کھیوڑہ نمک کی کان
کھیوڑہ نمک کی کان ضلع جہلم پنجاب پاکستان میں واقع ہے۔ یہ جگہ اسلام آباد سے 160 جبکہ لاہور سے قریبا 250 کلومیٹر فاصلہ پر ہے۔
کھیوڑہ نمک کی کان | |
---|---|
کھیوڑہ نمک کی کان کی سرنگ | |
مقام | |
مقام | کھیوڑہ |
صوبہ | پنجاب،پاکستان |
ملک | پاکستان |
ملکیت | |
مرافقہ | پاکستان منرل ڈیویلپمنٹ کارپوریشن |
موقع حبالہ | کھیوڑہ نمک کی کان |
تاریخ | |
آغاز | 1872ء |
فعال | 140 سال |
تاریخ
ترمیمکھیوڑہ میں موجود نمک کی یہ کان جنوبی ایشیا میں قدیم ترین ہے اور دنیا میں دوسرا بڑا خوردنی نمک کا ذخیرہ ہے۔ اس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ جب سکندر اعظم 322 ق م میں اس علاقے میں آیا تو اس کے گھوڑے یہاں کے پتھر چاٹتے ہوئے دیکھے گئے۔ ایک فوجی نے پتھر کو چاٹ کر دیکھا تو اسے نمکین پایا۔ یوں اس علاقے میں نمک کی کان دیافت ہوئی۔ اس کے بعد یہ کان یہاں کے مقامی راجا نے خرید لی اور قیام پاکستان تک یہ کان مقامی جنجوعہ راجوں کی ملکیت رہی۔
مقام
ترمیمکھیوڑہ نمک کی کان ضلع جہلم پنجاب پاکستان میں واقع ہے۔ یہ جگہ اسلام آباد سے 160 جبکہ لاہور سے قریبا 250 کلومیٹر فاصلہ پر ہے۔
کان کا نظام
ترمیمکھیوڑہ کی نمک کی کان کا موجودہ نظام چوہدری نظام علی خان نامی انجینئیر کا بنایا ہوا ہے۔ یہ کان زیر زمین 110 مربع کلومیٹر رقبہ پر پھیلی ہوئی ہے۔ اس میں 19 منزلیں بنائی گئی ہیں جن میں سے 11 منزلیں زیر زمین ہیں۔ نمک نکالتے وقت صرف 50 فی صد نمک نکالا جاتا ہے جبکہ باقی 50 فی صد بطور ستون اور دیوار کان میں باقی رکھا جاتا ہے۔ کان دھانے سے 750 میٹر دور تک پہاڑ میں چلی گئی ہے اور اس کے تمام حصوں کی مجموعی لمبائی 40 کیلومیٹر ہے۔ اس کان میں سے سالانہ 325000 ٹن نمک حاصل کیا جاتا ہے۔
سیاحت
ترمیمیہاں سیر و سیاحت کے شوقین حضرات کے لیے دیکھنے کو بہت کچھ ہے۔ سیاحوں کے لیے اچھے انتظامات موجود ہیں۔ سالانہ کئی لوگ یہاں کی سیر بڑے شوق سے کرتے ہیں جن میں غیر ملکی بھی شامل ہوتے ہیں۔
کان میں موجود عمارات
ترمیمکان کے مختلف حصوں میں بعض عمارات بھی بنائی گئی ہیں۔ ان میں سب سے مشہور نمک کی اینٹوں سے بنائی گئی ایک مسجد ہے جس میں بجلی کے قمقمے بھی نصب کیے گئے ہیں
۔
کان میں پانی کی نکاسی کے لیے پرنالوں کا ایک نظام بھی موجود ہے۔ پہاڑ سے رسنے والے پانی اور بارش کے پانے کے جمع ہونے سے نمکین پانی کے بعض تالاب بھی ہیں جن پر نمک ہی کے بنے ہوئے پل بنائے گئے ہیں۔
برطانوی سامراج کے خلاف مزاحمت
ترمیممارچ 1849ء میں برطانیہ نے اس علاقے پر قبضہ کیا تو یہ کان بھی ان کے تصرف میں چلی گئی۔ 1829ء سے 1862ء تک برطانوی تسلط کے خلاف مزاحمت کی گئی۔ 1872ء میں ایک نیا نظام رائج کیا گیا جس سے کام کا بوجھ بہت بڑھ گیا۔ کان کنوں کو روزانہ کان میں بند کر دیا جاتا تھا اور اس وقت نکلنے دیا جاتا تھا جب وہ اپنی روزانہ کی مقررہ مقدار میں نمک کھود لیتے تھے۔ مرد اور عورتیں بلکہ بچے بھی کان میں کام کرتے ہیں۔ ان حالات میں بعض بچے کان ہی میں پیدا ہوئے۔ 1872ء سے 1876ء میں کان کنوں نے کئی مواقع پر اس سلوک کے خلاف کام روک دیا۔ کان کے چیف انجنیئر Warth نے دہلی سے Wright صاحب کی مدد سے فوج طلب کر لی اور بارہ کان کنوں کو کان کے سامنے کھڑا کر کے گولی مار دی گئی۔ ان میں سے دس کان کنوں کے نام یہ ہیں:
- عبد اللہ
- محمد سردار
- محمد حسن
- نواب
- اللہ بخش
- خدا بخش
- محمد عبد اللہ
- جاویہ
- پیرا
- محمد واحد
طبی استعمال
ترمیمکھیوڑا نمک کی کان کو بعض لوگ دمہ کے مرض میں مفید جانتے ہیں۔ چنانچہ یہاں ایک تجرباتی مطب قائم کیا گیا ہے جس میں دمہ کے مریضوں کا علاج کیا جاتا ہے۔ پاکستان کے علاوہ بیرون از ملک مریض بھی یہاں آتے ہیں[1]