گولی باری دستوں کے ذریعے سزائے موت
گولی باری دستوں کے ذریعے سزائے موت (انگریزی: Execution by firing squad) ایک طریقہ ہے جس کے ذریعے سزائے موت انجام دی جاتی ہے۔ یہ بہ طور خاص فوجی ماحول اور جنگ کے حالات میں بہت عام ہے۔ گولی باری کے ذریعے موت ایک خاصی قدیم روایت ہے۔ اس کی مختلف وجوہ میں یہ بھی ہے کہ گولی بارود آسانی سے دست یاب ہوتا ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ کسی حساس عضو کو گولی سے نشانہ بنانا جیسا کہ دل یا دماغ نسبتًا ارباب مجاز کے نزدیک راندۂ دربار اور واجب القتل سمجھے جانے والے شخص کو مار ڈالنے کا آسان، فی الفور اور یقینی طریقہ ہے۔
مختلف ممالک کا گولی باری دستوں کے بارے میں تصور
ترمیمدنیا کے کئی ممالک، جن میں یورپی اتحاد کے ممالک شامل ہیں، سزائے موت ایک سرے سے ممنوع ہے۔ اگر چیکہ ان ممالک میں ماضی میں سزائے موت، پھانسی اور گولی باری کے ذریعے موت کے واقعات رو نما ہو چکے ہیں۔
عراق میں وہاں کے سابق صدر صدام حسین گولی باری دستوں کے ذریعے سزائے موت دینے کے بارے کافی چرچوں میں تھے۔ ان کے دور میں سیاسی مخالفین، شیعہ اور کرد باغیوں کو کئی بار اسی کے ذریعے مار دیا گیا۔ 2006ء میں جب وہ نہ صرف اقتدار کی باگ ڈور کھو چکے تھے، بلکہ وہ ایک مجرم کی طرح عدالت میں اپنی صفائی میں کھڑے تھے، تب انھوں نے عدالت میں عام مجرموں کی طرح پھانسی کی سزا کی بجائے گولی باری دستوں کے ذریعے سزائے موت کا مطالبہ کیا۔ گویا وہ اس سزا میں ایک شرف اور اعزاز سمجھ رہے تھے۔ تاہم ان کے مخالفین نے پھانسی کی سزا کا مطالبہ کیا۔[1] بالآخر انھیں 30 دسمبر، 2006ء کو سزائے موت دی گئی اور انھیں اس کے بعد ان کے آبائی گاؤں میں دفن کر دیا گیا۔[2]
شمالی کوریا میں سیاسی شورش یا ناراضی کو خاموش کرنے اور مخالفین کو سزائے موت دینے کی اپنی تاریخ رہی ہے۔ یہاں پر بیش تر سزائے موت کے واقعات گولی بارے دستوں کے ہاتھوں انجام پاتے ہیں۔ اس میں تین بندوق بردار باری باری سے سزا پانے والے شخص کے جسم کو گولیوں سے بھون ڈالتے ہیں۔ ایسی اطلاعات ملی ہیں کہ یہ سزاؤں کو انجام تک پہنچانے والے شراب کے نشے میں ہوتے ہیں، جس کی وجہ کسی انسان کو مارنا جذباتی طور پر متزلزل کرنے والا عمل ہے۔ اس کے باوجود ملک میں قلیل التعداد سزائیں عوامی پھانسی کے ذریعے انجام پائی ہیں، حالانکہ اس ثانی الذکر طریقے میں 2005ء سے یا تو کمی واقع ہوئی ہے یا پھر بالکلیہ طور پر اس پر روک لگا دی گئی ہے۔[3]