ہندومت اور یہودیت کا شمار دنیا کے قدیم ترین مذاہب میں ہوتا ہے۔ ان دونوں مذاہب میں ابتدا ہی سے خاصی مماثلت پائی جاتی ہے اور ان کے پیروکاروں کے زمانہ قدیم سے آپسی تعلقات رہے ہیں جو آج بھی برقرار ہیں۔

ہندومت
یہودیت
ہندومت اور یہودیت

دینیاتی مماثلت

ترمیم

عہد روشن خیالی میں جب ربوبی نظریہ کائنات زیر بحث آیا تو اس دوران میں ہندو مت اور یہودیت کے موازنہ کا رجحان پیدا ہو گیا تھا، چنانچہ اس موضوع پر متعدد تحقیقی مقالے شائع ہوئے۔[1] ہننیا گڈمین لکھتے ہیں کہ یورپ میں ہندومت اور یہودیت نے بت پرستی، روحانیت، اساطیر اور زبان و نسل کے قدیم نظریات سے متعلق ہونے والے مباحثوں ميں بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔[2]

بعض محققین کا خیال ہے کہ یہ دونوں مذاہب نسلی ہیں، اسی لیے ان کے پیروکار دوسروں کو اپنا مذہب قبول کرنے کی دعوت نہیں دیتے۔ تاہم ان دونوں مذاہب کے ماننے والے دنیا بھر میں موجود ہیں۔[3] نیز ان دونوں میں قوانین کے پیچیدہ نظام، سخت اصول طعام اور قوانین نظافت میں خاصی مماثلت پائی جاتی ہے جو ان کو دوسری برادریوں سے ممتاز کرتی ہے۔[4]

رجنیش اوشو اور اسٹیون روزن نے اپنی کتابوں میں یہودیت کا برہمنیت سے خوب موازنہ کیا ہے۔ یہ لکھتے ہیں کہ برہمن اور یہود دونوں کا خیال ہے کہ وہ "خدا کی چنندہ قوم" ہیں۔ روزن نے مزید لکھا کہ برہمن پنڈتوں کی برادری ہے جبکہ یہود میں کاہنوں کی حکومت ہے۔

ڈیوڈ فلسر کا کہنا ہے کہ یہودی کتب مقدسہ میں مذکور ابراہیم کی داستان اپنیشدوں میں بیان کی جانے والی کہانی سے خاصی مشابہت رکھتی ہے۔ ان کے مطابق اپنیشدوں کو پڑھ کر کوئی بھی بآسانی یہ اندازہ لگا سکتا ہے کہ ان میں ابراہیم کی کہانی بیان ہو رہی ہے۔[5][6]

امریکی ماہر حیاتیات کونسٹنٹائن سیمویل رفینسکیو (1783ء- 1840ء) نے اپنی کتاب "دی امیرکن نیشنز" میں ان دونوں مذاہب کی لسانیاتی اور روایتی مشابہتوں پر گفتگو کی ہے۔ ایک جگہ لکھتے ہیں:

ہمارے Noah جنہیں یہود نوح اور کبھی منوح بھی کہتے ہیں۔ یہ بالکل وہی نام ہے جسے نوح کے لیے ہندو استعمال کرتے ہیں۔ منو کے قوانین کو ہندوؤں نے محفوظ رکھا۔ نیز ویدوں میں موسی کی پوری زندگی بیان کی گئی ہے۔ تاہم ہندوﺅں کے یہاں متعدد منو کا ذکر ملتا ہے جن میں ادیمو اور ستیہ کے ناموں سے آدم اور شیث کا تذکرہ بھی نظر آتا ہے۔[7]

مذہبی کتابیں

ترمیم

باربرا ہولڈریج نے اپنی ایک تحریر میں برہمنی، ربیائی اور قبالی روایات میں مذہبی کتابوں کے کردار کا تقابلی تجزیہ پیش کیا ہے۔ وہ لکھتی ہیں، ویدوں اور توریت جیسی مقدس کتابوں میں جو کونیاتی تصورات پیش کیے گئے ہیں وہ محض عبارتیں نہیں بلکہ ایک ایسی متعدد سطحی حقیقت ہے جو تاریخی اور ماورائے عالمی ابعاد کو محیط ہے۔ وہ مزید لکھتی ہیں کہ ان روایتوں میں پائی جانے والی مذہبی کتب کی مقدس حیثیت اور حجت ایک خاص حد تک انہی تصورات کی مرہون منت ہیں اور یوں وید اور توریت کا اپنی اپنی روایتوں میں بطور مثالی علامات کیا کردار رہا ہے اسے سمجھنے کے لیے اس ناحیے سے ان کا مطالعہ ناگزیر ہے۔[8]

