کالوینیت پروٹسٹنٹ فرقے کا ایک ذیلی فرقہ جس کے بانی جان کالون ہیں۔ یہ فرقہ کالون کی مذہبی تعلیمات پر مبنی ہے جن تعلیمات میں خدا کے اقتدار اعلیٰ، تقدیر اور ابتدائی گناہ پر زور دیا گیا ہے۔[1]

کالوینیت
جان کالون
جان کالون
جان کالون

مذہب مسیحیت
بانی جان کالون
ابتدا پروٹسٹنٹ فرقے سے

جان کالون

ترمیم

جان کووال[2] جس کو لاطینی میں کالوینس یا کیلون[3] کہا جاتاہے، نوائیوں[4] صوبہ پیکارڈی [5]میں 10جولائی1509ء کو پیدا ہوا۔اس کی دوبہنیں اورچاربھائی تھے اوریہ بڑے لڑکے سے چھوٹا تھا۔ اس کا والد جیرارڈ کیلون اعلیٰ درجہء کا وکیل ہونے کے باعث شاہی خاندان، روساء اور کلیساء کے خادمانِ دین کا وکیل اور مشیر تھا۔اس کی والدہ جین لا فرانس[6] اپنی خوبصورتی اور راستبازی میں مشہورتھی۔ یہ بچوں کو مقدس عیدوں میں ساتھ لے جاتی تھی۔ جان کالون نے ابتدائی تعلیم اپنے شہر کے روساء کے ساتھ ہی حاصل کی اور اس کے بعد مانٹ موزر کالج پیرس چلے گئے جہاں اس کی تربیت فرانسیسی ماحول میں ہوئی۔ اس کے والد کے دل میں یہ امنگ تھی کہ کالون ایک بہترین تعلیم یافتہ مسیحی خادم بنے اس لیے اس کا سر منڈوایا گیا۔ کالون نے پیرس میں علمِ الہی حاصل کی۔ اس کا استاد ماتھواں کارڈیے[7] مشہور عالم تھا جس کا مقصد ہمیشہ یہ ہوتاتھا کہ وہ طلبہ کو فرانسیسیوی اور اطالوی زبانوں کا ماہرعالم بنادے۔لیکن تعلیم کے دوران کیلون کے خیالات میں نیرنگ خیالی اور آزاد خیالی پائی جاتی تھی اس لیے اس کا نام کلیمنٹ مارو[8] اورکُورا کے ساتھ بدعتی فہرست میں درج کیا گیا۔ تب اسے اس کالج سے نکال کر کالج ڈے مانٹیگو[9]میں داخل کیا گیااور یہ وہاں مشہور اساتذہ نوئل بیڈا[10] اور پیارٹیمیپیٹ[11] کا شاگردبنا جنھوں نے اسے بحث ومباحثہ کے ڈھب اور فصاحت وبلاغت سے روشناس کیا۔ کالون چودہ برس کی عمر میں پیرس میں داخل ہوا اور اُنیس برس کی عمر میں یہاں سے چلا گیا۔ اس کی عِلمیت کایہ عالم تھا کہ خواندہ لوگ اس کے ساتھ رفاقت رکھنا باعثِ فخر سمجھتے تھے۔ کالون کو پیرس اس لیے ترک کرناپڑاکیونکہ اس کے والد نے کلیسیائی عہدیدران سے جھگڑا کیا جس کی وجہ سے کلیسیاء نے کالون کے خاندان کو کلیسیاء سے خارج کر دیا اورکلیسیاء سے خارج شدہ شخص کے بچے کو وہ کالج میں نہیں رکھ سکتے تھے۔تب اس کے والد نے سوچاکے لڑکے کو قانون دان بنایا جائے اس لیے وکالت کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے کالون کو1528ء میں آرلینز[12] ایک سال کے لیے لیے بھیجاگیا۔ چونکہ کالون کتبِ مقدسہء کی تعلیم حاصل کر چکا تھا اس لیے مزید مطالعہء قانون کے لیے بُورج[13] گیا جہاں سے پروٹسٹنٹ خیالات کا اثر اس کے دل ودماغ پر ہونے لگا۔بُورج میں یونانی زبان وُلمر [14]سے پڑھتا رہا جو لوتھری خیالات کا حامی تھا اس لیے کالون نے کرنتھیوں کےکلیسیاء کے نام دوسرے خط [15]کی تفسیر اپنے استاد وُلمر [16]کے نام منسوب کی۔ دورانِ تعلیم کالون وُلمر [17]کے گھر ہی رہا کرتا تھا جہاں اس کو تھیوڈور بیزا [18]سے رفاقت کا شرف حاصل ہوا جوفرانس میں پروٹسٹنٹ تحریک کارہنما تھا۔ 1531ء میں والد کی وفات کے بعد کالون واپس پیرس آکرفورٹ کالج میں علمائے بشریت(یہ علما شک کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے) سے پڑھنے لگا۔کالون نے ان ایام میں یونانی پیارڈاینس [19]سے اور عبرانی وَٹابِل [20]سے پڑھنی شروع کی اور 1532ء میں جبکہ ابھی ستائیس برس کا تھا، اس نے مشہور عالم سَنیِکا [21]کی کتاب دے کلیمنتیا (رحم کی تعریف) [22]کی تشریح لکھی۔ تشریح لکھنے میں اس نے 55 لاطینی علما کی کتب، 22 یونانی کتب، 5 ارسطو کی کتاب 4 افلاطون کی کتب اور پلوٹارک [23]کی کتب سے اقتباسات پیش کیے۔ یہ اگسٹین لکتانیتس[24] اورجیروم کی کتب سے بھی بخوبی واقف تھا۔