اینیلیز «این» فرینک (جرمن: [anəli:s maˈʁi: ˈʔanə ˈfʁaŋk]؛ ڈچ: [ɑnəˈlis ma:ˈri ˈʔɑnə ˈfrɑŋk]؛ 12 جون 1929 – فروری یا مارچ 1945)[1] جرمنی میں پیدا ہونے والی ایک روزنامچہ (ڈائری) نگار تھی۔ وہ مرگ انبوہ کے سب سے زیادہ چرچوں میں رہنے والے یہودی متاثرین میں سے ایک تھی۔ اس کی وفات کے بعد اس کی ”ایک نوعمر لڑکی کی ڈائری“ (اصلی عنوان ڈچ میں Het Achterhuis) شائع ہوئی جس سے وہ بہت مشہور ہو گئی۔ اس ڈائری میں اس نے جنگ عظیم دوم میں جرمنی کے نیدرلینڈز پر قبضے کے دوران میں 1942ء سے 1944ء تک اپنی زندگی کے احوال بیان کیے تھے۔ اس ڈائری کا شمار دنیا کی معروف ترین کتابوں میں ہوتا ہے اور اس ڈائری کے واقعات پر کئی فلمیں اور ڈرامے بن چکے ہیں۔

این فرینک
(1940)
پیدائشاینیلیز یا اینیلیس میری فرینک
12 جون 1929(1929-06-12)
فرینکفرٹ، ہیسے، جرمنی
وفاتفروری یا مارچ 1945ء (عمر 15 سال)
برجن بیلسن حراستی کیمپ، مشرقی ہانوور، نازی
آخری آرام گاہبرجن بیلسن حراستی کیمپ، نیدرزاکسن، جرمنی
پیشہروزنامچہ نگار
زبانڈچ
شہریت
  • 1941ء تک جرمن
  • 1941ء سے بے وطن
نمایاں کامایک نوعمر لڑکی کی ڈائری (1947)
رشتہ دار

دستخط

وہ فرینکفرٹ، جرمنی میں پیدا ہوئی۔ زیادہ تر وقت ایمسٹرڈم، نیدرلینڈز میں گزارا کیونکہ نازیوں نے جرمنی پر قابو پا لیا تھا اور مجبوراً اس کو کو اپنے خاندان کے ہمراہ ساڑھے چار برس کی عمر میں نیدرلینڈز جانا پڑ گیا۔ اس طرح این فرینک نے سنہ 1941ء میں اپنی شہریت کھو دی اور وہ بے وطن ہو گئی۔ مئی 1940ء میں نیدرلینڈز پر جرمن قبضے کی وجہ فرینک خاندان ایمسٹرڈم میں محصور ہو کر رہ گیا۔ جب جولائی 1942ء میں یہودی آبادی پر مظالم بڑھ گئے تو فرینک خاندان پوشیدہ کمروں میں چھپ گیا، یہ کمرے اس عمارت کی کتاب کی الماری کے پیچھے تھے جہاں اس کے والد کام کیا کرتے تھے۔ اس وقت سے لے کر اگست 1944ء میں گسٹاپو کے ہاتھوں خاندان کے گرفتار ہونے تک این کے پاس ایک ڈائری تھی جو اس کو اس کے جنم دن پر بطور تحفہ ملی تھی اور وہ اس میں روزانہ لکھتی تھی۔ فرینک خاندان کی گرفتاری کے بعد انھیں نازیوں کے حراستی کیمپ میں منتقل کر دیا گیا۔ اکتوبر یا نومبر 1944ء میں این اور اس کی بہن مارگوٹ کو آشویتز سے برجن بیلسن حراستی کیمپ بھجوا دیا گیا جہاں وہ دونوں کچھ ماہ بعد (ممکنہ طور پر ٹائیفس سے) وفات پا گئیں۔ انجمن صلیب احمر کے مطابق وہ دونوں میں مارچ مریں، لیکن 2015ء کی تحقیق کے مطابق ان کے فروری میں مرنے کے زیادہ امکانات ہیں۔[1]

این کے والد اوٹا خاندان کے واحد فرد تھے جو زندہ رہے، وہ جنگ کے بعد ایمسٹرڈم واپس آئے اور این کی وہ ڈائری حاصل کر لی جو ان کی دوست میپ گیس نے محفوظ کر کے رکھی تھی۔ این کے والد نے کوششوں کے بعد سنہ 1947ء میں ڈائری کو شائع کر دیا۔ اس ڈائری کو ڈچ زبان کے اصلی نسخے سے انگریزی زبان میں ترجمہ کیا گیا جس کا عنوان ”دی ڈائری آف اے ینگ گرل“ تھا اور اب تک اس کا 60 سے زائد زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے۔

حوالہ جات

ترمیم
  1. ^ ا ب Research by The Anne Frank House in 2015 revealed that Frank may have died in فروری 1945 rather than in مارچ, as Dutch authorities had long assumed. "New research sheds new light on Anne Frank’s last months"۔ AnneFrank.org, 31 مارچ 2015

بیرونی روابط

ترمیم