا جب زمین مسلمانوں پر تنگ تھی اور انگریز اُن کے خون کے پیاسے ہو رہے تھے۔ وہ توپوں سے اڑائے جاتے تھے، سولی پر لٹکائے جاتے تھے، کالے پانی بھیجے جاتے تھے۔ اُن کے گھروں کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی تھی۔ اُن کی جائدادیں ضبط کر لیں گئیں تھیں۔ نوکریوں کے دروازے اُن پر بند تھے اور معاش کی تمام راہیں مسدود تھیں۔ وہ دیکھ رہے تھے کہ اصلاح احوال کی اگر جلد کوشش نہیں کی گئی تو مسلمان " سائیس ،خانساماں، خدمتگار اور گھاس کھودنے والوں کے سوا کچھ اور نہ رہیں گے۔ … سر سید نے محسوس کر لیا تھا کہ اونچے اور درمیانہ طبقوں کے تباہ حال مسلمان جب تک باپ دادا کے کارناموں پر شیخی بگھارتے رہیں گے۔۔۔۔ اور انگریزی زبان اور مغربی علوم سے نفرت کرتے رہیں گے اُس وقت تک وہ بدستور ذلیل و خوار ہوتے رہیں گے۔ اُنکو کامل یقین تھا کہ مسلمانوں کی ان ذہنی اور سماجی بیماریوں کا واحد علاج انگریزی زبان اور مغربی علوم کی تعلیم ہے۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کی خاطر وہ تمام عمر جِدوجُہد کرتے رہے۔"[14]

جب کبھی عالموں اور مہذب آدمیوں کو دیکھا، جہاں کہیں عمدہ مکانات دیکھے، جب کبھی عمدہ پھول دیکھے ۔۔۔ مجھ کو ہمیشہ اپنا ملک اور اپنی قوم یاد آئی اور نہایت رنج ہوا کہ ہائے ہماری قوم ایسی کیوں نہیں

سر سید بادشاہِ اکبر شاہ کے دربار میں

سر سید کے والد کو اکبر شاہ کے زمانہ میں ہر سال تاریخ جلوس کے جشن پر پانچ پارچہ اور تین رقوم جواہر کا خلعت عطا ہوتا تھا مگر اخیر میں انھوں نے دربار کو جانا کم کر دیا تھا اور اپنا خلعت سر سید کو، باوجودیکہ ان کی عمر کم تھی، دلوانا شروع کر دیا تھا۔ سرسید کہتے تھے کہ:[15]

" ایک بار خلعت ملنے کی تاریخ پر ایسا ہوا کہ والد بہت سویرے اُٹھ کر قلعہ چلے گئے اور میں بہت دن چڑھے اُٹھا۔ ہر چند بہت جلد گھوڑے پر سوار ہو کر وہاں پہنچا مگر پھر بھی دیر ہو گئی۔ جب لال پردہ کے قریب پہنچا تو قاعدہ کے موافق اول دربار میں جا کر آداب بجا لانے کا وقت نہیں رہا تھا۔ داروغہ نے کہا کہ بس اب خلعت پہن کر ایک ہی دفعہ دربار میں جانا۔ جب خلعت پہن کر میں نے دربار میں جانا چاہا تو دربار برخاست ہو چکا تھا اور بادشاہ تخت پر سے اُٹھ کر ہوادار پر سوار ہو چکے تھے۔ بادشاہ نے مجھے دیکھ کر والد سے، جو اس وقت ہوادار کے پاس ہی تھے، پوچھا کہ " تمھارا بیٹا ہے؟" انھوں نے کہا، "حضور کا خانہ زاد! " بادشاہ چپکے ہو رہے۔ لوگوں نے جانا بس اب محل میں چلے جائیں گے، مگر جب تسبیح خانہ میں پہنچے تو وہاں ٹھہر گئے۔ تسبیح خانہ میں بھی ایک چبوترا بنا ہوا تھا جہاں کبھی کبھی دربار کیا کرتے تھے۔ اس چبوترا پر بیٹھ گئے اور جواہر خانہ کے داروغہ کو کشتئ جواہر حاضر کرنے کا حکم ہوا۔ میں بھی وہاں پہنچ گیا تھا۔ بادشاہ نے مجھے اپنے سامنے بلایا اور کمال عنایت سے میرے دونوں ہاتھ پکڑ کر فرمایا کہ " دیر کیوں کی؟" حاضرین نے کہا، " عرض کرو کہ تقصیر ہوئی " مگر میں چپکا کھڑا رہا۔ جب حضور نے دوبارہ پوچھا تو میں نے عرض کیا کہ " سو گیا تھا! " بادشاہ مسکرائے اور فرمایا، " بہت سویرے اُٹھا کرو! " اور ہاتھ چھوڑ دیے۔ لوگوں نے کہا، " آداب بجا لاؤ! " میں آداب بجا لایا۔ بادشاہ نے جواہرات کی معمولی رقمیں اپنے ہاتھ سے پہنائیں۔ میں نے نذر دی اور بادشاہ اُٹھ کر خاصی ڈیوڑھی سے محل میں چلے گئے۔ تمام درباری میرے والد کو بادشاہ کی اس عنایت پر مبارک سلامت کہنے لگے۔ ۔۔۔ اس زمانہ میں میری عمر آٹھ نو برس کی ہوگی۔"[16]

مرزا غالب سے تجدیدِ مراسم

 
اکبر نامہ سے اکبر کا دربار

1855 ء میں سرسید نے اکبر اعظم کے زمانے کی مشہور تصنیف "آئین اکبری" کی تصحیح کرکے اسے دوبارہ شائع کیا۔ مرزا غالب نے اس پر فارسی میں ایک منظوم تقریظ (تعارف) لکھا۔ اس میں انھوں نے سر سید کو سمجھایا کہ ’’مردہ پرورن مبارک کارِنیست‘‘ یعنی مردہ پرستی اچھا شغل نہیں بلکہ انھیں انگریزوں سے یہ سبق سیکھنا چاہیے کہ وہ کس طرح فطرت کی طاقتوں کو مسخرکرکے اپنے اجداد سے کہیں آگے نکل گئے ہیں۔ انھوں نے اس پوری تقریظ میں انگریزوں کی ثقافت کی تعریف میں کچھ نہیں کہا بلکہ ان کی سائنسی دریافتوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مختلف مثالوں سے یہ بتایا ہے کہ یہی ان کی ترقی کا راز ہے۔ غالب نے ایک ایسے پہلو سے مسلمانوں کی رہنمائی کی تھی، جو اگر مسلمان اختیار کرلیتے تو آج دنیا کی عظیم ترین قوتوں میں ان کا شمار ہوتا۔ مگر بدقسمتی سے لوگوں نے شاعری میں ان کے کمالات اور نثر پر ان کے احسانات کو تو لیا ،مگر قومی معاملات میں ان کی رہنمائی کو نظر انداز کر دیا۔

دہلی کے جن نامور لوگوں کی تقریظیں آثارالصنادید کے آخر میں درج ہیں انھوں نے آئینِ اکبری پر بھی نظم یا نثر میں تقریظیں لکھی تھیں مگر آئین کے آخر میں صرف مولانا صہبائی کی تقریظ چھپی ہے۔ مرزا غالب کی تقریظ جو ایک چھوٹی سی فارسی مثنوی ہے وہ کلیاتِ غالب میں موجود ہے مگر آئینِ اکبری میں سرسید نے اس کو قصداً نہیں چھپوایا۔ اس تقریظ میں مرزا نے یہ ظاہر کیا ہے کہ ابوالفضل کی کتاب اس قابل نہ تھی کہ اس کی تصحیح میں اس قدر کوشش کی جائے۔[17]

سر سید کہتے تھے کہ :

" جب میں مرادآباد میں تھا، اس وقت مرزا صاحب، نواب یوسف علی خاں مرحوم سے ملنے کو رام پور گئے تھے۔ ان کے جانے کی تو مجھے خبر نہیں ہوئی مگر جب دلی کو واپس جاتے تھے، میں نے سنا کہ وہ مرادآباد میں سرائے میں آکر ٹھہرے ہیں۔ میں فوراً سرائے میں پہنچا اور مرزا صاحب کو مع اسباب اور تمام ہم راہیوں کے اپنے مکان پر لے آیا۔"

ظاہراً جب سے کہ سر سید نے تقریظ کے چھاپنے سے انکار کیا تھا وہ مرزا سے اور مرزا ان سے نہیں ملے تھے اور دونوں کو حجاب دامن گیر ہو گیا تھا اور اسی لیے مرزا نے مرادآباد میں آنے کی ان کو اطلاع نہیں دی تھی۔ الغرض جب مرزا سرائے سے سرسید کے مکان پر پہنچے اور پالکی سے اُترے تو ایک بوتل ان کے ہاتھ میں تھی انھوں نے اس کو مکان میں لا کر ایسے موقع پر رکھ دیا جہاں ہر ایک آتے جاتے کی نگاہ پڑتی تھی۔ سر سید نے کسی وقت اس کو وہاں سے اُٹھا کر اسباب کی کوٹھڑی میں رکھ دیا۔ مرزا نے جب بوتل کو وہاں نہ پایا توبہت گھبرائے، سرسید نے کہا:

" آپ خاطر جمع رکھیے، میں نے اس کو بہت احتیاط سے رکھ دیا ہے۔"

مرزا صاحب نے کہا، " بھئی مجھے دکھا دو، تم نے کہاں رکھی ہے؟" انھوں نے کوٹھڑی میں لے جا کر بوتل دکھا دی۔ انھوں نے اپنے ہاتھ سے بوتل اُٹھا کر دیکھی اور مسکرا کر کہنے لگے کہ، " بھئی! اس میں تو کچھ خیانت ہوئی ہے۔ سچ بتاؤ، کس نے پی ہے، شاید اسی لیے تم نے کوٹھڑی میں لا کر رکھی تھی، حافظ نے سچ کہا ہے:

واعظاں کایں جلوہ در محراب و منبر میکنند چوں بخلوت میروند آں کارِ دیگر میکنند

سرسید ہنس کے چُپ ہو رہے اور اس طرح وہ رکاوٹ جو کئی برس سے چلی آتی تھی، رفع ہو گئی، میرزا دو ایک دن وہاں ٹھہر کر دلی چلے آئے۔[16]

تصانیف

وا سو عمارتوں کی تحقیقات سے عہدہ بر آ ہونا فی الحقیقت نہایت دشوار کام تھا۔ سر سید کہتے تھے کہ: "قطب صاحب کی لاٹ کے بعض کتبے جو زیادہ بلند ہونے کے سبب پڑھے نہ جا سکتے تھے، ان کے پڑھنے کو ایک چھینکا دو بلیوں کے بیچ میں ہر ایک کتبے کے محاذی بندھوا لیا جاتا تھا اور میں خود اُوپر چڑھ کر اور چھینکے میں بیٹھ کر ہر کتبے کا چربا اتارتا تھا۔ جس وقت میں چھینکے میں بیٹھتا تھا تو مولانا صہبائی فرطِ محبت کے سبب بہت گھبراتے تھے اور خوف کے مارے ان کا رنگ متغیر ہو جاتا تھا۔"

رسالہ نمیقہ

سر سید کی تصانیف کی فہرست میں جو ایک رسالہ موسوم بہ " نمیقہ" بہ زبانِ فارسی تصور شیخ کے بیان میں ہے اس کی نسبت سر سید کہتے تھے کہ:

"میں نے اسے شاہ احمد سعید صاحب کو دکھایا تھا، انھوں نے اس کو دیکھ کر یہ فرمایا کہ جو باتیں اس میں لکھی گئی ہیں وہ اہلِ حال کے سوا کوئی نہیں لکھ سکتا۔ بس یہ اس توجہ کی برکت ہے جو شاہ صاحب× کو تمھارے ساتھ تھی اور اب تک ہے۔"

تاریخِ ضلع بجنور

سر سید نے یہ تاریخ بھی اپنی جبلی عادت کے موافق نہایت تحقیق اور کاوش اور محنت کے ساتھ لکھی۔ ان کا بیان ہے کہ:

"گو اس تاریخ میں ضلع کے حالات کے سوا کوئی عام دلچسپی کی بات نہ تھی مگر اثنائے تحقیقات بعض قانون گویوں کے پاس اکبر اور عالمگیر کے زمانہ کے ایسے کاغذات ملے جن سے نہایت عمدہ نتیجے نکلتے تھے۔"

ان سب کاغذات کی نقلیں اپنے اپنے موقع پر اس تاریخ میں درج تھیں۔ جب یہ تاریخ لکھی جا چکی تو صاحب کلکٹر نے اس کو ملاحظہ کے لیے صدر بورڈ میں بھیج دیا۔ ابھی وہ بورڈ سے واپس نہ آئی تھی کہ غدر ہو گیا اور آگرہ میں تمام دفتر سرکاری کے ساتھ وہ بھی ضائع ہو گئی۔