اس کتاب کو لکھتے ہوئے اُس نے فرانس میں پروٹسٹنٹ پر جو مظالم ڈھائے جاتے تھے اورایذارسانی کے خلاف احتجاج کیا اور دلیرانہ لکھا کہ کہیں تو عدل وانصاف سے کام لو کیونکہ تمھاری عدلیہ انصاف اور راستبازی سے خالی ہے۔ کالون 1528ء یا 1532ء میں کسی وقت اصلاح کے خیالات کی طرف راغب ہوا، اس کا صحیح علم نہیں۔ وہ اپنی مزامیرکی تفسیر کی دیباچہء میں سوانح حیات کا ذکر کرتاہوابتاتاہے کہ وہ اندھا تھا مگر اب بینا تھا۔ وہ خود پیش کرتاہے کہ جب میں ہنوزبچہء تھا تو میرے والدین نے مجھے الہٰیات پڑھنے کے لیے مخصوص کیا لیکن بعد میں یہ سوچ کر کہ وکالت سے دولت میں اضافہ ہو گا تو مجھے قانون سیکھنے کے لیے بھیجاگیا، لیکن خدا نے میرے نظریات میں تبدیلی پیدا کر دی اور مجھے پوپی توہم پرستی کی دلدل سے باہر نکال دیا جس میں بچپن سے گرفتار تھا اور میں خداپرستی کا علم اورمزہ حاصل کر کے بڑے شوق سے ان باتوں میں ترقی کرنے لگا۔ لیکن میں نے ادبی اورقانونی مطالعہء بدستور جاری رکھا۔ کالون وہ شخص تھا جو اپنے حال کا بیان نہیں کرنا چاہتا تھا۔ اس کی خودپسندی کا یہ عالم تھا کہ نہ تو اس نے سوانح حیات لکھی اور ناہی کوئی اپنا روحانی تجربہ بیان کیا لیکن وہ اقرار کرتا تھا کہ مسیح خداوند اس کا نجات دہندہ ہے لیکن وہ بتاتا نہیں کہ یہ تجربہ اسے کیسے حاصل ہوا۔ اس کی مشہور تصنیف مسیحی مذہب کے اصولات ہے۔ کالون خدا کی خدمت میں اتنا محو تھا کہ دن نکلتے ہی اس کے لیے کام کا انبار تیاررہتا۔ جب دوسرے لوگ آرام کی نیند سوتے تو یہ پڑھتا یا لکھتا یا دعا میں مصروف رہتا تھا اور اس پر طرہ کہ یورپ اورجنیوا کی کلیسیاؤں کی مشکلات کا بوجھ اسے چین نہ لینے دیتا تھا جس کے باعث اس کی صحت خراب ہو گئی اور ہر قسم کی بیماری نے اسے دبا لیا۔ وہ آنکھوں کی بیماری، دمہ، بدہضمی اور سردرد کے مرض کا شکار ہو گیا۔ 1558ء میں وہ طویل عرصہء کے لیے بیمار پڑا جس کے بعد تاحیات صحت مند نہ ہو سکا۔ اس کی بیماریاں بڑھتی گئیں اور گھٹنوں اور جوڑوں کے درد نے اضافہ کر کے اس کا جگر خراب کر دیا جس کے باعث وہ تپِ دق کے مرض میں مبتلا ہوگیاتو بھی اس نے خدا کی خدمت کرنے میں مصروف رہا۔ جب اس کی ٹانگیں چلنے پھرنے سے عاجز آگئیں تو تقریر کے لیے اسے اٹھا کر کیتھیڈرل میں لے جاتے تھے۔ وہ 6 فروری 1564ء تک درس دیتا رہااور 20 اپریل کو جب وہ گرجاگھر میں حاضرتھا اس سے بیزا[25] سے پاک عشاء لی جس کے بعد حمدوثناء میں شریک ہوا۔ گو اس وقت اس کی آواز کانپتی تھی تو بھی چہرہ بشاش تھا۔ 27ء اپریل کو اس کی صحت بے حد بگڑگئی تب اس سے کونسل کے تمام افراد کو الوداع کہنے کے لیے طلب کیااور جنیوا کے تمام خادمانِ دین کو بلاکران پراپنی کوششوں اور کمزوریوں کو واضح کیا اور کہا کہ خدانے میرے گناہوں کے باعث مجھے دکھ دیا ہے لیکن تو بھی خدا کا خوف میرے دل میں موجود ہے۔ یہ دکھ میری تربیت کے لیے ہے تاکہ میں اس کا بنا رہوں اور اس سے رُوگردانی نہ کروں۔ اس کے بعد اپنے سیکرٹری کوطلب کر کے وصیت نامہ لکھوایا جس میں اس نے اپنے شخصی ایمان کی گواہی پیش کی اور 6 مئی کو فیرل[26] کو لکھا کہ وہ اتحادِکلیسیاء کی تجویزکو یادرکھے اور اس کو عمل میں لانے کی کوشش کرے جس کے پھل ہمیں آسمان میں حاصل ہوں گے۔ تب اس کی زبان بند ہو گئی اور وہ دعا کرتا رہا کہکلیسیاؤں میں اتحاد ہو۔ 28 مئی 1564ء کو بیزا [27]نے اسے ابدی مقام کو جاتے دیکھااور لکھا کہ اس کا چہرہ الہٰی نور سے روشن تھا اور شام کو سورج کے غروب ہوتے وقت یہ جلتا ہواچراغ جو کلیسیاء کی رہنمائی کے لیے بھیجا گیا تھا واپس آسمان کی طرف اٹھا لیا گیا۔ جنیوا میں شہریوں اور اجنبیوں نے ماتم کیا اور کونسل نے اعلان کیا کہ خدا نے کالون کو بے مثل کردار بخشا تھا۔ یہ شخصیت جس پر ہرطرف سے حملے کیے گئے اور اس کی حفاظت بھی نہ ہوئی۔ بعض تاریخ دانوں نے اس کے بارے میں لکھنے سے اجتناب کیا ہے۔ یہاں تک کہ اس کی قبر کا کوئی پتھر بھی یادکے لیے باقی نہیں لیکن اس کا نام اتنا مشہور ہے کہ تادم عالم یاد رہے۔[28]

