عہد روشن خیالی
دور استبصار، دور روشن خیالی یا دور عقلیت اٹھارویں صدی میں یورپ میں ثقافتی تحریک کا نام ہے، جس کا مرکز فرانس میں تھا جہاں اس کی قیادت رینے دیکارت اور ڈینس دیدرو جیسے فلسفی کر رہے تھے۔ یہ دور 1620ء کی دہائی سے 1780ء کی دہائی تک جاری رہا۔
اس روشن خیالی کا سب سے اہم عقیدہ لوگوں کی اپنی وجوہات کے یقین کا عقیدہ تھا۔ سب لوگ اپنے تئیں سوچ کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ لہذا، کسی شخص کو غیر اختیاری طور پر خود بخود طاقت اور دیگر حکام کا یقین نہیں کر لینا چاہیے۔ ان کے خیال کے مطابق لوگوں کو اس کا بھی یقین نہیں کر لینا چاہیے جو چرچ سکھاتا ہے یا جس کی پادری تبلیغ کرتے ہیں۔ ایک اور اہم خیال یہ تھا کہ ایک معاشرہ اس وقت سب سے بہتر ہو سکتا ہے جب تک اس کے تمام ارکان، ان کی حیثییت سے قطع نظر، اس کے ترقی کے لیے یکساں طور پر تعاون کریں۔
عہد عقلیت (Age of Enlightenment) کو ایک "عقل و عقیدہ کے مابین جنگ (War between Faith and Reason)" سے باآسانی تعبیر کیا جا سکتا ہے، جس کے باعث بالآخر مغربی معاشرے میں "عقل (Reason/Rationalism)" نے مسیحی عقائد (Beliefs/Faith) کو فکری شکست دی۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک یورپ میں مذہب محض ایک "روایت (Tradition)" بن کر رہ گیا ہے اور فرنگی لوگ در حقیقت عقلیت (Rationalism) کے پیروکار ہیں۔
لیکن مسلمان ہمیشہ سے جدید عقلیات (Science) پر اپنے عقیدوں کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں مثلاً تقدیر،عذاب،وحی،بعث بعد الموت،وجودِ جنّ و مَلَک،یوم الآخر وغیرہا کو برحق مانتے ہیں، جبکہ یورپ میں دیکھیں تو حالت بالکل اس کے اُلَٹ ہے۔
اگرچہ ایک تحریک کی صورت میں یہ سترہویں صدی عیسوی میں وجود میں آئی، لیکن اس فکر (فلسفیانہ سوچ) کے قائل ہر دور میں کہیں نہ کہیں پیدا ہوتے رہے ہیں۔ اسلام کی رو سے یہ فکر بالکل باطل ہے، کیوں کہ اس کے مطابق "ایک انسان کا حق ہے کہ وہ کسی بھی ہستی (خواہ کوئی نبی یا دیگر برگزیدہ شخصیات) کے قول کا اقرار نہ کرے (اسے اپنا عقیدہ نہ بنائے) جب تک اس قول کو اپنی عقل سے پرکھ کر نہ دیکھ لے؛ پس اگر وہ بات انسان کی عقل کے موافق نہ ہو، تو وہ قول محض ایک جھوٹ ہے"۔
جیسے دسویں صدی عیسوی کا عقلیت پسند فلسفی ابو العلاء المعری، اپنے ایک مشہور عربی شعر میں نبی ﷺ کے امام مہدی علیہ السلام کی آمد کے متعلق تمام فرامین کو فقط اس لیے غلط قرار دیتا ہے کہ یہ امر (آمدِ امام آخر الزماں) اس کی انسانی عقل سے غیر موافق ہے۔ اس کے شعر ترجمہ یوں ہے کہ: "لوگ (مسلمان) امامِ موعود (امام مہدی علیہ السلام) کا انتظار کر رہے ہیں جو ان کے لشکر کی قیادت کرے گا۔ یہ ان کی غلط فہمی ہے۔ عقل کے سوا کوئی امام نہیں جو ہر لمحہ انسان کو صحیح مشورہ دیکر راہ دکھا سکے"۔ (نعوذ بااللہ)
