یوناہ
یوناہ یا یونس[ا] عبرانی بائبل (تنک/پرانے عہد نامے) میں مذکور تقریباً آٹھویں صدی قبل مسیح دور کی شمالی سلطنت اسرائیل کے نبی کا نام ہے۔ یوناہ کی کتاب ان کے نام سے منسوب ہے اور وہ اس کی مرکزی شخصیت ہیں۔ اس کتاب میں خدا نے یوناہ کو حکم دیا کہ وہ نینوا جائیں اور وہاں کے باسیوں کو ان کے گناہوں سے توبہ کرنے کا کہے اور عذاب الٰہی نازل ہونے کی تنبیہ کرے۔ اس کی بجائے، یوناہ کشتی میں سوار ہو کر ترسیس روانہ ہو گئے۔ راستے میں وہ سمندری طوفان میں پھنس گئے، انھوں نے کشتی کے ملاحوں کو حکم دیا کہ وہ انھیں سمندر میں پھینک دیں، تب ایک بڑی مچھلی نے یوناہ کو نگل لیا۔ یوناہ کے نینوا جانے کے لیے تیار ہو جانے کے بعد، مچھلی نے یوناہ کو خشکی پر اُگل دیا۔ یوناہ تین دن اور تین راتیں مچھلی کے پیٹ میں رہے۔ یوناہ نینوا کے پورے شہر کو توبہ کروانے میں کامیاب رہے، لیکن شہر کی ممکنہ تباہی کا انھوں نے اس کے باہر ہی انتظار کیا۔ خدا نے یوناہ کو سورج سے محفوظ رکھنے کے لیے کدو کی بیل اگا دی، لیکن بعد میں ایک کیڑا بھیجا جس نے بیل کو کاٹا اور وہ جلد ہی مرجھا گئی۔ جب یوناہ نے سورج کی گرمی کی شکایت کی تو خدا نے ان کی سرزنش کی۔
یوناہ/یونس | |
---|---|
نبی یوناہ نے اہل نینوا کو خدا کا پیغام سنایا اور سامعین نے توبہ کی۔ | |
نبی | |
پیدائش | نویں صدی قبل مسیح |
وفات | آٹھویں صدی قبل مسیح[1] |
مزار | مقبرہ یونس (انہدام شدہ)، موصل، عراق |
تہوار | 21 ستمبر (کاتھولک کلیسیا)[2] |
یہودیت میں یوناہ کی کہانی سے تشوبہ (תשובה، «خدا کی طرف رجوع کرنا اور اس سے معافی مانگنے یعنی توبہ») کا درس لیا جاتا ہے۔ نئے عہد نامے میں یسوع نے خود کو ”یوناہ سے زیادہ“ مقدم کہا اور فریسیوں سے ”یوناہ والی نشانی“ کا وعدہ کیا، جو ان کی قیامت تھی۔ مسیحیت کے ابتدائی مفسرین یوناہ کو ایک مثیل مسیح مانتے آئے ہیں۔ لیکن بعد میں، اصلاح کلیسیا کے ایام میں ان کو ایک 'نمونہ اول' کے طور پر دیکھا گیا۔ یوناہ کو اسلام میں ایک نبی قرار دیا جاتا ہے اور یوناہ کا ذکر قرآن میں ہوا۔ یوناہ کی قرآن کی کہانی اور بائبل کی کہانی میں کچھ جگہ فرق ہے۔ بائبل کے زیادہ تر تنقیدی اسکالر یوناہ کی کتاب کو فکشنل اور بسا اوقات کم از کم جزوی طور پر طنزیہ قرار دیتے ہیں، اسکالر مزید کہتے ہیں کہ یوناہ کا کردار شاید 2 سلاطین 14: 15 میں مذکور نام کے نبی پر مبنی ہے۔