ٹیلولپ T-U-L-I-P

ترمیم
  • آدم کی فطرت کا مکمل بگاڑ (Total Depravity)

بنی نوع انسان گناہ کے فریب میں آنے سے مکمل طور پر مردود ہو گیا۔ روحانی طور پر مردہ بن گیا۔ گرے ہوئے انسان کا بگاڑ ’’جزوی“ نہیں بلکہ ”کُلی“ ہے۔ مطلب یہ ہے کہ گناہ انسان کی پوری زندگی پر قبضہ جما چکا ہے اور زندگی کے ہر پہلو کو داغدار بنادیا ہے۔

بائبل مقدس کا فرمان ہے کہ برگشتہ انسان خدا کا دشمن ہے اور خدا کو خوش نہیں کر سکتا (رومیوں 8 : 7-8)۔ کوئی خدا کا طالب نہیں۔ کوئی بھلائی کرنے والا نہیں (رومیوں 3 :11-12)۔ وہ خدا سے بھٹک گئے اور ہر ایک اپنی راہ کو پھرا (یسعیاہ 6 : 53)۔ وہ اخلاقی اعتبار سے تاریکی کی حالت میں ہے (یوحنا 3: 19)۔ شیطان

کی باتوں کو پسند کرتا ہے (یوحنا 8 : 44)۔ عقل تاریک (افسیوں 5: 11-18)۔ ذہنی طور پر خدا کی باتیں اس کے نزدیک بیوقوفی کی باتیں ہیں (1 کرنتھیوں 2: 14)۔ خدا کے نور سے دشمنی (یوحنا 3: 20)۔ اپنی پوری ذات میں روحانی طور پر مردہ ہے (افسیوں 2: 1)۔ مردہ شخص اپنی نجات کے لیے کچھ نہیں کرسکتا اور اب جو ایمان لاتا ہے (زمان حال) وہ موت (زمانہ ماضی) سے نکل کر زندگی میں داخل ہو جاتا ہے۔

  • غیر مشروط برگزیدگی (Unconditional Election)

