کرانی
یہ گاؤں پاکستان صوبہ بلوچستان کے دار الحکومت کوئٹہ شہر کے مغرب میں چلتن پہاڑی سلسلے کی بیرونی سرحد پر واقع ہے، اس کا نام کرانی اس گاؤں کے قریب واقع ایک کھائی کی وجہ سے ملا ہے جس کو گران نایی یا کران تنگی کہتے ہیں یہ ایک زرعی گاؤں ہے اور اس کی اراضی کاریزات کے ذریعے سیر آب کی جاتی ہے، ہر کاریز سے سیر آب ہونے والی اراضی کو اسی کاریز کے نام سے اس کا محال کہا جاتا ہے جیسا کہ یہ محال کاریز نورنگ، محال کاریز ملک ، محال کاریز کرانی، محال کاریز مست اور محال کرخ سہ پر مشتمل ہے، اس گاؤں کی بنیاد مودودی چشتی سید حضرت خواجہ ولی نے تقریباً 600 برس قبل رکھی ان کا مزار اسی گاؤں میں واقع ہے اور ان کے بیٹے خواجہ میر شہداد بھی اسی مزار کے احاطہ کے اندر مدفون ہیں۔ آپ سے کافی کرامات موسوم ہیں جس چشمے کے پانی سے ان کے جسد ے خاکی کو غسل دیا گیا اس چشمے کے پانی سے بیماروں کو شفا ملتی تھی چونکہ یہ چشمہ اب خشک ہو چکا ہے، گاؤں کے مغرب کی طرف کاریز کرانی واقع ہے جو قدیم وقتوں سے یہاں موجود ہے، اٹھارویں صدی میں اس گاؤں کی آبادی 634 افراد پر مشتمل تھی جن میں سے 355 مرد اور 297 خواتین تھیں گھروں کی تعداد 157 تھی ، زمین کے مالکان سید تھے ان کی تعداد 194 تھی، زمینوں پر کام کرنے والے مزدوروں کی تعداد 167 تھی ان میں 112 لہڑی تھے، گاؤں میں چار مساجد اور چار مہمان خانے تھے، گاؤں میں تین دکانیں تھیں جن کو انڈین پنجاب سے آئے ہوئے ہندو اور سکھ چلا تے تھے، تین سونار کی دکانیں تھیں اور کوئی کار خانہ نہیں تھا مگر سلک کی کڑھائی عمدہ کی جاتی تھی، گاؤں کی اصل دولت یہاں کے فروٹ کے باغات تھے، جو 77 ایکڑ رقبے پر پھیلے ہوئے تھے جن میں سے 27 ایکڑ انگور اور 34 ایکڑ دوسرے باغات تھے، جن میں توت، انجیر انار سیب ناشپاتی اور انگور کے مختلف اقسام تھے انیسویں صدی میں باغات کا رقبہ چار سو ایکڑ سے تجاوز کر گیا مگر 2008ء میں کوئٹہ شہر میں توسیع کی وجہ سے یہ رقبہ سکڑ کر صرف چالیس ایکڑ رہ گیا، سادات کرانی کو ہمیشہ عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا رہا ہے، نہ صرف کوئٹہ ڈسٹرکٹ بلک مری اور جھالاوان کے علاقوں میں بھی، [1]
ملک | پاکستان |
---|---|
Province | Balochistan |
بلندی | 1,653 میل (5,423 فٹ) |
منطقۂ وقت | PST (UTC+5) |
تاریخی پس منظر
ترمیمتاریخ کرانی
ترمیمکرانیکوئٹہ شہر کے قریب بلوچستان کا ایک تاریخی گاؤں ہے کرانی پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے دار الحکومت کوئٹہ (شال کوٹ) کے مضافات میں واقع ہے اس کی شہرت حضرت خواجہ ولی مودودی چستی کرانی کی درگاہ کی وجہ سے ہے، افغانستان کے بادشاہ احمد شاہ ابدالی کی ہمشیرہ کا مزار بھی خواجہ ولی مودودی چستی کرانی کی درگاہ کے احاطے کے اندر واقع ہے، ابتدا میں یہاں خواجہ ولی مودودی چستی کرانی کی اولاد اور ان کی زمینوں پر گذر بسر کرنے والے کچھ بلوچ اور پٹھان اقوام کے لوگ مقیم تھے-ابتدا ی دور میں یہ علاقہ سرسبز و شاداب تھا -یہاں ہر قسم کے میوں کے باغات تھے -جن کو چشموں کے ذریعے سیر آب کیا جاتا تھا-جنگلا ت اور