یرغمالیٔ مسجد حرام

خانہ کعبہ پر حملہ

یرغمالیٔ مسجد الحرام کا واقعہ نومبر اور دسمبر 1979ء میں پیش آیا۔جب باغیوں نے مسجد الحرام سے آل سعود کی حکومت ختم کرنے کے لیے مقدس ترین مسجد پر حملہ کیا۔ حج کے دوراں حملہ آوروں نے اپنے ایک ساتھی محمد عبد اللہ القحطانی کو امام مہدی قرار دیا اور کہا کہ تمام مسلمان اس شخص کی پیروی کریں۔ آغاز 20 نومبر کو ہوا تھا جب 400 سے 500 شدت پسندوں نے یکم محرم 1400 ہجری کو نئے اسلامی سال کے آغاز پر خانہ کعبہ پر حملہ کر کے ایک لاکھ عبادت گزاروں کو مسجد میں محصور کر کے خود انتظام سنبھال لیا تھا۔ [7] یہ کارروائی دو ہفتوں تک جاری رہی بالآخر دہشت گردوں کی بڑی تعداد کو ہلاک کر دیا گیا اور پھر جہیمان العتیبی اور 60 ساتھیوں کو پھانسی دی گئی۔ اس واقعے کے بعد سعودی حکومت نے سخت اسلامی قوانین نافذ کیے۔

مسجد الحرام یرغمال

سعودی سپاہی مسجد حرام کو چھڑانے کے لیے کوشاں، 1979
تاریخ20 نومبر– 4 دسمبر1979
مقاممکہ، سعودی عرب
نتیجہ

سعودی عرب کی فتح

  • سعودی عرب نے واپس مسجد الحرام کو سنبھالا
  • جہیمان العتیبی اور ساتھیوں کو پھانسی دی گئی
  • سعودی عرب میں وہابی اسلامی قوانین کا نفاذ مزید سخت کیا گیا
مُحارِب

سعودی عرب کا پرچم سعودی عرب

امداد:[1]

الاخوان[3]
کمان دار اور رہنما
سعودی عرب کا پرچم خالد بن عبدالعزیز
سعودی عرب کا پرچم شاہ فہد
سعودی عرب کا پرچم شہزادہ سلطان
سعودی عرب کا پرچم شاہ عبداللہ
سعودی عرب کا پرچم شہزادہ نایف
سعودی عرب کا پرچم شہزادہ بدر
سعودی عرب کا پرچم ترکی بن فیصل
سعودی عرب کا پرچم جنرل فالح الظاہری
سعودی عرب کا پرچم جنرل قضیبی  (زخمی)
سعودی عرب کا پرچم میجر محمد زویدالنفائی
جہیمان العتیبی
عبد اللہ القحطانی 
محمد فیصل Surrendered
محمد الیاس Surrendered
طاقت
  • ~10,000 سعودی قومی گارڈ

پس منظر

ترمیم

اس دہشت گرد گروہ کی قیادت جہیمان العتیبی کر رہا تھا، جہیمان نجد کے ایک بڑے خاندان سے تعلق رکھتا تھا، اس نے اپنے رشتہ دار کو امام مہدی قرار دیا۔ جہیمان اس سے پہلے سعودی قومی گارڈ کا بھی حصہ رہا تھا، اس کا والد بھی آل سعود کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا تھا۔ اس شخص نے 1400 ہجری، محرم کے مہینے میں حملہ کیا۔ جہیمان ایک وقت میں سعودی مفتی اعظم کا شاگرد بھی رہا۔

حملے کے پیچھے مقاصد

ترمیم

ان خوارج کے حملے کا مقصد یہ تھا کہ مسجد الحرام پر قبضہ کرکے نقلی امام مہدی کا اعلان کیا جائے تاکہ دنیا بھر سے مسلمان اس کی بیعت کے لیے آئیں اور سعودی عرب پر پریشر ڈالیں کہ "امام مہدی" کو کچھ نا کہا جائے. اس سے یہ ہوتا کہ سعودی عرب کا ذریعہ معاش اور دیگر ملکوں کا اس کی سیکیورٹی سے اعتبار اٹھ جاتا، اگر یہ قبضہ کچھ اور عرصہ رہتا تو دوسرے ممالک لالچ میں مسجد الحرام کو آزاد کرانے بھیجتے لیکن ان کے اور سعودی عرب کے مابین بھی جنگ شروع ہوجاتی. یہ ایک پری-پلینڈ سازش تھی تاکہ مسلمانوں کو اور کمزور کیا جاسکے. خلافت ٹوٹنے کے بعد مسلمان دوبارہ کسی جنگ لڑنے کے قابل نہیں تھے لیکن اللہ نے ان تمام کے منصوبے ضائع کردئے اور علما کرام نے فوری طور پر ہوشیاری سے کام کرتے ہوئے ان خوارج کے خلاف فتوی دیا اور پاکستان نے اپنی بہادر اور بہترین مہارت والی فوج بھیج کر دوسروں کو بولنے کا موقع نہ دیا۔ یہ اللہ کا خاص کرم تھا کہ نہ دوسرے ملکوں سے خروج ہوا نہ مسلمان ملکوں کی آپس میں لڑائی ہوئی.