کتاب مقدس کی تعلیم اور ریفارمڈ کلیسیا کے ایمان کے مطابق دوسرا نقطہ غیر مشروط برگزیدگی ہے۔ یقیناً آپ اس پہلو کوقبول کریں گے کہ خدا کے لوگ اس کے چُنے ہوئے لوگ ہیں (1 پطرس 2: 9)۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ خدا نے کیوں اپنی مرضی سے لوگوں کو چن لیا۔ کیا اس سے ہم یہ مطلب لیں کہ چنے ہوئے لوگوں نے خدا کی کچھ شرائط پوری کر دِیں یا خدا کا کوئی امتحان پاس کیا یا ایسے لوگ دوسروں سے زیادہ فہیم اور قابل قدر ہیں؟ ہرگز نہیں! بلکہ یہ سب کچھ خدا کے فضل پر مبنی ہے اور غیر مستحق لوگوں پر خدا کے رحم کا معاملہ ہے ۔ کتاب مقدس میں یوں لکھا ہے کہ خدا نے بنائے عالم سے پیشتر ہی سے اپنے لوگوں کو چن لیا (افسیوں 1: 4)۔ پس پولس رسول نے بڑی دلیری سے اس کی وضاحت یوں بیان کی کہ خدا کا چناؤ انسان کے اراده یا اعمال پر بنی نہیں بلکہ خدا کے خود مختار چناؤ پر ہے کہ: ”جس پر رحم کرنا منظور ہے اس پر رقم کروں گا‘‘ (افسیوں 9: 15-16)۔

خدا نے اپنے لوگوں کو اس وجہ سے نہیں چُنا کہ وہ دیکھتا رہا کہ وہ ایمان لائیں گے یا پاکیزہ زندگی بسر کریں گے۔ بلکہ خدا کے لوگ ایمان لاتے اور اس کی فرماں برداری کرتے ہیں کیونکہ خدا نے ازل ہی سے اپنی مرضی کے مطابق انھیں چن لیا (اعمال 13: 48، 18:27)۔ جیسا مسیح یسوع نے یوحنا 16: 15 میں فرمایا: ”کہ تم نے مجھے نہیں چنا بلکہ میں نے تم کو چن لیا اورتم کو مقرر کیا کہ جا کر چل لاؤ“ کوئی مسیحی بھی یہ خیال نہ کرے کہ خدا نے مجھے اس لیے چنا ہے کہ میں دوسروں سے نسبتاً بہتر انسان ہوں۔ پولس رسول نسل انسانی کے گناہ آلودہ ہونے کا ذکر یوں کرتا ہے کہ ساری نسل انسانی مٹی کے ایک لَوندے کی پیداوار ہے۔ خدا خالق ایک روحانی کمھار ہے۔ وہ عام مٹی کے ایک ہی لوندے سے بعض برتن رحم کے لیے اور بعض غضب کے لیے بناتا ہے (رومیوں 9: 20-23)۔ خدا کے چنے ہوئے لوگ قدرے بہتر مٹی کی پیداوار نہیں ہیں دراصل خدا کے چنے ہوئے لوگ بھی نجات سے پیشتر نہایت بیوقوف اور ناچیز تھے تاکہ فضل کے وسیلہ ان کی نجات سے خدا ہی کو جلال ملے (1 کرنتھیوں 1: 27-29) خدا کا چناؤ انسانی خوبیوں کے سبب سے نہیں بلکہ اس کے اپنے خاص ارادے اور فضل کے موافق ہے (افسیوں 1: 5 ؛ 2 تیمتھیس 1:9)

زبور 1: 6 میں لکھا ہے: ”خداوند صادقوں کی راہ جانتا ہے پر شہریوں کی راہ جانتا ہے پر شریروں کی راہ نابود ہو جائے گی۔“ عاموں نبی کی معرفت خدا نے فرمایا کہ دنیا کے سب گھرانوں میں سے میں نے صرف تم کو برگذیدہ کیا ہے۔ جیسے خدا نے اب رہام سے کلام کیا،

”کیونکہ میں جانتا ہوں کہ وہ اپنے بیٹوں اور گھرانوں کو جو اس کے پیچھے رہ جائیں گے وصیت کرے گا کہ وہ خداوند کی راہ میں رہ کر عدل اور انصاف کریں تاکہ جو کچھ خداوند نے اب رہام کے حق میں فرمایا ہے اسے پورا کرے“ (پیدائش 18: 19)۔

اگر چہ بعض لوگ اس پر اعتراض کرتے ہیں کہ انسان فقط ایک مشینی آدمی کی مانند پھر خدا ہی بدی کا ذمہ دار ہے۔ مگر بائبل مقدس بے شک خدا کی مطلق العنان حاکمیت کی تعلیم دیتی ہے پھر بھی خدا کسی اعتبار سے بھی بدی کے موجد ہونے کا ذمہ دار نہیں۔ انسان کو گناہ کرنے کے لیے مجبور نہیں کیا جا سکتا۔ وہ اپنے فعل کا خود ذمہ دار ہے۔ بے شک ہم محدود ذہن کے ساتھ اس بھید کو سمجھ نہیں پاتے۔ یسعیاہ نبی نے فرمایا کہ ”خداوند فرماتا ہے کہ میرے خیال تمھارے خیال نہیں اور نہ تمھاری راہیں میری راہیں ہیں کیونکہ جس قدر آسان زمین سے بلند ہے اسی قدر میری راہیں تمھاری راہوں سے اور میرے خیال تمھارے خیالوں سے بلند ہیں (یسعیاہ 55: 8-9)۔ پولس رسول نے تعلیم دی کہ اس (خدا) کے فیصلے کس قدر ادراک سے پرے اور اس کی راہیں کیا ہی بے نشان ہیں (رومیوں 11: 33)۔