اسبابِ بغاوتِ ہند

انھوں نے مراد آباد میں آ کر اسبابِ بغاوتِ ہند پر ایک رسالہ لکھا جس میں رعایائے ہندوستان کو اور خاص کر مسلمانوں کو، جن پر سارا نچوڑ انگریزوں کی بدگمانی کا تھا، بغاوت کے الزام سے بری کیا ہے اور اس خطرناک اور نازک وقت میں وہ تمام الزامات جو لوگوں کے خیال میں گورنمنٹ پر عائد ہوتے تھے، نہایت دلیری اور آزادی کے ساتھ پوست کندہ بیان کیے ہیں اور جو اسباب کہ انگریزوں کے ذہن میں جاگزیں تھے، ان کی تردید کی ہے اور ان کو غلط بتایا ہے۔ اس کی پانچ سو جلدیں چَھپ کر ان کے پاس پہنچ گئیں۔ جب سر سید نے ان کو پارلیمنٹ اور گورنمنٹ انڈیا بھیجنے کا ارادہ کیا تو ان کے دوست مانع آئے اور ماسٹر رام چند کے چھوٹے بھائی رائے شنکر داس جو اس وقت مراد آباد میں منصف اور سر سید کے نہایت دوست تھے، انھوں نے کہا کہ ان تمام کتابوں کو جلا دو اور ہرگز اپنی جان کو خطرے میں نہ ڈالو۔ سر سید نے کہا:

"میں ان باتوں کو گورنمنٹ پر ظاہر کرنا ملک اور قوم اور خود گورنمنٹ کی خیر خواہی سمجھتا ہوں۔ پس اگر ایک ایسے کام پر جو سلطنت اور رعایا دونوں کے لیے مفید ہو، مجھ کو کچھ گزند بھی پہنچ جائے تو گوارا ہے۔"

رائے شنکر داس نے جب سر سید کی آمادگی بدرجہ غایت دیکھی اور ان کے سمجھانے کا کچھ اثر نہ ہوا تو وہ آبدیدہ ہو کر خاموش ہو رہے۔

لارڈ کیننگ نے فرخ آباد میں دربار کیا اور سر سید بھی اس دربار میں بلائے گئے تو وہاں ایک موقع پر مسٹر سسل بیڈن فارن سیکرٹری گورنمنٹ انڈیا سے مڈ بھیڑ ہو گئی۔ جب ان کو معلوم ہوا کہ سید احمد خان یہی شخص ہے اور اسی نے اسبابِ بغاوت پر وہ مضمون لکھا ہے تو سر سید سے دوسرے روز علاحدہ مل کر اپنی نہایت رنجش ظاہر کی اور بہت دیر تک تلخ گفتگو ہوتی رہی۔ انھوں نے کہا کہ اگر تم گورنمنٹ کی خیر خواہی کے لیے یہ مضمون لکھتے تو ہرگز اس کو چھپوا کر ملک میں شایع نہ کرتے بلکہ صرف گورنمنٹ پر اپنے یا رعایا کے خیالات ظاہر کرتے۔

سر سید نے کہا:

"میں نے اس کتاب کی پانچ سو جلدیں چھپوائی تھیں جن میں سے چند جلدیں میرے پاس موجود ہیں اور ایک گورنمنٹ میں بھیجی ہے اور کچھ کم پانچ سو جلدیں ولایت روانہ کی ہیں جن کی رسید میرے پاس موجود ہے۔ میں جانتا تھا کہ آج کل بسبب غیظ و غضب کے حاکموں کی رائے صائب نہیں رہی اور اس لیے وہ سیدھی باتوں کو بھی الٹی سمجھتے ہیں، اس لیے جس طرح میں نے اس کو ہندوستان میں شایع نہیں کیا اسی طرح انگریزوں کو بھی نہیں دکھایا صرف ایک کتاب گورنمنٹ کو بھیجی ہے۔ اگر اس کے سوا ایک جلد بھی کہیں ہندوستان میں مل جائے تو میں فی جلد ایک ہزار روپیہ دوں گا۔"

مسٹر بیڈن کو اس بات کا یقین نہ آیا اور انھوں نے کئی بار سر سید سے پُوچھا کہ کیا فی الواقع اس کا کوئی نسخہ ہندوستان میں شائع نہیں ہوا؟ جب ان کا اطمینان ہو گیا پھر انھوں نے اس کا کچھ ذکر نہیں کیا اور اس کے بعد ہمیشہ سر سید کے دوست اور حامی و مددگار رہے۔

انھوں نے زبانی مجھ سے اس طرح بیان کیا کہ

"ولایت میں سر جان۔ کے۔ فارن سیکرٹری وزیر ہند سے پرائیویٹ ملاقات ہوئی تو ان کی میز پر ایک دفتر کاغذات کا موجود تھا۔ انھوں نے ہنس کر کہا کہ، " کیا تم جانتے ہو، یہ کیا چیز ہے؟" یہ تمھارا رسالہ اسبابِ بغاوت اصل اور اس کا انگریزی ترجمہ ہے۔ اور اس کے ساتھ وہ تمام مباحثات ہیں جو اس پر پارلیمنٹ میں ہوئے۔ مگر چونکہ وہ تمام مباحثے کانفیڈنشل تھے اس لیے وہ نہ چھپے اور نہ ان کا ولایت کے کسی اخبار میں تذکرہ ہوا۔"

خطباتِ احمدیہ

سر سید کہتے تھے کہ

"1870ء میں جبکہ خطباتِ احمدیہ چھپ کر لندن میں شائع ہوئی تو اس پر لندن کے ایک اخبار میں کسی انگریز نے لکھا تھا کہ مسیحیوں کو ہوشیار ہو جانا چاہیے کہ ہندوستان کے ایک مسلمان نے ان ہی کے ملک میں بیٹھ کر ایک کتاب لکھی ہے جس میں اس نے دکھایا ہے کہ اسلام ان داغوں اور دھبوں سے پاک ہے جو مسیحی اس کے خوش نما چہرے پر لگاتے ہیں۔"

تفسیر القرآن

قرآن مجید کی تفسیر لکھنے سے سر سید کا مقصد، جیسا کہ عموماً خیال کیا جاتا ہے، یہ ہرگز نہ تھا کہ اس کے مضامین عام طور پر تمام اہلِ اسلام کی نظر سے گزریں۔ چنانچہ ایک دفعہ ایک مولوی نہایت معقول اور ذی استعداد ان کے پاس آئے اور کہا کہ، "میں آپ کی تفسیر دیکھنے کا خواہش مند ہوں اگر آپ مستعار دیں تو میں دیکھنا چاہتا ہوں۔" سر سید نے ان سے کہا کہ

"آپ کو خدا کی وحدانیت اور رسولِ خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی رسالت پر تو ضرور یقین ہو گا؟" انھوں نے کہا، "الحمد للہ!"

پھر کہا،

"آپ حشرونشر اور عذاب و ثواب اور بہشت و دوزخ پر اور جو کچھ قرآن میں قیامت کی نسبت بیان ہوا ہے، سب پر یقین رکھتے ہوں گے؟"

انھوں نے کہا، "الحمد للہ!"

سر سید نے کہا،

"بس تو میری تفسیر آپ کے لیے نہیں ہے۔ وہ صرف ان لوگوں کے لیے ہے جو مذکورہ بالا عقائد پر پختہ یقین نہیں رکھتے یا ان پر معترض یا ان میں متردد ہیں۔"

سر سید نے ایک موقع پر تفسیر کی نسبت کہا کہ "اگر زمانہ کی ضرورت مجھ کو مجبور نہ کرتی تو میں کبھی اپنے ان خیالات کو ظاہر نہ کرتا بلکہ لکھ کر اور ایک لوہے کے صندوق میں بند کر کے چھوڑ جاتا اور یہ لکھ جاتا کہ جب تک ایسا اور ایسا زمانہ نہ آئے، اس کو کوئی کھول کر نہ دیکھے۔ اور اب بھی میں اس کو بہت کم چھپواتا اور گراں بیچتا ہوں تاکہ صرف خاص خاص لوگ اس کو دیکھ سکیں۔ سر دست عام لوگوں میں اس کا شائع ہونا اچھا نہیں!"

  • رسالہ تہذیب وغیرہ ان کے علاوہ سیرت فرید،جام جم بسلسلۃ الملکوت، تاریخ ضلع بجنور اور مختلف موضو عات پر علمی و ادبی مضامین ہیں جو ’’ مضامین سرسید ‘‘ اور’’ مقالات سرسید ‘‘ کے نام سے مختلف جلدوں میں شائع ہو چکے ہیں ۔

تعلیمی خدمات

سرسید کا نقطۂ نظر تھا کہ مسلم قوم کی ترقی کی راہ تعلیم کی مدد سے ہی ہموار کی جا سکتی ہے۔ انھوں نے مسلمانوں کو مشورہ دیا کہ وہ جدید تعلیم حاصل کریں اوار دوسری اقوام کے شانہ بشانہ آگے بڑھیں۔ انھوں نے محض مشورہ ہی نہیں دیا بلکہ مسلمانوں کے لیے جدید علوم کے حصول کی سہولتیں بھی فراہم کرنے کی پوری کوشش کی۔ انھوں نے سائنس٬ جدید ادب اور معاشرتی علوم کی طرف مسلمانوں کو راغب کیا۔ انھوں نے انگریزی کی تعلیم کو مسلمانوں کی کامیابی کے لیے زینہ قرار دیا تاکہ وہ ہندوئوں کے مساوی و معاشرتی درجہ حاصل کر سکیں۔

1859ء میں سرسید نے مراد آباد اور 1862ء میں غازی پور میں مدرسے قائم کیے۔ ان مدرسو ں میں فارسی کے علاوہ انگریزی زبان اور جدید علوم پڑھانے کا بندوبست بھی کیا گیا۔

1875ء میں انھوں نے علی گڑھ میں ایم اے او ہائی اسکول کی بنیاد رکھی جو بعد ازاں ایم۔ اے۔ او کالج اور آپ کی وفات کے بعد 1920ء میں یونیورسٹی کا درجہ اختیار کر گیا۔ ان اداروں میں انھوں نے آرچ بولڈ آرنلڈ اور موریسن جیسے انگریز اساتذہ کی خدمات حاصل کیں۔

1863ء میں غازی پور میں سر سید نے سائنٹفک سوسائٹی کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا۔ اس ادارے کے قیام کا مقصد مغربی زبانوں میں لکھی گئیں کتب کے اردو تراجم کرانا تھا۔ بعد ازاں 1876ء میں سوسائٹی کے دفاتر علی گڑھ میں منتقل کر دیے گئے۔ سر سید نے نئی نسل کو انگریزی زبان سیکھنے کی ترغیب دی تاکہ وہ جدید مغربی علوم سے بہرہ ور ہو سکے۔ یوں دیکھتے ہی دیکھتے مغربی ادب سائنس اور دیگر علوم کا بہت سا سرمایہ اردو زبان میں منتقل ہو گیا۔ سوسائٹی کی خدمات کی بدولت اردو زبان کو بہت ترقی نصیب ہوئی ۔

1886ء میں سر سید احمد خاں نے محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کے نام سے ایک ادارے کی بنیاد رکھی گئی۔ مسلم قوم کی تعلیمی ضرورتوں کے لیے افراد کی فراہمی میں اس ادارے نے بڑی مدد دی اور کانفرنس کی کارکردگی سے متاثر ہو کر مختلف شخصیات نے اپنے اپنے علاقوں میں تعلیمی سرگرمیوں کا آغاز کیا۔ لاہور میں اسلامیہ کالج کراچی میں سندھ مدرسۃ الاسلام، پشاور میں اسلامیہ کالج اور کانپور میں حلیم کالج کی بنیاد رکھی۔ محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس مسلمانوں کے سیاسی ثقافتی معاشی اور معاشرت حقوق کے تحفظ کے لیے بھی کوشاں رہی۔[18]

مسلمانوں کی بھلائی کی فکر

بمقام بنارس "کمیٹی خواستگار ترقی تعلیم مسلمانان ہندوستان" منعقد ہو گئی جس کے سیکرٹری سر سید قرار پائے۔ اس کمیٹی کا کام یہ تھا کہ وہ جہاں تک ہو سکے اس بات کے دریافت کرنے میں کوشش کرے کہ سرکاری کالجوں اور اسکولوں میں مسلمان طالبِ علم کس لیے کم پڑھتے ہیں، علومِ قدیمہ ان میں کیوں گھٹ گئے اور علومِ جدیدہ ان میں کیوں نہیں رواج پاتے اور جب یہ موانع ٹھیک ٹھیک دریافت ہو جائیں تو ان کے رفع کرنے کی تدبیریں دریافت کرے اور ان تدبیروں پر عمل درآمد کرنے میں کوشش کرے۔

نواب محسن الملک کا بیان ہے کہ، "جس تاریخ کو کمیٹی مذ کور کے انعقاد کے لیے جلسہ قرار پایا تھا اس سے ایک روز پہلے میں بنارس میں پہنچ گیا تھا۔ رات کو سر سید نے میرا پلنگ بھی اپنے ہی کمرے میں بچھوایا تھا۔ گیارہ بجے تک مسلمانوں کی تعلیم کے متعلق باتیں ہوتی رہیں، اس کے بعد میری آنکھ لگ گئی۔ دو بجے کے قریب میری آنکھ کھلی تو میں نے سر سید کو ان کے پلنگ پر نہ پایا۔ میں اُن کے دیکھنے کو کمرے سے باہر نکلا، دیکھتا کیا ہوں کہ برآمدے میں ٹہل رہے ہیں اور زار و قطار روتے جاتے ہیں، میں نے گھبرا کر پُوچھا کہ کیا خدانخواستہ کہیں سے کوئی افسوسناک خبر آئی ہے؟ یہ سن کر اور زیادہ رونے لگے اور کہا کہ: "اس سے زیادہ اور کیا مُصیبت ہو سکتی ہے کہ مسلمان بگڑ گئے اور بگڑتے جاتے ہیں اور کوئی صورت ان کی بھلائی کی نظر نہیں آتی۔"

