گلوٹین (Guillotine) اس آلے کا نام ہے جو سزائے موت پانے والے مجرموں کا سر قلم کرکے سزائے موت پر عمل درآمد کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ یہ آلہ ایک لمبے عمودی فریم اور ایک معلق تیغے پر مشتمل ہوتا تھا۔ آہنی چھرے کو رسی کے ذریعے اٹھایا جاتا ہے اور رسی کو چھوڑ کر مجرم کی گردن پر گرنے دیا جاتا تاکہ اس کے سر کو جسم سے الگ کر دے۔ اس آلے کی شہرت زیادہ تر فرانس میں اس کے وسیع پیمانے پر استعمال کی وجہ سے ہوئی، خاص طور پر فرانسیسی انقلاب کے دوران، حالانکہ اس کا استعمال فرانسیسی انقلاب کے بعد بھی کئی ممالک میں جاری رہا۔ فرانس میں گلوٹین کے ذریعے سزائے موت پانے والا آخری فرد حمدہ جندوبی تھا، جو تیونس کی ایک تارک وطن تھا جسے ایلزبتھ بوسکیٹ نامی نوجوان خاتون کی عصمت دری اور قتل کے جرم میں سزائے موت سنائی گئی تھی اور ستمبر، 1977ء میں مارسے میں اسے گلوٹین کے ذریعے سزائے موت دی گئی۔ اس سزا کے ساتھ ہی گیلوٹین کے ذریعے سزائے موت دینے کا سلسلہ ہمیشہ کے لیے بند کر دیا گیا اور خاص طور پر مغربی یورپ میں سزائے موت کو ختم کر دیا گیا۔

16 اکتوبر، 1793ء کو فرانس کی ملکہ میری اینٹونیٹ کی کی سزائے موت بذریعہ گلوٹین۔

سر کو جسم سے الگ کرنے کے لیے میکانی آلات جیسے کہ گلوٹین کے استعمال کی تاریخ قرون وسطیٰ تک جاتی ہے اور اٹلی، جرمنی اور انگلینڈ میں اس کی مختلف مثالیں موجود ہیں۔