کثرت پرستی

متعدد دیوتاؤں کی پرستش یا ان پر عقیدہ

کثرت پرستی سے مراد خدا کی ذات یا صفات میں کسی اور کو شریک کرنا، یعنی توحیدیت کو منکر ہونا، ایک سے زیادہ خدا کے ماننے کا عقیدہ، کثرت پرستی یا اس کے معنی سوائے حق تعالٰی کے دوسرے کو موجود جاننا اور ضد حق تعالٰی کی ثابت کرنے کے بھی ہو سکتے ہیں۔ کثرت پرستی میں کئی دیوی دیوتاؤں پر ایک ساتھ عقیدہ ہوتا ہے اور ہر دیوی یا دیوتا اپنے خاص فرائض کے لحاظ سے پہچانا جاتا ہے مثلاْ ہندو مذہب میں مختلف دیوی اور دیوتا کے ذمہ مختلف فرائض ہیں مثلاْ اندر طوفان کے دیوتا ہیں، لکشمی دولت کی دیوی اور یم موت کے دیوتا وغیرہ۔ کثرت پرستی میں ہر دیوی یا دیوتا کی حیثیت سے مساوی نہیں ہوتی۔ مثلاْ فراعین کے دور میں ہزاروں دیوی و دیوتا تھے لیکن چند کی خاص طور پر پرستش ہوتی تھی۔ ایک زمانہ میں گیدڑ کے سر والے اور پھر بھیڑ کے سر والے دیوتا کو مرکزی مقام حاصل تھا۔[1]

کثرت پرستی تقریباً تمام قدیم مذاہب میں رائج تھی اور غالباْ اس سے بھی پہلے لوگ روحوں، دیو اور دوسری مافوق الفطرت طاقتوں کی پرستش کرتے تھے۔ انسانی سماج کے نہایت ابتدائی دور میں جب انسان طوفانی دریاؤں، بارش خوف ناک درندوں سے گھرا ہوا تھا۔ فطرت کی مہیب شکل ہر طرف سے اسے گھیرے رہتی۔ نہ وہ انھیں سمجھ پاتا اور نہ ان کا مقابلہ کرسکتا تو وہ دوست اور دشمن سبھی طاقتوں کی پرستش کرتا اور ان کے ذریعہ وہ انھیں خوش رکھنے کی کوشش کرتا۔ اس ابتدائی دور کے بعد جب اس کی واقفیت فطرت سے کچھ بڑھی تو پھر کثرت پرستی نے اس کی جگہ لی جو زیادہ منظم نظام ہے۔ جس کا مرکز یہ کائنات ہے۔ چاند، سورج، ستارے، دریا، پہاڑ وغیرہ کی اطراف قدیم انسان قصے، کہانیاں کے تانے بانے بنتے رہے ہیں۔ اس کی مدد سے انسان نے کائنات کے ساتھ اپنے تشتہ متعین کرنے کی ابتدائی کوشش کی۔

جیسے جیسے کثرت پرستی ترقی کرنے لگی دیوتاؤں اور دیویوں کی تعداد بھی گھٹتی گئی اور شخصی اقتدار کے ساتھ سیاسی مرکزیت اور بادشاہتوں کے ظہور کے بعد ان دیوتاؤں کی طاقت بھی مرکوز ہونے لگی۔ یونان کے اولمپیا کا دیوتا زیوس پہلے صرف آسمانوں کا دیوتا تھا لیکن بعد میں وہ سب سے بڑا اور سب سے طاقتور دیوتا بن گیا۔ اسی طرح مصر میں دیوتارا، سب سے پہلا اور سب پر حاوی دیوتا تسلیم کیا گیا۔[2] ہندوستان میں پہلے سیکڑوں دیوی دیوتا تھے اور پھر بعد میں ان کی جگہ برہما، شیو اور وشنو کی تری مورتی نے لے لی اور پھر یہیں سے توحید کے لیے راستہ کھلا۔

حوالہ جات

ترمیم
  1. * Ulrich Libbrecht. Within the Four Seas...: Introduction to Comparative Philosophy. Peeters Publishers, 2007. آئی ایس بی این 9042918128. p. 42.
  2. Allen, James P. (2000). Middle Egyptian: An Introduction to the Language and Culture of Hieroglyphs, p. 44.

بیرونی روابط

ترمیم