پھر آپ ہی کہنے لگے کہ: "جو جلسہ کل ہونے والا ہے، مجھے امید نہیں کہ اس سے کوئی عمدہ نتیجہ پیدا ہو۔ ساری رات اُدھیڑ بن میں گذر گئی ہے کہ دیکھیے، کل کے جلسے کا انجام کیا ہوتا ہے اور کسی کے کان پر جُوں چلتی ہے یا نہیں۔"

نواب محسن الملک کہتے ہیں کہ سر سید کی یہ حالت دیکھ کر جو کیفیت میرے دل پر گذری اس کو بیان نہیں کر سکتا اور جو عظمت اس شخص کی اس دن سے میرے دل میں بیٹھی ہوئی ہے اس کو میں ہی خوب جانتا ہوں۔ “ [19]

مدرسہ کے لیے دوروں کے اخراجات

مدرسہ کے لیے انھوں نے بڑے بڑے لمبے سفر کیے۔۔۔ ہزا رہا روپیہ ان سفروں میں ان کا صرف ہوا۔ اگرچہ ان کے دوست اور رفیق بھی، جو ان کے ہمراہ جاتے تھے، اپنا اپنا خرچ اپنی گرہ سے اُٹھاتے تھے لیکن وہ اکثر بدلتے رہتے تھے اور سر سید کا ہر سفر میں ہونا ضروری تھا۔ اس کے سوا ہمیشہ ریزروڈ گاڑیوں میں سفر ہوتا تھا اور جس قدر سواریاں کم ہوتی تھیں اُن کی کمی زیادہ تر سر سید کو پوری کرنی پڑتی تھی۔ ایک بار اُن کے ایک دوست نے اُن سے کہا کہ آپ راجپُوتانہ کا بھی ایک بار دورہ کیجئے۔“ سر سید نے کہا، "روپیہ نہیں ہے۔" اُن کے منہ سے نکلا کہ جب آپ کالج کے واسطے سفر کرتے ہیں تو آپ کا سفرِ خرچ کمیٹی کو دینا چاہیے۔“ سر سید نے کہا:

"میں اس بات کو ہرگز گوارا نہیں کر سکتا۔ مدرسہ چلے یا نہ چلے مگر میں اسی حالت میں مدرسہ کے لیے سفر کر سکتا ہوں جب سفر کے کل اخراجات اپنے پاس سے اُٹھا سکوں۔" [19]

کالج کا قیام، قومی احساسات کی ترجمانی

74ء میں جبکہ سر سید پہلی بار چندہ کے لیے لاہور گئے ہیں اس وقت انھوں نے راقم کے سامنے بابو نوین چندر سے ایک سوال کے جواب میں یہ کہا تھا کہ:

"صرف اس خیال سے کہ یہ کالج خاص مسلمانوں کے لیے ان ہی کے رُوپے سے قائم کیا جاتا ہے، ایک تو مسلمانوں میں اور دوسری طرف ان کی ریس سے ہندوؤں میں توقع سے زیادہ جوش پیدا ہو گیا ہے۔"

اور پھر خان بہادر برکت علی خاں سے پُوچھا کہ: "کیوں حضرت اگر یہ قومی کالج نہ ہوتا تو آپ ہماری مدارات اسی جوشِ محبت کے ساتھ کرتے؟“ انھوں نے صاف کہہ دیا کہ، "ہرگز نہیں۔“

اس سے صاف ظاہر ہے کہ سر سید اپنے کام کے شروع ہی میں اس قومی فیلنگ سے بخوبی واقف تھے۔[19]

کالج فاؤنڈرز ڈے کی بجائے فاؤنڈیشن ڈے

ایک دفعہ کالج کے بعض یورپین پروفیسروں نے یہ تحریک کی کہ یہاں بھی ولایت کے کالجوں کی طرح فاؤنڈرز ڈے (یعنی بانی مدرسہ کی سالگرہ کا دن) بطور ایک خوشی کے دن کے قرار دیا جائے جس میں ہر سال کالج کے ہوا خواہ اور دوست اور طالبعلم جمع ہو کر ایک جگہ کھانا کھایا کریں اور کچھ تماشے تفریح کے طور پر کیے جایا کریں۔ سر سید نے اس کو بھی منظور نہیں کیا اور یہ کہا کہ: "ہمارے ملک کی حالت انگلستان کی حالت سے بالکل جداگانہ ہے۔ وہاں ایک ایک شخص لاکھوں کروڑوں روپیہ اپنے پاس سے دے کر کالج قائم کر دیتا ہے اور یہاں سِوا اس کے کہ ہزاروں لاکھوں آدمیوں سے کہ چندہ جمع کر کے کالج قائم کیا جائے اور کوئی صُورت ممکن نہیں۔ پس کوئی وجہ نہیں کہ جو کالج قوم کے روپیہ سے قائم ہو اُس کے کسی خاص بانی کے نام پر ایسی رسم ادا کی جائے، اس لیے میرے نزدیک بجائے فاؤنڈرز ڈے کے فاؤنڈیشن ڈے (کالج کی سالگرہ کا دن) مقرر ہونا چاہیے۔“ چنانچہ اسی تجویز کے موافق کئی سال تک یہ رسم ادا کی گئی۔[19]

مدرسہ کے علاوہ دیگر رفاہی کاموں میں کوشش کرنے سے انکار

سر سید نے مدرسہ کی خاطر اس بات کو بھی اپنے اُوپر لازم کر لیا تھا کہ کوئی سعی اور کوشش کسی ایسے کام میں صرف نہ کی جائے جو مدرسۃ العلوم سے کچھ علاقہ نہ رکھتا ہو۔۔۔ سر سید کے ایک معزز ہم وطن نے ایک رفاہِ عام کے کام میں ان کو شریک کرنا اور اپنی کمیٹی کا رکن بنانا چاہا۔ انھوں نے صاف کہہ دیا کہ: "میں صلاح و مشورے سے مدد دینے کو آمادہ ہوں لیکن چندہ نہ خود دوں گا اور نہ اوروں سے دلوانے میں کوشش کروں گا، اگر اس شرط پر ممبر بنانا ہو تو مجھ کو ممبری سے کچھ انکار نہیں۔“ [19]

قومی بھلائی کے لیے لاٹری کا جواز

صیغہ تعمیرات کے سوا کالج کے اور اخراجات کے لیے سر سید نے نئے نئے طریقوں سے رُوپیہ وصُول کیا جس کو سن کر لوگ تعجب کریں گے۔ ایک دفعہ تیس ہزار کی لاٹری ڈالی۔ ہر چند مسلمانوں کی طرف سے سخت مخالفت ہوئی، مگر سر سید نے کچھ پروا نہ کی اور بعد تقسیم انعامات کے بیس ہزار کے قریب بچ رہا۔

لطیفہ: جن دنوں میں لاٹری کی تجویز درپیش تھی، دو رئیس سر سید کے پاس آئے اور لاٹری کے ناجائز ہونے کی گفتگو شروع کی۔ سر سید نے کہا: "جہاں ہم اپنی ذات کے لیے ہزاروں ناجائز کام کرتے ہیں وہاں قوم کی بھلائی کے لیے بھی ایک ناجائز کام سہی۔" [19]

سائنٹفک سوسائٹی (غازی پور)

 

سر سید نے زیادہ زور جدید تعلیم پر دیا۔ ان کی سمجھ میں یہ بات آگئی تھی کہ جدید تعلیم کے بغیر مسلمانوں کا مستقبل بالکل تاریک ہے۔ سر سید کی دوربیں نگاہوں نے دیکھ لیا تھا کہ زندگی نے جو رخ اختیار کر لیا ہے اس کو بدلا نہیں جا سکتا۔ اس میں رکاوٹ پیدا کر کے اس کی رفتار کو بھی روکا نہیں جا سکتا بلکہ ایسا کرنے والے خود تباہ و برباد ہو کر رہ جائیں گے۔ اس لیے انھوں نے تمام تر توجہ جدید تعلیم کے فروغ پر مرکوز کر دی۔ سائنٹفک سوسائٹی کا مقصد ہی اپنے ہم وطنوں کو جدید علوم سے روشناس کرانا تھا۔[20] اس سوسائٹی کے جلسوں میں جس میں نئے نئے سائنسی مضامین پر لیکچر ہوتے اور آلات کے ذریعہ تجربے بھی کیے جاتے، کا مقصد یہ تھا کہ ہندوستانیوں کو بتایا جا سکے کہ بنا جدید علوم خاص طور پرسائنس کے میدان میں ترقی نہیں کی جا سکتی اور اسی لیے سائنٹفک سوسائٹی نے جن دو درجن کتابوں کا ترجمہ کرایا ان میں چند کو چھوڑ کر زیادہ تر ریاضی اورسائنس سے متعلق تھیں۔ سر سید احمد خاں کو اس بات کا یقین ہو گیا تھا کہ یورپ جس راستے پر جا رہا ہے اور جو تعلیم حاصل کر رہا ہے وہی راستا اور تعلیم مستقبل کی ترقی کی گارنٹی ہے۔ وہ جاننا چاہتے تھے کہ وہ درسگاہیں کیسی ہیں اور ان کا نظام تعلیم کیا ہے؟ اس لیے وہ خود انگلستان گئے، وہاں کے تعلیمی نظام کو دیکھا، تعلیمی اداروں میں رہے، اساتذہ سے ملاقاتیں کیں اور اس بات کا کھلے دل سے اعتراف کیا کہ انگلستان کی ہر چیز نے ان کو متاثر کیا۔[20] انھوں نے کہا:[21] ” میں نے صرف اس خیال سے کہ کیا راہ ہے جس سے قوم کی حالت درست ہو، دور دراز سفر اختیار کیا اور بہت کچھ دیکھا جو دیکھنے کے لائق تھا میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ جب میں نے کوئی عمدہ چیز دیکھی، جب کبھی عالموں اور مہذب آدمیوں کو دیکھا، جب کبھی علمی مجلسیں دیکھیں، جہاں کہیں عمدہ مکانات دیکھے، جب کبھی عمدہ پھول دیکھے، جب کبھی کھیل کود، عیش و آرام کے جلسے دیکھے، یہاں تک کہ جب کبھی کسی خوب صورت شخص کو دیکھا مجھ کو ہمیشہ اپنا ملک اور اپنی قوم یاد آئی اور نہایت رنج ہوا کہ ہائے ہماری قوم ایسی کیوں نہیں، جہاں تک ہو سکا ہر موقع پر میں نے قومی ترقی کی تدبیروں پر غور کیا سب سے اول یہی تدبیر سوجھی کہ قوم کے لیے قوم ہی کے ہاتھ سے ایک مدرسہ العلوم قائم کیا جائے جس کی بنا آ پ کے شہر میں اور آپ کے زیر سایہ پڑی۔ “ [22]

علی گڑھ تحریک

سرسید نے اس تحریک کا آغاز جنگ آزادی سے ایک طرح سے پہلے سے ہی کر دیا تھا۔ غازی پور میں سائنٹفک سوسائٹی کا قیام اسی سلسلے کی ایک کڑی تھا۔ لیکن جنگ آزادی نے سرسید کی شخصیت پر گہرے اثرات مرتب کیے اور ان ہی واقعات نے علی گڑھ تحریک کو بارآور کرنے میں بڑی مدد دی۔ لیکن یہ پیش قدمی اضطراری نہ تھی بلکہ اس کے پس پشت بہت سے عوامل کارفرما تھے۔ مثلا راجا رم موہن رائے کی تحریک نے بھی ان پر گہرا اثر چھوڑا۔ لیکن سب سے بڑا واقعہ سکوت دلی کا ہی ہے۔ اس واقعے نے ان کی فکر اور عملی زندگی میں ایک تلاطم برپا کر دیا۔ اگرچہ اس واقعے کا اولین نتیجہ یا رد عمل تو مایوسی، پژمردگی اور ناامیدی تھا تاہم اس واقعے نے ان کے اندر چھپے ہوئے مصلح کو بیدار کر دیا۔ علی گڑھ تحریک کا وہ بیج جو زیر زمین پرورش پا رہا تھا اب زمین سے باہر آنے کی کوشش کرنے لگا۔ چنا نچہ اس واقعے سے متاثر ہو کر سرسید احمد خان نے قومی خدمت کو اپنا شعار بنا لیا۔[23] ابتداءمیں سرسیداحمد خان نے صرف ایسے منصوبوں کی تکمیل کی جو مسلمانوں کے لیے مذہبی حیثیت نہیں رکھتے تھے۔ اس وقت سر سید احمد خان قومی سطح پر سوچتے تھے۔ اور ہندوئوں کو کسی قسم کی گزند پہنچانے سے گریز کرتے تھے۔ لیکن ورینکلر یونیورسٹی کی تجویز پر ہندوؤں نے جس متعصبانہ رویے کا اظہار کیا، اس واقعے نے سرسید احمد خان کی فکری جہت کو تبدیل کر دیا۔ اس واقعے کے بعد اب ان کے دل میں مسلمانوں کی الگ قومی حیثیت کا خیال جاگزیں ہو گیا تھااور وہ صرف مسلمانوں کی ترقی اور فلاح و بہبود میں مصروف ہو گئے۔ اس مقصد کے لیے کالج کا قیام عمل میں لایا گیا رسالے نکالے گئے تاکہ مسلمانوں کے ترقی کے اس دھارے میں شامل کیا جائے۔ 1869ء میں سرسید احمد خان کوانگلستان جانے کا موقع ملا اس یہاں پر وہ اس فیصلے پر پہنچے کہ ہندوستان میں بھی کیمرج کی طرز کا ایک تعلیمی ادارہ قائم کریں گے۔ وہاں کے اخبارات سپکٹیٹر ،ثيثلر اور سے متاثر ہو کر۔ سرسید نے تعلیمی درسگاہ کے علاوہ مسلمانوں کی تہذیبی زندگی میں انقلاب لانے کے لیے اسی قسم کااخبار ہندوستان سے نکالنے کا فیصلہ کیا۔ اور ”رسالہ تہذیب الاخلاق“ کا اجراءاس ارادے کی تکمیل تھا۔ اس رسالے نے سرسید کے نظریات کی تبلیغ اور مقاصد کی تکمیل میں اعلیٰ خدمات سر انجام دیں۔ علی گڑھ تحریک ایک بہت بڑی فکری اور ادبی تحریک تھی۔

