ہری دریانی دلگیر

بھارتی سندھی زبان کے شاعر

ہری دریانی دلگیر (انگریزی: Hari Daryani Dilgir) بھارت سے تعلق رکھنے والے سندھی زبان کے نامور شاعر تھے۔ ادب کی ترقی پسند تحریک سے وابستہ تھے۔ انھیں ان کے شعری مجموعے پر بھارت کی ساہتیہ اکیڈمی کی جانب سے 1979ء میں ساہتیہ اکیڈمی اعزاز برائے سندھی ادب دیا گیا۔

ہری دریانی دلگیر
(سندھی میں: ھري درياني دلگير ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

معلومات شخصیت
پیدائش 15 جون 1916ء  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
لاڑکانہ،  سندھ،  بمبئی پریزیڈنسی  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات سنہ 2004ء (87–88 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ادیپور،  گجرات،  بھارت  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت برطانوی ہند
بھارت  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
تعلیمی اسناد بی ایس سی،  بیچلر آف انجینئرنگ  ویکی ڈیٹا پر (P512) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ شاعر  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان سندھی  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کارہائے نمایاں پل پل جو پڑلائو  ویکی ڈیٹا پر (P800) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اعزازات
ساہتیہ اکادمی ایوارڈ  (برائے:پل پل جو پڑلائو) (1979)[1]  ویکی ڈیٹا پر (P166) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
باب ادب

حالات زندگی ترمیم

ہری دریانی دلگیر 15 جون 1916ء کو، لاڑکانہ، سندھ، بمبئی پریزیڈنسی میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے بی ایسی سی اور بیچلر آف انجینئرنگ (سول) کی اسناد حاصل کیں۔ تقسیم ہند کے بعد بھارت میں منتقل ہو گئے اور ادیپور (گجرات) میں رہائش اختیار کی۔ وہ ترقی پسند دبستانِ شاعری کے نمائندہ شاعر تھے۔ ہری دلگءر کی شاعری کا ایک مجموعہ تقسیم ہند سے قبل شائع ہو چکا تھا، جس میں سندھ کے قدرتی حسن اور مناظرِ فطرت پر نظمیں شامل کی گئی تھیں۔ وہ کشن چند بیوس کی طرح اپنے ارد گرد کے ماحول اور آس پاس کی دنیا سے شاعری کا مواد اخذ کرتے تھے[2] اور انھیں نہایت سلیس اور عام فہم انداز میں بیان کر دینے میں قدرت حاصل تھی۔ ان کی شاعری میں فکری بالیدگی کا احساس ہوتا ہے اور فطری اظہار کے کلام میں ایک طرح کی سرخوشی اور معصومیت پیدا کر دیتی ہے۔ نرمی، گداز اور رومانیت ان کے کلام کی بنیادی خوبیاں ہیں۔ ہری دریانی دلگیر نے پابند نظم اور آزاد نظم کے علاوہ گیت بھی لکھے ہیں، جن میں ہندی الفاظ کی آمیزش سے خوبصورت ترنم پیدا کیا گیا ہے۔ وہ خیالات اور تصورات کے لحاظ سے کشن چند بیوس کے زیرِ اثر تخلیقی سفر کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ دلگیر کی شاعری میں فارسی الفاظ کم دیکھنے میں آتے ہیں ہیں۔ ان کی نظمیں قیدی اور پھلیلی بطور کافی مشہور ہوئیں۔[3] ہری دلگیر نے بیس کے قریب کتب تحریر کیں، جن میں موج کئی مہران (شاعری 1966ء)، پل پل جو پڑلائو (شاعری، 1977ء)، امر گیت (شاعری، 1981ء)، مذیدار گیت (بچوں کے لیے گیت، 1983ء)، چولو منھنجی چکا میں (خودنوشت، 1987ء) اور صبح جو سھاگ (شاعری، 2001ء) نمایاں ہیں۔ بھارت کی ساہتیہ اکیڈمی نے 1979ء میں انھیں ساہتیہ اکیڈمی اعزاز عطا کیا۔ ان کی سندھی زبان میں ادبی خدمات کے صلے میں بھارت کا نارائن شیام ایوارڈ بھی دیا گیا۔

وفات ترمیم

ہری دلگیر ک 2004ء میں ادیپور، کچھ، بھارت میں وفات پا گئے۔

حوالہ جات ترمیم

  1. http://sahitya-akademi.gov.in/awards/akademi%20samman_suchi.jsp#SINDHI — اخذ شدہ بتاریخ: 16 اپریل 2019
  2. سید مظہر جمیل، مختصر تاریخ زبان و ادب سندھی، ادارہ فروغ قومی زبان اسلام آباد، 2017ء، ص 376
  3. مختصر تاریخ زبان و ادب سندھی، ص 377