  • محدود/مخصوص کفارہ (Limited Atonement)

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ’’کفاره“ کتاب مقدس کا لفظ ہے ۔ کیا بائبل مقدس ہمیں سکھاتی ہے کہ انسان کے گناہوں کی وجہ سے کسی کو فدیہ دینے کی ضرورت ہے جس سے گناہ کے غضب کا اثر انسان سے ٹل جائے؟ یہ حقیقت ہے کہ بائبل مقدس ہمیں گناہ کی سنگینی کا احساس دلاتی ہے کہ گناہ شخصی، روحانی اور جسمانی طور پر انسان کے لیے تباہی کا باعث ہے۔ اسی کی پہچان کفارہ کی ضرورت کا احساس دلاتء ہے۔ پاک نوشتوں نے بڑی سنجیدگی سے گناہ اور کفارہ پر تعلیم دی ہے کہ سب نے گناہ کیا۔ بائبل مقدس میں متعدد بار گناہ کی عالمگیری کا بیان ہے۔سب نے گناہ کیا اور خدا کے جلال سے محروم ہیں (رومیوں 3: 23)۔ زمین پر کوئی ایسا راستباز انسان نہیں کہ نیکی ہی کرے اور خطا نہ کرے (واعظ 7: 20)۔ خدا اور انسان کے درمیان جدائی کی خیج کی وجہ گناہ ہی ہے۔ خداوند شریروں سے دور ہے (امثال 15: 29)۔ خدا کی آنکھیں ایسی پاک ہے کہ وہ بدی کو دیکھ نہیں سکتیں اور بھر کجر فتاری پر نگاہ نہیں کر سکتا (حبقوق 1 :13)۔ علاوہ ازیں یسعیاہ 59: 2 میں مرقوم ہے : ”تمھاری بد کرداری نے تمھارے اور تمھارے خدا کے درمیان جدائی پیدا کر دی ہے۔“

پھر سوال پیدا ہوتا ہے کیا انسان اپنے گناہوں کی تلافی کا انتظام خود کر سکتا ہے اور کفارہ کے لیے الٰہی انتظام کی ضرورت نہیں؟ کس کے لیے کتاب مقدس سے راہنمائی حاصل کرنا ضروری ہے۔

گنہگار انسان گناہ کے مسئلہ کو خود حل نہیں کر سکتا۔ وہ اپنے گناہ کو چھپا بھی نہیں سکتا (گنتی 32: 23)۔ وہ اپنے آپ کو گناہ سے پاک نہیں کر سکتا (امثال 20: 9)۔ وہ اپنی دولت سے اپنے بھائی کی پلیدگی کافند ب نہیں دے سکتا (زبور 49: 68)۔ وہ اپنے نیک اعمال سے اپنا انتظام نہیں کر سکتا (رومیوں 3: 20 ؛ ططس 3: 5)۔

جب انسان اپنی ذاتی جدوجہد سے وہ پاکیزگی حاصل نہیں کر سکتا جس سے اسے ابدی زندگی، غیر فانی خوشی حاصل ہو سکے اور خدا سے اس کا میل ملاپ ہو سکے۔خدانے بھی اس حقیقت میں مہر کر دی کہ یہ آدمیوں سے تو نہیں ہو سکتا لیکن خدا سے ہو سکتا ہے کیونکہ خدا سے سب کچھ ہو سکتا ہے (لوقا 18: 27)۔ لہذا خدا ہی نے اپنے عدل اور رحم کو ثابت کیا کہ انسان خاطی اور عاصی کو نجات دے (یوحنا 3: 26)۔ لہذا انتظام الٰہی کے ذریعہ ہی سے انسان کو اس کا خالق اپنی قربت میں لایا اور ابدی ہلاکت اور غضب سے بچایا (رومیوں 3: 25-26)۔ خدا نے دنیا سے محبت کے ثبوت میں اپنے بیٹے یسوع مسیح کو بھیجا اور یہ انتظام کفارہ اگر چہ عالمگیر وسعت پر محیط ہے مگر فائدہ مند صرف ایمان لانے والوں کے لیے ہے۔ اس وجہ سے محدود اورخصوص کفارہ کہلاتا ہے۔