سر سید احمد خاں نے 1875ء میں ”محمڈن اینگلو اورینٹل کالج“ کی داغ بیل ڈالی جسے 1920ء میں یونیورسٹی کا درجہ ملا اور آج اسے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی حیثیت سے عالمی شہرت حاصل ہے۔ انھوں نے کہا:

میں ہندوستانیوں کی ایسی تعلیم چاہتا ہوں کہ اس کے ذریعہ ان کو اپنے حقوق حاصل ہونے کی قدرت ہو جائے، اگرگورنمنٹ نے ہمارے کچھ حقوق اب تک نہیں دیے ہیں جن کی ہم کو شکایت ہو تو بھی ہائی ایجوکیشن وہ چیز ہے کہ خواہ مخواہ طوعاً و کرہاً ہم کو دلا دے گی۔

ا س تحریک کے دیگر قائدین میں سے محسن الملک، وقار الملک، مولانا شبلی نعمانی، مولانا الطاف حسین حالی اور مولانا چراغ علی خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ ان لوگوں نے وہ کا رہائے نمایاں انجام دیے کہ آنے والی مسلم نسلیں ان کی جتین بھی قدر کریں کم ہے۔ سرسید اور ان کے ساتھیوں نے علی گڑھ تحریک کو ایک ہمہ گیر اور جامع تحریک بنا دیا۔ یوں مسلمانوں کی نشاۃ الثانیہ کا آغازہوا۔

تحریک علی گڑھ کا آغاز

 

1857ءکی جنگ آزادی کی تمام تر ذمہ داری انگریزوں نے مسلمانوں پر ڈال دی تھی اور انھیں سزا دینے کے لیے ان کے خلاف نہایت ظالمانہ اقدامات کیے گئے ہندو جو جنگ آزادی میں برابر کے شریک تھے۔ انھیں بالکل کچھ نہ کہا گیا۔ انگریز کی اس پالیسی کی وجہ سے مسلمان معاشرتی طور پر تباہ ہو گئے اور ان معاشی حالت ابتر ہو گئی انگریزوں نے فارسی کی بجائے جو مسلمانوں کی زبان تھی۔ انگریزی کو سرکاری زبان کا درجہ دے دیا تھا۔ مسلمان کسی صورت بھی انگریزی زبان سیکھنے پر رضا مند نہ تھے، دوسری طرف ہندوؤں نے فوری طور پر انگریزی زبان کو اپنا لیا تھا اور اس طرح تعلیمی میدان میں مسلمانوں سے آگے نکل گئے۔

ان اقدامات نے مسلمانوں کی معاشی اور معاشرتی حالت کو بہت متاثر کیا تھا مسلمان جو کبھی ہندوستان کے حکمران تھے، ادب ادنیٰ درجے کے شہری تھے۔ جنہیں ان کے تمام حقوق سے محروم کر دیا گیا تھا۔

سرسید احمد خان مسلمانوں کی ابتر حالت اور معاشی بدحالی کو دیکھ کر بہت کڑھتے تھے آپ مسلمانوں کو زندگی کے باعزت مقام پر دیکھنا چاہتے تھے اور انھیں ان کا جائز مقام دلانے کے خواہاں تھے۔ آپ نے مسلمانوں کی راہنمائی کا ارادہ کیا اور انھیں زندگی میں اعلیٰ مقام حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کی تلقین کی۔

سرسید احمد خان نے یہ محسوس کر لیا تھا کہ ہندوستان کے مسلمانوں کی موجودہ حالت کی زیادہ ذمہ داری خود مسلمانوں کے انتہا پسند رویے کی وجہ سے ہے۔ ہندوستان کے مسلمان انگریز کو اپنا دشمن سمجھتے تھے اور انگریزی تعلیم سیکھنا اپنے مذہب کے خلاف تصور کرتے تھے۔ مسلمانوں کے اس رویے کی وجہ سے انگریزوں اور مسلمانوں کے درمیان میں ایک خلیج حائل رہی، سرسید احمد خان نے یہ محسوس کر لیا تھا کہ جب تک مسلمان انگریزی تعلیم اور انگریزوں کے متعلق اپنا رویہ تبدیل نہ کریں گے ان کی حالت بہتر نہ ہو سکے گی اور وہ تعلیمی میدان میں ہمیشہ ہندووٕں سے پیچھے رہیں گے۔ آپ نے مسلمانوں کو یہ تلقین کی کہ وہ انگریزوں کے متعلق اپنا رویہ بدلیں کیونکہ انگریز ملک کے حکمران ہیں۔ آپ نے اپنی تحریک کا آغاز مسلمانوں اور انگریزوں کے درمیان میں غلط فہمی کی فضا کو ختم کرنے سے کیا۔

تحریک علی گڑھ کا تعلیمی پہلو

 

سرسید احمد خان یہ سمجھتے تھے کہ مسلمانوں کی موجودہ بدحالی کا سب سے بڑا سبب مسلمانوں کا انگریزی علوم سے بے بہرہ ہونا ہے۔ آپ یہ سمجھتے تھے کہ مسلمانوں کو انگریزی زبان اور تہذیب سے نفرت کا رویہ ترک کر کے مفاہمت کا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔ دوسری طرف ہندو جدید تعلیم حاصل کر کے تعلیمی میدان میں مسلمانوں سے آگے نکل گئے تھے اور اعلیٰ ملازمتیں حاصل کر لی تھیں۔ آپ نے مسلمانوں کو اپنی تعلیمی استعداد بڑھانے کی تلقین کی اور انھیں یہ باور کرایا کہ جب تک وہ اپنا انتہا پسند رویہ ترک کر کے انگریزی علوم نہیں سیکھیں گے وہ کسی طرح بھی اپنی موجودہ بدحالی پر قابو نہ پا سکیں گے۔ آپ نے قرآن پاک کے حوالے دے کر مسلمانوں کو یہ سمجھایا کہ انگریزی علوم سیکھنا اسلام کے خلاف نہیں ہے آپ نے انتہا پسند عناصر سے مسلمانوں کو خبردار کیا۔ مسلمانوں کی تعلیمی بہتری کے لیے آپ نے متعدد اقدامات کیے۔

1859ء میں مراد آباد کے مقام پر ایک مدرسہ قائم کیا گیا جہاں فارسی کی تعلیم دی جاتی تھی۔ اس مدرسے میں انگریزی بھی پڑھائی جاتی تھی۔ 1863ء میں غازی پور میں سائنٹیفک سوسائٹی قائم کی گئی جس کا مقصد انگریزی علوم کو اردو اور فارسی میں ترجمہ کرنا تھا تاکہ ہندوستانی عوام جدید علوم سے استفادہ کرسکیں۔ 1866ء میں سائنٹیفک سوسائٹی کے زیر اہتمام ایک اخبارجاری کیا گیا جسے علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ کہا جاتا ہے یہ اخبار اردو اور انگریزی دونوں زبانوں میں شائع کیا جاتا تھا۔ اس اخبار کے ذریعے انگریزوں کو مسلمانوں کے جذبات سے آگاہ کیا جاتا تھا۔

1869ء میں آپ کے بیٹے سید محمود کو حکومت کی طرف سے اعلیٰ تعلیم کے لیے انگلستان بھیجا گیا۔ آپ بھی 1869ء میں اپنے بیٹے کے ہمراہ انگلستان چلے گئے۔ وہاں جا کر آپ نے آکسفورڈ اور کیمبرج یونیورسٹیوں کے نظام تعلیم کا مشاہدہ کیا۔ آپ ان یونیورسٹیوں کے نظام تعلیم سے بہت متاثر ہوئے اور یہ ارادہ کیا کہ ہندوستان جا کر ان یونیورسٹیوں کی طرز کا ایک کالج قائم کریں گے۔

آپ انگلستان سے 1870ء میں واپس آئے اور ہندوستان میں انجمن ترقی مسلمانان ہند کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا جس کا مقصد مسلمانوں کو جدید تعلیم سے روشناس کرانا تھا۔ 1870ء میں آپ نے رسالہ تہذیب الاخلاق لکھا جس میں آپ نے مسلمانوں کے ان معاشرتی پہلووٕں کی نشان دہی کی جن کی اصلاح کرنا مقصود تھی اور مسلمانوں کو تلقین کی کہ وہ اپنے ان پہلووٕں کی فوری اصلاح کریں۔

[24]

علی گڑھ کالج کا قیام

انگلستان سے واپسی پر آپ نے مسلمانوں کی تعلیمی ترقی کے لیے ایک کمیٹی قائم کر دی جس نے اعلیٰ تعلیم کے لیے ایک کالج کے قیام کے لیے کام شروع کیا۔ اس کمیٹی کو محمڈن کالج کمیٹی کہا جاتا ہے۔ کمیٹی نے ایک فنڈ کمیٹی قائم کی جس نے ملک کے طول و عرض سے کالج کے لیے چندہ اکٹھا کیا۔ حکومت سے بھی امداد کی درخواست کی گئی۔

1875ء میں انجمن ترقی مسلمانان ہند نے علی گڑھ میں ایم اے او ہائی اسکول قائم کیا۔ اس ادارے میں جدید اور مشرقی علوم پڑھانے کا بندوبست کیا گیا۔ 1877ء میں اس اسکول کو کالج کا درجہ دے دیا گیا جس کا افتتاح لارڈ لٹن نے کیا۔ یہ کالج رہائشی کالج تھا اور یہاں پر تمام علوم پڑھائے جاتے تھے۔ سرسید کی یہ دلی خواہش تھی کہ اس کالج کو یونیورسٹی کا درجہ دلا دیں۔ یہ کالج سرسید کی وفات کے بعد 1920ء میں یونیورسٹی بن گیا یہاں سے فارغ التحصیل طلباءنے آگے چل کر تحریک پاکستان میں نمایاں کردار ادا کیا۔[25]

محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس

سرسید احمد خان نے 27 دسمبر 1886ء کو محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کی بنیاد رکھی اس کانفرنس کا بنیادی مقصد مسلمانوں کی تعلیمی ترقی کے لیے اقدامات کرنا تھا۔ اس کا پہلا اجلاس علی گڑھ میں ہوا۔ کانفرنس نے تعلیم کی اشاعت کے لیے مختلف مقامات پر جلسے کیے۔ ہر شہر اور قصبے میں اس کی ذیلی کمیٹیاں قائم کی گئیں۔ اس کانفرنس کی کوششوں سے مسلمانوں کے اندر تعلیمی جذبہ اور شوق پیدا ہوا۔ اس کانفرنس نے ملک کے ہر حصے میں اجلاس منعقد کیے اور مسلمانوں کو جدید تعلیم کی اہمیت سے روشناس کرایا۔ اس کانفرنس کے سربراہوں میں نواب محسن الملک، نواب وقار الملک، مولانا شبلی اور مولانا حالی جیسی ہستیاں شامل تھیں۔

محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کا سالانہ جلسہ مختلف شہروں میں ہوتا تھا۔ جہاں مقامی مسلمانوں سے مل کر تعلیمی ترقی کے اقدامات پر غور کیا جاتا تھا اور مسلمانوں کے تجارتی، تعلیمی، صنعتی اور زراعتی مسائل پر غور کیا جاتا تھا۔[26]