حملے کی تیاری

ترمیم

حملہ کرنے سے پہلے تمام باغیوں کو بڑی اچھی طرح تیار کیا گیا تھا اور چونکہ باغیوں کا قائد جہیمان پہلے سعودی فوج میں بھی رہا تھا تو اس کو اکثر جگہوں کا پتہ تھا، اسلحہ بھی سعودی افواج کے گوداموں سے چرایا گیا اور مسجد الحرام کے نیچے کمروں میں رکھا گیا ۔ پھر جب فریقین میں جنگ چھڑی تو اسلحہ کو استعمال کیا گیا۔

یرغمال

ترمیم

دو ہفتوں پر محیط محاصرے کی وجہ سے ہزاروں افراد ہلاک اور تقریباً ایک لاکھ لوگ مسجد الحرام میں محصور ہو گئے تھے۔

بعد کے حالات

ترمیم
 
جہیمان اور اس کے ساتھیوں کو گرفتار کرنے کے بعد کا ایک تصویر

مسجد الحرام میں باغیوں کو دفع کرنے میں سعودی افواج کو فرانسیسی آرمی کا تعاون حاصل رہا اور بعض لوگوں کے مطابق فرانسیسی آرمی کو کلمہ پڑھا کر اس آپریشن میں شامل کیا گیا فرانسیسی آرمی نے فوری ہنگامی بنیادوں پر کارروائی کا منصوبہ بنا کر سعودی آرمی کو ٹریننگ دی . اور سعودی فوج کو حملے کے لیے کمانڈ کیا . 2016 کے دوران اس قسم کی اطلاعات گردش میں آ گئیں کہ پاکستانی کمانڈوز نے آپریشن میں حصہ لیا تھا۔ جب جنرل مشرف اقتدار میں آئے تو یہ بھی کہا جانے لگا کہ ان کمانڈوز میں وہ بھی شامل تھے۔

2016 میں ایک نجی چینل کے اینکر جاوید چودھری کے پروگرام میں پاکستانی سیاست دان احمد رضا قصوری نے بھی اسی قسم کا دعویٰ کیا کہ ’میجر پرویز مشرف نے کعبہ سے دہشت گردوں کو فلش آؤٹ کیا۔‘ لیکن اس دعوے کی تردید میں دیر نہیں لگی۔ چند منٹوں کے اندر اندر اسی پروگرام کے دوران بریگیڈیئر جاوید حسین نے فون کر کے کہا کہ یہ بات بالکل غلط ہے اور پاکستانی کمانڈوز اس کارروائی میں شامل نہیں تھے ۔ [8] جبکہ کچھ لوگوں کا یہ کہنا کہ اس آپریشن کی کمانڈ جنرل پرویز مشرف جو اس وقت میجر پرویز مشرف تھے سراسر غلط ہے، کیونکہ جنرل پرویز مشرف اپنی کتاب میں تحریر کرتے ہیں کہ 1978 میں یہ ترقی پا کر لیفٹیننٹ کرنل کے عہدے پر فائز ہو چکے تھے اور کعبہ پر حملہ 1979 میں ہوا تو یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک ہی سال میں مشرف تنزلی کرکے دوبارہ میجر بن گئے اور پرویز مشرف کی اس تنزلی کا نہ کوئی دستاویزی ثبوت موجود ہے اور نہ اس آپریشن کی کمانڈ کرنے کا۔ پاکستان کی طرف سے اس آپریشن کو میجر سید وقار کمانڈ کر رہے تھے۔ اس دو ہفتے مسلسل جاری رہنے والے محاصرے کے بعد بالآخر مسجد الحرام کو باغیوں سے چھڑا لیا گیا۔ جہیمان العتیبی اور اس کے ساتھیوں کو چھ جرموں کے ارتکاب پر سعودی قاضیوں نے سزائے موت دی۔ وہ جرائم یہ ہیں:

  • مسجد الحرام کا تقدس پامال کرنا
  • ناحق مسلمانوں کا قتل
  • حاکمِ وقت کی نافرمانی
  • مسجد الحرام میں نماز کے ادائیگی کو روکا
  • امام مہدی کا جھوٹا دعوی
  • معصوم مسلمانوں کو اپنے مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کرنا

حوالہ جات

ترمیم
  1. "Attack on Kaba Complete Video"۔ YouTube۔ 23 July 2011۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 08 جون 2013 
  2. Olivier Da Lage (2006)۔ Géopolitique de l'Arabie Saoudite (بزبان الفرنسية)۔ Complexe۔ صفحہ: 34۔ ISBN 2804801217 
  3. Lacey 2009, p. 13.
  4. "THE SIEGE AT MECCA"۔ 2006۔ 06 جولا‎ئی 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 2015 
  5. "Pierre Tristam, "1979 Seizure of the Grand Mosque in Mecca", About.com"۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 نومبر 2011 
  6. Riyadh (10 January 1980)۔ "63 Zealots beheaded for seizing Mosque"۔ Pittsburgh Post-Gazette۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 نومبر 2010 
  7. خانہ کعبہ کا محاصرہ, 42 سال پہلے کیا ہوا تھا؟
  8. کیا پرویز مشرف نے خانۂ کعبہ کو آزاد کروایا تھا؟, غلط خبر کی تردید