گجرات فائلس
گجرات فائلس: پس پردہ حقائق کا انکشاف معروف خاتون صحافی رعنا ایوب کی تصنیف ہے جس میں سنہ 2002ء کے گجرات فسادات کے مخفی حقائق سے پردہ اٹھایا گیا ہے نیز نریندر مودی اور امت شاہ کے دور عروج میں ریاست میں جاری انسانیت سوز جرائم اور فرضی انکاؤنٹروں کے متعلق انہی کی زبان سے سنسنی خیز انکشافات کیے گئے جو خود مجرم ہیں۔ اس کتاب کا اردو ترجمہ محمد ضیاء اللہ ندوی کے قلم سے ہے اور پیش لفظ جسٹس بی این سری کرشنا نے تحریر کیا ہے۔ رعنا نے اس کتاب کو شاہد اعظمی اور مُکُل سِنہا کے نام مُعَنوَن کیا ہے۔
مصنف | رعنا ایوب |
---|---|
مترجم | ضیاء اللہ ندوی |
ملک | بھارت |
زبان | اردو |
صنف | صحافت |
ناشر | مضامین ڈاٹ کام |
تاریخ اشاعت | دسمبر 2016ء |
تاریخ اشاعت انگریری | 25 مارچ 2016ء |
صفحات | 222 |
متعدد ناشرین کتب کے انکار کے بعد 25 مارچ 2016ء کو خود رعنا ایوب نے اس تفتیش کو "Gujarat Files:Anatomy of a Cover Up" کے عنوان سے شائع کیا۔ بعد ازاں دسمبر 2016ء میں مضامین ڈاٹ کام کی جانب سے عرفان احمد کی ادارت میں اس کا اردو ترجمہ شائع کیا گیا۔
پس منظر
ترمیمرعنا ایوب نے اس کتاب کا مواد تیار کرنے کے لیے کانپور کے ایک کائستھ خاندان کی بیٹی میتھلی تیاگی کا روپ دھارا جو ایک امریکی فلم ساز، امریکی فلم انسٹی ٹیوٹ کی طالبہ اور راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے نظریات سے متاثر ہے نیز گجرات کے ترقیاتی ماڈل اور دنیا بھر میں موجود غیر مقیم ہندوستانیوں کے درمیان میں نریندر مودی کی مقبولیت پر ایک فلم بنانا چاہتی ہے۔ اس پوری کارروائی میں اس کے ساتھ فرانس کا ایک نوعمر طالب علم بھی تھا جس کا نام رعنا نے مائک رکھا ہے۔[1]
اس بھیس میں رعنا نے گجرات کے ان بڑے پولس افسروں سرکاری اہلکاروں اور سیاست دانوں سے ملاقات کی جو سنہ 2001ء سے 2010ء تک صوبہ گجرات کے کلیدی عہدوں پر فائز تھے۔ حتی کہ اسی بھیس میں رعنا نے نریندر مودی سے بھی ملاقات کی۔ ان افراد سے ملاقاتوں کے دوران میں رعنا ایک مخفی کیمرا ساتھ رکھتیں اور اس کی مدد سے ان ملاقاتوں میں ہونے والی گفتگو کو ریکارڈ کر لیتیں۔ اس پوری کارروائی کے پیچھے ادارہ تہلکہ تھا جس کے لیے اس وقت رعنا کام کر رہی تھیں۔ جب تہلکہ نے اپریل 2011ء میں اس تفتیش کو بند کر دیا،[2][3][4][5][6] تو تہلکہ سے علاحدگی کے بعد رعنا نے اس کام کو آزادانہ طور پر جاری رکھا۔
اشاعت کی کہانی
ترمیممنٹ اخبار میں ستمبر 2016ء میں شائع شدہ پریا رمانی کے کالم کے مطابق رعنا نے اس کتاب کے بتیس ہزار نسخے فروخت کیے۔ رمانی نے مزید لکھا کہ کوئی ناشر رعنا کی اس کتاب کو شائع کرنے کے لیے تیار نہیں تھا، چنانچہ رعنا نے اس کتاب کو خود شائع کیا۔ تاہم بھارت میں انگریزی کتابوں کا سب سے بڑے تقسیم کار ادارے انڈیا بک ڈسٹری بیوٹرز نے اس معاہدے پر تقسیم کی آمادگی ظاہر کی کہ وہ پچھلے مہینے آٹھ ہزار نسخے فروخت کر چکے ہیں۔[7]
کتب فروش