آل انڈیا مسلم لیگ کا قیام بھی 1906ء میں محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کے سالانہ اجلاس کے موقع پر ڈھاکہ کے مقام پر عمل میں آیا۔ محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کے سالانہ اجلاس کے موقع پر برصغیر کے مختلف صوبوں سے آئے ہوئے مسلم عمائدین نے ڈھاکہ کے نواب سلیم اللہ خاں کی دعوت پر ایک خصوصی اجلاس میں شرکت کی۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ مسلمانوں کی سیاسی راہنمائی کے لیے ایک سیاسی جماعت تشکیل دی جائے۔ یاد رہے کہ سرسید نے مسلمانوں کو سیاست سے دور رہنے کا مشورہ دیا تھا۔ لیکن بیسویں صدی کے آغاز سے کچھ ایسے واقعات رونما ہونے شروع ہوئے کہ مسلمان ایک سیاسی پلیٹ فارم بنانے کی ضرورت محسوس کرنے لگے۔ڈھاکہ اجلاس کی صدارت نواب وقار الملک نے کی۔ ننواب محسن الملک، مولانامحمد علی جوہر، مولانا ظفر علی خاں، حکیم اجمل خاں اور نواب سلیم اللہ خاں سمیت بہت سے اہم مسلم اکابرین اجلاس میں موجود تھے۔ مسلم لیگ کا پہلا صدر سر آغا خان کو چنا گیا۔ مرکزی دفتر علی گڑھ میں قائم ہوا۔ تمام صوبوں میں شاخیں بنائی گئیں۔ برطانیہ میں لندن برانچ کا صدر سید امیر علی کو بنایا گیا۔

اردو ہندی تنازع

1857 ءکی جنگ آزادی کے بعد مسلمانوں اور ہندوؤں میں بڑھتے ہوئے اختلافات کے پیش نظر سر سید احمد خاں نے محسوس کرنا شروع کر دیا تھا کہ سیاسی بیداری اور عام ہوتے ہوئے شعور کے نتیجہ میں دونوں قوموں کا اکٹھا رہنا مشکل ہے۔ مولانا حالی نے حیات جاوید میں سرسید کے حوالے سے بھی ان خدشات کا اظہار کیا ہے ان کے خیال میں سرسید احمد نے 1867ء میں ہی اردو ہندی تنازع کے پیش نظر مسلمانوں اور ہندوؤں کے علاحدہ ہوجانے کی پیش گوئی کر دی تھی۔ انھوں نے اس کا ذکر ایک برطانوی افسر سے کیا تھا کہ دونوں قوموں میں لسانی خلیج وسیع ترہوتی جا رہی ہے۔ اور ایک متحدہ قومیت کے طور پر ان کے مل کے رہنے کے امکانات معدوم ہوتے جا رہے ہیں۔ اور آگے چل کر مسلمانوں ار ہندوؤں کی راہیں جدا ہوجائیں گی۔[27]

اردو زبان کی ترقی و ترویج کا آغاز مغلیہ دور سے شروع ہوا اور بہ زبان جلد ہی ترقی کی منزلیں طے کرتی ہوئی ہندوستان کے مسلمانوں کی زبان بن گئی۔اردو کئی زبانوں کے امتزاج سے معرض وجود میں آئی تھی۔ اس لیے اسے لشکری زبان بھی کہا جاتا ہے۔ اس کی ترقی میں مسلمانوں کے ساتھ ہندو ادیبوں نے بھی بہت کام کیا ہے سرسید احمد خان نے بھی اردو کی ترویج و ترقی میں نمایاں کام کیا لیکن چونکہ ہندو فطری طور پر اس چیز سے نفرت کرتا تھا جس سے مسلمانوں کی تہذیب و تمدن اور ثقافت وابستہ ہو لہٰذا ہندووٕں نے اردو زبان کی مخالفت شروع کر دی۔

1867ء میں بنارس کے چیدہ چیدہ ہندو رہنماوٕں نے مطالبہ کیا کہ سرکاری عدالتوں اور دفاتر میں اردو اور فارسی کو یکسر ختم کر دیا جائے اور اس کی جگہ ہندی کو سرکاری زبان کے طور پر رائج کیا جائے۔ ہندووٕں کے اس مطالبے سے سرسید احمد خان پر ہندووٕں کا تعصب عیاں ہو گیا اور انھیں ہندو مسلم اتحاد کے بارے میں اپنے خیالات بدلنے پڑے اس موقع پر آپ نے فرمایا کہ :

٫٫ مجھے یقین ہو گیا ہے کہ اب ہندو اور مسلمان بطور ایک قوم کے کبھی نہیں ایک دوسرے کے ساتھ مل کر نہیں رہ سکتے۔٬٬

سرسید احمد خان نے ہندوؤں کی اردو زبان کی مخالفت کے پیش نظر اردو کے تحفظ کے لیے اقدامات کرنے کا ارادہ کیا 1867ء میں سر سید نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ ” دار الترجمہ“ قائم کیا جائے تاکہ یونیورسٹی کے طلبہ کے لیے کتابوں کا اردو ترجمہ کیا جا سکے ہندوؤں نے سرسید احمد خان کے اس مطالبے کی شدت سے مخالفت کی لیکن آپ نے تحفظ اردو کے لیے ہندووٕں کا خوب مقابلہ کیا۔ آپ نے الٰہ آباد میں ایک تنظیم سنٹرل ایسوسی ایشن قائم کی اورسائنٹیفک سوسائٹی کے ذریعے اردو کی حفاظت کا بخوبی بندوبست کیا۔

ہندوؤں نےاردو کی مخالفت میں اپنی تحریک کو جاری رکھا۔1817ء میں بنگال کے لیفٹیننٹ گورنر کیمبل نے اردو کو نصابی کتب سے خارج کرنے کا حکم دیا۔ ہندوؤں کی تحریک کی وجہ سے 1900ء میں یو پی کے بدنام زمانہ گورنر انٹونی میکڈانلڈ نے احکامات جاری کیے کہ دفاتر میں اردو کی بجائے ہندی کو بطور سرکاری زبان استعمال کیا جائے۔

اس حکم کے جاری ہونے پر مسلمانوں میں زبردست ہیجان پیدا ہوا۔ 13مئی 1900ء کو علی گڑھ میں نواب محسن الملک نے ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے حکومت کے اقدام پر سخت نکتہ چینی کی۔ نواب محسن الملک نے اردو ڈیفنس ایسوسی ایشن قائم کی جس کے تحت ملک میں مختلف مقامات پر اردو کی حمایت میں جلسے کیے گئے اور حکومت کے خلاف سخت غصے کا اظہار کیا گیا۔ اردو کی حفاظت کے لیے علی گڑھ کے طلبائ نے پرجوش مظاہرے کیے جس کی بنائ پر گونر میکڈانلڈ کی جانب سے نواب محسن الملک کو یہ دھمکی دی گئی کہ کالج کی سرکاری گرانٹ بند کر دی جائے گی۔

اردو کے خلاف تحریک میں کانگریس اپنی پوری قوت کے ساتھ شامل کار رہی اور اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ اردو زبان کی مخالفت کے نتیجے میں مسلمانوں پر ہندو ذہنیت پوری طرح آشکار ہو گئی۔ اس تحریک کے بعد مسلمانوں کو اپنے ثقافتی ورثے کا پوری طرح احساس ہوا اور قوم اپنی تہذیب و ثقافت کے تحفظ کے لیے متحد ہوئی۔

سرسیّد احمد خان نے اپنی زندگی کے آخری لمحے تک بڑے زور و شور سے اردو زبان کی مدافعت جاری رکھی۔

سیاسی خدمات

آپ نے مسلمانوں کو مشورہ دیا کہ سیاست سے دور رہتے ہوئے اپنی تمام تر توجہ تعلیم کے حصول اورمعاشی و معاشرتی طور پر بحای پر دین تاکہ وہ ہندوؤں کے برابر مقام حاصل کر سکیں۔ سرسید ہندو مسلم اختلافات کو ختم کر کے تعاون اور اتحاد کی راہ رپ گامزن کرنے کے حق میں بھی تھے۔ انھوں نے دونوں قوموں کو ایک دوسرے کے قریب لانے کی مسلسل کوششیں کیں۔ اپنے تعلیمی اداروں میں ہندو اساتذہ بھرتی کیے اور ہندو طلبہ کو داخلے دیے ہندووں نے اردو کے مقابل ہندی کو سرکاری دفاتر کی زبان کا درجہ دلوانے کے لیے کوششیں شروع کر دیں۔ 1857ء میں اردو ہندی تنازعے نے سرسید کو بد دِل کر دیا اور انھوں نے صرف اور صرف مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے اپنی تحریک کے ذریعے کام شروع کر دیا۔ زبان کا تنازع سرسید کی سوچ اور عمل کو بدل گیا۔ انھوں نے دو قومی نظریہ کی بنیادپر برصغیر کے سیاسی اور دیگر مسائل کے حل تلاش کرنے کا فیصلہ کیا۔[28]

سرسید کی سیاسی حکمت عملی کی بنیاد دو قومی نظریہ تھا۔ سرسید نے مسلمانوں کو ایک علاحدہ قوم ثابت کیا اور حضرت مجدد الف ثانی اور شاہ ولی اللہ کے افکار کو آگے بڑھایا۔ دو قومی نظریہ کی اصطلاح سرسید نے ہی سب سے پہلے استعمال کی۔ انھوں نے کہا کہ مسلمان جداگانہ ثقافت رسم و رواج اور مذہب کے حامل ہیں اور ہر اعتبار سے ایک مکمل قوم کا درجہ رکھتے ہیں۔ مسلمانوں کی علاحدہ قومی حیثیت کے حوالے سے سرسید احمد نے ان کے لیے لوکل کونسلوں میں نشستوں کی تخصیص چاہی اعلیٰ سرکاری ملازمتوں کے لیے کھلے مقابلے کے امتحان کے خلاف مہم چلائی٬ اکثریت کی مرضی کے تحت قائم ہونے والی حکومت والے نظام کو ناپسند کیا۔ ا نہو ں نے مسلمانوں کی علاحدہ پہچان کروائی اور دو قومی نظریہ کی بنیاد پر ان کے لیے تحفظات مانگے۔ سر سید مسلمانوں کوسیاست سے دور رکھنا چاہتے تھے۔ اسی لیے انھوں نے مسلمانوں کو 1885ء میں ایک انگریز اے او ہیوم کی کوششوں سے قائم ہونے والی آل انڈیا کانگریس سے دوررکھا۔ بعد میں ہونے والے واقعات نے سرسید کی پالیسی کی افادیت کو ثابت کر دیا ان کو بجا طور پر پاکستان کے بانیوں میں شمار کیا جاتاہے۔ مولوی عبدالحق نے سرسید کی قومی و سیاسی خدمات کے حوالے سے لکھا ہے:[29][30]

٫٫قصر پاکستان کی بنیاد میں پہلی اینٹ اسی مرد پیر نے رکھی تھی٬٬۔[31]

اردو ادب اور سرسید

اردو زبان پر سرسید کے احسانات کا ذکر کرتے ہوئے مولوی عبدالحق کہتا ہے:

”اس نے زبان (اردو) کو پستی سے نکالا، اندازِبیان میں سادگی کے ساتھ قوت پیدا کی، سنجیدہ مضامین کا ڈول ڈالا، سائنٹیفک سوسائٹی کی بنیاد ڈالی، جدید علوم و فنون کے ترجمے انگریزی سے کروائے، خود کتابیں لکھیں اور دوسروں سے لکھوائیں۔ اخبار جاری کرکے اپنے انداز تحریر، بے لاگ تنقید اور روشن صحافت کا مرتبہ بڑھایا ”تہذیب الاخلاق “ کے ذریعے اردو ادب میں انقلاب پیدا کیا۔“

سرسید کے زمانے تک اردو کا سرمایہ صرف قصے کہانیاں، داستانوں، تذکروں، سوانح عمریوں اور مکاتیب کی شکل میں موجود تھا۔ سرسید تک پہنچتے پہنچتے اردو نثر کم از کم دو کروٹیں لے چکی تھی جس سے پرانی نثر نگاری میں خاصی تبدیلی آچکی تھی۔ خصوصاً غالب کے خطوط نثر پر کافی حد تک اثر انداز ہوئے اور اُن کی بدولت نثر میں مسجع و مقفٰی عبارت کی جگہ سادگی اور مدعا نگاری کو اختیار کیا گیا لیکن اس سلسلے کو صرف اور صرف سرسید نے آگے بڑھایا اور اردو نثر کو اس کا مقام دلایا۔ سرسید نے برطانوی ایما پر فارسی اور عربی کو اردو کے ذریعہ بے دخل کروا دیا تاکہ مسلمانان ہند اپنے ہزار سالہ علمی مواد اور خطے میں موجود دیگر مسلمانوں سے ربط کا واحد ذریعہ کھو بیٹھیں اور کوئی منظم شورش برطانوی نظام کے خلاف اٹھ کھڑی نہ ہو۔ ایسی تدابیر سے مسلمان سرکاری نوکریوں تک دین ایمان خراب کروا کر پہنچ ضرور جاتے تھے مگر آزادی کی نعمت مزید دور ہوتی جاتی تھی۔