ہر قسم کے جنگلی حیوانات کی بہتات تھی-جنگل سے مقامی لوگوں کو اپنی گھریلو ضرورت کی لکڑیاں حاصل کرنے کے لیے بھی خواجہ صاحب کی اولاد سے اجازت نامے کی ضرورت پڑتی تھی- ابتدائی دور میں بلوچ قبائل زیادہ تر خانہ بدوش تھے اور انکا گذر بسر مویشی بانی پر تھا، یہ لوگ سادات کی جاگیر میں مویشی چراتے اور خیمہ نشینی کی زندگی بسر کرتے تھے، آہستہ آہستہ ان لوگوں نے اپنا ذریعہ معاش تبدیل کرنا شروع کر دیا، اب یہ لوگ پہاڑوں سے لکڑیاں کاٹ کر لاتے اور ان میں سے کچھ لوگ غیر آباد زمینوں پر خیمہ زن ہو کر بیٹھ گے اور ان زمینوں کو آباد کرنا شروع کیا اور آمدن کا کچھ حصہ مالکان کو بطور مالکا نہ حقوق کے دینے لگے، چونکہ اُس دور میں افرادی قوت کی کمی تھی اور زمینیں بھی بارانی تھیں، ا سلیے سادات کو بھی کوئی اعتراض نہ ہوا اور کچھ اس میں سادات کرام کی جدی رحم دلی بھی شامل تھی، کچھ دہائیاں گزرنے کے بعد آباد کاروں نے اپنی زیر قبضہ اراضیات پر اپنے نصف ملکیت کا دعوا کیا اور قابض ہو گے، ادھر سادات کی اپنی اولاد میں بھی اضافہ ہوتا رہا اور اراضی تقسیم در تقسیم ہوتی گی اور بعض خاندانوں کے پاس اتنی زمین رہ گی کہ ان کا گزارہ ہی مشکل ہو گیا اور وہ لوگ اپنی اراضی فروخت کر کے دوسرے علاقوں کی طرف ہجرت کر گئے، اس طرح غیر اقوام کا دخل علاقہ میں بڑھتا گیا اور سادات کی گرفت علاقہ پر کمزور پڑھتی گی، اس طرح ایک وقت ایسا آیا کہ نو آمد لوگوں کے گاؤں کے گاؤں آباد ہو گئے اور ہر گاؤں کے لوگوں نے ہزاروں ایکڑ بنجر اراضی اپنے قبضے میں کی، آج سادات کرام صرف اپنے گاؤں تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں اور اکثر اپنی باقی ماندہ اراضی فروخت کرکے ہجرت پر مجبور ہو گئے ہیں،
کرانی کا نام
ترمیمبمطابق گزٹیرز آف بلوچستان اس کا نام کرانی اس گاؤں کے قریب واقع ایک کھائی کی وجہ سے ملا ہے جس کو گران نایی یا کران تنگی کہتے ہیں مگر یہ اس لحاظ سے مستند نہیں ہے کہ گزٹیر 1907ء میں برطانیہ دور کی تحریر ہے اور کرانی کو شال پیر باباؒ کے فرزند خواجہ ولیؒ نے 1470ء کے لگ بگ آباد کیا تھا ـ اور اس کا نام بھی اُسی وقت ان کے خاندان نے رکھا تھا، چونکہ خواجہ ولیؒ کے اجدابجد خواجہ مودود چشتیؒ چشت ھرات میں ولی بے بدل تھے ـ مودود چشتیؒ کے دور حیات میں چشت ھرات علاقہ خراسان کا حصہ تھے اور خراسان کی سرحدیں چشت سے ایران کے صوبے زنجان اور کردستان تک تھیں اور زنجان اور کردستان کے درمیان کرانی کے نام سے ایک علاقہ مشہور ہے اور یہ بات وثوق سے کہا جا سکتا ہے کرانی کوئٹہ کا نام (کرانی واقع بیجار شہر ایران) کے نام پہ رکھا گیا ہے، شاہ سنجان (متوفی 597) بھی خواجہ مودودؒ کے خلیفہ تھے، شاه کا لقب خواجہ مودودؒ سے ان کو ملا، انکا تعلق بھی ایران کے علاقہ سنجان سے تھا جو کرانی (بیچار) سے متصل ہے ،