ترمیممبینہ طور پر بہت سے کتب فروشوں نے اپنی دکانوں میں اس کتاب کو رکھنے سے انکار کیا یا دانستہ چشم پوشی برتی۔ جولائی 2016ء کے ایک انٹرویو میں رعنا ایوب نے خود کہا کہ میں نے بنفس نفیس ممبئی اور احمدآباد کے متعدد کتب فروشوں کو گجرات فائلس کی تلاش میں سرگرداں ایک قاری کی حیثیت سے فون کیا اور کتاب کہیں نہیں ملی۔[5]
تاثرات
ترمیمسنہ 2016ء میں اس کتاب کی محفل اجرا کے دوران میں صحافیوں، دانشوروں اور سیاست دانوں کی بڑی تعداد موجود تھی لیکن قومی ذرائع ابلاغ میں اس کتاب کا ذکر نہیں کیا گیا، تاہم دی ہندو اور انڈین ایکسپریس وغیرہ میں بس سرسری تبصرے شائع ہوئے۔[8] کچھ دانشوروں اور معروف افراد نے اپنے طور پر تاثرات کا اظہار کیا جو ذیل میں درج ہیں۔[9]
معروف سماجی کارکن اروندھتی رائے کہتی ہیں:
اس کتاب میں شامل سینئر آفیسرز اور پولیس اہلکاروں سے کیے گئے مکالمات اس ملک کی عدالتوں میں زیر سماعت متعدد معاملوں کے شواہد کو سیاق و سباق اور تقویت فراہم کرتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم ایسے مجرموں کے ساتھ کیا رویہ روا رکھیں گے جو اس ملک کے طاقتور ترین افراد میں سے ہیں اور اس سے بھی اہم سوال یہ ہے کہ ہم خود اپنے ساتھ کیا رویہ روا رکھیں گے جنہوں نے ایسے افراد کو اقتدار بخشا۔
رامچند رگبا نے ان الفاظ میں اپنا تاثر پیش کیا "گجرات فائلس ایک جراتمندانہ اور اہم کتاب ہے"۔
بنسل مہتا کہتے ہیں:
ان جیسی آوازوں کے بغیر ہمارا ملک ایک ایسا ملک ہوتا جو سیاسی طور پر معقول تاریخ کا ملغوبہ بن کر رہ جاتا۔ میں رعنا کا مشکور ہوں جنہوں نے اتنا عظیم الشان کارنامہ انجام دیا ہے۔
جسٹس بی این سری کرشنا رقمطراز ہیں:
تفتیشی صحافت میں اس غیر معمولی جرات کے لیے انہیں اور ان کے ساتھیوں کو سلام۔ بڑھتی ہوئی بے ایمانی، فریب کاری اور سیاسی ریشہ دوانیوں کے پیش نظر اس کی ضرورت بھی بڑھ رہی ہے۔
مزید دیکھیے
ترمیمحوالہ جات
ترمیم- ↑ اردو بک ریویو، جنوری فروری مارچ 2017ء، مبصر محمد عارف اقبال، نئی دہلی۔
- ↑ "Book review: Gujarat Files"۔ منٹ۔ 4 جون 2016ء۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 ستمبر 2016ء
- ↑ "Gujarat Files: Rana Ayyub and stinging truths"۔ بزنس اسٹینڈرڈ۔ 25 جون 2016ء۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 ستمبر 2016ء
- ↑ "Gujarat Files: Sting claims political pressure in Gujarat riots"۔ انڈین ایکسپریس۔ 30 مئی 2016ء۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 ستمبر 2016ء
- ^ ا ب "On the trail of the real culprits"۔ Frontline۔ 8 جولائی 2016ء۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 ستمبر 2016ء
- ↑ "What the Silence Over Rana Ayyub's 'Gujarat Files' Tells Us"۔ دی وائر۔ 1 جولائی 2016ء۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 ستمبر 2016ء
- ↑ "The self-publishing story of dust and dreams"۔ منٹ اخبار۔ 1 ستمبر 2016ء۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 ستمبر 2016ء
- ↑ اردو بک ریویو، جنوری فروری مارچ 2017ء، مبصر محمد عارف اقبال
- ↑ یہ تمام تاثرات گجرات فائلس سے ماخوذ ہیں۔