جدید اردو نثر کے بانی

بقول مولانا شبلی نعمانی،
”اردو انشاءپردازی کا جو آج انداز ہے اُس کے جد امجد اور امام سرسید تھے“
سرسید احمد خان، ”اردو نثر “ کے بانی نہ سہی، البتہ ”جدید اُردو نثر“ کا بانی ضرور ہے۔ اس سے پہلے پائی جانی والی نثر میں فارسی زبان کی حد سے زیادہ آمیزش ہے۔ کسی نے فارسی تراکیب سے نثر کو مزین کرنے کی کوشش کی ہے اور کسی نے قافیہ بندی کے زور پر نثر کو شاعری سے قریب ترلانے کی جدوجہد کی ہے۔ ان کوششوں کے نتیجے میں اردو نثر تکلف اور تصنع کا شکار ہو کر رہ گئی ہے۔ سرسید احمد خان پہلے ادیب ہے جس نے اردو نثر کی خوبصورتی پر توجہ دینے کی بجائے مطلب نویسی پر زور دیا ہے۔ اس کی نثر نویسی کا مقصد اپنی علمیت کا رعب جتانا نہیں۔ بلکہ اپنے خیالات و نظریات کو عوام تک پہنچانا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے جو کچھ لکھا۔ نہایت آسان نثر میں لکھا، تاکہ اسے عوام لوگ سمجھ سکیں اور یوں غالب کی تتبع میں اس نے جدید نثر کی ابتداءکی۔

رہنمائے قوم

سرسید نے مسلمانوں کی رہنمائی دستگیری اور اصلاح کا کام برطانوی اعانت سے اس وقت شروع کیا جب غدر کے بعد یہ قوم سیاسی بے بسی کا شکار تھی اور اس پر مایوسی طاری تھی۔ وہ بے یقینی کے عالم میں تھی اور اسے کوئی راہ سجھائی نہیں دے رہی تھی۔ اس کی تہذیب اور تمدن ادبار کا شکار تھی۔ عزت نفس مجروح اور فاری البالی عنقا تھی۔ (سرسید اور ان کے جیسے حضرات کی معاونت سے بننے والی) حکمران قوم کا عتاب، ہندو کی مکاری اور خود مسلمان قوم کی نااہلی (کہ ایسے دین وایمان فروش پیدا کیے) اور احساس زیاں کی کمی ایسے عناصر تھے جن میں کسی قوم کا زندہ رہنا یا ترقی کی طرف بڑھنا معجزہ سے کم نہ تھا۔ سرسید رجائی فکر کے حامل ایک ایسے رہنما تھے جسے اس قوم کو موجودہ ادبار کے اندر بھی ترقی کرنے، آگے بڑھنے اور اپنا کھویا ہو امقام پانے کی لگن اور جوت نظر آئی۔ سرسید نے ایک خاص منصوبہ بندی کے تحت اس قوم کی فلا ح و بہبود اور ترقی کے لیے ایک بھر پور اصلاحی تحریک کا آغاز کیا۔ اس منصوبہ بندی میں مسلمانوں کی تعلیمی، تمدنی، سیاسی، مذہبی، معاشی اور معاشرتی زندگی کو ترقی اور فلاح کے نئے راستے پر ڈالنا تھا۔ اور اس کے ساتھ ساتھ اس میں قنوطیت کو ختم کر کے اعتماد او ر یقین پیدا کرنا تھا۔

مضمون نگاری

سرسید احمد خان کو اردو مضمون نگاری کا بانی تصور کیا جاتا ہے۔ انھوں نے ایک مغربی نثری صنف Essayکی طر ز پر اردو میں مضمون نگاری شروع کی۔ وہ بیکن، ڈرائڈن، ایڈیشن اور سٹیل جیسے مغربی مضمون نگاروں سے کافی حد تک متاثر تھے۔ انھوں نے بعض انگریزی انشائے ہ نگاروں کے مضامین کو اردو میں منتقل کیا۔ انھوں نے اپنے رسالہ ”تہذیب الاخلاق“ میں انگریز انشائیہ نگاروں کے اسلوب کو کافی حد تک اپنایا اور دوسروں کو بھی اس طر ز پر لکھنے کی ترغیب دی۔
سید صاحب کے سارے مضامین Essayکی حد میں داخل نہیں ہو سکتے، مگر مضامین کی کافی تعداد ایسی ہے جن کو اس صنف میں شامل کیا جا سکتا ہے۔ مثلاً تہذیب الاخلاق کے کچھ مضامین تعصب، تعلیم و تربیت، کاہلی، اخلاق، ریا، مخالفت، خوشامد، بحث و تکرار، اپنی مدد آپ، عورتوں کے حقوق، ان سب مضامین میں ان کا اختصار قدر مشترک ہے۔ جو ایک باقاعدہ مضمون کا بنیادی وصف ہے۔

سرسید کا اسلوب

اس سے پہلے کہ ہم سرسید کے تصور اسلوب کے بارے میں لکھیں۔ اپنے اسلوب کے بارے میں سرسید کے قول کو نقل کرتے ہیں،
” ہم نے انشائیہ کا ایک ایسا طرز نکالا ہے جس میں ہر بات کو صاف صاف، جیسی کہ دل میں موجود ہو، منشیانہ تکلفات سے بچ کر، راست پیرایہ اور بیان کرنے کی کوشش کی ہے اور لوگوں کو بھی تلقین کی ہے۔
دراصل سرسید احمد خان ”ادب برائے ادب“ کے قائل نہیں، بلکہ وہ ادب کو مقصدیت کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ وہ کسی خاص طبقہ کے لیے نہیں لکھتے۔ بلکہ اپنی قو م کے سب افراد کے لیے لکھتے ہیں۔ جن کی وہ اصلاح کے خواہاں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عوام سے قریب تر ہونے کے لیے انھوں نے تکلف اور تصنع کا طریقہ اپنانے سے گریز کیا اور سہل نگاری کو اپنا شعار بنایاہے۔ کیونکہ وہ مضمون نگاری میں اپنے دل کی بات دوسروں کے دل تک پہنچانے کے خواہاں ہیں۔ ان کی تحریر کی خصوصیات مندرجہ ذیل ہیں۔

سادگی

سرسید احمد کی نثر سادہ، سہل اور آسان ہوتی ہے اور اسے پڑھتے ہوئے قاری کو کوئی الجھن محسوس نہیں کرتا۔ ذیل میں ان کے ایک مضمون ”دنیا بہ امید قائم ہے“ سے ایک اقتباس دیا جار ہا ہے۔ جو سادگی کا خوبصورت نمونہ ہے۔ اس مضمون میں وہ خوشامد کے بارے میں کتنے آسان اور سادہ الفاظ میں بات کر رہے ہیں:
”جبکہ خوشامد کے اچھا لگنے کی بیماری انسان کو لگ جاتی ہے تو اس کے دل میں ایک ایسا مادہ پیدا ہو جاتا ہے جو ہمیشہ زہریلی باتوں کے زہر کو چوس لینے کی خواہش رکھتا ہے۔ جس طرح کہ خوش گلو گانے والے کی راگ اور خوش آئند با جے کی آواز انسان کے دل کو نرم کر دیتی ہے۔ اسی طرح خوشامد بھی انسان کو ایسا پگھلا دیتی ہے کہ ہر ایک کانٹے کے چبھنے کی جگہ اس میں ہو جاتی ہے۔“

بے تکلفی اور بے ساختگی

سرسید احمد خان نہایت بے تکلفی سے بات کرنے کے عادی ہیں۔ وہ عام مضمون نگاروں کی طرح بات کو گھما پھرا کر بیان کرنے کے قائل نہیں۔ ان کی تحریریں پڑھ کر محسوس ہوتا ہے کہ ان میں آمد ہے آورد نہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ فی البدیہہ بات چیت کر رہے ہیں۔ یہ بات ان کی تحاریر میں بے ساختگی کا ثبوت ہے۔ لیکن بعض ناقدین کے خیال میں اس بے ساختگی کی وجہ سے ان کی تحریر کا ادبی حسن کم ہو گیا ہے۔ لیکن اگر یہ بھی تو سوچیے کہ جب آدمی بے ساختہ طور پر باتیں کرتا ہے، تو وہ فقرات اور تراکیب کو مدنظر نہیں رکھتا۔ آپس کی باتیں ادبی محاسن کی حامل ہوں، نہ ہوں ان میں بے ساختگی کا عنصر ضرور شامل ہوتا ہے۔ ویسے بھی سرسید احمد خان کا مقصد خود کو ایک ادیب منوانا نہیں تھا۔ بلکہ تحریروں کے ذریعے اپنی بات دوسروں تک پہنچانا تھا۔ سر سید کی بے ساختگی کا نمونہ دیکھیے، وہ اپنے مضمون” امید کی خوشی “ میں لکھتے ہیں۔
”تیرے ہی سبب سے ہمارے خوابیدہ خیال جاگتے ہیں۔ تیری ہی برکت سے خوشی ،خوشی کے لیے۔ نام آوری، نام آوری کے لیے، بہادری ،بہادری کے لیے، فیاضی، فیاضی کے لیے، محبت، محبت کے لیے، نیکی، نیکی کے لیے تیار ہے۔ انسان کی تمام خوبیاں اور ساری نیکیاں تیری ہی تابع اور تیری ہی فرماں بردار ہیں۔“

مدعا نویسی

سرسید کے مضامین میں مقصد کا عنصر غالب ہے اور وہ ہمیشہ اپنے مقصد ہی کی بات کرتے ہیں۔ ان کی کسی بھی تحریر کے ایک دو پیراگراف پڑھ کر ہمیں اندازہ ہو جاتا ہے کہ وہ ہمیں کس جانب لے جانا چاہتے ہیں۔ اور ان کا اصل مقصد کیاہے وہ اپنے مدعا کو چھپاتے نہیں بلکہ صاف صاف بیان کردیتے ہیں۔ کوئی مضمون تحریر کرتے وقت یہ بھول جاتے ہیں کہ وہ ایک بلند پایہ ادیب ہیں۔ وہ صرف یہ یاد رکھتے ہیں کہ وہ ایک مصلح قوم ہے۔ اس ضمن میں وہ اپنے نظریات کو واضح طور بیان کر دینے کے عادی ہیں۔ ان کی تحریروں میں مقصدیت و افادیت کا عنصر اس حد تک غالب ہے کہ انھیں زبان کے حسن اور ادب کی نزاکت و جمال پر توجہ دینے کا موقع ہی نہیں ملتا۔ نزاکت خیال اور خیال آفرینی ان کے نزدیک تصنع کاری ہے۔ جو عبارت کا مفہوم سمجھنے میں قاری کے لیے دقت کا موجب بنتی ہے۔

شگفتگی اور ظرافت

سرسید کی تحاریر میں کافی حد تک شگفتگی پائی جاتی ہے۔ وہ اپنے مضامین میں شگفتگی پیدا کرنے کے لیے کبھی کبھی ظرافت سے بھی کام لیتے ہیں۔ لیکن اس میں پھکڑ پن پیدا نہیں ہونے دیتے۔ اس کے متعلق ڈاکٹر سید عبد اللہ لکھتے ہیں،
”سرسید کی تحریروں میں ظرافت اسی حد تک ہے، جس حد تک ان کی سنجیدگی، متانت اور مقصد کو گوارا ہے۔“
ذیل میں اُن کی ظرافت کی ایک مثال مندرجہ ذیل ہے،
” اس نے کہا کیا عجب ہے کہ میں بھی نہ مروں، کیونکہ خدا اس پر قادر ہے ایک ایسا شخص پیدا کرے، جس کو موت نہ ہو اور مجھ کو امید ہے کہ شاید وہ شخص میں ہوں۔ یہ قول تو ایک ظرافت(ظریف) کا تھا مگر سچ یہ ہے کہ زندگی کی امید ہی موت کا رنج مٹاتی ہے۔“

متانت اور سنجیدگی

سرسید کے زیادہ تر مضامین سنجیدہ ہوتے ہیں، وہ چونکہ ادب میں افادیت کے قائل ہیں، اس لیے ہر بات پر سنجیدگی سے غور کرتے اور اسے سنجیدہ انداز ہی سے بیان کرتے ہیں۔ اکثر مقامات پر ان کے مصلحانہ انداز فکر نے ان کی تحریروں میں اس حدتک سنجیدگی پیدا کر دی ہے۔ کہ شگفتگی کا عنصر غائب ہو گیا ہے۔ بقول سید عبد اللہ،
”سرسید کے مقالا ت کی زبان عام فہم ضرور ہے۔ ان کا انداز بیان بھی گفتگو کا انداز بیان ہے مگر سنجیدگی او ر متانت شگفتگی پیدانہیں ہونے دی۔ البتہ ایسے مقامات جن میں ترغیبی عنصر کی کمی ہے۔“

اثر آفرینی

سرسید احمد خاں اپنی تحاریر میں اثر پیدا کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔ ان کے بات کرنے کا مقصد ہی یہی ہوتا ہے۔ کہ کسی نہ کسی ڈھب سے قاری کے ذہن پر اثر انداز ہوا جائے اور اسے اپنے نظریات کی لپیٹ میں لے لیا جائے۔ اس مقصد کے لیے وہ کئی حربے اختیار کرتے ہیں۔ مذہب اور اخلاقیات کا حربہ اثر آفرینی کے لیے ان کا سب سے بڑا حربہ ہے۔ اس ضمن میں وہ اشارات و کنایات، تشبیہات اور دیگر ادبی حربوں سے بھی کام لیتے ہیں۔ لیکن قدرے کم، بقول ڈاکٹر سید عبد اللہ،
”اثر و تاثیر کی وجہ تو یہ ہے کہ ان کے خیالات میں خلوص اور سچائی ہے۔ یعنی دل سے بات نکلتی ہے۔ کل پر اثر کرتی ہے۔“