تاریخی حوالے سے خراسان ایران کا ایک اہم اور قدیم صوبہ تھا۔ اس میں وہ پہلے وہ تمام علاقہ شامل تھا جو اب شمال مغربی افغانستان ہے۔ مشرق میں بدخشاں تک پھیلا ہوا تھا۔ اور اس کی شمالی سرحد دریائے جیحوں اور خوارزم تھے۔ نیشاپور، مرو، ہرات اور بلخ اس کے دار الحکومت رہے ہیں۔ اب اس کا صدر مقام مشہد ہے۔ اور مشرقی خراسان مع شہر ہرات افغانستان کی حددود میں شامل ہے۔ نیشابور، ایران کا ایک قدیم شہر صوبہ خراسان کا صدر مقام بہت پرانا اور تاریخی شہر ہے۔ خوارزم شاہی سلطنت وسط ایشیا اور ایران کی ایک سنی مسلم بادشاہت تھی جو پہلے سلجوقی سلطنت کے ماتحت تھی اور 11 ویں صدی میں آزاد ہو گئی اور 1220ء میں منگولوں کی جارحیت تک قائم رہی۔ جس وقت خوارزم خاندان ابھرا اس وقت خلافت عباسیہ کا اقتدار زوال کے آخری کنارے پر تھا۔ سلطنت کے قیام کی حتمی تاریخ واضح نہیں۔ خوارزم 992ء تا 1041ء غزنوی سلطنت کا صوبہ تھا اور خواجہ مودود چشتیؒ کا تاریخ ولادت: 1038ء اور وفات: 1142ء ہے ـ
سید احمد شہید کا سفر شال
ترمیمسید احمد شہید اپنے سفر نامے میں بیان کرتے ہیں 20/جولائی 1826ء کوانکا قافلہ شکارپور سے روانہ ہوا۔ 29 ذلحج کو انکا لشکر بھاگ بلوچستان حاجی اور ریڑی کے مقامات سے روانہ ہوکر یکم محرم کو ڈھاڈر کے مقام پر پہنچ گئے۔ یہاں 4 روز قیام کے بعد 4 محرم 1242ھ بمطابق 1826ء کو درہ بولان میں داخل ہوئے، یہ راستہ انتہائی خطرناک تھا دونوں جانب بلند پہاڑوں کی دیواریں کھڑی تھیں۔7 محرم کو نماز فجر پڑھ کر درے سے باہر نکلے اور آٹھ محرم کو شال پہنچ گئے۔ مزید سید احمد شہید اپنے سفر نامے میں بیان کرتے ہیں شال کے لوگوں کی زبان افغانی ہے، دوسروں کی بات سمجھ نہیں سکتے، لیکن انکا اخلاق کمال کا ہے، شال پر خان قلات محراب خان کی حکومت تھی محراب خان محمود خان کا بیٹا تھا اور نصیر خان اوّل (وفات 1794ء) کا پوتا تھا، سید احمد شہید شال میں اپنے مصروفیات میں کرانی کے بارے میں لکھتے ہیں کہ شال سے دو کوس کے فاصلے پر ایک دیہات میں سادات کا ایک گھرانہ تھا تیسرے روز اس گھرانے کے لوگوں نے کھانے اور میووں سے بڑی ضیافت کی اور سید صاحب کو سو آدمیوں کے ساتھ اپنے گھر لے گئے اور بڑی خوشی سے کھانا کھلایا اسی روز شال کے حاکم نے سید صاحب کے ہاتھ پر ارادت اور جہاد کی بیعت کی ـ [2] کرانی کے جس سادات گھرانے کا ذکر اس سفر نامے میں ہے وہ سید لطف اللہ شاہ کا گھرانہ تھا اور ان کے تین بیٹے سید امان اللہ شاہ سید عطا اللہ شاہ اور خواجہ حرار تھے سید لطف اللہ شاہ میر نصیر خان اوّل کے ساتھ ایران کے مہم پر بھی گئے تھے [3] اسی عرصے کا خان قلات محراب خان کا ایک فرمان بھی موجود ہے - سید احمد شہید 18/محرم کو کوئٹہ سے روانہ ہوئے۔ 28/ محرم کو قندھار پہنچے غزنی‘ کابل کے راستے نومبر 1826ء میں پشاور پہنچے ۔
کوہ چلتن
ترمیمچلتن پہاڑ کے نام کے بارے میں کئی من گھڑت کہانیاں مشہور ہیں مگر جو بات تاریخ سے ثابت ہے وہ یہ کہ کوہ چلتن کو چلتن کا نام خواجہ نقرالدین شال پیر بابا کے دور میں ملا اس کے علاوہ میان غنڈی اور دشت کو بھی اسی دور یہ نام ملے کیونکہ یہ بھی خواجہ نقرالدین شال پیر بابا کے جاگیر کا حصّہ تھے - چشت ہرات افغانستان میں بھی چلتن کے نام سے ایک پہاڑ مشہور ہے کیونکہ یہ اولیاء چشت شریف سے ہجرت کر کے آئے تھے اور چشت شریف میں بھی اسی نام سے با لکل اسی مشباہہت کی ایک چوٹی موجود ہے اس لیے سادات چشتیہ نے اپنے سابقہ وطن اور اجداد کی محبت میں اس پہاڑ کو بھی چلتن کا نام دیا چونکہ چشت اور کرانی کے موسم بھی ایک جیسے ہیں اس لیے دونوں ہم نام پہاڑوں کے درخت اور پودے بھی ایک جیسے ہیں
