چین میں خواتین
چین میں خواتین کی زندگیوں کو چنگ خاندان کے عہد کے آخر میں وسییع اصلاحات نے پوری طرح تبدیل کیا، جمہوری عہد، چینی خانہ جنگی اور عوامی جمہوریہ چین کے دور عروج میں عوامی سطح پر صنفی مساوات کو مشتہر کیا گیا۔ تاریخی طور پر مردوں کے غلبے والے چینی سماج میں مزاحمت کے ساتھ صنفی مساوات کے لیے نئی کمیونسٹ حکومت کے لیے کوشش کی گئی۔ چین میں مکمل مساوات کے حصول کے لیے خواتین کو راہ میں رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
جیانگشی دیہی علاقے کی | |
جنسی عدم مساوات کا اشاریہ | |
---|---|
قدر | 0.213 (2012) |
صفبندی | 35واں |
مادرانہ اموات (per 100,000) | 37 (2010) |
پارلیمان میں خواتین | 24.2% (2013)[1] |
25 سے اوپر خواتین جنہوں نے ثانوی تعلیم حاصل کی | 54.8% (2010) |
ملازمتوں میں خواتین | 67.7% (2011) |
Global Gender Gap Index[2] | |
قدر | 0.6908 (2013) |
صفبندی | 69واں out of 144 |
خواتین کے خلاف جرائم
ترمیمبندش پا چین کی ایک رسم تھی جس میں نوخیز بچیوں کے پاؤں کو کس کر جکڑ دیا جاتا تھا تاکہ ان کے قدم خوب صورت اور اس کی جسامت متناسب ہو جائیں۔ یہ رسم تانگ خاندان کے عہد حکومت سے بیسویں صدی عیسوی تک رائج رہی اور اس عرصے میں اسے ذی حیثیت خواتین کی علامت نیز خوب صورتی کی نشانی بھی سمجھا جاتا تھا۔ بندش پا کا عمل خاصا تکلیف دہ اور عموماً طبقہ اشرافیہ کے خاندانوں تک ہی محدود رہا؛ بسا اوقات اس عمل سے گزرنے والی بچیاں دائمی طور پر معذور بھی ہو جاتی تھیں۔ تاہم جو پاؤں اس عمل کی بدولت خوب صورت شکل اختیار کر لیتے انھیں کنول نما پاؤں کہا جاتا۔
غالباً دسویں صدی عیسوی میں پانچ خاندانوں اور دس بادشاہتوں کے عہد کی درباری رقاصاؤں سے اس رسم کا آغاز ہوا اور بعد ازاں تانگ خاندان کے عہد حکومت میں اشرافیہ کے درمیان یہ رسم رائج ہوئی اور چنگ خاندان کے عہد حکومت تک بتدریج تمام سماجی طبقات میں پھیل گئی۔ بندش پا کی مختلف شکلیں مروج تھیں جن میں سب سے زیادہ تکلیف دہ شکل سولہویں صدی عیسوی میں سامنے آئی۔ ایک تخمینہ کے مطابق انیسویں صدی تک چالیس سے پچاس فیصد چینی خواتین اور چینی اشرافیہ کی سو فیصد خواتین اس عمل سے گذر چکی تھیں۔[3] تاہم ملک کے مختلف حصوں میں اس رسم کی مختلف شکلیں رائج رہیں۔
حکومتی احکامات
ترمیم2017ء میں فیوشن علاقے میں خواتین کو روایتی اخلاقیات سکھانے والے ایک ادارے پر جو 6 سال سے کام کر رہا تھا، اس پر پابندی اگا دی گئی، اس پر یہ الزام تھا وہ خواتین کو اپنے والد، شوہر اور بیٹے کی اطاعت، اپنے کنوارے پن کو اہمیت دینا اور اس کی حفاظت کرنا اور اس بات کو سمجھنا کہ جو عورت قابل نہیں ہے وہ نیکوکار ہے، اس تربیت کا حصہ تھا۔[4] جولائی 2017ء میں چین کے صوبے گوانگ ڈونگ کی میٹرو ریل نے خواتین کے لیے مخصوص ریل سروس شروع کی۔ یہ ریل گاڑیاں پانچ دن صبح ساڑھے سات سے ساڑھے نو بجے تک اور شام پانچ بجے سے سات بجے تک چلتی ہیں۔[5]
2019ء میں، حکومت نے ہدایات جاری کیں کہ ایسے آجرین پر پابندی لگائی جائے جو نوکرویں کے لیے مردوں کو ترجیح یا صرف مردوں کے لیے اشتہار دیں یا اداروں پر بھی پابندی لگانے کا کہا جو خواتین کو حاملہ حالت میں کام کرنے، اپنی شادی کی منصوبہ بندی یا حمل متعلقہ ٹیسٹ کروانے کے دوران میں کام کرنے پر مجبور کریں۔[6]
مزید دیکھیے
ترمیمحوالہ جات
ترمیم- ↑ http://www.ipu.org/wmn-e/classif.htm
- ↑ "دی گلوبل جینڈر رپورٹ 2013" (PDF)۔ ورلڈ اکنامک فورم۔ صفحہ: 12–13
- ↑ Louisa Lim (19 مارچ 2007)۔ "Painful Memories for China's Footbinding Survivors"۔ Morning Edition۔ National Public Radio
- ↑ "چین میں عورتوں کے لیے اخلاقی تربیت کے ادارے"۔ بی بی سی۔ 12 دسمبر 2017ء۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 اپریل 2019
- ↑ "چین میں خواتین کے لئے مخصوص ٹرین سروس کا آغاز"۔ نوائے وقت۔ 19 جولائی 2017ء۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 اپریل 2019
- ↑ "China says employers can't ask women if they want kids – Inkstone"۔ Inkstonenews.com۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 فروری 2019