بے شک محدود کفارہ کا یہ مطلب نہیں کہ صلیب میں خدا کی قدرت محدود ہے بلکہ صرف فائدہ مند ان لوگوں کے لیے ہے جو فرماں برداری اور ایمان کے ذریعہ یسوع مسیح کو اچھا چرواہا مانتی ہیں اور اس کی آواز کو سنتی ہیں اور اس کے پیچھے چلتی ہیں(یوحنا 10: 3-4، 10: 27)۔ یسوع نے بھیڑوں کی خاطر اپنی جان دی اور تمام بھیڑیں جو نجات بخش ایمان رکھیں گی ان میں سے کوئی ہلاک نہ ہوگی (یوحنا 6: 37-39) مگر جو مسیح کی بھیڑ میں نہیں وہ اپنی اخلاقی نا اہلی کی بنا پر ایمان نہ لانے سے خود کو ظاہر کر دیتی ہیں۔

پولُس رسول نے بڑی صفائی سے کہا کہ خداوند یسوع پر ایمان لا، ت تو تُو اور تیرا گھرانہ جات پائے گا۔ یہ پیغام حقیقت پر مبنی ہے اور محدود کفارہ کے عقیدہ کو رد نہیں کرتا۔ سب کو مسیح کے پاس آنے کا حکم ہے جو آئے گا اسے ہرگز نکال نہ دیا جائے گا۔ مگر سب جو باپ کی طرف سے مسیح کو دیے گئے یعنی برگزیده وہ آئیں گے (یوحنا 6: 37)

محدود کفارہ کا عقیدہ خدا کی بے ریا ذات کی خوشخبری کی پیشکش کی تردی نہیں کرتا۔ ہمارا خداوند نہایت رنجیدہ ہوا جب پروشلیم نے اسے رد کر دیا (متی 23: 27)۔ اور یہ غم اس کی الٰہی ذات کی گہرائی تک پہنچ گیا۔ کیونکہ شریر کی موت سے خدا خوش نہیں بلکہ اور مخلصانہ نصیحت کرتا ہے کہ اپنی بری روش سے باز آ اور زندہ رہو (حزقی ایل 18: 23، 30-32) ۔خدا چاہتا ہے کہ اس کے حکموں اور اس کی مرضی کو تجربہ سے معلوم کر کے اس کی فرماں برداری کریں (استثنا 5: 29)۔ اگرچہ ہم لامحدود خدا کی مرضی کے خطاب کردہ پہلوؤں اور بھیدوں کے باہمی میل کو محدود انسانی عقل سے بھی سمجھ نہیں سکتے (استثنا 29 :29)۔ جو ہم جانتے ہیں وہ خلاصاً یہ ہے کہ جب کوئی شخص انجیل کے پیغام کو رد کر دیتا ہے تو یہ اس کی اپنا ذمہ داری ہے۔ منفی انسانی رد عمل پر خدا رنجیده ہوتا ہے مگر جو کوئی خوشخبری پر ایمان لاتا ہے تو یہ خدا کی لامحدود بخشش کی وجہ ہے جس کے ہم مستحق نہیں اور تعریف اور جلال صرف خدا ہی کے لیے ہے۔

  • اٹل اورغیرمعمولی فضل (Irresistible Grace)

اصلاحی کلیسیا کے ایمان کے بنیادی اصولوں کا چوتھا نکتہ فضل یا مؤثر فضل ہے جو منطقی اعتبار سے پہلے تین نکات کا نتیجہ ہے۔ اگر گرا ہوا انسان مکمل طور سے بگڑ گیا ہے اور خدا سے دشمنی رکھتا ہے اور کوئی نیکی کرنے کے قابل نہیں تو ہر نجات یافتہ کے فضل کا کا اٹل ہونا لازم ہے کیونکہ کوئی انسان فطری اور اخلاقی اہلیت نہیں رکھتا کہ وہ گناہ کی قیمت چکائے۔ اگرچہ دنیا کی پیدائش سے پہلے خدا نے اپنی مرضی کے نیک ارادہ کے موافق ہمیں اپنے لیے پیشتر سے مقرر کیا کہ یسوع مسیح کے وسیلہ سے اس کے لے پالک بیٹھے ہوں (افسیوں 1: 5)۔

اٹل فضل کی تعلیم کے مطابق دل کی روحانی حالت کا قابل اعتماد نتیجہ بچانے والے ایمان کی توبہ میں ہے۔ جو بخشش ہے اور خدا اپنے لوگوں کو دیتا ہے اور نجات بخش ایمان کی قابلیت خدا کی بخشش ہے جس کی تصدیق کتاب مقدس سے ہوتی ہے۔

یسوع نے کہا کہ میرے پاس کوئی نہیں آ سکتا جب تک باپ کی طرف سے اسے یہ توفیق نہ دی جائے (یوحنا 6: 65)۔ جتنے ہمیشہ کی زندگی کے لیے مقرر کیے گئے تھے ایمان لائے (اعمال 13: 48 ؛ 5: 31 ؛ 14: 27؛ 16: 14؛ 18: 27 / رومیوں 11: 25-36 ؛ 9: 16 / فلپیوں 1: 29؛ 2: 12-13)