علاقہ دشت و میان غنڈی تا شیخ ماندہ
ترمیمغنڈی فارسی زبان کا لفظ ہے اس کے معنی چھوٹی پہاڑی کے ہیں ـ اور میان غنڈی دو پہاڑیوں کے درمیان کا علاقہ ہے، یہ علاقہ ہزار گنجی سے شروع ہوکر ہوائی گراونڈ دشت کمبیلان پر مشتمل تھا جس کا رقبہ ہزاروں ایکڑ تھا ـ یہ علاقہ قیام پاکستان سے قبل انگریز حکومت نے ایرپورٹ کی تعمیر کے لیے سادات سے جبراً لے لی اور وہاں پر ایرپورٹ تعمیر کی قیام پاکستان کے بعد اس ایرپورٹ کو ترک کیا گیا اور نیا ایرپورٹ بمقام سمنگلی ایربیس بنایا گیا مگر سادات کی زمین ان کو واپس نہ کی گئی اور اس رقبہ پر بلوچ اقوام بزور طاقت قابض ہو گئے سادات مودودی چشتیہ کرانی کی جاگیر موضع شیخ ماندہ شروع ہوکر تیرہ سنگ میل واقع مستونگ روڈ تک پھیلا ہوا تھا جس میں میان غنڈی، ہزار گنجی، کوہ چلتن، موضع خشکابہ سادات، موضع شمو زائی ،شادین زائی، سردار کاریز، موضع خلی، گلزار، موضع کرانی، کرخسہ، بروری، شیخ ماندہ تا سمنگلی کے علاقے شامل تھے اور آج بھی یہ ریکارڈ لینڈ ریونیو میں موجود ہے اور تحصیل کوئٹہ میں زیرکار ہے ـ سادات کی زیادہ اراضی بلوچ اقوام نے غصب کی جس کی موجودہ مثال موضع خشکابہ سادات میں آج بھی دیکھی جا سکتی ہے جہاں بلوچستان کے نوابوں سرداروں منسٹرز سے لے کر عام لینڈ مافیا تک سب قبضہ گری میں مصروف نظر آتے ہیں , بلکہ خود حکومت پاکستان نے بھی نیو سبزی منڈی , نیو بس اڈا , نیو ٹرک اڈا , ہزار گنجی نیشنل پارک کے نام پر ہزاروں ایکڑ رقبہ غصب کیا ـ 1223ھ بمطابق 1808ء کا ایک سند جاری شدہ از خان قلات محراب خان جس میں تحریر ہے کہ آز حد تپہ سفیتک یعنی حد تیرہ میل مستونگ روڈ تا حد کرخسہ بروری سادات کی ملکیت میں دست اندازی سے اقوام ریسانی کو منع کیا گیا ہے ـ [4]
کلی گلزار
ترمیمجب کوئٹہ پر انگریز کی گرفت مضبوط ہوئی تو ان کو ایک فوجی چھاونی کی اشد ضرورت محسوس ہوئی، آج جس مقام اسٹاف کالج کوئٹہ قائم ہے، وہاں ایک قلعہ ہوا کرتا تھا، جو قلعہ درانی کے نام سے موسوم تھا، جب انگریز نے اس مقام کو چھاونی بنانے کے لیے منتخب کیا تو یہ قلعہ د رانیوں سے خرید لیا، 1905 میں کوئٹہ میں ایشیا کی سب سے بڑی فوجی اکیڈمی اسٹاف کالج کا قیام ہوا اور د رانیوں کو یہاں سے بے دخل کیا، چنانچہ غلام سرور خان درانی ولد سردار سعید خان درانی نے کرانی کے مقام پر سید محمد اشرف شاہ ولد سید محمد صادق شاہ کرانی سے وسیع خطہ اراضی کلی کرانی کے متصل خرید لیا اور وہاں پر کلی گلزار کے نام سے اپنا گاؤں بسایا جو آج بھی موجود ہے، جس کا حوالہ لینڈ رو نیو ریکارڈر میں درج ہے، [5]
قدیم اسناد
ترمیم-
سادات کی حکومت سے اپنی جاگیر کے لیے درخواست
-
سادات کی حکومت سے اپنی جاگیر کے لیے درخواست
-
برطانیہ دور کا نوٹیفیکیشن-1890ء
-
حکم نامہ خان آف قلات میر محراب خان-1223ھ
تصاویر شجرہ جات
ترمیمتصاویر
ترمیم-
مزار خواجہ ولی-2008.