یہودیت جو خدا کے توحیدی تصور کے لیے معروف ہے اور ہندومت کی توحیدی مذہبی کتب کے درمیان میں کچھ مماثلتیں ملتی ہیں۔ ہندومت کی مشہور توحیدی کتاب وید ہے۔[9] یہودیت میں خدا ماروائے مادہ ہے جبکہ ہندومت میں خدا ماورائے مادہ یعنی غیر جسمانی بھی ہے اور جسمانی بھی۔[10]

یہودیت میں خدا کو ادونائی (بمعنی ہمارا خدا) کہا گیا ہے، چنانچہ کتاب استثنا میں ادونائی کو "خدا دیوتاؤں کا خدا اور خداؤں کا خدا"[11] بیان کیا گیا۔ جبکہ ہندو فرقوں میں خدا اور قدرت کے متعلق مختلف تصورات ملتے ہیں، چنانچہ ان میں توحیدیت، کثرت پرستی، وحدت الوجود اور ہمہ اوست سب کے ماننے والے مل جائیں گے۔ اپنیشد، مہابھارت اور کچھ پرانوں کے مطابق ناراین سب سے برتر دیوتا ہے۔ عصر حاضر میں ویشنوی فرقہ وشنو کو خدائے برتر مانتا ہے جبکہ شیو مت میں شیو خدائے برتر ہے۔ یہودیت میں خدا کا وجود مطلق ہے، وہ ایسی ہستی ہے جسے تقسیم کیا جا سکتا ہے اور نہ تقابل، نیز وہ تمام موجودات کا خالق ہے۔[12]

برنارڈ جیکسن نے ان حدود کو بیان کیا ہے جو یہودی ہلاخاہ اور ہندوﺅں کے دھرم شاستر میں مذکور ہیں اور ان کے پیروکاروں پر ان حدود تک محدود رہنا فرض ہے۔ جیکسن لکھتا ہے کہ ان دونوں مذہبوں میں تمام قوانین کے ضبط تحریر میں لانے کا یہ مفہوم نہیں ہوتا کہ ان سب کو یا ان میں سے بیشتر کو نافذ کرنا ہے نیز وہ قوانین جو اقتدار شاہی سے متعلق ہیں ان کا قانونی نفاذ تو غیر ضروری ہے۔ وینڈی ڈانیگر کے نزدیک ہندومت اور یہودیت دونوں راسخ الاعتقادی (orthodoxy) کی بجائے راست عملیت (orthopraxy) کا رجحان رکھتے ہیں۔[13]

تعلقات

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. Hananya Goodman۔ Between Jerusalem and Benares: Comparative Studies in Judaism and Hinduism۔ SUNY Press۔ صفحہ: 3۔ ISBN 9780791417157 
  2. Kathryn McClymond۔ Beyond Sacred Violence: A Comparative Study of Sacrifice۔ JHU Press۔ صفحہ: 33۔ ISBN 9780801896293 
  3. Emma Tomalin (2013)۔ Religions and Development۔ Routledge۔ صفحہ: 109 
  4. Sushil Mittal, Gene Thursby۔ Religions of South Asia: An Introduction۔ Routledge۔ صفحہ: 181۔ ISBN 9781134593224 
  5. David Flusser (1988)۔ Judaism and the origins of Christianity۔ Magnes Press, Hebrew University۔ صفحہ: 650 
  6. "Between Jerusalem and Benares: Comparative Studies in Judaism and Hinduism", page 35- 40
  7. Constantine Samuel Rafinesque۔ The American nations; or, Outlines of their general history, ancient and modern۔ Oxford University۔ صفحہ: 104 
  8. Hananya Goodman۔ Between Jerusalem and Benares: Comparative Studies in Judaism and Hinduism۔ SUNY Press۔ صفحہ: 13۔ ISBN 9780791417157 
  9. Manfred Hutter (2013)۔ Between Mumbai and Manila: Judaism in Asia Since the Founding of the State of Israel (Proceedings of the International Conference, Held at the Department of Comparative Religion۔ V&R unipress GmbH۔ صفحہ: 241۔ ISBN 9783847101581 
  10. Sitansu S. Chakravarti (1991)۔ Hinduism, a Way of Life۔ صفحہ: 84۔ ISBN 9788120808997۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 07 جنوری 2018 
  11. عہد نامہ قدیم، کتاب استثنا باب 10 آیت 7
  12. Jack R. Lundbom۔ Deuteronomy: A Commentary۔ Wm. B. Eerdmans Publishing۔ صفحہ: 60 
  13. Hananya Goodman۔ Between Jerusalem and Benares: Comparative Studies in Judaism and Hinduism۔ SUNY Press۔ صفحہ: 16۔ ISBN 9780791417157