اگرچہ لفظ ”بڑی مچھلی“ یوناہ کی کتاب کے اردو تراجم میں ملتا ہے لیکن اصل عبرانی لفظ «دگ گدول» (דָּ֣ג גָּדֹ֔ול بہ معنی دیوہیکل مچھلی) ہے۔ انیسویں اور ابتدائی بیسویں صدی میں جس نسل کی مچھلی نے یوناہ کو نگلا وہ فطرت پسندوں کے لیے موضوع بحث رہا۔ فطرت پسندوں کا کہنا ہے کہ یوناہ کی کہانی ایک تاریخی واقعہ تھا۔ لوک ادب کے کچھ اسکالروں کے نزدیک یوناہ اور کچھ افسانوی شخصیات مثلاً گلگامش اور یونانی ہیرو جاسن کے درمیان مماثلتیں پائی جاتی ہیں۔
یوناہ کی کتاب
یوناہ، یوناہ کی کتاب کے مرکزی کردار ہیں۔ اس کتاب میں کہ خدا نے یوناہ کو حکم دیا کہ وہ اٹھ کر بڑے شہر نینوا کو جائیں اور اس کے خلاف منادی کریں کیونکہ ”ان کی شرارت خداوند کے حضور پہنچی ہے“، [3] لیکن یوناہ ”خدا کے حضور سے“ فرار ہونے کے لیے نینوا سے یافا آ گئے اور وہاں پہنچ کر وہ ایک سمندری جہاز میں سوار ہو کر ترسیس کو روانہ ہوئے۔[4] راستے میں سمُندر میں سخت طُوفان برپا ہوا اور اہلِ جہاز کو احساس ہو گیا تھا کہ یہ کوئی معمولی طوفان نہیں ہے، قرعہ ڈالا گیا اور معلوم ہوا کہ آفت کے ذمہ دار یوناہ ہیں۔[5] یوناہ نے اسے تسلیم کیا اور کہا کہ انھیں اُٹھا کر سمندر میں پھینک دیں تو وہ تہم جائے گا۔[6] ملاحوں نے ان کا مشورہ نہ مانا بلکہ چپو مار مار کر ساحل پر پہنچنے کی سرتوڑ کوشش کرتے رہے، لیکن ان کی تمام کوششیں ناکامیاب رہیں اور آخرکار وہ یوناہ کو سمندر میں پھینکنے پر مجبور ہو گئے۔[7] پانی میں پھینکتے ہی سمندر ٹھاٹھیں مارنے سے باز آ کر تہم گیا اور پھر ملاحوں نے خدا کو ذبح کی قربانی پیش کی اور مَنتیں مانیں۔[8] یوناہ کو معجزانہ طور ایک بڑی مچھلی نے نگل کر ڈوبنے سے بچا لیا اور وہ تین دن اور تین رات اسی مچھلی کے پیٹ میں رہے۔[9] جب یوناہ مچھلی میں تھے تو انھوں نے اپنی مصیبت میں خدا سے دُعا کی اور شکر گزاری کی اور دعا کی کہ جو مَنت انھوں نے مانی اُسے پورا کریں گے۔[10] تب خدا نے مچھلی کو حکم دیا کہ وہ یوناہ کو خشکی پر اُگل دے۔[11]
خدا نے ایک بار پھر یوناہ کو حکم دیا کہ نینوا جاکر وہاں کے باشندوں کو خدا کا پیغام سنائیں۔[12] اِس مرتبہ یوناہ نینوا کے لیے روانہ ہوئے اور پہلے روز شہر میں اندر داخل ہو کر خدا کا پیغام سنانے لگے کہ ”عین 40 دن کے بعد نینوہ تباہ ہو جائے گا“[13] جب یوناہ نینوا سے باہر چلے گئے تو نینوا کے باشندے اس کے الفاظ پر ایمان لائے اور انھوں نے روزے کا اعلان کیا۔[14] نینوا کے بادشاہ نے تخت پر سے اُتر کر اپنے شاہی کپڑوں کو اُتار دیا اور ٹاٹ اوڑھ کر خاک میں بیٹھ گیا اور روزہ رکھنے، ٹاٹ اوڑھنے، عبادت کرنے اور توبہ کرنے کا اعلان کیا۔