-
خواجہ ولی چستی کرانی، کوئٹہ
-
احمد شاہ ابدالی کی ہمشیرہ کا مقبرہ احاطہ مزار خواجہ ولی چستی کرانی، کوئٹہ
-
احاطہ مزار خواجہ ولی خواجہ میر شہدا مودودی چستی کرانی، کوئٹہ
-
احاطہ مزار خواجہ ولی خواجہ میر شہداد مودودی چستی کرانی، کوئٹہ
-
خواجہ ولی مودودی چستی کرانی کے مزار کا نقشہ
-
کرانی کوئٹہ بلوچستان پاکستان 1985۔
-
کرانی کوئٹہ بلوچستان پاکستان 2008۔
-
کرانی کوئٹہ بلوچستان پاکستان 2008۔
-
مزار خواجہ مودود چشت
-
مزار خواجہ مودود چشت
-
مزار شال پیر بابا کوئٹہ چھاونی
شجرہ جات
ترمیمسلسلہ چشتیہ بلوچستان
ترمیمسلسلہ چشتیہ کی مودودی شاخ کے بانی اور جد ابجد خواجہ قطب الدین مودود چشتی ہیں، خواجہ نقرالدین شال پیر بابا خواجہ قطب الدین مودود چشتی کے پسری اولاد ہیں،اور کرانی کے سادات خواجہ نقرالدین شال پیر بابا کی اولاد ہیں، جو تقریباً" چھ سو سال قبل چشت افغانستان سے منزکی پشین آے اور منزکی پشین چھوڑ کر کوئٹہ مین سکونت اختیار کی، اُنکا بیٹھا خواجہ ولی کرانی میں آباد ہوا، پہلی افغان جنگ میں آپ کی اولاد نے کچھ خدمات انجام دیں، اُس وقت مبارک شاہ نامی اُنکا معتبر تھا، سادات کرانی کے عمائدین لیوی سروس سے وظائف حاصل کرتے تھے، سید لطف ﷲ شاہ جو خواجہ نقرالدین شال پیر بابا سے ساتویں پشت میں گذرے ہیں سید لطف ﷲ شاہ میر نصیر خان اوّل خان آف قلات کے ہمراہ ایک مہم پر ایران گئے اور واپسی پر تحصیل کوئٹہ میں چشمہ شیخ ماندہ اور کاریز صادق پر انھیں مالیہ معاف زمینیں دی گئیں اور بمقام ڈھاڈر میں دو انگشت پانی بھی دیا گیا، موخرالذکر اب خاندان کے دوسرے شاخ کے پاس ہے، خان نصیر خان خان آف قلات کا دورے حکومت 1749ء سے 1794ء تک تھا، [6]
حوالہ جات
ترمیم- ↑ بحوالہ ڈسٹرکٹ گزٹیرز آف بلوچستان ڈائریکٹوریٹ آف آرکائیو وال یوم 9/12 صفہ نمبر-330
- ↑ تاریخ دعوت و عزیمت حصّہ ششم جلد اوّل سید احمد شہید (ص 493)
- ↑ بحوالہ ڈسٹرکٹ گزٹیرز آف بلوچستان ڈائریکٹوریٹ آف آرکائیو وال یوم 9/12 صفہ نمبر-76
- ↑ لینڈ روینیو ریکارڈ 1908تحصیل کوئٹہ
- ↑ لینڈ روینیو 1908ء ریکارڈ تحصیل کوئٹہ
- ↑ [1] تذكار يكپاسى
حوالہ جات کتب
ترمیم- بلوچستان ڈسٹرکٹ گزیٹر سیریز ڈائرکٹریٹ آف آرکائیو بلوچستان کوہٹہ والیم 9/12
- [2] سیٹلائیٹ لوکیشن