اٹل فضل کے مزید ثبوت انجیل کے اندرونی اور بیرونی بُلاہٹ پر بائبل مقدس کی تعلیم اور حقائق میں پائے جاتے ہیں۔ انجیل کی بیرونی بلاہٹ مسیح میں تائب ایمان کی عام بلاہٹ ہے۔ یہ ان کے لیے جو خوشخبری کے پیغام کو سنتے ہیں۔ اس میں وعدہ ہے کہ سب انجیل کے حقیقی ایمان کی شرط پر عمل کرنے سے بچ جائیں گے اور اس سے عارضی قائلیت اور خواہش پیدا ہوتی ہے مگر بعد میں وہ خوشخبری کو رد کر دیتے ہیں (متی 22: 14)۔ ایک برگشتہ انسان اسی بیرونی بلاہٹ کے عام کام کی کامیابی سے مزاحمت کرتے ہیں (اعمال 7: 51)۔ اگر اس کے ساتھ موثر اندرونی بلاہٹ شامل نہ ہو۔ اور یہ اس وقت واقع ہوتی ہے جب خوشخبری کی منادی پاک روح کی زندگی دینے والی قوت کے ساتھ ہو۔ وہ سب اور وہی جو خدا کے روح سے اندرونی بلاہٹ پاتے ہیں حقیقی نجات بخش ایمان کے ساتھ خوشخبری سے متاثر ہوتے ہیں (رومیوں 8 30 ؛ کرنتھیوں 1: 23-24)۔

اٹل فضل کا ثبوت اس بات میں پایا جاتا ہے جہاں کلام مقدس روح میں نیا بنانے والے کام کا ذکر کرتا ہے (یوحنا 3: 3، 5)۔ خدا کی بادشاہی کو دیکھنے اس میں داخل ہونے سے پہلے نئی پیدائش بنیادی ضرورت ہے۔ یہ پاک روح کا پوشیدہ کام ہے۔ روحانی زندگی کی ابتدا اسی سے ہوتی ہے جیسے خداوند یسوع مسیح نے ہوا کے آنے اور جانے کی مثال سے سمجھایا ہے۔ زندگی کو نیا بنانے میں پاک روح خوشخبری کے پیغام کے ساتھ کام کرتا ہے (1 پطرس 1: 23 ؛ يعقوب 1: 18) زندگی کو نیا

بنانے کے عمل میں انسان کی مرضی ہیں خدا کی مرضی مقدم ہے (یوحنا 1: 13 ؛ رومیوں 9: 16)۔ اس لیے جب خوشخبری روح اور قوت سے پیش کی جاتی ہے تو یہ سیدنا مسیح کی زندگی بخشنے والی روح رکھتی ہے۔ ایسے حالات میں روحانی موت کا شکار گنہگار انسان موت کی قبر میں ٹھہر نہیں سکتا اور مسیح کے پاس آنے سے انکار نہیں کر سکتا۔ جب مسیح نے زندگی کی قدرت کا کلام کیا ”لعزر باہر نکل آ‘‘ (یوحنا 11 باب) تو موت کی قوت مزاحمت نہ کر سکی۔ جب وہ روح کی قوت میں خوشخبری کے وسیلہ سے فضل ہی میں روحانی زندگی کے لیے بلاتا ہے (یوحنا 5: 25)۔

  • مقدسوں کی استقامت (Perseverance of Saints)

شاید پانچ نکات میں یہ سب سے زیادہ غلط طور پر سمجھا جاتا اور استعمال میں لایا جاتا ہے ۔ بعض کا خیال ہے کہ مقدسوں کی استقامت کا مطلب یہ ہے کہ جب ایک انسان نے ایمان کا اقرار کر لیا اسے فوراً مسیحی تصور کریں خواہ اس کی روز مرہ زندگی کیسی ہی کیوں نہ ہو۔ یہ ہرگز درست نہیں۔

بلکہ اس عقیدہ کا مطلب یہ ہے کہ وہ جو نجات بخش ایمان کے ساتھ یسوع مسیح کے پاس آتے ہیں وہ ایمان میں قائم رہیں گے۔ خداوند یسوع مسیح نہ صرف آئنده غضب الٰہی سے ہمیں بچاتا ہے بلکہ اس زندگی میں گناہ کے اختیار سے بھی نجات دلاتا ہے (متی 1: 23)۔ گناہ کا ان پر اختیار نہیں ہو سکتا (رومیوں 6: 14 ؛ 1 کرنتھیوں 6 : 9-10)۔ وہ مسیح میں نئے مخلق نہیں۔ پرانی چیز میں جاتی رہیں (2 کرنتھیوں 5: 17)۔