[15] سارے شہر کے لوگوں (اور یہاں تک کہ جانوروں) نے عاجزی اختیار کی اور خدا سے التجا کی۔[16][17] سب نے ٹاٹ اوڑھی اور راکھ میں بیٹھے۔[18] جب خدا نے اُن کا یہ رویہ دیکھا کہ وہ واقعی میں اپنی بُری راہوں سے باز آ گئے ہیں تو خدا نے عذاب نازل نہ کیا۔[19]
اس بات سے خفا ہو کر یونس نے ترسیس کی طرف اپنے فرار کا اشارہ کیا اور دھڑلے سے کہا کہ چونکہ خدا بہت مہربان ہے، سو وہ یقیناً متوقع عذاب کا رخ موڑ دیتا۔[20] پھر یوناہ شہر سے نکل کر اُس کے مشرق میں رُک گئے اور وہاں وہ اپنے لیے جھونپڑی بنا کر اُس کے سائے میں بیٹھ گئے۔ کیونکہ وہ دیکھنا چاہتے تھے کہ آیا شہر تباہ ہوگا یا نہیں۔[21] خدا نے ایک کدو کی بیل (عبرانی میں קיקיון، قیقیون) کو پھوٹنے دیا جو بڑھتے بڑھتے یوناہ کی جھونپڑی کے اوپر پھیل گئی تاکہ سورج کی دھوپ سے انھیں سایہ ملے۔[22] بعد میں خدا نے ایک کیڑا بھیجا جس نے بیل کی جڑوں کو کاٹ ڈالا اور بیل جلد ہی مُرجھا گئی۔[23] اب گرمی نے یوناہ کے سر پر اثر کیا اور دھوپ اتنی شدید تھی کہ وہ غش کھانے لگے اور آخرکار وہ چاہتے تھے کہ خدا ان کو موت دے دے۔[24]
تب خدا نے اُن سے پوچھا، ”کیا تُو بیل کے سبب سے غصے ہونے میں حق بجانب ہے؟“ یوناہ نے جواب دیا، ”جی ہاں، مَیں مرنے تک غصے ہوں، اور اِس میں مَیں حق بجانب بھی ہوں۔“
خدا نے جواب دیا، ”تُو اِس بیل پر غم کھاتا ہے، حالانکہ تُو نے اُس کے پھلنے پھولنے کے لیے ایک اُنگلی بھی نہیں ہلائی۔ یہ بیل ایک رات میں پیدا ہوئی اور اگلی رات ختم ہوئی
جبکہ نینوا بہت بڑا شہر ہے، اُس میں ایک لاکھ بِیس ہزار افراد اور متعدد جانور بستے ہیں۔ اور یہ لوگ اِتنے جاہل ہیں کہ اپنے دائیں اور بائیں ہاتھ میں امتیاز نہیں کر پاتے۔ کیا مجھے اِس بڑے شہر پر غم نہیں کھانا چاہیے؟“—
حواشی
حوالہ جات
- ↑ Levine 2000، صفحہ 71
- ↑ (لاطینی میں) Martyrologium Romanum۔ Typis Polyglottis Vaticanis۔ 1956۔ ص 371
- ↑ یوناہ 1: 2
- ↑ یوناہ 1: 3
- ↑ یوناہ 1: 4-7
- ↑ یوناہ 1: 8- 12
- ↑ یوناہ 1: 13-15
- ↑ یوناہ 1: 15-16
- ↑ یوناہ 1: 17
- ↑ یوناہ 2: 1-9
- ↑ یوناہ 2: 10
- ↑ یوناہ 3: 1-2
- ↑ یوناہ 3: 2-4
- ↑ یوناہ 3: 5
- ↑ یوناہ 3: 6-9
- ↑ یوناہ 3: 8
- ↑ Gaines 2003، صفحہ 25
- ↑ یوناہ باب 3
- ↑ یوناہ 3: 10
- ↑ یوناہ 4: 1-4
- ↑ یوناہ 4: 5
- ↑ یوناہ 4: 6
- ↑ یوناہ 4: 7
- ↑ یوناہ 4: 8