روانی

سرسید کا قلم رواں ہے۔ وہ جس موضوع پر لکھتے ہیں، بے تکان لکھتے چلے جاتے ہیں۔ ان کی بعض تحریریں پڑھ کر تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے کوئی مشتاق کھلاڑی بلادم لیے بھاگتا ہی چلا جاتا ہے۔ بقول ڈاکٹر سیدعبداللہ:
”وہ ہر مضمون پر بے تکان اور بے تکلف لکھنے پر قادر تھے چنانچہ انھوں نے تاریخ، فن تعمیر، سیرت، فلسفہ، مذہب، قانون، سیاسیات، تعلیم، اخلاقیات مسائل ملکی، وعظ و تدکیر، سب مضامین میں ان کا رواں قلم یکساں پھرتی اور ہمواری کے ساتھ رواں دواں معلوم ہوتا ہے۔ یہ ان کی قدرت کا کرشمہ ہے۔“

متنوع اسلوب

سرسید کانظریہ تھا کہ ہر صنف نثر ایک خاص طرز نگارش کی متقاضی ہے۔ مثلاً تاریخ نگاری، فلسفہ، سوانح عمر ی الگ الگ اسلوب بیان کا تقاضا کرتی ہیں۔ چنانچہ ہر صنف نثر کوسب سے پہلے اپنے صنفی تقاضوں کو پورا کرنا چاہیے۔ چنانچہ ہر لکھنے والے صنفی تقاضوں کے مطابق اسلوب اختیارکرنا چاہیے۔
سرسید کے ہاں موضوعات کا تنوع اور رنگارنگی ہے اور سرسید کے اسلوب نگارش کی یہ خوبی اور کمال ہے کہ انھوں نے موضوع کی مناسبت سے اسلوب نگارش اختیار کیا ہے۔ چنانچہ ہم کہہ سکتے ہیں کو بیان پر اس حد تک قدرت حاصل تھی کہ وہ سیاسی، سماجی، مذہبی، علمی، ادبی، اخلاقی، ہر قسم کے موضوعات پر لکھتے وقت موضوع جس قسم کے اسلوب بیان کا متقاضی ہوتا اس قسم کا اسلوب اختیار کرتے۔

خلوص و سچائی

سرسید کے فقروں اور پیراگراف میں تناسب اور موزونیت کی کمی ہے۔ جملے طویل ہیں۔ انگریزی الفاظ کا استعمال بھی طبع نازک پر گراں گزرتا ہے۔ لیکن ان سب باتوں کے باوجود ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ سرسید کی تحریریں ادبیت سے خالی ہیں۔ خلوص اور سچائی ادب کی جان ہے۔ سرسید اکھڑی اکھڑی تحریروں، بے رنگ اور بے کیف، جملوں، بوجھل، ثقیل اور طویل عبارتوں کو پڑھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ کہ لکھنے والا، محسوس کرکے لکھ رہا ہے۔ کسی جذبے کے تحت لکھ رہا ہے۔ اس کے پیش نظرنہ کوئی ذاتی غرض ہے اور نہ اسے کسی سے کوئی بغض و عناد اور ذاتی رنجش ہے۔ ان تحریروں کو دیکھ کر جہاں ہم سچائی محسوس کرتے ہیں جو دل پر اثر کرتی ہے، وہاں ان کی تحریروں میں مقصد کی جلالت اور عظمت پائی جاتی ہے۔

پھیکا پن

سرسید کی تحریریں یقین و اعتماد تو پیدا کرتی ہیں مگر قاری کو محظوظ اور مسرور بہت کم کرتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ مقصد کی رو میں بہتے چلے جاتے ہیں۔ وہ خیالات کے اظہار میں اتنے بے تکلف اور بے ساختہ ہو جاتے ہیں کہ الفاظ کی خوبصورتی، فقروں کی ہم آہنگی کی کوئی پروا نہیں کرتے۔ وہ کسی پابندی، رکاوٹ اور احتیاط کا لحاظ نہیں کرتے۔ وہ اسلوب اور شوکت الفاظ پر مطلب اور مدعا کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس طرح سرسید کی تحریروں میں حسن کی کمی پیدا ہو جاتی ہے۔ اور یہی کمی اس کے اسلوب کا خاصہ بھی بن جاتی ہے۔ اور ان کی تحریر ہمہ رنگ خیالات ادا کرنے کے قابل ہو جاتی ہے۔ مولانا حالی اُن کے بارے میں لکھتے ہیں،
” کسی شخص کے گھر میں آگ لگی ہو تو وہ لوگوں کو پکارے کہ آؤ اس آگ کو بجھائو۔ اس میں الفاظ کی ترتیب اور فقروں کی ترکیب کا خیال نہیں ہوتا کیونکہ ان کے پاس ایک دعوت تھی، اس دعوت کو دینے کے لیے انھیں جو بھی الفاظ ملے، بیان کر دیے۔“

مجموعی جائزہ

جب ہم سرسید کی ادبی کاوشوں کا جائزہ لیتے ہیں تو وہ خود اپنی ذات میں دبستان نظر آتے ہیں۔ سرسید نے اپنی تصانیف کے ذریعے اپنے زمانے کے مصنفوں اور ادیبوں کو بہت سے خیالات دیے۔ ان کے فکری اور تنقیدی خیالات سے ان کا دور خاصہ متاثر ہوا۔ ان سے ان کے رفقاءہی خاص متاثر نہیں ہوئے۔ بلکہ وہ لوگ بھی متاثر ہوئے جو ان کے دائرے سے باہر بلکہ مخالف تھے۔ خالص ادب اور عام تصانیف دونوں میں زمانے نے ان سے بہت کچھ سیکھا۔ اور ادب میں ایک خاص قسم کی معقولیت، نیا پن، ہمہ گیری ایک مقصد اور سنجیدگی پیدا ہو گئی جس کے سبب ادب بیکاروں کا مشغلہ نہ رہا بلکہ ادب برائے زندگی بن گیا۔ اُن کے اپنے رفقاءنے اُن کے اس مشن کو اور بھی آگے بڑھایا۔ مولانا الطاف حسین حالی، مولو ی ذکا اللہ، چراغ علی، محسن الملک اور مولوی نذیر احمد جیسے لوگوں کی نظریات میں سرسید کی جھلک نمایا ں ہے۔ بقول ڈاکٹر سید عبد اللہ
”سرسید کا ہم عصر ہر ادیب ایک دیو ادب تھا اور کسی نہ کسی رنگ میں سرسید سے متاثر تھا۔“

سرسید احمد خان کے متعلق شعرا کی آراء

 
تہذیب الاخلاق کا ٹائٹل جو سرسید 1870 میں لندن سے بنوا کر لائے تھے۔
ترے احسان رہ رہ کر سدا یاد آئیں گے ان کو
کریں گے ذکر ہر مجلس میں اور دہرائیں گے ان کو
  • مولوی نظیر احمد
وہ اپنے وقت کا اک فرد کامل بلکہ اکمل تھا
کہ ہم میں کا ہر اک اعلیٰ اس سے اسفل تھا
خرد مندوں کی صف میں سب موخر تھے وہ اول تھا
غرض اسلامیوں کی فوج کا لیڈر تھا جنرل تھا
اب اس کے بعد لشکر ہے مگر افسر نیہں کوئی
بھٹکتا پھر رہا ہے قافلہ رہبر نیہں کوئی
ہماری باتیں ہی باتیں ہیں سید کام کرتا تھا
نہ بھولو اس کو جو کچھ فرق ہے کہنے میں کرنے میں
یہ دنیا چاہے جو کچھ بھی کہے اکبر یہ کہتا ہے
خدا بخشے بہت سی خوبیاں تھیں مرنے والے میں
تہذیب اور اخلاق سِکھانے والا
سُورج کی طرح سے جگمگانے والا
خیرہ ہُوئیں اربابِ وطن کی آنکھیں
اس طرح سے آیا تھا وہ آنے والا
شرق و غرب کو ایک کرنے والا
اخلاص کا رنگ سب میں بھرنے والا
سید کی زبان کا اثر تھا اتنا
ہر لفظ دلوں میں تھا اُترنے والا
اسلام کی دیکھی تھی زبوں حالی بھی
مستقبلِ قوم پر نظر ڈالی بھی
تعمیر میں وہ قوم کی رہا مصروف
طعنے بھی سُنے اور سُنی گالی بھی
سرحد میں بھی چمکے ہیں ستارے اس کے
پنجاب میں بھی بہے ہیں دھارے اس کے
سندھی ہوں بلوچی ہوں کہ بنگالی ہوں
یو پی کی طرح سب ہی تھے پیارے اس کے
اِک صاحبِ ہوش ، راہبر تھے سید
اسلام کی چشمِ معتبر تھے سید
یہ صرف خطاب ہی نہیں ہے واقعہ ہے{{{2}}}
گرداب کو کشتی سے نکالا اس نے
گرتی ہوئی قوم کو سنبھالا اس نے
وہ خطہ گمنام کبھی تھا جو ، کول
اِک مرکزِ علم و فن میں ڈھالا اس نے
تھیں خوبیاں بے شُمار سید کی
ہو گی نہ کبھی خزاں بہار سرسید کی
نکلا ہے علی گڑھ سے جو پڑھ کے شخص
دراصل ہے یادگا سر سید کی
تاریک جو ہوگی رات ، ڈھل جائے گی
آئے گی کوئی بلا تو ٹل جائے گی
سید کی طرح کوئی سنبھالے گا اگر
تھی قوم اگر جسم تو سر تھے سید
بگڑی ہوئی قوم سنبھل جائے گی

یاد رکھنا چاہئیے کہ شعرا کسی بھی بات کو چاہے وہ تعریف ہو یا تنقیص بہت بڑھا چڑھا کر بیان کرتے ہیں ان کے یہاں مبالغہ آرائی بہت زیادہ ملتی ہے۔[32] }}

تنقید اور مخالفت

اکثر اسلامی حلقوں میں سرسید گمراہ اور کافر قرار دیا جاتا رہا۔ برصغیر میں انگریزوں کے دو منتخب احمد خاص کر تنقید کا نشانہ بنے جن میں ایک مرزا غلام احمد اور دوسرا سید احمد خان تھا۔ اسلام کے بنیادی عقائد پر مختلف نقطۂ نظر رکھنے کی وجہ سے شدید تنقید کا نشانہ بنےs۔

انگریزوں کے ساتھ کھانے پر عام رد عمل

سر سید نے انگریزوں کے ساتھ کھانے پینے کا پ رہی ز چھوڑ دیا تھا۔ لندن جانے پہلے جب انھوں نے ایک رسالہ احکامِ طعامِ اہلِ کتاب پر لکھ کر شائع کیا تو عموماً ان کو کرسٹان کا خطاب دیا گیا اور جا بجا اس کے چرچے ہونے لگے۔ جب ولایت کے سفر میں چند روز باقی رہ گئے تو انھوں نے اس خیال سے کہ انگریزی طریقہ پر کھانا کھانے سے بخوبی واقفیت ہو جائے یہ معمول باندھ لیا تھا کہ مسٹر سماتیہ جو بنارس میں ایک سوداگر تھے اور سر سید کی کوٹھی سے ان کی کوٹھی ملی ہوئی تھی ایک دن یہ شام کا کھانا ان کے گھر پر جا کر کھاتے تھے اور ایک دن وہ ان کے گھر پر آ کر کھاتے تھے سرسید کہتے ہیں:

"اتفاق سے ان ہی دنوں میں مولوی سید مہدی علی خان مرزا پور سے بنارس میں مجھ سے ملنے کو آئے۔ رات کا وقت تھا اور میرے ہاں کھانے کی باری تھی ہم دونوں میز پر بیٹھے کھانا کھا رہے تھے کہ مہدی علی آ پہنچے۔ یہ پہلی دفعہ تھی کہ مولوی مہدی علی نے ایک مسلمان کو اس طرح ایک انگریز کے ساتھ کھانا کھاتے دیکھا تھا۔ سخت نفرت ہوئی اور باوجود میرے ہاں مہمان ہونے کے کھانا نہ کھایا اور کہا:

میں کھا چکا ہوں۔

صبح کو مجھے معلوم ہوا کہ انھوں نے اس وجہ سے کھانا نہیں کھایا۔ میں نے کہا:

اگر آپ کو یہ طریقہ ناپسند ہو تو دوسرا بندوبست کیا جائے؟

انھوں نے سوچا کہ شرعاً تو ممنوع نہیں ہے۔ صرف عادت کے خلاف دیکھنے سے نفرت ہوئی ہے۔ آخر قبول کر لیا اور سب سے پہلی دفعہ دن کا کھانا میرے ساتھ میز پر کھایا۔ دن تو اس طرح گذر گیا مگر رات کو یہ مشکل پیش آئی کہ رات کا کھانا مسٹر سماتیہ کے ہاں تھا۔ میں نے ان سے پوچھا:

اگر آپ کو وہاں کھانے میں تامل ہو تو یہاں انتظام کیا جائے؟

انھوں نے پھر اسی خیال سے کہ شرعاً ممنوع نہیں اقرار کر لیا:

