کسک قلعہ
کسک قلعہ ہندو دور کا ایک خوبصورت قلعہ جو ضلع چکوال میں ہے
چوآسیدن شاہ سے دس کلومیٹر کے فاصلے پر ایک سڑک واٹلی گاؤں کی طرف جاتی ہے تقریباً31 کلومیٹر کے فاصلے پر رتوچھہ گاؤں سے آگے پہاڑوں کے دامن میں کسک نامی گاؤں آتا ہے کسک گاؤں کے شمال کی طرف پہاڑی چوٹی پر قلعہ کسک دور سے دکھائی دیتا ہے۔ قیام پاکستان سے قبل کسک کو مرکزی حیثیت حاصل تھی یہاں کی زیادہ آبادی ہندوؤں پر مشتمل تھی قلعہ کے اندر ہندوؤں کی عبادت گاہ تعمیر کی گئی تھی قلعہ میں مقیم آبادی کے لیے دو تالاب بنائے گئے ہیں اس کے علاوہ کسک کی بستی کے لیے کنواں تعمیر کیا گیا سارا گاؤں اس کنویں سے پانی حاصل کرتا ہے۔ قلعہ کے اندر رہائشی حصہ کی چھت غائب ہے عین وسط میں ایک چبوترا پر ہندوؤں کا مندر ہے جو صحیح حالت میں ہے۔ اندر تک جانے کے لیے بڑے بڑے پتھروں سے سیڑھیاں تعمیر کی گئی ہیں۔ مندر کے جنوب میں ایک تھڑا اور چار دیواری ہے پانی کے دو تالاب ہیں قلعہ کی دیواریں سرخ پتھروں کو تراش کر چونا گچ سرخ مٹی سے تعمیر کی گئی ہیں قلعے کے اندر خار دار جھاڑیاں جنگلی درخت اور پودے اُگے ہوئے ہیں۔ قلعہ کسک کے گرد و نواح میں جو قلعے ہیں وہ بھی اپنی جگہ اہمیت کے حامل ہیں۔کوہستان نمک کے بالائی اور اُترائی ہموار اور سطح مرتفع پر متعدد قلعے پائے جاتے ہیں کچھ قلعے کھنڈر کی شکل میں اب نابود ہو چکے ہیں ان قلعوں میں ڈیلی ہالہ، دیوار کرنگل مکھیالہ، کسک، نندنہ، روہتاس، ملوٹ، سمرقند، گٹھانوالہ اور شاہ کوٹ کے قلعوں کو نامکمل حالت میں دیکھا جا سکتا ہے۔ قلعہ کسک کوہستان نمک کی جنوبی چوٹی پر واقع ہے مہاراجہ رنجیت سنگھ نے خود اس کا محاصرہ کیا۔ جنجوعہ سردار سلطان فتح محمد خان جس کی اولاد اس گاؤں میں موجود ہے سلطان محمد خان نے رنجیت سنگھ کا مقابلہ بہادری سے کیا۔ پانی کا ذخیرہ ختم ہونے پر اس نے ہتھیار ڈال دیے قلعہ کسک کا کل رقبہ تقریباً نصف میل کے لگ بھگ ہے جنوبی اور مشرقی دیواروں کی بلندی270 فٹ ہے جانب شمال دو دروازے ہیں ایک اب گر چکا ہے یہ قلعہ مقامی پتھر کا بنا ہوا ہے قلعہ کسک کے غربی حصے میں تقریباً 70 مکانات تعمیر کیے گئے ہیں۔ قلعہ کے درمیان ایک بنگلہ نما محل تھا جو بادشاہ یاحکمرانوں کے لیے مخصوص تھا پانی کے تالاب بارشوں کے موسم میں بھر جاتے یہ پانی پینے کے لیے استعمال کرتے غلہ سٹور کرنے کے لیے بھی مکانات بنائے گئے۔ قلعہ کی مضبوط بنیادوں اور اعلیٰ تعمیری ذوق کی وجہ سے قلعہ آج تک محفوظ ہے۔ البتہ مشرقی جانب کی دیوار گر چکی ہے۔1901ء تک اس کا صدر دروازہ چوبی محفوظ تھا جو اب موجود نہیں جنوبی ڈھلوان کی طرف اس کا دو راستوں سے رابطہ تھا۔ جلال الدین فیروز شاہ خلجی 1290-95ء نے بھی اس علاقہ کے جنجوعوں کا بڑا خون بہایا۔ اس قلعے پر امیر تیمور 1398ء میں حملہ آور ہوا تو کوہ جودہ کے راستے اور سردار پیشکش لے کر حاضر خدمت ہو گئے تو یوں یہ علاقہ تاراج ہونے سے بچ گیا قلعہ کسک کوہ جودہ کا مشرقی اور آخری قلعہ تھا کوہ جودہ کلرکہار، ملوٹ اور کسک کے قلعوں میں شامل ایک علاقہ قرار دیا گیا تھا۔[1][2]
حوالہ جات
ترمیم- ↑ پاکستان کے آثارِ قدیمہ شیخ نوید اسلم
- ↑ روزنامہ دنیا 10 اپریل 2014