ہم دیکھیں گے
ہم دیکھیں گے فیض احمد فیض کی ایک انتہائی مشہور و مقبول نظم ہے[1] جس کا اصل عنوان ویبقیٰ وجہ ربک تھا۔[2] فیض کی یہ اکیس سطری نظم ان کے ساتویں شعری مجموعہ میرے دل میرے مسافر میں شامل ہے۔ فیض نے اس نظم کو پاکستانی آمر جنرل ضیاء الحق کے عہد حکومت کے استبداد کے خلاف احتجاجاً لکھا تھا[3] لیکن جب مشہور مغنیہ اقبال بانو نے 13 فروری 1986ء کو الحمرا آرٹس کونسل[4][5] کے ایک اجلاس میں سیاہ لباس پہن کر اسے پڑھا[6] تو یہ نظم احتجاج و انقلاب کا استعارہ بن گئی اور ترقی پسندوں اور بائیں بازو[7][8] کے افراد کی زبانوں پر مزاحمتی گیت کی شکل میں جاری ہو گئی۔[9] اقبال بانو نے اس نظم کو ایسے وقت میں گایا تھا جب فیض کی شاعری پر پابندی عائد تھی اور سامعین میں اس قدر جوش امڈ آیا تھا کہ وہ بار بار انقلاب زندہ باد کے نعرے لگا رہے تھے۔ یہ نظم سنہ 1979ء میں پہلی بار شائع ہوئی تھی۔
از فیض احمد فیض | |
اصل عنوان | ویبقی وجہ ربک |
---|---|
شاعر | 1979 |
پہلی اشاعت | 1981 |
سطور | 21 |
اس نظم میں ضیاء الحق کے عہد حکومت کی ترجمانی کے لیے اسلامی تصوّرات کو استعارے کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔ قیامت، یومِ حساب و کتاب ، یومِ انقلاب میں تبدیل ہو چکا ہے جس میں عوام نے ضیاء کی فوجی حکومت کو اقتدار سے بے دخل کر کے جمہوریت کو دوبارہ قائم کر دیا ہے۔[10][11]
اسے 22 جولائی 2018ء کو کوک سٹوڈیو سیزن گیارہ میں دوبارہ ذوہیب قاضی اور علی حمزہ کے زیرِ اہتمام پیش کیا گیا۔[12][13][14] برصغیر کے مختلف مظاہروں اور احتجاجوں میں اسے بڑے پیمانے پر گایا گیا ہے۔[15][16] بھارت میں شہریت ترمیمی قانون کے احتجاج کے دوران میں آئی آئی ٹی کانپور کے طلبہ نے جب اسے گایا تو سخت گیر ہندوؤں کو یہ نظم پسند نہیں آئی اور اسے "ہندو مخالف" باور کرایا جانے لگا۔ ادارے کے ذمہ داروں کے پاس جب مختلف افراد کی جانب سے شکایتیں پہنچیں تو انھوں نے اس کی جانچ کے لیے ایک کمیشن مقرر کیا تاکہ "ہندو مخالف" الزام کی تفتیش کی جا سکے۔[17][18] تاہم کی طلبہ میڈیا سیل نے ان الزامات کو غلط فہمی اور فرقہ وارانہ قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا اور کہا کہ نظم کو اس کے معاشرتی تناظر سے الگ کر کے دیکھا جا رہا ہے۔[19] اسی دوران میں بھارت کے متعدد ادبا، شعرا اور فنکاروں نے بھی اس فرقہ وارانہ مزاج کی شدید مذمت کی اور فیض کی اس نظم کے پس منظر کو بڑے واشگاف لفظوں میں پیش کیا۔
شہریت ترمیمی قانون کے خلاف مظاہروں کثرت سے استعمال
ترمیم2019ء میں بھارت میں پارلیمنٹ کی جانب سے پاس کیے جانے والے متنازع شہریت ترمیمی قانون کے خلاف مظاہروں میں اس نظم کا خاص طور پر کئی بار استعمال کیا گیا اور گایا بھی گیا۔ انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کانپور میں یہ خاص طور پر تنازع کا موضوع بن گیا اور کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ یہ ہندو مذہب کے خلاف ہے۔ شکایت پر تحقیق کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی تھی، جس نے اس نغمے کے گانے کو وقت اور جگہ کے لیے نامناسب قرار دیا۔[20]
نظم
ترمیمہم دیکھیں گے | ||
لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے | ||
وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے | ||
جو لوح ازل میں لکھا ہے | ||
جب ظلم و ستم کے کوہ گراں | ||
روئی کی طرح اڑ جائیں گے | ||
ہم محکوموں کے پاؤں تلے | ||
جب دھرتی دھڑ دھڑ دھڑکے گی | ||
اور اہل حکم کے سر اوپر | ||
جب بجلی کڑ کڑ کڑکے گی | ||
جب ارض خدا کے کعبے سے | ||
سب بت اٹھوائے جائیں گے | ||
ہم اہل صفا مردود حرم | ||
مسند پہ بٹھائے جائیں گے | ||
سب تاج اچھالے جائیں گے | ||
سب تخت گرائے جائیں گے | ||
بس نام رہے گا اللہ کا | ||
جو غائب بھی ہے حاضر بھی | ||
جو منظر بھی ہے ناظر بھی | ||
اٹھے گا انا الحق کا نعرہ | ||
جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو | ||