میں بھی وہیں کھالوں گا

چنانچہ رات کو وہیں کھانا کھایا۔ پھر ایک آدھ روز بعد مرزا پور واپس چلے گئے۔

الہ آباد میں ان کے ایک دوست کو یہ حال معلوم ہو گیا انھوں نے خط لکھ کر دریافت کیا:

کیا یہ خبر سچ ہے؟

مولوی مہدی علی نے سارا حال مفصل لکھ بھیجا۔ انھوں نے وہ خط بجنسہ ہمارے ایک نامہربان دوست کے پاس جو اٹاوہ میں رونق افروز تھے، بھیج دیا۔ انھوں نے تمام شہر میں ڈھنڈورہ پیٹ دیا کہ مہدی علی کرسٹان ہو گئے۔ مولوی صاحب کے گھر کے پاس ہی ایک پینٹھ لگا کرتی تھی۔ ہمارے شفیق نامہربان نے اس گنوار دل میں جا کر خط کا مضمون ایک ایک آدمی کو سنایا اور تمام پینٹھ میں منادی کر دی:

بھائیو! افسوس ہے مولوی مہدی علی کرسٹان ہو گئے۔ جو سنتا تھا افسوس کرتا تھا اور کہتا تھا خدا سید احمد خاں پر لعنت کرے۔ (اتنے اکرام و احترام سے لعنت تو نہ کرتا ہوگا)

اس خبر کا مشہور ہونا تھا کہ مولوی صاحب کے گھر پر حلال خور نے کمانا سقے نے پانی بھرنا اور سب لگے بندھوں نے آنا جانا چھوڑ دیا۔ گھر والوں نے ان کو لکھا:

تمھاری بدولت ہم پر سخت تکلیف گذر رہی ہے تم جلدی آؤ اور اس تکلیف کو رفع کرو۔

انھوں نے ایک طول طویل خط ان ہی بزرگ کو جنھوں نے یہ افواہ اڑائی تھی حلت طعامِ اہلِ کتاب کے باب میں لکھا اور پھر خود اٹاوہ میں آئے اور سب کو سمجھایا کہ میں کرسٹان نہیں ہوں جیسا پہلے مسلمان تھا ویسا ہی اب ہوں غرض بڑی مشکل سے لوگوں کا شبہ رفع کیا۔"

×: اس خطاب کے پس منظر میں مذ کورہ رسالہ میں سر سید کی اس قسم کی تحریریں تھیں:

"اگر اہلِ کتاب کسی جانور کی گردن توڑ کر مار ڈالنا یا سر پھاڑ کر مار ڈالنا زکوٰۃ سمجھتے ہوں تو ہم مسلمانوں کو اس کا کھانا درست ہے۔"

(معلوم نہیں ایسے مسائل وہ کہاں سے نکال لاتا تھا کیونکہ فرنگیوں کیساتھ کھانا پینا ظاہر ہے کہ مجبوراً ہی کسی کو درپیش ہوتا ہوگا اور مجبوری میں تو کوئی ممانعت ہے ہی نہیں یہ تو بخوشی ہروقت فرنگی کی گود میں بیٹھنے والے کے لیے مسئلہ ہوتا ہوگا) [33]

انگریزوں کے لیے جاں نثاری

لائل محمڈنز آف انڈیا میں سرسید لکھتا ہے:

" میں نے اپنی گورنمنٹ کی خیرخواہی اور سرکار کی وفاداری پر چست کمر باندھی ہرحال اور ہر امر میں مسٹر الیگزینڈر شیکسپیئر صاحب بہادر کلکٹر و مجسٹریٹ بجنور کے شریک رہا۔ یہاں تک کہ ہم نے اپنے مکان پر رہنا موقوف کر دیا۔ دن رات صاحب کی کوٹھی پر حاضر رہتا تھا اور رات کو کوٹھی پر پہرہ دینا اور حکام کی اور میم صاحبہ اور بچوں کی حفاظت جان کا خاص اپنے ذمہ اہتمام لیا۔ ہم کو یاد نہیں ہے کہ دن رات میں کسی وقت ہمارے بدن پر سے ہتھیار اترا ہو۔" [34]

سر بیچنے کا ذکر

مذہبی عقائد اور اقوال کے سوا اور طرح طرح کے اتہامات اس خیرخواہِ خلائق پر لگائے جاتے تھے۔ اس بات کا تو سر سید کی وفات تک ہزاروں آدمیوں کو یقین تھا کہ انھوں نے اپنا سر دَس ہزار روپے کو انگریزوں کے ہاتھ بیچ دیا ہے۔ اکثر لوگ سمجھتے تھے کہ بعد مرنے کے انگریز ان کا سر کاٹ کر لندن لے جائیں گے اور لندن کے عجائب خانہ میں رکھیں گے۔ ایک بار یہی سر بیچنے کا تذکرہ سر سید کے سامنے ہوا۔ اس وقت راقم بھی موجود تھا۔ اس مرحوم نے نہایت کشادہ دلی کے ساتھ فرمایا کہ:

"جو چیز خاک میں مل کر خاک ہو جانے والی ہے، اس کے لیے اس زیادہ اور کیا عزت ہو سکتی ہے دانشمند لوگ اس کو روپیہ دے کر خریدیں اس کے ڈسکشن× سے کوئی علمی نتیجہ نکالیں اور اس کی قیمت کا روپیہ قوم کی تعلیم کے کام آئے دَس ہزار چھوڑ دس روپے بھی اگر اس کی قیمت میں ملیں تو میرے نزدیک مفت ہیں۔"

قتل کی منصوبہ بندی

جب سر سید کے کفر و ارتداد اور واجب القتل ہونے کے فتوے اطرافِ ہندوستان میں شائع ہوئے تو ان کی جان لینے کی دھمکیوں کے گمنام خطوط ان کے پاس آنے لگے۔ اکثر خطوں کا یہ مضمون تھا کہ ہم نے اس بات پر قرآن اُٹھایا ہے کہ تم کو مار ڈالیں گے۔ ایک خط میں لکھا تھا کہ شیر علی جس نے لارڈ میو کو مارا تھا اس نے نہایت حماقت کی اگر وہ تم کو مار ڈالتا تو یقینی بہشت میں پہنچ گیا ہوتا۔

1891ء میں جبکہ سر سید کالج کی طرف سے ایک ڈپوٹیشن لے کر حیدرآباد گئے تھے اور حضور نظام (خلد اللہ ملکہ) کے ہاں بشیر باغ میں مہمان تھے ایک مولوی نے ہمارے سامنے سر سید سے ذکر کیا کہ کلکتہ میں ایک مسلمان تاجر نے آپ کے قتل کا مصمم ارادہ کر لیا تھا اور ایک شخص کو اس کام پر مامور کرنا چاہتا تھا۔ اس بات کی مجھ کو بھی خبر ہوئی چونکہ میں علی گڑھ کی طرف آنے والا تھا اس سے خود جا کر ملا اور اس سے کہا کہ میں علی گڑھ جانے والا ہوں اور میرا ارادہ سید احمد خاں سے ملنے کا ہے۔ جب تک میں ان کے عقائد اور مذہبی خیالات دریافت کر کے آپ کو اطلاع نہ دوں آپ اس ارادہ سے باز رہیں۔ چنانچہ میں علی گڑھ میں آیا اور آپ سے ملا اور بعد دریافتِ حالات کے اس کو لکھ بھیجا کہ سید احمد خاں میں کوئی بات میں نے اسلام کے خلاف نہیں پائی۔ تم کو چاہیے کہ اپنے منصوبے سے توبہ کرو اور اپنے خیال خام سے نادم ہو۔"

سرسید نے جو یہ حال سن کر اس کو جواب دیا وہ یہ تھا:

افسوس ہے کہ آپ نے اس دیندار مسلمان کو اس ارادہ سے روک دیا اور ہم کو ہمارے بزرگوں کی میراث سے جو ہمیشہ اپنے بھائی مسلمانوں ہی کے ہاتھ سے قتل ہوتے رہے ہیں محروم رکھا [33]

وفات

 
سر سید احمد خان کا مقبرہ

سرسید احمد خان 80 سال کی عمر میں 27 مارچ 1898ء میں فوت ہوئے اور اپنے کالج کی مسجد میں دفن ہوئے۔

مزید دیکھیے

حوالہ جات

  1. عنوان : Les nouveaux penseurs de l'islam — صفحہ: 47 — ISBN 978-2-226-17858-9
  2. مصنف: فرانس کا قومی کتب خانہhttp://data.bnf.fr/ark:/12148/cb120491899 — اخذ شدہ بتاریخ: 10 اکتوبر 2015 — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ
  3. ^ ا ب Enlightenment and Islam: Sayyid Ahmad Khan's Plea to Indian Muslims for Reason | Dietrich Reetz – Academia.edu
  4. ^ ا ب Glasse, Cyril, The New Encyclopedia of Islam، Altamira Press, (2001)
  5. ^ ا ب Encyclopedia of Islam and the Muslim World, Thompson Gale (2004)
  6. "Beacon in the dark: Father of the two-nation theory remembered"۔ The Express Tribune (newspaper) (بزبان انگریزی)۔ 27 October 2014۔ 27 مارچ 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 اگست 2019 
  7. Nadeem F. Paracha (2016-08-15)۔ "The forgotten future: Sir Syed and the birth of Muslim nationalism in South Asia"۔ DAWN.COM (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 اکتوبر 2020 
  8. "Sir Syed Ahmad Khan | The greatest Muslim reformer and statesman of the 19th Century." (بزبان انگریزی)۔ 2003-06-01۔ 06 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 ستمبر 2016 
  9. "Sir Sayyid Ahmad Khan | Muslim scholar"۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 ستمبر 2016 
  10. "Why Sir Syed loses and Allama Iqbal wins in Pakistan – دی ایکسپریس ٹریبیون" (بزبان انگریزی)۔ 2013-02-08۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 ستمبر 2016 
  11. "'Commercialisation of Sir Syed's name': Court seeks input from city's top managers – دی ایکسپریس ٹریبیون" (بزبان انگریزی)۔ 2012-02-01۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 ستمبر 2016 
  12. "Sir Syed Ahmad Khan"۔ Nazaria-e-Pakistan۔ Story of Pakistan, Sir Syed۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 مارچ 2014 
  13. نویدِ فکر، سبط حسن
  14. George Farquhar GRAHAM (1885)۔ The Life and Work of Syed Ahmed Khan, C. S. L.۔ Blackwood۔ صفحہ: 4 
  15. ^ ا ب الطاف حسین حالی (1901)۔ حیات جاوید 
  16. Shamsur Rahman Faruqi۔ "From Antiquary to Social Revolutionary: Syed Ahmad Khan and the Colonial Experience" (PDF)۔ Shamsur Rahman Faruqi, work in English۔ Columbia University۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 دسمبر 2015 
  17. "تعلیمی خدمات"۔ 04 مارچ 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 جولا‎ئی 2010 
  18. ^ ا ب پ ت ٹ ث سر سید کی کہانی سر سید کی زبانی۔ بابِ ہشتم: تعلیمی سرگرمیاں مصنف الطاف حسین حالی
  19. ^ ا ب رضوان احمد (16 اکتوبر 2009)۔ "سر سید احمد خاں کی یاد میں"۔ وائس آف امریکا 
  20. الطاف حسین حالی۔ حیات جاوید۔ صفحہ: 187 
  21. Engineer Asghar ALI (2001)۔ Rational Approach to Islam۔ دہلی: Gyan Publishing House۔ صفحہ: 191۔ ISBN 8121207258 
  22. S KUMAR (2000)۔ Educational Philosophy in Modern India۔ Anmol Publications Pvt. Ltd.۔ صفحہ: 59۔ ISBN 81-261-0431-7 
  23. #
  24. "تحریک علی گڑھ"۔ 11 ستمبر 2011 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 جولا‎ئی 2010 
  25. "محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس"۔ 11 ستمبر 2011 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 جولا‎ئی 2010 
  26. الطاف حسین حالی (1901)۔ حیات جاوید۔ صفحہ: 267 
  27. RC MAJUMDAR (1969)۔ Struggle for Freedom۔ Bharatiya Vidya Bhavan۔ صفحہ: 1967۔ ASIN: B000HXEOUM 
  28. MRA BAIG (1974)۔ The Muslim Dilemma in India۔ دہلی: Vikas Publishing House۔ صفحہ: 51–2 
  29. S KUMAR (2000)۔ Educational Philosophy in Modern India۔ Anmol Publications Pvt. Ltd.۔ صفحہ: 60۔ ISBN 81-261-0431-7 
  30. "سرسید کی سیاسی خدمات"۔ 04 مارچ 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 جولا‎ئی 2010 
  31. -لیے&s=49d75e26c526ae19fc628f95e66d1a93 سرسید احمد خاں کے لیے[مردہ ربط]
  32. ^ ا ب سر سید کی کہانی سر سید کی زبانی۔ بابِ نہم: مخالفت۔ مصنف الطاف حسین حالی
  33. (لائل محمڈنز آف انڈیا حصہ اول مطبوعہ 1860ء، میرٹھ، صفحہ13، 14 )

بیرونی روابط