ایمان میں ثابت قدم رہنے والے مقدسین کہلاتے ہیں۔ ہمارے خداوند نے فرمایا، ”اچھا درخت برا پھل نہیں لا سکتا اور نہ برا درخت اچھا پھل لا سکتا ہے۔ میں ان کے پھلوں سے تم ان کو پہچان لوں گئے“(متی 7: 18- 18)۔

بعض لوگ مسیح پر ایمان لانے کا اقرار کرتے ہیں اور کلیسیا میں شامل ہوجاتے ہیں مگر بعد میں ایمان کو چھوڑنے اور دنیاوی زندگی میں شامل ہوجاتے ہیں۔ ایسے لوگ ثابت کرتے ہیں کہ وہ مسیحی نہیں۔ وہ کبھی مسیح کے ساتھ حقیقی عہد کے اعتماد میں شامل نہیں رہے اور نہ ہی انھیں نی پیدائش کا تجربہ ہوا ہے۔ کلام مقدس گواہ ہے۔ ”وہ نکلے تو ہم ہی میں سے مگر ہم میں سے تھے نہیں۔ اس لیے کہ اگر ہم میں سے ہوتے تو ہمارے ساتھ رہتے۔ لیکن کل اس لیے گئے کہ یہ ظاہر ہو کہ وہ سب ہم میں سے نہیں ہیں“(1 یوحنا 2: 19)۔

جو کوئی پانی کے بپتسمہ میں شامل ہوتا ہے لیکن بعد میں گناہ آلودہ زندگی کی دلدل میں واپس چلا جاتا ہے وہ نہلائی ہوئی سورانی کی مانند ہے جسے اپنی سرشت کی روحانی تبدیلی کا تجربہ بھی نہیں ہوا (2 پطرس 2: 22) - پرانا عہد نامہ میں لکھا ہے کہ جو اسرائیل کی اولاد ہیں سب اسرائیلی نہیں اور کوئی شخص باطنی یہودی نہ بھی ہو تو بھی ظاہری یہودی ہو سکتا ہے۔ لہذا جنہیں خدا نے مسیح کے وسیلہ سے انھیں نجات بخشی اور روح القدس کے وسیلہ ان کے دلوں میں ایمان پیدا کیا وہ خدا کی قدرت اور تاثیر سے ایمان میں ہمیشہ قائم رہتے ہیں۔ جان کیلون کی تعلیم کے مطابق نجات کا کام خدائے ثالوث کی قدرت سے مکمل ہو جاتا ہے۔

تصانیف

ترمیم

کالوینیت کی تعلیمات کے لیے مندرجہ ذیل کتب سے استفادہ کیا جاسکتاہے۔

  • مسیحی مذہب کے اصولات (جان کالون) [29]
  • مصلح علمِ الہٰی کیا ہے؟ (پادری رابرٹ چارلس سپرول) [30]
  • پانچ نکات (جان پائپر) [31]
  • دی جوئے پراجیکٹ (جان پائپر) [32]
  • فارکالون ازم (مائیکل ہارٹن) [33]
  • کالون ازم کے پانچ نکات (ڈیوڈاین سٹیل) [34]
  • ۔ لیونگ فار گاڈ'زگلوری (جوئیل بیکی)[35]

حوالہ جات

ترمیم
  1. Philip Schaff۔ "Protestantism"۔ New Schaff-Herzog Encyclopedia of Religious Knowledge۔ IX۔ صفحہ: 297–299 
  2. Jean Caunvil
  3. Calvinus or Calvin
  4. Noyon
  5. Picardy
  6. Jeanne La France
  7. Mathurin Cordier
  8. Clement Marot
  9. College Montaigu
  10. Noel Beda
  11. Perry Tempete
  12. Orleans
  13. Bourges
  14. Wolmer
  15. بائبل مقدس
  16. Wolmer
  17. Wolmer
  18. Theodore Beza
  19. Pierre Danes
  20. Vatable
  21. Seneca
  22. De Clementia
  23. Plutarch
  24. Lactantius
  25. Theodore Beza
  26. William Farel
  27. Theodore Beza
  28. تاریخ اصلاحِ کلیسیاء از پادری خورشید عالم۔ ناشر: بیت الشمس کرسچن بک سروس راولپنڈی پاکستان
  29. ligonier.org/store/institutes-of-the-christian-religion-hardcover/
  30. ligonier.org/learn/series/what_is_reformed_theology/
  31. desiringgod.org/books/five-points
  32. desiringgod.org/books/the-joy-project
  33. amazon.com/Calvinism-Michael-Horton/dp/0310324653
  34. wtsbooks.com/five-points-of-calvinism-david-steele-9780875528274?utm_source=bdempsey&utm_medium=blogpartners
  35. wtsbooks.com/living-for-gods-glory-joel-beeke-9781567691054?utm_source=bdempsey&utm_medium=blogpartners