اور راج کرے گی خلق خدا | ||
جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو |
حوالہ جات
ترمیم- ↑ Pheroze L. Vincent (2 January 2012)۔ "Faiz poetry strikes chord in Delhi"۔ Calcutta, India: دی ٹیلی گراف (بھارت)
- ↑ Roanne Kantor (2016-07-02)۔ "'My Heart, My Fellow Traveller': Fantasy, Futurity and the Itineraries of Faiz Ahmed Faiz"۔ South Asia: Journal of South Asian Studies۔ 39 (3): 608–625۔ ISSN 0085-6401۔ doi:10.1080/00856401.2016.1189034
- ↑ Tariq Ali (2000)۔ On the Abyss: Pakistan After the Coup (بزبان انگریزی)۔ HarperCollins Publishers India۔ صفحہ: 198۔ ISBN 978-81-7223-389-1
- ↑ "Husn-e-Ghazal"۔ The Hindu (newspaper)۔ 12 March 2005۔ 12 جنوری 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 جون 2018
- ↑ Iqbal Bano ghazal personified Dawn (newspaper), published 22 April 2009, Retrieved 21 June 2018
- ↑ Kaveree Bamzai (2020-01-02)۔ "Modi's India unhappy with protesters singing Faiz's Hum Dekhenge. Zia's Pakistan was too"۔ ThePrint (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 02 جنوری 2020
- ↑ Mohammed Hanif (2019-12-19)۔ "Opinion | The Dictator and His Death Sentence"۔ The New York Times (بزبان انگریزی)۔ ISSN 0362-4331۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 دسمبر 2019
- ↑ Bishnupriya Dutt (2015-07-03)۔ "Performing Resistance with Maya Rao: Trauma and Protest in India"۔ Contemporary Theatre Review۔ 25 (3): 372۔ ISSN 1048-6801۔ doi:10.1080/10486801.2015.1049823
- ↑ Marie Korpe، Ole Reitov (September 2010)۔ "Banned: a Rough Guide"۔ Index on Censorship (بزبان انگریزی)۔ 39 (3): 36۔ ISSN 0306-4220۔ doi:10.1177/0306422010381043
- ↑ Gauhar Raza (January 2011)۔ "Listening to Faiz is a subversive act"۔ Himal Southasian۔ 26 دسمبر 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 03 جنوری 2020
- ↑ "The story of Faiz's Hum Dekhenge — from Pakistan to India, over 40 years"۔ The Indian Express (بزبان انگریزی)۔ 2019-12-27۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 دسمبر 2019
- ↑ Rida Lodhi (23 July 2018)۔ "7 reasons we are looking forward to 'Coke Studio Season 11'"۔ دی ایکسپریس ٹریبیون۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 جولائی 2018
- ↑ Maheen Sabeeh (24 July 2018)۔ "Coke Studio 11 announces itself with 'Hum Dekhenge'"۔ دی نیوز۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 جولائی 2018
- ↑ "Coke Studio announces artist line-up with 'Hum Dekhenge'"۔ ڈان (اخبار)۔ 27 July 2018۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 جولائی 2018
- ↑ Jawed Naqvi (2008-12-15)۔ "If mullahs usurp anti-imperialism should the secular fight be given up?"۔ DAWN.COM (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 جنوری 2020
- ↑ "DAWN - Features; November 22, 2007"۔ DAWN.COM (بزبان انگریزی)۔ 2007-11-22۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 جنوری 2020
- ↑ "IIT Kanpur students respond to professor who accused them of chanting anti-India slogans"
- ↑ Tribune News Service۔ "IIT Kanpur panel to decide if Faiz poem is anti-Hindu"۔ Tribuneindia News Service (بزبان انگریزی)۔ 02 جنوری 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 02 جنوری 2020
- ↑ "Don't communalise the peaceful gathering at IIT Kanpur"۔ Vox Populi۔ 21 December 2019۔ 21 دسمبر 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ
- ↑ IIT Kanpur Panel Says Reciting Faiz's 'Hum Dekhenge' Was ‘Unsuitable to Time, Place’