یہی وجہ ہے کہ بر صغیر کے نام نہاد عقلیت پسند مسلم اسکالرز جیسے سر سید احمد خان، غلام احمد پرویز، جاوید احمد غامدی وغیر ہمیشہ سے ہی حضور ﷺ کی تمام احادیث کی تکذیب کرتے آئے ہیں کیونکہ ان میں سے کئی احادیث انسانی عقل سے بالاتر ہیں (امت کو ان کے متعلق محض عقیدہ رکھنے کا حکم ہے نہ کہ انھیں عقل سے ثابت کرنے کا)۔ اور ان نام نہاد اسکالرز کا کہنا ہے کہ اسلام کو سمجھنے کے لیے فقط قرآن ہی کافی ہے، جس کے امور کو بھی وہ اپنی مرضی کی تاویلات سے اپنی عقل کے موافق بنا کر اس کی تشریح کرتے ہیں۔ چنانچہ سر سید احمد خان لکھتے ہیں:
’’ان غلط قصوں میں سے جو مسلمانوں کے ہاں مشہور ہیں ایک قصہ امام مہدی آخر الزماں کے پیدا ہونے کا بھی ہے۔ اس قصے کی بہت سی حدیثیں کتب احادیث میں بھی مذکور ہیں مگر کچھ شبہ نہیں کہ سب جھوٹی اور مصنوعی ہیں… اور ان سے (احادیث سے) کسی ایسے مہدی کی جو مسلمانوں نے تصور کر رکھا ہے اور جس کا قیامت کے قریب ہونا خیال کیا ہے بشارت مقصود نہیں‘‘۔ [1]
’’جبریل نام کا کوئی فرشتہ نہیں, نہ وہ وحی لے کر آتا تھا۔ بلکہ یہ ایک قوت کا نام ہے جو نبی میں ہوتی ہے‘‘۔ [2]
’’جن فرشتوں کا ذکر قرآن میں آیا ہے ان کا کوئی اصلی وجود نہیں ہو سکتا۔ بلکہ خدا کی بے انتہا قوتوں کے ظہور کو اور ان قوتوں کو جو خدا نے اپنی تمام مخلوق میں مختلف قسم کے پیدا کیے ہیں ملک یا ملائکہ کہتے ہیں‘‘۔ [3]
سر سید احمد خان نے یونہی میزان، پل صراط، اعمال نامے اور شفاعت کا بھی انکار کیا ہے۔ [4] کیونکہ یہ تمام امور انسانی عقل یا جدید سائنس سے ثابت نہیں ہوتے۔
مغرب کی برعکس، مسلمانوں میں عہد عقلیت (Enlightenment) کے حامیوں کے ان باطل نظریات کو کوئی حیثیت حاصل نہیں، کیونکہ آج بھی اکثر مسلمان حضور ﷺ کے تمام متفقہ فرامین کو بر حق مانتے ہیں چاہے عقلیات و جدید سائنس انھیں ثابت کر سکے یا نہ کر سکے۔ کسی بھی بات کا قرآن و حدیث میں ہونا ہی ان کے نزدیک اس بات کی سب سے بڑی دلیل ہے۔
کچھ مفکرین کہنا ہے کہ غیر مقلدیت یا سلفیت کی تاریخی جڑیں بھی نظریہِ عقلیت پسندی سے جا ملتی ہیں۔ کیونکہ غیر مقلدین کا فلسفہ بھی اسی طرح ہے کہ ائمہ و مجتہدین کی آنکھیں بند کرکے تقلید کرنا غلط ہے، جب تک ہم خود ایک امر کی تحقیق نہ کر لیں۔ پھر اگر ہماری تحقیق ان کے کسی قول، فعل یا عقیدے کے موافق نہ ہوئی تو ہمیں ان سب کی تکذیب کر کے اپنی بات پر عمل کرنا ہے۔