روزنامچہ یا ڈائری عمومًا تفکر، افکار اور معاملات کے تاریخ وار لکھنے کے لیے ہی استعمال میں آتی رہی ہے۔ لیکن دوسری شکل بندیوں میں بھی خصوصًا افسانوری یا واقعاتی نگارشات کے لکھنے میں آسانی سے ڈھل جاتی رہی ہے۔ اگر ڈائری میں لگاتار تسلسل نہیں ہوتا تو اس طرح واقعات میں پانی کی طرح گھل جانا ممکن نہیں ہوتا۔ اس طرح ہم دیکھا گیا ہے کہ باضابطگی سے ڈائری کا پختہ تعلق بنتا ہے۔ جیسے کسی واردات کا تعلق ایک گواہ ہی زندہ روپ میں پیش کر سکتا ہے، اس کا تفصیلی بیورا دے سکتا ہے، اسی طرح ڈائری کئی بار ہمیں زندہ بیورے سے روبرو کر دیتی ہے۔ درحقیقت جب بھی اس طرح کے واقعات کا تذکرہ ڈائری میں ہوتا ہیں، تو ڈائری کا لکھاری اور ڈائری دونوں گواہ بن جاتے ہیں۔

ڈائریوں یا روزنامچوں کے سادہ کوَر

فن روزنامچہ نگاری

ترمیم

یہ حیرت انگیز امر ہے کہ روزنامچہ لکھنے والے زیادہ تر مرد ہوتے ہیں۔ پھر بھی دنیا میں جو مشہور روزنامچے ہوئے ہیں، ان میں خواتین کی تعداد کافی وسیع اور قابل ذکر رہی ہے جیسے کہ ایک ڈوروتھی ورڈسورتھ اور ورجینیا وولف بہت مشہور ہوئی ہیں۔ تیسری سب سے بڑی لکھاری این فرینک مانی جاتی ہیں۔ اس یہودی جوان لڑکی کو نیدرلینڈ پر نازی قبضے کے درمیان دو سال تک چھپے رہنا پڑا۔ اس کے بعد اس کے خاندان کو جرمن خفیہ پولیس گیسٹاپو نے پکڑ لیا اور ان کو پولینڈ میں موجود کانسنٹریشن کیمپ میں بھیج دیا۔ وہاں این کی ماں مر گئی۔ بعد میں اس کی بہن اور این دونوں ٹائیفائڈ سے مر گئیں۔ جب جرمن ہٹے اور روسیوں نے اس علاقے کو قبضے میں لیا، تب این کی ڈائری ملی۔ اس کتاب کو دی ڈائری آف اے ینگ گرل کے عنوان سے چھاپا گیا اور اس کا پچاسوں زبانوں میں ترجمہ ہوا ہے۔ اس روزنامچے کوسب سے زیادہ مقبول ڈائریوں میں شمار کیا جاتا ہے کیوں کہ یہ ایک خاندان کے حقیقی انسانیت سوز المیے کو سپرد قلم کرتی ہے۔[1]

حوالہ جات

ترمیم
  1. "Diary Writing by Arun Prakash"۔ 14 اکتوبر 2007 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 نومبر 2015