کتب خانہ اشور بنی پال
قدیم کتب خانوں کی باقاعدہ تاریخ کا آغاز اشوربنی پال کے کتب خانے سے ہوتاہے۔ یہ کتب خانہ اپنے عہد کا ایک ترقی یافتہ کتب خانہ تھا اور اپنی تحریری سرمایہ کی وجہ سے آج بھی اس سے عہد گذشتہ کے بہت سے گوشے وا ہوتے رہتے ہیں۔
کتب خانہ اشور بنی پال | |
---|---|
کتب خانے میں موجود ایک الواح | |
قیام | ساتویں صدی قبل مسیح |
مجموعہ | |
ذخیرہ کتب | 20000 سے زیادہ خطِ میخی میں لکھی ہوئی الواح سفالی |
تاریخ و دریافت
ترمیمیہ شاہی کتب خانہ، سلطنت اشوریہ کے نامور فرمانروا اشور بنی پال نے نینوا میں قائم کیا تھا۔ 1850ء میں ماہرین ارضیات نے نینوا کے مقام سے اشور بنی پال کے محل کے کھنڈر سے ایسی دس ہزار الواح سفالی (مٹی کی تختیاں) دریافت کیں جن کو خط میخی میں تحریر کیا گیا تھا۔ ان الواح کی لمباہی 11 سے 12 مربع انچ تک ہے۔.[1][2]
ذخیرہ کتب
ترمیماس کتب خانے کے سرمایہ علمی کی تعداد کے بارے اختلاف پایا جاتا ہے، یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اس میں الواح کی تعداد دس سے پچیس ہزار کے درمیان تھی جو زیادہ تر بورسپا کے کتب خانے کی تختیوں کے مندرجات کی نقل پر مشتمل تھیں۔ شاہی کاتبوں نے بعینہ مذہبی احکامات اور شاہی فرامیں کے علاوہ رجزیہ نظموں، موسیقی، قوانین، فلکیات، جادو اور لوک داستانوں کو ان پر درج کیا ہے۔ اس کتب خانے کی بہت سی تختیاں، جن کی تعداد2072 ہے، آج بھیبرٹش میوزیم میں محفوظ ہے۔
فراہمی کتب
ترمیماس کتب خانے میں فراہمی مواد کے لیے شاہی احکامات جاری کیے گئے تھے، مسودات کے حصول کے لیے مختلف طریقے اختیار کیے جاتے تھے۔ سب سے پہلے شاہی کاتب یا نقل نویس اشوریہ اور بابل کے دور دراز علاقوں کا سفر کرتے اور جو کچھ مواد ہاتھ آتا اس کی نقول اور تراجم کر کے ذخیرہ میں شامل کر لیتے۔ زیادہ تر مسودات پرنہ صرف شاہی مہرثبت تھی بلکہ اکثر مسودات پر اس کی وضاحت ہوتی کہ یہ مسودہ بادشاہ کا مرتب شدہ ہے۔
تنظیم کتب
ترمیمکتب خانے میں موجود مواد کی ترتیب مضامین کے اعتبار سے کی گی تھی اور یہاں پر کیٹلاگ سازی کا ایک با ضابطہ نظام رائج تھا۔ جس میں موضوع کے علاوہ کتاب کے مقام اور مآخذ کی معلومات فراہم کی جاتی تھیں۔ اس کتب خانے کا ایک جامع کیٹلاگ مندرجات کے ساتھ کتب خانے کے داخلی دروازے پر آویزاں تھا۔
عملہ
ترمیماس علمی مرکز میں مختلف ماہرین کی نگرانی میں الگ الگ شعبے موجود تھے۔ جہاں پر تراجم، تصنیف و تالیف اور نقل نویسی کا خاطر خواہ انتظام موجود تھا۔ اس کے علاوہ شعبہ حصول مواد بھی تھا۔ شاہی مہتمم کی نگرانی میں بہت سے کاتب اور منشی الواح کی ترتیب و نگرانی پر مامور تھے۔ کچھ کے ذمے تاریخی حالات و واقعات کو قلم بند کرنے تھا جبکہ کہ کچھ کارکن سرکاری حساب کتاب درج کرنے پر مامور تھے۔ اس کے علاوہ دارالترجمہ و تالیف میں مختلف موضوعات پر تصنیف و تالیف کا کام دن رات جاری رہتا تھا۔ حوالہ جات کے لیے قدیم زبانوں کی لغات سینکڑوں برس پرانی تختیوں کی نقلیں ترجمہ کے لیے وہاں پر موجود تمام عملہ کی معقول تنخواہیں خزانہ شاہی سے مقرر تھیں۔
مزید دیکھیے
ترمیمحوالہ جات
ترمیم- ↑ Polastron, Lucien X.: "Books On Fire: The Tumultuous Story Of The World's Great Libraries" 2007, pages 2-3, Thames & Hudson Ltd, London
- ↑ Menant, Joachim: "La bibliothèque du palais de Ninive" 1880, Paris: E. Leroux
پیش نظر صفحہ کتاب داری و علم معلومات سے متعلق موضوع پر ایک نامکمل مضمون ہے۔ آپ اس میں مزید اضافہ کرکے ویکیپیڈیا کی مدد کرسکتے ہیں۔ |